مغربی ناول کا ہیرو ، حصہ چہارم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
ہیرو کے تصور کی بحث میں دوستوئفسکی کے ہیرو گو کہ زیادہ مدد فراہم کرتے ہیں تاہم لرمنتوف، گوگول، ترگنیف، ٹالسٹائی اور میکسم گورکی کے بعض ناولوں کے ہیرو بھی اہم ہیں۔ ’’اے ہیرو آف آور ٹائم‘‘ کا ہیرو پیچورین (Pechorin) انسانی نفس کا ایک ایسا معمہ ہے جس میں لرمنتوف نے اپنے زمانے کے انسان کی مختلف و متنوع بیقراریوں اور پیچیدگیوں کو یکجا کر دیا ہے۔مرے ہوئے مزارعین کی روحوں کو گروی رکھ کر پیسہ کمانے کے حوالے سے گوگول نے ’’ڈیڈ سولز’’ میں ایک ایسے ہیرو کا تصور پیش کیا ہے جس کی باطل پرستی میں خود اس کا سماج بھی ایک محرک کے طور پر موجود ہے۔ اسی سبب وہ اینٹی ہیرو کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
’’فادر اینڈ سنز‘‘ کے ہیرو بازاروف کے فکر و عمل میں عدمیت یا منکریت کے اظہار کی ایک غیر منضبط جھلک ملتی ہے۔ روس کے نقاد پی ساروف کے نزدیک تو وہ منکر وں اور منکریت کا سچا نمونہ ہے۔ وہ نفی کے سانچوں میں ڈھلا ہوا ایک ایسا کردار ہے جو ترتیب وتنظیم کے خلاف چلتا ہے اور اصول پر احساس کو، اعتقاد پر عقل کو اور تحسین پر تنقید کو ترجیح دیتا ہے۔
ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس‘‘ تاریخی ناول ہونے کے باوجود ہیرو کے وجود سے خالی ہے۔ البتہ اس میں تاریخ کا ایک فاتح نپولین بہ نفس خبیث دکھائی دیتا ہے مگر اس کے کردار سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ جنہیں تاریخ کا ہیرو سمجھ کر عوام پر تقدم دے دیا جاتا ہے وہ کس قدر کھوکھلے اور نام نہاد ہوتے ہیں۔ ٹالسٹائی کا ماننا تھا کہ ایسا واقعہ جس میں پانچ لاکھ لوگوں نے ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دیا، کسی فرد واحد کی منشا کا نتیجہ نہیں ہو سکتا اور یہ کہ تاریخ کے بارے میں وسیع نقطہ نظر اختیار کیا جائے تو اس ابدی قانون کا یقین ہو جاتا ہے جس کے تحت واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ دراصل ٹالسٹائی سمجھتا تھا کہ واقعات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ نظر تھا جس کے تحت اس نے ناول کے کسی کردار کو ہیرو جیسی مرکزیت نہیں دی۔ ’’اینا کاریننا‘‘ میں بھی لیون کی سیرت میں ایک ہیرو کی کشمکش کے بجائے ایک مصلح کی ہدایت یافتگی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ البتہ ٹالسٹائی کے مختصر ناول ’’ڈیتھ آف ایوان ایلچ‘‘ کے ہیرو کا المیہ ایک عام انسان کی کھوکھلی روح کے ساتھ موت کے تجربے کو مربوط کرتا ہے۔ یہی وہ ہیرو ہے جس کے وجود میں ٹالسٹائی نے اپنی ذات کے تضادات کو حل کرنے کی کاوش کی۔
ٹالسٹائی کے نزدیک زندگی کی دو قسمیں ہیں۔ مصنوعی اور مقصدی۔ مصنوعی زندگی میں حقائق مخفی رہتے ہیں۔ اس میں خود غرضی اور مفاد پرستی ہوتی ہے۔رشتے ناطے کھوکھلے ہوتے ہیں۔یہ زندگی ایک فریب اور فرار کے مترادف ہوتی ہے جو موت کے وقت انسان کو دہشت زدہ کر دیتی ہے جبکہ مقصدی زندگی انسانوں کے باہمی تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔تنہائی کا مداوا کرتی ہے اور موت کا سامنا کرنے کی ہمت مہیا کرتی ہے۔ ایوان ایلچ کا کردار مصنوعی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ایک سماج پرست کردار ہے جو ترقی، جاہ طلبی او رآسودگی ہی کو اپنی زندگی کو مرکز و محور سمجھتا ہے۔ اس کے شب و روز میں حیات بعد الموت کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ جب اس کی زندگی میں اچانک ایک طویل اور درد ناک بیماری داخل ہوتی ہے تو وہ لرز کر رہ جاتا ہے۔ موت اور زندگی کے بارے میں مہیب سوالات اس کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ سماجی معاملات اور ان کی رسمیت اور بے مقصدیت اس پر آشکار ہو جاتی ہے۔
