صوفیانہ واردات کی تفہیم، از ولیم جیمز، حصہ دوم
ترجمہ: جمشید اقبال
انیسویں صدی کے انگلستانی شاعر الفرڈ ٹینی سن نے کہا ہے:
”بھولے بسرے خوابوں کا غیبی احساس مجھے صوفیانہ نور سے گُد گُدارہا ہے
کہ جیسے میں ہمیشہ سے یہاں موجود تھا
کسی انجان مقام پر مجھ سے کوئی ارتکاب ہوا تھا
کس زبان میں اتنی سکت ہے کہ اس احساس کو الفاظ کی بیڑیاں پہنائے؟”
خوابیدہ اور نیم خوابیدہ حالتوں میں ہم گہرے صوفیانہ شعور سے میں چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ اس کیفیت اور احساس کی خبر ہمیں انیسویں صدی کے اناجیلی پادری اور ناول نگار چارلس کنگزلے(Charles Kingsley) کے ناول میں ملتی ہے۔ ایامِ شباب میں شاید ہم سے ہر ایک اس سے ملتے جلتے تجربے سے گزرا ہو۔
”میرے قدم جب بھی کھیتوں کی جانب اُٹھے۔ میرے اندر ایک احساس جاگا اور میں نے جان لیا کہ ہر چیز بامعنی ہے۔ لیکن میں جان نہیں پایا۔ مجھے احساس ہوا کہ صداقتوں میں گھرا ہوں مگر صداقتوں کا متلاشی ہوں۔ میں جلال و جمال کی چادر میں ملبوس ہوں اور اِس کی حیات آور حِدت کا بیان میرے تنگ دست اسلوب اور کلام سے ماورا ہے۔ میں اس احساس کے بحرِ بیکراں کو الفاظ کی سِیپ میں کیسے قید کر پاؤں گا؟ کیا تمہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ لطیف روحانی احساس عقلی و لسانی قالب میں نہیں ڈھل پائے گا؟ تمہیں اپنے کوزے کے افلاس کا احساس نہیں ہے؟ تم اس لطیف روحانی احساس کا تجربہ کر سکتے ہو لیکن اس کے لیے تمہیں خالی لمحات کا انتظار کرنا ہوگا۔”
انیسویں صدی کے انگلستانی لکھاری جے اے سائمنڈز (J. A. Symonds) کی تحریروں میں تیز و تند صوفیانہ شعور نمایاں ہے۔ اُس کی تحریروں میں روحانی احساس اس قدر شدید ہے کہ اس سلسلے میں انگلستانی ادیبوں میں کوئی اُس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سائمنڈز لکھتا ہے:
”اچانک چرچ میں یا دوستوں کے درمیان، خاص طورپراس وقت جب میں مطالعے میں غرق ہوں، جب میں فکر کی عمیق دنیا میں کھوجاتا ہوں، کسی پرسکون لمحے کے دوران، اپنے آپ کو ایک طاقتور بے انائی طاقت کے گھیرے میں پاتا ہوں۔ میں اپنے ذہن اور قوتِ ارادی پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اِن چند لمحات کے دوران ہی میں ابدیت کا ذائقہ چکھتا ہوں۔ اِن لمحات کے گزر جانے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں خارجی احساس سے محروم کر دینے والی ادویات کے زیرِ اثر تھا۔ یہ بے خودی، یہ وجد یہ اِستغراق اس لیے بھی گراں بار لگتا ہے کہ میں الفاظ کا ترکش رکھتے ہوئے بھی اسے بیان نہیں کر پاتا۔ میں خود کو بھی نہیں سمجھا پاتا کہ گوشِ نفس پر نازل ہونے والا حرفِ راز کیا تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہوتے کہ میں اس تجربے کو قابل فہم بنا پاؤں۔ میں بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں، بتدریج، زمان و مکان اور خارجی احساسات کی تنگ گلیوں سے نکل کر ابدیت کے کھلے آکاش میں سانس لے رہا ہوں۔ مجھے اپنی ذات کی وسعت کا احساس ہوتا ہے اور میں جان لیتا ہوں کہ ذات کا زمانی و مکانی شعور محض ایک واہمہ تھا۔ جونہی میرا خارجی شعور تحلیل ہوتا ہے حقیقی اور خالص شعور کی بحر آسا وسعتیں مجھے اپنی بانہوں میں لے لیتی ہیں اور اس سمندر میں خالص، مطلق اور مجرد ذات کے علاوہ سب کثافتیں دُھل جاتی ہیں۔ کائنات اپنی شکل سے محروم ہوکر خالی ہوجاتی ہے، مگراس طوفان میں جو باقی بچتا ہے، جو استوار رہتا ہے وہ خالص ذات ہے۔ پُر شوق اور پُرستائش ذات جو اس قدر وسیع اور عمیق ہے کہ ا س کے مقابلے میں خارجی دنیا محض واہمہ لگتی ہے۔ ذات کے ارد گرد بلبوں میں ملفوف حقیقت رقص کر رہی ہے اور یہ سب اس مرکزے میں ڈوب جانے کے لیے بے قرار ہے۔
اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟
میں اس یقین کے گھیرے میں ہوں کہ یہ حالت شعور کی آخری منزل تھی۔ صرف یہ یقین باقی بچتا ہے کہ میں شعوری تجربے کے سب سے گہرے مقام سے لوٹا ہوں۔ مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے حقیقت اور واہمہِ مطلق (مایا) کا دیدار شعور کی آنکھ سے کیا ہے۔ اپنے آپ کو دہرانے والا یہ تجربہ مجھے ہِلا کر رکھ دیتا ہے۔ بار بار میرے اندر ایک اُلُوہی تحریک کو جنم دیتا ہے۔
اس کے بعد میں ایک بار پھر عالمِ محسوسات میں داخل ہونے لگتا ہوں۔ سب سے پہلے میری چھونے کی حس بیدار ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ سب احساسات اور تاثرات کی دُروں ریزی کا طوفانی عمل شروع ہوجاتا ہے۔ میں ایک بار پھر فوق البشر سے انسان بن جاتا ہوں۔ امکانات کی لامحدود دنیا سے واپس آکر محدود تجربات کی قید میں آجاتا ہوں اور ہستی کی پہیلی پہیلی ہی رہتی ہے۔ میں شعور اور ہستی کی گہرائیوں سے لوٹنے پر شکرادا کرتاہوں لیکن یہ واردات مجھے شائبے کے گہرے سمندر میں دھکیل دیتی ہے۔
اپنی عمر کے اٹھائیسوں برس تک پہنچنے سے قبل میں اس واردات سے کئی مرتبہ گزر چکا تھا۔ میں مدرکاتی یا مظہری شعور (phenomenal consciousness) کی حقیقت کے بارے میں گہرے شکوک میں مبتلا تھا۔ میں جان چکا تھا کہ عالمِ حواس و مظاہرات سے پرے ایک حقیقی عالم وجود رکھتا ہے جو وجود رکھنے کے لیے وجود کا بھی محتاج نہیں۔ اکثر اس بے شکل اور بے لباس شعور کے تجربے کے بعد میں مظاہراتی شعور اور حوادث کے غیر حقیقی ہونے کے احساس میں بھیگتا رہا۔ اور اس تجربے کی گہرائیوں سے لوٹنے کے بعد میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کون سا تجربہ غیر حقیقی ہے۔ واہماتی دنیا کون سی ہے؟ حقیقی دنیا کہاں ہے؟ وہ دنیا جو اپنے آپ کو کچھ لمحات کے لیے مجھ پر وا کرتی ہے؟ یا وہ دنیا جس کا میں عادی ہو چکا ہوں؟ کیا میں نے اپنی عادات اور مظاہراتی منطق کے پردوں میں اپنی حقیقت کو دفن کر دیا ہے؟ کیا میں نے رسمی دنیا کو خود ساختہ گوشت پوست کا لباس پہنا کر حقیقت سمجھ رکھا ہے؟ کیا انسان کسی خواب آلود حقیقت کا نام ہے؟ اس حقیقت کا علم انسان کو خواب نما حقیقی تجربات کے دوران ہوتا ہے۔ کیا ہوگا اگر میں اس بے انائیت کے اس تجربے کی آخری منزل تک پہنچ جاؤں؟”
