کیا ہم کارندے ، شہری بننے کو آمادہ ہیں؟

کارندے

کیا ہم کارندے ، شہری بننے کو آمادہ ہیں؟

از، نصیر احمد

آج صبح پھر ملک صاحب نے اسے چائے پر بلوا کر ایک خواہش کا اظہارکیا تھا۔ اور ملک صاحب کی خواہش اس کے لیے حکم کا درجہ رکھتی تھی،جب سے اس نے ملک صاحب کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ اب تو اسے یاد بھی نہیں تھا کہ وہ ملک صاحب کے لیے کتنے عرصے سے کام کر رہا تھا۔ لیکن برس گزرتے گئے، ملک صاحب ایک معمولی ٹھیکے دار سے ایک بہت بڑے کاروباری لیڈر بن گئے اور وہ ایک معمولی کارندے سے ملک صاحب کا چہیتا بن گیا۔ اب اس کے پاس بھی بہت دولت تھی، معاشرے میں عزت بھی تھی اور اس کو ہر کوئی جانتا تھا لیکن اس عرصے میں اس کا کام نہیں بدلا تھا۔ اور کام کیا تھا ملک صاحب کے راستوں کی رکاوٹیں ہٹانا۔ پہلے پہل اس کام کو غنڈہ گردی کہتے تھے، آج کل ٹربل شوٹنگ کہتے ہیں۔

اخلاقیات کے معیار گرنے سے صداقت کا رشتہ کمزور تو ہو ہی جاتا ہے۔ وہ ایک اچھے گھر کا ایک پڑھا لکھا آدمی تھا اور صداقت کو کمزور کرنے کا ہنر اس نے اپنے سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں سے سیکھا تھا لیکن پڑھائی کا کچھ نقصان ہو گیا تھا، وہ اپنے اعمال کی صداقت سے بے خبر نہیں ہو سکا۔ شاید اس میں تعلیم کا کچھ دخل نہیں تھا، شاید یہ اس کے خاندان والوں کی اچھائی کا نتیجہ ہی تھا کہ وہ دل سے اپنے کام کی وجہ سے اپنی ذات سے شرمندہ رہا۔ لیکن شرمندگی کے باوجود اس نے ملک صاحب کی ہر خواہش کا احترام کیا۔

اب تو وہ ملک صاحب کے مزاج میں دخیل تھا اور ملک صاحب کے فیصلوں میں اس کی رائے شامل ہوتی تھی۔ اور اس کی نظر میں یہ بڑا درجہ تھا، وہ اپنے گھر والوں کے نقش قدم پر چلا ہوتا، دھکے کھا رہا ہوتا اور ہر وقت بزدلی کے لیے اچھے نام سوچتا رہتا۔ لیکن صداقت نے اسے پھر یاد دلایا کہ ان کی اچھائی بزدلی نہیں تھی بلکہ بڑے حوصلے کی بات تھی۔ ورنہ کسے دھکے کھانا اچھا لگتا ہے اور دھکوں سے نجات کا ایک فارمولا تو بن ہی گیا ہے کہ کسی ملک صاحب سے وابستہ ہو جاؤ، سب معاملات آسان ہو جاتے ہیں۔

جب بھی ملک صاحب کسی خواہش کا اظہار کرتے، اسے اس ذہنی کش مکش سے گزرنا پڑتا۔ اور ہر بار ملک صاحب کی خواہش جیت جاتی۔ اور ملک صاحب کی خواہش کی جیت کی وجہ اس کی حقیقت پسندی تھی کہ اس کی نظر میں ملک صاحب کی خواہش کی تکمیل کے سوا کوئی رستہ نہیں تھا اور اگر کوئی رستہ تھا، اس پر چلنے کی اس میں ہمت نہیں تھی، اس کے ارد گرد کسی میں نہیں تھی اور جس کسی میں یہ ہمت نمودار ہوتی، ملک صاحب اسے رستے سے ہٹا دیتے۔

ملک صاحب کے پاس بہت گُر تھے، اور وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنا طریقہ کار ترتیب دیتے اور ان کے منصوبے میں کبھی کوئی خامی نہیں ہوتی تھی۔ اور کبھی کوئی خامی رہ جاتی تو شہر میں ہر جگہ ان کے کارندے موجود رہتے تھے، جو خامی کو دور کر لیتے۔

