ششی کپور : ایک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں
از، حسین جاوید افروز
سال 2017 فلم اور تھیٹر سے شغف رکھنے والے حضرات کے لیے بہت ہی بھاری ثابت ہوا جب جنوری میں جہاں دیدہ اداکار اوم پوری اوراور اپریل میں خوبرو ونود کھنہ چل بسے۔ جبکہ دسمبر میں جب ہم نئے سال سے محض چند روز کی دوری پر تھے ہم نے ششی کپور کو بھی کھو دیا ۔لیکن شائد اس بار فرق یہ رہا کہ اس بار ہم نے ایک معروف اداکار ہی نہیں بلکہ ایک ایسا انسان بھی کھویاہے جو بطور انسان اپنی سادگی ،زندہ دلی اور ملنسار طبعیت کی بدولت ایک مثال تھا۔ بلاشبہ ششی کپور نے بطور اداکار، بطور ڈائریکٹر اور بطور ایک پیار کرنے والے انسان کے اپنے گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔
پرتھوی راج کے تیسرے بیٹے کے طور پر ششی شروع سے اپنے ذات میں مگن اور اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے میں مشغول رہا ۔اسے پرتھوی راج کے پرتھوی تھیٹر سے اوائل عمری سے لگاؤ رہا ۔یوں بچپن سے ہی وہ تھیٹر کی ریہرسل اور ڈرامے دیکھتا اور اس کے طلسم کو اپنے اندر محسوس کرتا رہا ۔اسی تھیٹر سے ششی کو عام آدمی کے جذبات سمجھنے اور اس کے مسائل پر گہرا مشاہدہ کرنے کاموقع ملا ۔اور آنے والے وقت میں یہی مشاہدہ ششی کو جب جب پھول کھلے اور آگلے لگ جا کے لیے بطور عام آدمی کے کردار میں مدد فراہم کرتا رہا۔
اپنی فلموں کلیگ اور سلاخیں کے ذریعے بھی ششی نے عام آدمی کی پریشانیوں کو اجاگر کیا ۔بطور چائلڈ ایکٹر ششی نے فلم آگ سے دھرم پتر تک جدوجہد کا ایک سفر طے کیا ۔اور جیسا کہ کپور خاندان میں رواج رہا کہ اپنے بل پر اپنا مقام بھائیوں اور والد کی مدد کے بغیر بنایا ۔تاہم جب جب پھول کھلے ہی وہ فلم تھی جس نے ششی کی بطور ہیرو ایک شناخت بنائی ۔اور پھر ششی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔اس کے بعد وقت جیسی ملٹی سٹار کاسٹ فلم میں بھی ششی نے اپنی جاندار موجودگی کا احساس دلایا۔ اب ششی پر غیر یقینی اداکار کا ٹھپہ ہٹ چکا تھا ۔یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے کہ ستر کے رومانوی دور میں ششی بھی راجیش کھنہ کو ٹکر دے سکتا تھا مگر پھر بھی ششی نے 36 چورنگی لائن،اتسو کے ذریعے غیر روایتی اور تجرباتی اداکاری کر کے کریٹکس سے بھرپور داد سمیٹی۔اور خود کو محض رومانویت کے دائرے تک محدود نہیں رکھا ۔ششی کے لیے 70 سے82 تک کا دور نہایت شاندار اور مصروفیت بھرا رہا ۔اس کے ساتھ ساتھ چند انگلش فلموں شکسپئیر والا ،pretty dolly ,سدہارتھا میں ششی نے ایک باپ کے رول سے بے فکرے نوجوان کا کردار بخوبی نبھایا ۔ششی نے یہاں ایک انداز اپنایا کہ فلم میں مکالمے کی ادائیگی یا خاموش تاثرات دیتے ہوئے کیسے وہ ٹھہراؤ تراشا جائے جو گویا سارا سین لوٹ لے ۔اور یہ رخ ہم نے ششی کے دیوار کے شہرہ آفاق منظر میں امتیابھ بچن کی جارحیت اور آگ برساتے مکالمے تمھارے پاس کیا ہے کے جواب میں دیکھاکہ’’ میرے پاس ماں ہے‘‘ ۔ اس مکالمے میں ششی نے تھیٹریکل ٹھہراؤ کا کمال استعمال کیا جو ہندی سنیما میں ایک انمٹ تاریخ رقم کرگیا۔