انسانی فطرت کے کچھ پہلو صوفیانہ موڈ (mode) کو بیدار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگ ان تجربات سے اُس وقت گزرے ہیں جب وہ گھر کی چار دیواری سے باہر تھے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ادب میں اس تجربے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ درج ذیل اقتباس انیسویں صدی کے سوئس فلسفی ہنری کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے جو ایمیلز کے ایک جریدے ”اِن ٹائمز” میں شائع ہو چکا ہے:
”کیا میں ایک بار پھر اُن غیر معمولی یادوں کو شعور کی مٹھی میں بند کر پاؤں گا جنہیں میں عہدِ رفتہ کا اثاثہ سمجھتا ہوں؟ عہدِ شباب کی بات ہے۔ ایک صبح میں فاؤ سگنی کے قلعے کے کھنڈرات میں قدرت کا وہ معجزہ دیکھنے گیا جو رات کو دن میں بدل دیتا ہے۔ شاہِ خاور نے چہرہ دکھایا تو میں ایک پہاڑ کے دامن میں ایک درخت کے نیچے نیم دراز تھا۔ تین تتلیاں درخت پر کھلے پھولوں پر منڈلانے لگیں۔
ایک شب شمالی سمندر کے ساحل کی گیلی ریت پر لیٹے ہوئے میری نظر کہکشاؤں کے پار کی دنیاؤں سے کئی نوری سال پھلانگ گئی۔ میری یہ یادیں کائناتی حجم کی حامل ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب میں کائنات تھا۔ یا پھر کائنات میری ذات کی کائنات میں شِیر و شَکر ہوگئی تھی۔ اِن لمحات کے دوران میں سمندر تھا۔ لافانی تھا۔ میں ستاروں کو چُھو سکتا تھا۔ میرے پاس سب کچھ تھا۔ الوہی لمحات۔ وجد آور گھڑیاں۔ جب ہماری سوچ یکے بعد دیگرے دنیاؤں پر قدم رکھتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ گہرے سے گہرے رازوں کی تہہ میں اتر سکتی ہے۔ ہمارے سِینے گہری اور معطر سانسوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اتنی گہری کہ سمندر بھی شرمندہ ہوجائیں۔ اتنی کشادہ کہ کائنات بھی شرما جائے۔ گہرے سکون اور آسمانی لامحدودیت کے احساس سے لبریز۔ ناگزیر وجدانی لمحات کی آمد کی گھڑیاں جب انسان اپنے آپ کو کائنات سے بھی بڑا محسوس کرتا ہے۔ اتنا پُرسکون محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ کوئی دیوتا ہو۔ وہ لمحے! وہ یادیں! جو ہمارے ذہنوں کے ساحلوں پر گہرے نقوش چھوڑ گئی ہیں۔ حقیقت نقش پا جو تکمیل کی منازل تک ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ احساس سے معمور یادیں جو ہمیں یقین کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی پیغمبر میرے دل کا مہمان ہوا تھا۔”
جرمن تصوریت پسند مالویدہ واؤن ماسن بگ (Malwida von Meysenbug) بھی اپنی یاداشتیں اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
