تنقیدی تحریریں ، از احمد سہیل : تنقیدی دست و گریباں
تبصرہِ کتاب: نعیم بیگ
تنقیدی تحریریں ، از احمد سہیل (ڈاکٹر احمد سہیل ) ٹیکساس امریکا
پبلشرز: قلم پبلشرز ۔ ممبئی ۔ انڈیا ، سن اشاعت : جنوری ۲۰۰۴ء
ڈاکٹر احمد سہیل اردو ادب کی تنقید میں معدودے چند نقادوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے امریکا میں بیٹھ کر اردو ادب کی خدمت اور ترقی و ترویج میں حصہ لیا۔ ان کے ابتدائی برس یہیں کراچی میں صرف ہوئے، لیکن اپنے کام کا زیادہ حصہ انھوں نے امریکا میں بیٹھ کر مکمل کیا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے تنقیدی مضامین سے جہاں اردو ادب میں نئی جہات کی تلاش میں مغرب کی تھیوریز کو اردوایا، بلکہ اپنی جدید شاعری (جس میں نثری اور آزاد نظموں کا زیادہ حصہ ہے) میں نئے تجربات کیے۔ وہ بیک وقت اپنی شاعری کے ساتھ دنیا بھر کے ادب، نیگرو اور لاطینی شاعری کو اردو میں منتقل کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا اہم کام ان کے وہ تنقیدی مضامین ہیں ، جن پر عصری عہد میں مغرب میں کام ہوا اور انہی ادبی نظریات و تحریکات کو انھوں نے اردو میں رقم کیا اور اپنے عہد کے الگ اور منفرد تنقید نگار کا درجہ حاصل کیا۔
احمد سہیل ادبی عمرانی نظریات، ساختیات، جدیدیت اور مابعد جددیت، پس نو آبادیاتی نظریات، ابونک نظریہ، اردو کا قبل از متن نظریہ و دیگر مغربی تھیوریز کو اپنے اردو مضامین اور کتب کے ذریعے قارئین تک پہنچا چکے ہیں اور مسلسل اس پر کام کر تے رہتے ہیں ۔ ان کے مضامین میں عصری نظریات کا تاریک اور روشن پہلو تنقید کی صورت نمایاں رہتا ہے ۔ وہ ایک بے باک تنقید نگار کی حیثیت سے بے لاگ تبصرے کرتے ہیں اور قارئین کو عالمی اور اردو ادب میں ہونے والے نئے تجربات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
ان کی کئی ایک تصانیف جس میں نمایاں ’’جدید تھیٹر‘‘، ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ و دیگر کئی ایک کتب یہاں پاکستان اور ہندوستان سے اردو میں شائع ہو چکی ہیں ۔ زیر نظر تصنیف بھی ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے منطقی اشاریت و جدید شعری ابہام ، اردو کی کلاسیکی شاعری میں مغائرت، چھٹی دھائی کے بعد اردو غزل، اردو افسانے کا ناسٹیلجیا، اردو افسانے کی مناجیاتی ساخت اور مقولے کا مسٗلہ، امداد امام اثر کا تنقیدی نظریہ، بجنوری محاسنِ کلام غالب اور اس کے نقاد، خارجی اور باطنی آگہی سے دوچار شاعر، ن، م، راشد، میرا جی اور ترجمے کی تجرید جیسے نظریات اور نقد ونظر پر فکر انگیز گفتگو کی ہے۔
ادبی جریدوں کا مطالعہ کرنے والے، سائبر سپیس اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے قارئین اور بیشتر ادیب و شاعرو تنقید نگار انھیں اس بات پر بہت بخوبی جانتے ہیں، کہ وہ اکثر اپنی بات کہنے کے لیے اصول ریاضی کے مروج طریق کار کو استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ گراف بنا کر قارئین تک اپنی بات پہنچا دیتے ہیں۔
اس کتاب کے ابتدائیہ ’’آپس کی بات‘‘ میں احمد سہیل لکھتے ہیں:
میرے یہ تمام مضامین ۱۹۸۳.ء سے ۱۹۹۳.ء کے درمیان لکھے گئے۔ ان دنوں میں امریکہ کی نیگرو شاعری، لاطینی امریکا کی نظموں کے تراجم کے علاوہ ادب کے جدید تنقیدی نظریات و رحجانات کے مطالعے میں مصروف تھا۔ اس دوران میرا تخلیقی عمل ٹھہر سا گیا تھا۔ چند غزلوں اور نظموں کو ہی لکھ سکا۔ میں نے ان مضامین میں کوشش کی ہے کہ میرا ذہن و متن معروضی رہے اور خیال رکھا گیا کہ تنقید سے زیادہ موضوع کی تفہیم بہتر طور پر ہو، اور قاری قرات کے دوران موضوعات کے پرانے معنوں میں نئے تصورات کو دریافت کر سکے۔ ساتھ ہی ان مضامین میں متن کی مناجیاتی رسائی مختلف ہو تاکہ تحریروں کا مزاج خالصتاً معروضی ہو جائے۔
ڈاکٹر صاحب کی تنقیدی سوچ اور مذکورہ کتاب کا معلوماتی احاطہ۔۔۔۔مبارک باد۔۔۔مسرت