ایک اداکار کے طور پر اپنے کرداروں میں ششی نے ہمیشہ ایک وقار ایک رکھ رکھاؤ ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا اوربطور اداکار آرٹ سنیما اور کمرشل سنیما کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔لیکن مرکزی اداکار ہوتے ہوئے بھی اس نے غیر روایتی کردار نگاری کا سلسلہ جاری رکھا ۔اور ایسے غیر روایتی موضوعات پر مبنی فلمیں جن میں جنون ،کلیگ ۔وجیتا،36 چورنگی لائن اور اتسو شامل ہیں پروڈیوس کیں جن کو تنقیدی نقظہ نظر سے خاصا سراہا گیا ۔ روایتی فلموں سے ہٹ کر یہ فلمیں ایک جدا گانہ تاثر دے گئیں ۔جن میں حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا ۔یہ ششی کا معیاری سنیما دینے کا عزم ہی تھا کہ ان شاہکار فلموں کو اس نے اس تخلیقی لگن سے بنایا کہ اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ کمرشل حوالے سے اسے کچھ کمانے کا موقع نہیں ملا ۔ششی کو کمائی سے زیادہ معیاری سنیما فلم بینوں تک پہنچانے سے غرض تھی ۔ یہاں ششی کا یہ مکالمہ صادق آتا ہے کہ ’’زیادہ پیسے آئیں تو نیند نہیں آتی ۔نیند آئے تو زیادہ پیسے نہیں آتے ‘‘۔البتہ بطور ہدایتکار ششی نے محض ایک فلم عجوبہ بنائی جو کہ جادوئی موضوع پر مبنی تھی۔ اپنے دور ششی ، بمل رائے ،گرودت،شیام بنیگل اور شانتا رام کے کام سے خاصا متاثر رہا ۔علاوہ ازیں مرچنٹ آئیوری کے بینر تلے فلمیں ،بچن کے ساتھ کی گئی فلمیں اس کی پسندیدہ رہیں۔
اسی طرح ششی نے فلم جنون میں جاوید خان کے کردار میں اس وقت شکست خوردگی کے بہترین تاثرات دئیے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان دلی ہار گئے ہیں۔ اس نے بغیر کچھ کہے اپنے آنکھوں میں ابھرے غم سے بتا دیا کہ جاوید خان دلی کے ساتھ روتھ کو بھی ہار بیٹھا ہے جو کہ جاوید خان کی زندگی تھی ۔اسی طرح فلم سلسلہ میں امتیابھ کے ساتھ شراب کے نشے میں نیچے پان کی دکان اوپر گوری کا مکان گاتے ہوئے بھی امتیابھ اور ششی نے فلم بینوں کو بہت محظوظ کیا۔ فلم کبھی کبھی کا وہ مکالمہ بھی غضب کا تھا جب ششی بیوی پر شک کرنے پر خود کوستا کہ کہ اف گھٹیا آدمی میں اس عورت پر شک کر رہا ہوں جو میرے بچے کی ماں ہے ۔پوجا ہے ہی اتنی اچھی کہ اسے چاہا جائے۔
امتیابھ کے ساتھ ششی کپور کی فلمیں 70کی دھائی کی سوغات سے کم نہیں ۔بچن کے ساتھ فلموں کے حوالے سے ششی کے مطابق اکثر کہا گیا کہااگرچہ میرا کردار بچن کے مقابل سیکنڈ لیڈ کا رہا۔ لیکن میں سچ کہوں تو ان تمام فلموں کے سکرپٹ نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس میں کام کروں ۔دیوار کی عکس بندی کے دوران ہی میں نے کہنا شروع کیا کہ یہ فلم چلے گی ۔ میں نے اپنی فلم اتسو میں بچن کو کاسٹ کیا تھا مگر قلی والے حادثے کی بدولت یہ رول مجھے ہی نبھانا پڑا۔
بقول امتیابھ ششی جی نے بطور ڈائریکٹر اپنی فلم عجوبہ کی عکس بندی کے دوران ایک چھڑی ہر وقت ساتھ رکھی ہوتی لیکن کبھی انہوں نے کسی کی دل آزاری تک نہیں کی ۔وہ ہر وقت مدد کرنے والا شخص تھا مجھے دو اور دو پانچ کی شوٹنگ کے دوران جب استھما کا اٹیک ہوا تو یہ ششی ہی تھا جس نے مجھے سب سے پہلے طبی امداد پہنچائی ۔شیام بنیگل ششی کے ساتھ اپنے تعلق کی بابت کہتے ہیں کہ مجھے اس کے ساتھ کلیگ اور جنون میں کام کرنے کا موقع ملا اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ بطور پرڈیوسر اس نے کبھی میرے کام میں ناجائز مداخلت نہیں اور جہاں بھی بجٹ بڑ ھانے کی ضرورت مجھے محسوس ہوئی تو اس نے پوری کی ۔بطور ایکٹر ششی میرے نزدیک مکالمے کی ادائیگی کے حوالے سے ایک کمال کا اداکار تھا جو بغیر کسی زائد کوشش کے غضب کا کام کردیا کرتا تھا۔
