کمال فن کے لیے فاشزم کا خاتمہ ضروری ہے

Naseer Ahmed
نصیر احمد

کمال فن کے لیے فاشزم کا خاتمہ ضروری ہے

از، نصیر احمد

شکرشکن شوند همه طوطیان هند

زین قند پارسی که به بنگاله می‌رود

حافظ

بے چارے حافظ، انھیں کیا معلوم تھا کہ طوطیان ہند سب کچھ سہاگہ کر دیتے ہیں اور اس سہاگے کے گرد عقیدت کی سنگینیں تانے وہ چاوش بٹھا دیتے ہیں کہ قند پارسی تک رسائی ہی ممکن نہیں رہتی۔

وہ تو سجاد ظہیر کی مہربانی کہ انھیں حافظ کی کچھ نظریاتی ضرورت محسوس ہوئی اور سبط حسن اور فیض بھی حافظ کا ذکر کرتے رہے۔ لیکن فیض صاحب اور سبط حسن نے بھی حافظ کی اتنی قدر نہیں کی جتنے وہ سہاگے پر مہربان رہے۔ اشتراکیت اور سہاگے کا ماخذ ایک ہی تھا، (ہیگل) اس لیے اشتراکیوں کی ہمدردیاں سہاگے کے ساتھ زیادہ رہیں۔

مشہور یہ ہے کہ یہ غزل سلطان غیاث الدین کی ہندوستان کی دعوت کے جواب میں حافظ نے لکھ کر بھیجی تھی۔ حافظ سفر کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے لیکن گلگشت مصلا اور آب و کنار رکن آباد پاؤں کی زنجیر بن گئے۔

شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ اس شعر میں امیر خسرو کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہ وہ طوطی ہند کہلاتے تھے۔ ہو سکتا ہے لیکن خراج تحسین کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ کامریڈ سٹالن کی یاد آجاتی ہے۔ وہ اپنے بیٹے یاکوف کی بہت تذلیل کرتے تھے۔ایک دن تنگ آکر یاکوف نے خود کشی کی کوشش کی ، جو ناکام ہوئی۔ اب وہ خون میں لت پت پڑا ہے اور کامریڈ سٹالن کہتے ہیں

یہ تو درست طریقے سے گولی بھی نہیں چلا سکتا۔ کچھ اس قسم کا خراج تحسین ہے حافظ کا۔

غداری کے ہزار الزامات کے باوجود، ہم بھی وطن پسند بہت بڑے ہیں، ایک دفعہ تو جی میں آیا کہ آغا حافظ کی گوشمالی کر دیں لیکن ایک تو حافظ آغا نہیں، دوسرے ان کی قند پارسی کے مقابلے میں سہاگے کی چاوشی ہم سے نہیں ہوتی۔ ایک چیز سچ بھی ہوتی ہے، جس کونظر انداز کرنا جہالت کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

حافظ لیکن بے چارے ہی ہیں، ان کے وطن میں آغا انھیں نا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمریت کی نظریاتی حمایت کے لیے مولانا موجود ہیں۔ بیرون وطن گرٹروڈ بیل انھیں کچھ اچھی طرح سمجھ نہیں سکیں، اب حکومتیں گرانے بنانے میں وہ بہت ماہر تھیں لیکن اس مصروفیت کے باعث وہ اپنی سخن فہمی کی صلاحیت سے کچھ خاص استفادہ نہیں کر سکیں۔ اگر ایڈورڈ سعید کی مان لیں تو گرٹروڈ کی نظریاتی ضرورت تھی کہ ایرانی شاعر یورپی شاعروں سے کچھ کمتر ہی دکھائی دیں۔ لیکن ایڈورڈ بھی جس وطن پرستی کی ملامت کرتے ہیں، اس کے اسیر بھی ہیں۔

خیر ہمیں ان سے کیا لینا دینا، ادھر ہندوستان پاکستان میں بھی حافظ بے چارے ہی ہیں۔

سہاگے نے ان پر تنقید کی، اہل وطن نے سہاگے کی تقلید میں نجات جانی، اس کے بعد حافظ یہاں پر اپنا مقام کھو بیٹھے۔ سال دو سال پہلے شاید ادبیات کا حالی نمبر تھا، وہاں کسی نے حافظ کو حالی سے بھی کمتر شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ وجہ وہی، سہاگے کی چاوشی۔