”میں ساحلِ سمندر پر اکیلا تھا۔ اپنی پرسکون اور الوہی یادوں کے ساتھ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار فلک بوس پہاڑوں کے بیچ جلال و جمال کی حامل کسی طاقت نے مجھے سجدہ کر نے پر مجبور کر دیا۔ اس بار اس بے کنار سمندر کے سامنے جو حدود فراموش قوت کا استعارہ ہے مجھے لگتا ہے کہ میں سچی عبادت کے سوزوگداز سے نوازہ گیا ہوں۔ ایسی عبادت جو میں پہلے کبھی نہیں کر پایا۔ آج میں جان گیا ہوں کہ عبادت اور دُعا کا کیا مطلب ہے؛ انا کی کہنہ تنہائی سے اُکتا کر وحدت کے لطیف اور تنہا جمگھٹے میں آجانا! اُس سب کا ہمنوا ہوجا نا جو ازل سے اسمِ اعظم کا ارتعاش پیدا کر رہا ہے! سجدے میں اُسے جھکا دینا جس نے نیستی کا ذائقہ چکھنا ہے! اور اُسے جگانا جس پر موت حرام ہے! زمین، آسمان اور سمندر۔ سب نے ایک ہی نغمہ چھیڑ رکھا ہے۔ سب ہم آہنگ ہو کر گارہے ہیں۔ میں جان گیا کہ ہر عظیم و بلند ہستی کا نغمہ میرے لیے تھا۔ میں اُن کی جماعت کا فرد بن گیا۔ میں اُن کی صف میں کھڑا ہوگیا۔ میں نے سنا کہ وہ سب مجھے خوش آمدید کہہ رہے ہیں:
”خوش آمدید! تم اُن کی صف شامل ہو ئے جو حدود پر غالب آئے! مبارک ہو!”
انیسویں صدی کے معروف امریکی رِشی واٹ وِٹ مین کا مندرجہ ذیل اقتباس صوفیانہ واردات کے شاعرانہ اظہار مغربی شاعری میں کلاسیکی نمونہ کہا جا سکتا ہے:
”میری روح !
میرا ایمان تم ہو
میرے ساتھ گھاس کی پتیوں پر چہل قدمی کرو!
نطق کے سارے بند کھول ڈالو۔۔ ہم کلام ہوجاؤ!
مجھے تمہاری لوری پسند ہے۔۔ تمہارے ان گنت صوتی جھروکوں سے جنم لینے والی گنگناہٹ پسند ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کبھی ایک ایسی ہی شفاف صبح۔ مصفا دھوپ میں ہم دونوں محو خواب تھے۔۔
تم نےاچانک اٹھ کر مجھے اپنی آغوش میں لے کر۔۔ سکون اور دانش کا جام میرے باطن میں انڈیل دیا تھا۔
مجھے یقین ہے کہ دستِ خداوندی میرے ہونے کی دلیل ہے۔
مجھے یقین ہے کہ نفسِ خداوندی اور میری ذات کی اخوت ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔
ہر شخص میرا بھائی اور ہر عورت میری بہن ہے! ہم سب چاہت کے رشتوں میں بندھے ہیں!
اور ہستی کا جہاز محبت کے گہرے اور اناپ سمندروں پہ تیر سکتا ہے۔”
مذہب اور تصوف پر یقین نہ رکھنے والا شخص بھی اس بات سے واقف ہے کہ صوفیانہ واردات شعور کی متبادل اور مخصوص حالتوں کا نام ہے۔ یہ واردات اپنے معروض کے شعور اور کردار پر گہرے اور انمٹ اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر آر ایم بک، کینیڈا کا ایک معروف نفسیات دان، صوفیانہ شعور کو نسبتاً واضح انداز میں بیان کرکے اِسے ”آفاقی شعو” (cosmic consciousness) کا نام دیتا ہے۔ ڈاکٹر بک لکھتا ہے:
”آفاقی شعور مادی شعور کی تشدید یا توسیع کا نام نہیں بلکہ اضافی شعور کا نام ہے جس کی چنگاری ہر شخص میں موجود ہوتی ہے لیکن عام لوگ اِسے ذاتی اور منطقی شعور کی تہہ میں دبا دیتے ہیں۔ آفاقی شعور کی بیداری (کا امکان ) ہی دراصل انسان کو دیگر جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ کائناتی شعور کا خاصہ وقوفِ آفاق ہے۔ زندگی، حیات اور کائنات کے ربط کا جامع علم اور احساس ہے۔”