شبانہ اعظمیٰ کے بقول میں ششی کے سحر میں پاگل تھی اور اپنی پا کٹ منی سے اس کے پوسٹر کمرے میں آویزاں کرتی تھی۔ لیکن فلم فقیرا میں اس کے ساتھ کام کرتے وقت میں بہت نروس تھی مگر ششی نے مجھے حوصلہ دیا وہ نہایت ہمدرد انسان تھے۔ سیمی اگروال کے مطابق ششی ہمیشہ سے کپور خاندان میں ایک غیر فلمی مزاج کا حامل شخص رہا جو ہمیشہ فلم کے سیٹ پر تعاون کرتا۔ اس نے بولی وڈ میں کسی سے جھگڑا نہ کیا وہ بولی وڈ کے سازشی اورمنافقانہ کلچر سے دور ایک ہنس مکھ انسان تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری مشترکہ فلم 70 کی دھائی میں سدھارتا کو وینس فلم فیسٹول میں کھل کر داد ملی مگر کئی سال بعد مجھے دلی میں ششی نے بتایا کہ مجھے اپنی اس فلم کے مناظر یاد ہی نہیں رہے۔ وہ گویا دھندلا سے گئے ہیں۔ میرے لیے اس دور کے ہردلعزیز اور وضع دار ششی سے ایک ناتواں اور موت کی جانب گامزن ششی کو دیکھنا ایک تکلیف دہ منظر رہا۔ تاہم اپنے بھائیوں راج اور شمی سے بھی اس کا ایک خاص تعلق رہا۔
ایک وقت وہ تھا جب 70 کی دھائی میں ششی اتنا مصروف تھا کہ وہ راج کپور کی فلم مگر ستم شیوم سندرم کے لیے وقت نہیں دے پایا۔ تب راج نے اسے ٹیکسی کہا یعنی ششی کے پاس مصروفیت کے سبب رکنے کا وقت ہی نہیں ۔تب رندھیر نے راج کپور پر زور دیا کہ کچھ بھی ہو یہ فلم چاچا ہی کرے گا۔ ہیرو ہمارے گھر میں موجود ہے کسی باہر والے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس وقت ششی یومیہ چار چار فلموں کی شوٹنگ مکمل کروا رہا ہوتا تھا ۔اسی طرح 1961 کے برلن فلم فیسٹول اور شمی کپور کے مطابق ششی نے اپنی گمنامی کے دور میں برلن میں اپنے وقت کی خوبرو اداکارہ لیزلی کیرون کو اچانک مجھ سے پوچھے بغیر ڈانس کی پیشکش کی اور ایمانداری سے اپنا تعارف کرایا کہ میں ایک ہندوستانی ایکٹر ہوں جو کہ تھیٹر بھی کرتا ہے۔ بقول شمی میں ششی کی اس حرکت پر حیران تھا کہ یہ بے عزتی کرائے گا مگر میں دم بخود رہ گیا جب لیزلی نے ششی کے ساتھ ڈانس کی پیشکش مان لی ۔ یہ واقعہ ششی کے اعتماد کی شاندار مثال ہے۔
ششی کی زندگی میں والد پرتھوی راج کے بعد جنیفرکینڈل سب سے بڑا محرک رہی ۔محض اٹھارہ برس کی عمر میں ششی نے جنیفر سے شادی کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اپنے بھائی شمی کپور کی مدد لی جس نے گھر کی فضا ششی کے حق میں بنا دی یوں ششی اور جنیفر ایک ہوئے ۔مزے کی بات یہ تھی کہ جنیفر کے ساتھ اوتھیلو پرفارم کرتے وقت ششی نے جنیفر کے والد کا کردار بھی نبھایا ۔۔دونوں بولی ووڈ کی چکا چوند سے دور ایک دوسرے میں گم ہوکر تھیٹر کی بہتری اور غیر روایتی فلموں کی تیاری میں جٹ گئے۔