بالآخر ایک دن نیم غنودگی کی حالت میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سیاہ رنگ کی کسی بڑی سی بوری میں ٹھنسا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے مسلسل ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ جب اس کی مدافعت دم توڑ دیتی ہے تو وہ اپنے وجود کی بے مائیگی کو تسلیم کر لیتا ہے اور درد کی ناقابلِ برداشت لہر کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ تب بوری کے منہ پر ایک روشنی نمودار ہوتی ہے جو اسے ابدیت کی ایک جھلک دکھا کر موت کی دہشت پر غلبہ آور ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ عرفان کی اس منزل پر وہ لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ موت کی حقیقت کو مان کر انسانی زندگی کوواقعی بامعنی بنایا جا سکتا ہے مگر وہ بول نہیں سکتا اور لوگوں کی نظر میں اس کا وجود جان کنی کے عذاب میں مبتلا ایک سماجی کارندے کی سطح پر برقرار رہتا ہے۔
فکری سطح پر جس طرح ایوان ایلچ کا رخ رسمیت کی طرف اور بازاروف کا رخ عدمیت کی طرف تھا اسی طرح میکسم گورکی کے ناول ’’دی مدر‘‘کے ہیرو کا رخ اشتراکیت کی طرف ہے۔ پلاگیا نلوونا (Pelageya Nilovna) ہیرو پاویل ولاسوف (PavelValasov) کی ماں ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بھی کسی ہیروانہ ہستی سے کم نہیں۔ وہ ایک مزدور عورت ہے جسے حقیقی طور پر ناول کے ہیرو ہی کی نہیں، تحریک آزادی سے وابستہ تمام محنت کشوں کی ماں ہونے کا استحقاق حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر وہ مزدوروں کو روحانی اخوت کے رشتے میں باندھے رکھتی ہے۔ انصاف پسندی اور انسان دوستی کا جذبہ اسے بصیرت سے ہمکنار کرتا ہے اور وہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے قابل ہو جاتی ہے کہ ’’زندہ روح کو قتل نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور یہ کہ ’’خون کا ساگر بھی صداقت کو نہیں ڈبو سکتا‘‘۔ یہ عظیم آگہی اس کے بیٹے کی شخصیت میں بھی نظر آتی ہے جو جہالت کو ترک کر کے اپنے ضمیر کی آواز سنتا ہے، فیکٹری کے غلامانہ طریقوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور مزدوروں کی فلاح کے لیے انقلاب کا کٹھن راستہ اختیار کرتا ہے۔
’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ میں دوستوئفسکی نے راسکولنی کوف (Raskolnikov) کی صورت میں ایسا ہیرو پیش کیا ہے جو اپنے زمانے کے انقلابی نظریات اور فاتحین کی عملی کامیابیوں سے متاثر ہو کر غیر معمولی آدمی کا ایک تصور وضع کر لیتا ہے اور پھر خود کو غیر معمولی آدمی مان کر ایک سود خور بڑھیا کو قتل کر دیتا ہے تا کہ اس کی بے اندازہ دولت کو اپنی اور دوسرے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال میں لا سکے مگر قتل کے بعد وہ شدید قسم کی روحانی خلش اور ضمیر کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس پر بیہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ یہ بات اس کے فہم میں نہیں آتی کہ جرم کا ارتکاب تو ہو گیا مگر یہ انسانیت کے لیے کیسے سود مند بنے گا۔
