قرآن کے ایک اسلوب کی وضاحت
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
قرآن کے ایک اسلوب جو بہت سے لوگوں کے لیے غلط فہمی کا سبب بن جاتا ہے، اس کی وضاحت یہاں مقصود ہے۔
درج ذیل آیات پر غور کیجیے:
مَن يَشَإِ اللَّـهُ يُضْلِلْـهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (سورہ الروم، 30:21)
اللہ جسے چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔
فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ (سورہ البقرہ، 2:284)
پھر جس کو چاہے گا، بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، سزا دے گا، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
ان دونوں آیات کا ایک مفہوم بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملے میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، یہ سراسر خدا کا فیصلہ ہوتا ہے، پھر اس ہدایت اور گمراہی کے نتیجے میں ملنے والی سزا اور جزا بھی اس کی اپنی چاہت پر منحصر ہے اور اس کا کوئی اصول و قاعدہ نہیں ہے، یعنی وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، کوئی معیار یا پیمانہ نہیں جس کی پابندی خدا پر لاگو ہو، پھر ان ہدایت یافتگان میں گمراہوں میں سے بھی جسے مرضی ہو اسے جنت دے دیتا ہے اور جس چاہے دوزخ میں ڈال دیتا ہے؟ خدا کا یہ تصور خود خدا کے عدل کے تصور کے سراسر خلاف ہے۔
ایسی غلط فہمی قرآن کے اسالیب کو انسانی زبان کے عام محاوراتی اسالیب سے ہٹ کر سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ان اسالیب کی وضاحت میں انسانی کلام میں سے محاورے کی زبان ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں:
ایک استاد سارا سال کلاس کو پڑھانے کے بعد اُن نالائق اور نکمے طلبہ کو، جو استاد کی ہر نصیحت کو پس پشت ڈال چکے ہوتے ہیں، آخری وارننگ دیتے ہوئے کہتا ہے:
“یاد رکھنا، تمھارے پرچے میرے ہی پاس آنے ہیں۔ پاس اور فیل میں نے ہی کرنا۔ وہی پاس ہوگا جسے میں پاس کروں گا۔ باقی سب کو فیل کر دوں گا۔”
دھمکی کا یہ اسلوب انسانی زبان کا عام محاورہ ہے۔ اس سے کوئی یہ باور نہیں کر سکتا کہ استاد کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سراسر اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ جسے چاہے پاس کر دے جسے چاہے فیل کر دے، کسی قانون اور اصول کی پابندی اس میں شامل نہیں۔ قرآن کے اسالیب کو بھی اسی طرح کلام کے سیاق و سباق، موقع و محل اور زبان کے عام محاورہ کے مطابق سمجھنا چاہیے۔
خدا کے کلام میں بظاہر مطلق اور عام اسلوب میں بھی کچھ قیود پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ “خدا جسے چاہے عذاب دے اور جسے چاہے بخش دے”، کے پیچھے یہ بات موجود ہوتی ہے کہ یہ وعید مستحقِ عذاب کو دی جا رہی ہے، اور نیک عمل مومن کو خدا سے بے نیاز ہونے سے روک رہی ہے۔ چنانچہ ان وعیدوں سے پہلے خدا اس کی وضاحت کر چکا ہوتا ہے خدا ہدایت اسے دیتا ہے جو ہدایت کی طلب رکھتا ہو، اور گمراہ اسے کرتا ہے جو خود گمراہی خرید لیتا ہے۔
ان اصولوں کی وضاحت قرآن مجید کی دیگر آیات میں کی گئی ہے، لیکن، موقع جب دھمکی اور خوش خبری کا ہوتا ہے تو بات میں زور تب ہی آتا ہے جب اسے مطلق الفاظ میں بیان کیا جائے، اس میں موجود قیود مخاطب خود سمجھ لیتا ہے۔ اسی لیے ان آیات کے ترجمے میں البیان میں یہ طرز اختیار کیا گیا ہے کہ قوسین میں یہ لکھا دیا جاتا ہے کہ اللہ (اپنے قانون کے مطابق) جسے چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