پرتھوی تھیڑ کی پرتھوی راج کے بعد تجدید نو ششی کا خواب تھا۔ بچپن سے یہ تھیٹر اس کی روح میں گہرائیوں سے بسا ہوا تھا۔ اپنے باپ کے ساتھ کئی شہروں میں تھیٹر پیش کرنے اور پھر کم عمری سے ہی تھیٹر میں پرفارم کرنے اور تھیٹر کی باریکیوں کو سمجھنے کی جستجو یہ وہ سب عوامل تھے کہ جس نے ششی اور جنیفر کو ابھارا کہ ایک بار پھر پرتھوی تھیٹر کو زندہ کیا جائے۔ شاید ششی کے لیے اپنے باپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اور کوئی طریقہ ہو نہیں سکتا تھا۔ بقول ششی کہ میں اور جنیفر اس تھیٹر کو ایکٹرز اور حاضرین دونوں کے لیے مثالی بنانا چاہتے تھے۔ جہاں تمام ضروری سہولیات ہمہ وقت موجود ہوں اور ایسا تخلیقی ماحول تراشا جائے کہ جس سے نیا ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آئے۔
جنیفر نے اپنے آخری وقت تک ششی کے ساتھ پرتھوی تھیٹر کو کامیابی سے چلایا گویا اس کوشش کے ذریعے دونوں نے دیوانوں کی مانند اپنے خوابوں کا پیچھا کیا۔ جس کا مقصد تھیٹر کی خدمت تھا ۔لیکن جنیفر کینسر کا شکار ہوکر 1984 میں ششی سے دور چلی گئی ۔ششی نے جنیفر کے بغیر 33 برس تنہا بسر کیے ۔جب بھی اسے دوسری شادی کا کہا جاتا تو وہ ہنس کر کہتا ’’ جنیفر جیسی اور کوئی عورت اس دنیا میں موجود نہیں ۔ وہ واحد عورت ہے جس سے میں نے محبت کی۔”
جنیفر کا ششی کی زندگی میں گہرا اثر رہا۔ وہ ششی کی زندگی کی گویا ڈرائیور تھی۔ اس کے بعد وہ جیسے بغیر بادبان کے ایک جہاز بن کر رہ گیا اور دھیرے دھیرے تنہائی پسند ہوتا گیا۔ اپنے آخری ایام میں ششی کو دل کا دورہ پڑا اس کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوگیا۔ اور اسے سب کچھ بھولتا جارہا تھا وہ لوگوں کو پہچاننے سے بھی قاصر ہوتا جارہا تھا۔
عام زندگی میں ششی کپور نہایت سادہ طبیعت کا حامل شخص تھا جو کہ کسی طرح کی سیاست میں الجھنے کے بجائے اچھے کھانے اور وائن کا رسیا تھا۔
اسے گویا اردو غزلوں سے شغف رہا اور وہ اسے رومانس کی بنیادیں تصور کرتا تھا ۔لیکن جہاں بھی ایک واضح موقف لینے کی ضرورت ہوتی وہ چپ نہیں رہ سکتا تھا جیسے ممبئی کے گیتا نگر میں غریبوں کے لیے جھونپڑیوں کا مسئلہ جو کہ تعطل کا شکار ہوچلا تھا۔
اس وقت یہ ششی ہی تھا جس نے وزیر اعلیٰ مہاراشٹر سے دو ٹوک الفاظ میں اس مس لیے کو فوری حل کرانے کا مطالبہ کیا ۔اور بعد ازاں یہ مسئلہ حل ہوگیا لیکن ششی نے اس کام کا کبھی کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی ۔اسی طرح مارچ 93 کے بمبئی دھماکوں کے نتیجے میں مسلم گھرانوں کو کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز سے بیدخل کرنے کی مہم چلی تو اس وقت ششی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس اقدام کی کھل کر مذمت کی۔
یہ ششی کپور کی عاجزی ہی تھی کہ جب اسے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا جانے لگا تو اس نے کہا میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتا۔
یہاں ششی نے اپنے مکالمے کو سچ کر دکھایا کہ، ’’اس دنیا میں آدمی انسان بن جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ اپنا تو ایک ہی اصول ہے جیو تو اپنے لیے سوچو تو دوسروں کے لیے۔ بالی وڈ کا یہ منفرد اور جہاں دیدہ پرفارمر ہمیں اس جاتے برس یہ سبق دے گیا کہ ایک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں۔