راسکولنی کوف کے حوالے سے غیر معمولی آدمی یا فوق البشر کا جو تصور سامنے آتا ہے وہ تاریخ کی سطح پر نپولین اور فلسفے کی سطح پر نطشے اور ہیگل کے تصورات سے جڑا ہوا ہے۔ نپولین کے حوالے سے راسکولنی کوف یہ جاننا چاہتا ہے کہ جب کوئی آدمی ایک قتل کرتا ہے تو اسے بطورِ مجرم سزا دی جاتی ہے لیکن جب یہی آدمی ہزار ہا لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور جملہ انسانی حدوں کو پھلانگ جاتا ہے تو اسے کیونکر فاتح کا لقب دیا جاتا ہے؟ نطشے کا فوق البشر بھی معاشرے کی بہتری کے لیے تگ و دو نہیں کرتا۔ وہ اپنی ذاتی شان اور انفرادی بقا کے لیے طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتا ہے اور دنیا کو اپنے قدموں پر جھکانے کے درپے رہتا ہے۔ اس کے مقاصد انسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی نوع پر پورے نہیں اترتے۔ اپنی انائے کبیر یا جرأتِ ارادہ کو پرکھنے کے حوالے سے راسکولنی کوف فوق البشری فلسفے کے ایک جز پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ جب وہ یہ توجیہ پیش کرتا ہے کہ شریفانہ خدمت پر منتج ہونے کی صورت میں جرم کا ارتکاب جائز ہے تو اس کا یہ نظریہ ہیگل سے مربوط ہو جاتا ہے۔
راسکولنی کوف کے جرم کا نتیجہ انسانیت کے حق میں کسی اچھائی یا برائی کی صورت میں نہیں نکلتا بلکہ ایک آسیبی سوال کی صورت اس کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے کہ قاتل اور نجات دہندہ ایک ہی قالب میں کیسے سما سکتے ہیں؟ یہی تضاد راسکولنی کوف کوخود اپنی تحقیر کا سزاوار گردانتا ہے۔ قصہ مختصر راسکولنی کوف ایک ایسا گمراہ ہیرو ہے جو دوستوئسفکی کے اس ضابطۂ اخلاق کی نمائندگی کرتا ہے کہ جرم خیر کا وسیلہ نہیں بن سکتا اور یہ کہ ایسے تمام نظریات غلط ہیں جن میں اتلافِ انسانی کا درس دیا گیا ہو۔ انسان خودی کے اثبات سے جتنی بھی طاقتوری حاصل کر لے، وہ کائنات کی برتر قوت کے سامنے ہمیشہ ہیچ رہتا ہے۔
خودی کے رد و اثبات، انسانی جوہر کی موجودگی و ناپیدگی یا معاشرے کی نظروں میں ذات کے ہیچ و سرفراز ہونے کا معاملہ دوستوئفسکی کے ناول ’’نوٹس فرام انڈرگراؤنڈ‘‘ کے ہیرو کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے جو تذلیل کی دو طرفہ خواہش میں مبتلا ہے، چاہے یہ خواہش فاعل کی سطح پر ہو یا مفعول کی سطح پر، ذلت اس کے لیے بمنزلہ ایک اعزاز کے ہے جو اسے طاقت و تسکین مہیا کرتی ہے۔
دراصل انڈر گراؤنڈ آدمی کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے سے علیحدہ رہنے میں تشفی پاتا ہے مگر معاشرہ اس کے ذہن میں اور راستے میں موجورہتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے زیادہ ذہین سمجھتا ہے لہٰذا اعتماد سے کسی عمل کے لیے فیصلہ نہیں کر پاتا۔ بے عملی اس کے شعور کی شدید ترین حالتوں کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہے کیونکہ وہ نتائج کے اس تنوع کا تصور کر سکتا ہے جو کسی عمل کی انجام دہی سے پیدا ہو سکتے ہیں اور ان ممکنہ دلائل کا بھی جو اس کے خلاف دیے جا سکتے ہیں۔
انڈر گراؤنڈ آدمی کو علت و معلول کے قوانین بھٹکاتے ہیں لہٰذا وہ عمل سے پہلے بار بار تجزیے کرتا اور تخمینے لگاتا ہے۔ دوستو ئسفکی اس امر میں یقین نہیں رکھتا تھا کہ بے عملی بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن اس کا خیال تھا کہ متعینہ ذہن کے ساتھ عمل کرنے والا آدمی زیادہ خطرناک ہوتا ہے عمل نہ کرنے والے آدمی سے جس کا ذہن متغیر و متحرک رہتا ہے۔ غور کریں تو یہاں ناول کے ہیرو کے عمل کا جواز سراسر داخلی واہمے یا ذہنی احساس پر مبنی نظر آتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تذلیل یا توقیر معاشرے کے لیے کسی حیثیت کی حامل نہیں تھی۔ دراصل ہیرو کی ساری ابتلا زندگی کی سچائیوں اور اچھائیوں کی مطلقیت میں یقین نہ رکھنے کے سبب تھی۔