وطنیوں سے بس اتنا کہنا ہے کہ حافظ کی قند پارسی سے لطف اندوز ہوں نہ ہوں لیکن سہاگے کی چاوشی سے دست بردار ہو جائیں کہ یہ چاوشی انسانی عزت اور انسانی حقوق کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس سے تشدد کے جواز ملتے ہیں اور تشدد کو جب جواز مل جائیں تو سمجھیں رانڈ کا سانڈ وفور جنون میں ٹکریں مارتا ہے اور جو بھی سامنے آتا ہے اسے روند ڈالتا ہے۔ کیا ہم سب اس کے گواہ نہیں ہیں؟

جب سے حکمرانوں نے فاشزم اپنایا ہے، ہمیں کیا ملا؟ نسل کشی، دہشت گردی اور ایک مسلسل خانہ جنگی۔آہوں کراہوں اور سسکیوں کا ایک سلسلہ جس کا علاج ہم منافقت اور سطحیت میں ڈھونڈتے ہیں۔ پیران جاہل اور شیخان گمراہ کی ایسی بدمعاشی کہ نغموں میں بھی میدان کارزار برپا رہتا ہے یا پھر حرص و ہوس کے بتوں کے سامنے رکو ع و سجود کی اذیتیں۔

اور غزل ہے کہ ایڑیاں رگڑتی رہتی ہے اور جب اس مشقت سے تنگ آتی ہے تو معشوقوں پر تبرا کرنے لگتی ہے۔ اور پابندیاں ہیں کہ ہٹتی ہی نہیں، در میخانہ بند ہے اور در ریا کشادہ ہے، اور ریا کا یہ پیام ہے زہر سے لطف کشید کرو۔محبت کردار کی ایک خامی ہے جس کا مداوا غیرتی قتل کرتے ہیں۔ اور ہنسی کو زیر حراست رکھو کہ پیران دانا کے ماتھے پر شکنیں نمودار نہ ہوں۔ یہ کافر، وہ مشرک، گھر کے گھر جلا دو۔ اور گناہ و ثواب کے ارد گرد وہ خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں کہ کچھ اچھا سوچ لو تو مصلے پر بیٹھ کر گڑگڑانے لگو۔ اور جو اچھا سوچتا ہے، اس کا دل طعن و تشنیع سے جلانے لگو۔

اور رہنما ایسے جن سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کی بات کرو، وہ اپنی پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں اور سیدھے بزرگان سلف کے زانو نشین ہو جاتے ہیں۔ جیسے آکسیجن ہائیڈروجن کوئی بھوت ہیں اور اور سوالات کوئی شیاطین ہیں جن سے بچنے کے لیے کوئی مضبوط سہارا چاہیے۔

کھڑکی کے باہر جتنے بھی مسئلے ہیں وہ فاشزم کا نتیجہ ہیں۔ جمہوری بندوبست ان مسئلوں کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتا لیکن زندگی کو کم از کم قابل برداشت تو بنا دے گا۔ اور اگر جمہوریت چاہیے تو فاشزم سے دوری جمہوریت کی پہلی شرط ہے۔

ہم دنیا کے بہت سارے لوگوں کی طرح جمہوریت اور فاشزم کو ایک ساتھ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ جھوٹا سچ یا سچا جھوٹ جیسی ترکیبیں کوئی شعری یا اافسانوی ضرورت تو شاید پوری کرے لیکن ایک اچھی اور پر امن زندگی اس طرح کی تراکیب کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔

دیکھیں حافظ کی وکالت کرتے کرتے ہم کہاں پہنچ گئے،کیا کریں کچھ ایسے ہی ہیں

لیکن فاشزم جیسے کہتے ہیں ہمارے سسٹم سے میچ نہیں کرتا اور پاکستان جیسے متنوع ملک سے بھی اس کی کوئی مطابقت نہیں اور زندگی جیسی رنگا رنگ نعمت سے بھی اس کا کوئی تعلق نہیں، اس لیے آپ کا سر کھاتے ہیں۔

اور آخر میں آموختہ حافظ دہراتے ہیں۔

اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد

من و ساقی باہم سازیم و بنیادش در اندازیم

نہ صرف فاشزم بلکہ کاملیت پرستی کی ہر شکل کی بنیادیں اکھاڑنی پڑیں گی۔ اب دیکھتے ہیں وطنیوں میں اس بات کی ہمت ہے یا نہیں۔