آفاقی شعور دانش ورانہ روشن نظری کا باعث بنتا ہے اور انسان ہستی کو ہر زاویے سے ”دیکھ” سکتا ہے۔ وہ ہر نئی مخلوق کے خاندان کا فرد بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اوجِ اخلاق، احساسِ ماورائیت اور الوہی بے نیازی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ وجدو کیف اور دائمی مسرت ہے۔ اخلاقی ”حواس” اس قدر سریع الرفتار ہوجاتے ہیں کہ برق رفتاری سے گنجلک معاملات کے بطن میں اترجائیں۔ دانش ورانہ قوتیں ہر امکان کو ہمہ وقت دائرہ بصیرت میں رکھنے کی اہلیت حاصل کر لیتی ہیں۔
احساسِ لافانیت (sense of immortality) بھی صوفیانہ واردات کا ناگزیر ثمر ہے۔ اسے ہم زندگی کی پیہم روانی اور تسلسل پر ایمان سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ احساسِ لافانیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ روحانی واردات سے گزرنے والے کو یہ امید لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ لافانیت ذاتی ریاضت کے بل بوتے پر حاصل کر لے گا ؛ بلکہ اُسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ (خاصہ ہست رکھنے کے ناطے) لافانی ہے۔
ڈاکٹر بک آفاقی شعور کی یلغار کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ صوفیانہ واردات میں گہری دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے اپنے تجربات اور نتائج کو ایک نہایت عمدہ کتاب میں درج کیا ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس آپ کی نظر ہے جس میں وہ ذاتی وجدانی/روحانی تجربے کی روداد کچھ یوں سنا تے ہیں:
”میں نے شام کا وقت اپنے دوستوں کے ساتھ شہر میں گزارا تھا۔ اس دوران ہم عالمی ادب اور ذوقِ فکر پر بات چیت کر تے رہے تھے۔ آدھی رات کے وقت میں نے دوست کو الوداع کہہ کر ٹم ٹم پر سوار ہو کر گھر کا رُخ کیا۔ میرا ذہن اُس وقت بھی کتابوں، خیالات اور نظریات میں مگن تھا۔ میں مجہولانہ فکری تسکین کا لطف اٹھا رہا تھا۔ یعنی میرے ذہن پر کوئی خاص سوچ سوار نہیں تھی۔ میرا ذہن بالکل خالی تھا جس میں ہر خیال اور تصور کو داخل ہونے کی کھلی اجازت تھی۔ یہ خیالات اور تصورات آزادی سے میرے ذہن کے مہمان نواز موسموں میں پرواز کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اچانک ۔۔ بلا قصد۔۔ میں نے اپنے آپ کو شعلہ رنگ بادلوں میں گھرا ہوا پایا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے خیال آیا کہ آگ لگ گئی ہے اور ہر طرف شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ دوسرے ہی لمحے میں جان گیا یہ شعلے میرے اندر سے اٹھ رہے ہیں۔ عین اُسی لمحے میں خالص خوشی اور انبساط کی ٹھنڈی آگ میں بھیگ رہا تھا۔ میں کیا دنیا کا عظیم ترین قلم کار، اس خوشی کو الفاظ کا قالب عطا کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اسی لمحے میں نے محسوس کیا کہ میرا سینہ روحانی علم و دانش سے منور ہوگیا ہے۔ منطقی و بُرہانی دانش سے عظیم و بلند روحانی دانش۔ ایک بار پھر میں اس احساس کو الفاظ کی بیڑیاں نہیں پہنا سکتا۔ کیونکہ نہ کوئی اس تجربے کی مثل ہے نا ضد۔
اس مضمون کے حصہ اول کو اس لنک پر ملاحظہ فرمائیے: صوفیانہ واردات کی تفہیم: از، ولیم جیمز، حصہ اول
3 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.