لیکن پھر بھی چند لوگ موجود تھے جن کو ملک صاحب کی سمجھ تھی۔ ان میں ایک وہ بھی تھا پر اس سے ملک صاحب کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں ملک صاحب کی کامیابی کی وجہ یہی تھی کہ اس نے ملک صاحب میں اس کشمکش کے آثار نہیں دیکھے تھے، جس سے وہ گزر رہا تھا۔ اور اس کشمکش کا ذمہ دار وہ اپنے گھر والوں جن سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا، کو ٹھہراتا تھا۔ لیکن وہ سب موجود تھے، اس کی بیوی کی شکل میں۔

ایسے لگتا تھا کہ وہ سچی بات کہنے کا حلف اٹھا کر دنیا میں آئی ہے۔ اور سچی باتیں اسے کب اچھی لگتی تھیں۔ ملک صاحب کی چار بیویاں تھیں، کسی نے کبھی بھی کوئی سچی بات ملک صاحب سے نہیں کی، پھر ملک صاحب ضمیر کی خلش یا ذہنی کش مکش سے کیسے دوچار ہوتے؟ کبھی کبھی وہ سوچتا، سچی بات سے محفوظ آدمی سے زیادہ خوش قسمت انسان کوئی نہیں۔ لیکن وہ اپنی بیوی کا منہ بند نہیں کر سکا کہ وہ غریبوں مسکینوں کے ساتھ کھڑے سارے پُرکھے قبروں سے اکھاڑ کر اس کے سامنے ان کی پریڈ کرانے لگتی۔

یہ پریڈ ضائع ہی جاتی کہ اس کا جوان ہوتا بیٹا اس کے ساتھ تھا، اسے یہ جان کر خوشی ہوتی کہ اس کا بیٹا ان پُرکھوں پر سنگ زنی کرتا رہتا اور اپنی ماں کی نقلیں اتارتا رہتا۔ لیکن کبھی کبھار اپنی ماں کی اس کی اچھائی کی وجہ سے توہین کرتا بیٹا اسے اچھا نہیں لگتا۔ لیکن وہ چند لمحے ہی ہوتے، چند لمحے جن سے فرار کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اور کرتا بھی رہتا تھا اور ملک صاحب کی حالیہ خواہش کچھ بھی کر جانے کے برسوں پر پھیلے ہوئے سلسلے کی کڑی تھی۔

آج اس نے نادیہ بیگم کا گھر جلانا تھا۔ نادیہ بیگم جس میں کسی گدھی برابر بھی عقل نہ تھی۔ نادیہ بیگم جس کے پاس شعور کی کمی تھی، نادیہ بیگم جو معاشرہ درست کرنا چاہتی تھی، نادیہ بیگم جو ملک صاحب سے خوفزدہ نہ تھی، نادیہ بیگم جس کی لوگ ابھی تک بات سنتے تھے اور نادیہ بیگم جس نے ملک صاحب کے زوال کی امیدیں لگا رکھی تھیں۔ اور ان امیدوں کی بازگشت سنی جا سکتی تھی۔ اور نادیہ بیگم نے جب اس کی طرف دیکھا، نادیہ بیگم کی آنکھوں میں حقارت امڈ آتی۔ اس کے لیے یہ حقارت اس کی بیوی کی آنکھوں میں تھی۔ اور وہ اسے بھی گالیاں دیا کرتا، مارتا بھی تھا لیکن وہ حقارت اس کی بیوی کی آنکھوں میں موجود رہی۔

آج اس نے اسی نادیہ بیگم کا گھر جلانا تھا۔ سب تیاری مکمل تھی۔ اور واقعے کے بعد کے اقدامات کا تعین بھی ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے بھی ملک صاحب نے نادیہ بیگم کے بارے میں کچھ اقدامات کیے تھے۔ شہر میں ان کی بدکرداری کے اشتہار بانٹے تھے۔ ان کے شوہر کی ایک حادثے میں جان بھی گئی تھی۔ ان کے ارد گرد جمع ہوتے لوگ بھی غائب ہوتے رہتے تھے۔ ان کی بیٹی بھی اغوا ہوئی تھی، اور آج ان کا گھر جلنا تھا اور نادیہ بیگم کی موت بھی لکھی جا چکی تھی۔ لیکن اس دوران کچھ الٹ ہو گیا۔