ہیرو کے تصور کی بحث میں ’’دی ایڈیٹ‘‘ کا پرنس میشکن (Prince Myshkin) بھی اپنے انداز کا ایک مثالی ہیرو ہے۔ جس میں بے ریائی، سادگی اور سادہ لوحی کے اوصاف پائے جاتے ہیں ۔وہ کسی کے خلاف غم و غصہ نہیں رکھتا لیکن اس کا معاشرہ قدم قدم پر اسے استہزا کا نشانہ بناتا ہے کیونکہ وہ زندگی اور دنیا کے تضادات کو خاطر میں نہیں لاتا اور ہر کسی کے نشتر کو سہہ جاتا ہے۔ وہ ایک آدرشی ہیرو ہے جو معاشرے کی ریاکارانہ فضا کو محبت اور خدمت سے منقلب کرنا چاہتا ہے اور فرد کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا چاہتا ہے مگر معاشرہ اس آرزو کے بدلے میں اسے طرح طرح کی کلفتوں سے دوچار رکھتا ہے اور کم ترین خطابات سے نوازتا ہے حالانکہ وہ اخلاقی طور پر اس معاشرے سے ہزار گُنا برتر اور بہتراوصاف کا مالک ہے۔ وہ نہ احتجاج کرتا ہے نہ حق مانگتا ہے۔ وہ دل کا اتنا اچھا ہے کہ گنہگاروں اور مجرموں کے لیے بھی معافی کا خواستگار ہے۔
پرنس میشکن مسیحی اوصاف کا حامل ایسا ہیرو ہے جو مرگی کی بیماری سے صحت یاب ہو کر واپس آتا ہے تو زمانے کی ستائی ہوئی ایک بدچلن لڑکی نستاسیا کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے مگر نستاسیا اس سے متأثر ہونے کے باوجود اپنی منتقمانہ طبیعت کے باعث خود کو ایک خبطی تاجر کے ہاتھ بیچ ڈالتی ہے اور نتیجتاً اسی کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتی ہے۔ میشکن جب جائے واردات پر پہنچتا ہے تو نستاسیا کی بربادی پر ازحد صدمہ محسوس کرتا ہے مگر اس کیفیت میں بھی قاتل کے لیے اس کی دردمندی میں کمی نہیں آتی۔
یہ وہ مقام ہے جہاں دوستوئفسکی ایک رخ سے انسانی محبت کی معراج پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر میشکن کا کیا حشر ہوتا ہے اور اسے کیوں پسپائی نصیب ہوتی ہے، محمد مجیب کا تجزیہ بتاتا ہے کہ میشکن کا دوبارہ پاگل ہو جانا اس کی ناکامی کی دلیل ہے جس میں خود دوستوئفسکی بھی شریک ہے کیونکہ نستاسیا کو خدا سے اور دنیا سے خوش نہ کر سکنا گویا یہ تسلیم کرنا ہے کہ دل کے بعض دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کی دوا مسیحا کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ دیکھا جائے تومیشکن کا کردار ماڈرن سوسائٹی کی بے حسی پر ایک طنز کی حیثیت رکھتا ہے جو اتنی تبدیل ہو گئی ہے کہ اس کے لیے محبت اور خیر کا سادہ سا عمل بھی حماقت کی مساویانہ سطح پر آ گیا ہے۔
المیے اور یاس کی اسی فضا میں دوستوئفسکی کے ہیرو انسانی تقدیر اور انسانی فطرت کو فہم میں لانے کی کاوش کرتے ہیں۔ اس فضا میں الوہی قربت کی طلب بھی ایک تمثیل کے طور پر نظر آتی ہے جس کے عقب میں مرگی کی بیماری کارفرما تھی جو آسیبی طور پر سکون اور خلل کا دوطرفہ اظہار سمجھی جاتی ہے۔ ایڈیٹ کی طرح خود دوستوئفسکی بھی اس بیماری میں مبتلا تھا۔ اس کے سارے ہیرو خود اس کی ذات کے بھاری بھر کم تھیلے سے نکلے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ بزدلانہ اور غلامانہ رویے ایک خلقی جوہر کے طور پر انسان کی ذات میں موجود ہوتے ہیں۔ زندگی کی لایعنیت اور رواجیت ان کو اور بھی فروغ دیتی ہے۔ ایسے میں فلاح و عظمت کا حصول کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
یہی وہ سوال ہے جس کے سبب اس کے ہیرو شخصی سطح پر دوئی یا ذونگاہی کا شکار ہو کرخیر وشر کے درمیان معلق رہتے ہیں اور جبر و اختیار کے اخلاقی معمے کو حل نہیں کر پاتے۔ دوستوئفسکی کے ہیرو اسیرئ ذات کے تخالف میں حقیقت کی حدود کو جاننے کا جنون لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ سبقت اور ترجیح ان کا مسئلہ ہے جو انہیں آسمان کی بلندی میں لے جاتی ہے تو کبھی پاتال کے اندھیرے میں۔ ان کا وجود زندگی کی مذموم و مجروح راہوں میں کہیں اذیت کوشی کی علامت بنتا ہے تو کہیں ارادہ و عمل اور جزا و سزا کی کشمکش کا اعلامیہ۔ حق و باطل کے متعینہ نظریات سے ٹکرانے کا وصف کئی بار ان کو اینٹی ہیرو کی حدود میں لے جاتا ہے۔