وہی چھوٹے چھوٹے واقعے جو بہت کچھ یاد دلا دیتے ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ تھا۔ کسی بہت ہی بے بس آدمی سے کچھ زیادتی ہو رہی تھی۔ سب کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اور تماشہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ اس کی بیوی نے اس کی طرف کچھ ایسے دیکھا جیسے کوئی التجا کر رہی ہو۔ اس نے اپنی بیوی کو گالیاں دیں، ایک آدھ طمانچہ بھی جڑ دیا لیکن وہ التجا غائب نہیں ہوئی بلکہ اس کی جگہ حقارت اس کی بیوی کی آنکھوں میں نمودار ہونے لگی، اسے اتنے سالوں میں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وہ اس حقارت سے کتنا خوف زدہ ہے، اس کے ہاتھ ٹھٹھرنے لگے، لیکن اس نے کچھ ہمت کی اور تماشہ بند کردیا۔ اور اس بے کس، بے کل، بے گت کی داد رسی کی۔

تماشے کے بعد  اس نے اپنی بیوی کی آنکھوں  میں زندگی میں پہلی دفعہ حقارت نہیں دیکھی۔ وہاں تو بس محبت، فخر، تشکر جیسی انگنت فردوسیں رواں تھیں۔ اس کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے خدا نے اسے معاف کر دیا ہو۔ ایک بار دل میں اس نے اپنی بیوی کو پھر گالی دی کہ اس کنجری نے مروا ہی دیا ہے۔

انسان جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں ان کے خدا نے معاف کر دیا ہے تو وہ کچھ بھی کر جاتے ہیں۔ اب وہ اچھائی کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھا، وہ کارندہ تھا اور اس نے جس سے بھی وابستہ ہو نا تھا، اس کے لیے کچھ بھی کر جانا تھا، بس اس دفعہ اس کی سمت درست تھی اور وہ کسی کش مکش کا شکار نہیں تھا۔ اس نے ایک دفعہ سوچا کاش وہ کارندے سے بڑھ کر کچھ ہوتا، فیصلوں میں شامل شہری، لیکن اسے علم تھا بہت دیر ہو گئی ہے۔ شہری اس کی سوچ کا حصہ بنا تو ملک بھی اسے بہت ہی گھٹیا آدمی لگا۔ اور اپنے آپ سے بھی بہت گِھن آئی۔ اب اس کے راستے بدل چکے تھے۔ گالیاں دینا اس کی عادت تھی اور اس نے بلند آواز سے کہا،     ‘ملک تیری ماں کی’ بالکل اسی طرح جس طرح کوڑے کھاتے کارکن ایک آمر کو گالیاں دیا کرتے تھے۔

اس نے نادیہ بیگم کا گھر نہیں جلایا بلکہ نادیہ بیگم کو خبردار کر دیا کہ وہ خطرے میں ہیں، ان سے معافی بھی مانگی۔

اس کے بعد وہ غائب ہو گیا اور چند دنوں کے بعد اس کی لاش مل گئی۔ لاش پر آہ و بکا کرتی اس کی بیوی نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھا تو بیٹے کی آنکھوں میں اپنے لیے حقارت کے دوزخ کے سوا کچھ نہ پایا۔ ایک اور ‘کارندہ’ وہ یہ سوچ کر کانپنے لگی۔

اس کی موت سے پہلے اور اس کی موت کے بعد بھی لوگوں نے قربانیاں دیں لیکن کارندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اتنے زیادہ کارندے ہو گئے کہ شہری ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ اور اب ایسا کوئی باپ بیٹا، ماں، بہن، بیوی، بھائی، دوست نہیں ملتا جس کی آنکھوں میں کارندوں کے لیے حقارت ہو۔ سب نے سمجھوتہ کر لیا ہے۔

مغرب کے ایک دور دراز ملک میں تیسری دنیا میں غربت پر مقالہ لکھتی لڑکی نے بھی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ تحقیق کے دوران اس کے علم میں یہ بات آئی کہ اس کے بابا تیسری دنیا میں غربت کے چند ایک ذمہ داروں میں ہیں۔ اور اس نے ایک سرد آہ بھری  اور تحقیق کا رخ کسی اور سمت موڑ دیا۔ نہ وہ محقق رہی، نہ دوست رہی، نہ بیٹی اور نہ ہی شہری۔ وہ بھی ایک کارندہ بن گئی۔

اور شہر میں ان گنت کارندے ہیں اور ان گنت کارندوں کے ان گنت فیصلے اور یہ سب فیصلے ایک سمت کا تعین کر رہے ہیں، لیکن اس سمت میں امید دیکھنا، ایک بہت مشکل کام ہے کہ امید کی بحالی کے لیے شہریوں کی ضرورت ہے، اور کارندے شہری بننے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