مغربی ناول کا ہیرو ، حصہ سوم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
محبت اور زندگی دونوں میں ژولیاں کی ناکامی پورے معاشرے کی ناکامی قرار پاتی ہے جس نے اسے ہر رتبے سے محروم رکھا اور آخر دم تک ریاکاری پر سمجھوتہ کر لینے کا سبق دیا۔ کامیابی یا تو فوج کے طفیل مل سکتی تھی یا مذہب کے طفیل۔ چونکہ ژولیاں نے درمیانی راہ نکالی تھی اس لیے موت اس کا مقدر بن گئی۔ ڈی ایل گوبرٹ کا کہنا ہے کہ بطور ہیرو ژولیاں کا المیہ تشخص اس قوت سے زیادہ برتر دکھائی دیتا ہے جس نے اسے تباہی سے ہمکنار کیا۔
اگر ژولیاں کے مقابلے میں موپاساں (Maupassant) کے ناول ’’بل ایمی‘‘ (Bel Amy) کے ہیرو ڈورائے (Duroy) کو رکھا جائے تو ابتدائی سطح پر دونوں میں جنسی کشش اور عیاری کے بل بوتے پر عورتوں کو دام ترغیب میں لانے اور ان کی مدد سے ترقی کی منازل طے کرنے کا مشترکہ وصف پایا جاتا ہے مگر ڈورائے اس وصف کے سہارے معاشرتی طور پر عروج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔تاہم اس کامیابی کے پسِ پشت وہ ضمیر فروش معاشرہ ہے جو ایک بے ضمیر آدمی کی معاونت کرتا ہے۔ ڈورائے کا اس لطافت سے کوئی واسطہ نہیں جو روحانیت سے جنم لیتی ہے۔ اس کا لقب ’’بل ایمی‘‘ بھی یار طرح دار کا مظاہری مفہوم لیے ہوئے ہے۔
خود موپاساں نے بل ایمی کو ایک بدقماش آدمی کی تاریخ کا نام دیا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ڈورائے کئی بار آئینے میں اپنے عکس کے روبرو آ کر ٹھٹک جاتا ہے مگر ہر بار یہ لمحہ خود شناسائی کے ایک کمزور تصادم کے اعلامیے کی سطح پر رہتا ہے اور اس سے باور آتا ہے کہ حقیقت اور مجاز یا عکس اور اصل کی حدیں آپس میں جڑی ہوتی ہیں جن کو الگ کرنا ازحد مشکل ہوتا ہے۔ شخصیت کا جو تأثر معاشرے میں راسخ ہو جاتا ہے اس کی بنیاد پر آدمی کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ڈورائے اپنے معاشرتی امیج کو حقیقت جان کر احساس و ارادہ کی اس منزلت سے محروم رہتا ہے جو ژولیاں کے ہیروانہ تصور میں دکھائی دیتی ہے۔
بل ایمی کے ڈورائے کے لیے جسمانی لذت مقصود بالذات بھی ہے اور مال و منصب کے حصول کا ایک زینہ بھی۔ آندرے ژید کے ناول ’’(The Imoralist)‘‘ کے ہیرو مشیل Mechel) (کو ذہن میں لائیں تو وہ بھی جسمانی لذت کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے گو کہ اس کی سرگردانی میں مال و منصب کی ہوس شامل نہیں مگر ضمیر کی سطح پر وہ بھی ایک سویا ہواکردار ہے۔ وہ بیوی کی خدمت گزاری کو کوئی اہمیت نہیں دیتا،یہاں تک کہ اس بے چاری کو اس کی بیماری کے جراثیم لگ جاتے ہیں۔
لیکن مشیل کے لیے بیوی کی یہ قربانی بے معنی ہی رہتی ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی چیزمعنی رکھتی ہے تووہ صرف اور صرف اس کی جنسی بے تابی ہے جو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک دوڑائے پھرتی ہے مگر جب وہ شعور کی سطح پر دریافت کر لیتا ہے کہ اس کی بے چینی کا مداوا ہم جنسیت میں ہے تو اسے سکون آ جاتا ہے۔ ڈورائے کا رخ خارج کی طرف ہے۔ المیہ اس کے راستے میں آتا ہی نہیں۔ مشیل کے لیے بیوی کی موت المیہ بن سکتی تھی مگر تلاشِ ذات کے نفسانی سفر میں وہ اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ ڈورائے اور مشیل کی طرح بدکار تو ژولیاں بھی تھا مگر اس کی انا اور اس کے ضمیر نے اسے وہ المیہ جہت بخشی جس کے باعث اس کا ہیروانہ تصور مختلف ہو گیا۔
بالزاک کا بڈھا گوریو ایسا المیہ ہیرو ہے جو اپنی پدرانہ شفقت کو پرستش کی انتہا تک لے جاتا ہے جہاں درد ناک ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بڈھا گوریو عاشقوں کی طرح اپنی بیٹیوں پر جان چھڑکتا ہے اور چاہتا ہے کہ بیٹیاں بھی اس کی طرف مامتا کے جذبے کے ساتھ ملتفت ہوں مگر اس کو بیٹیوں کی طرف سے اذیتوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ وہ شفقت پدری کی اس انتہا تک پہنچ جاتاہے کہ اپنی بیٹیوں کے چاہنے والوں کو بھی عزیزرکھتا ہے اور ان کی باہمی ملاقاتوں کا اہتمام کر کے خوش ہوتا ہے۔ یوژین راستیناک سے اس کا تعلق اسی نوع کا ہے۔ گوریو ایک ایسا باپ ہے جو اپنے وجود کو بیٹیوں کے پیروں میں روندنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور واقعی ان کی محبت میں اپنے وجود کو مٹا ڈالتا ہے۔
بڈھے گوریو کا المیہ اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب بیٹیاں اس کی تکفین و تدفین میں بھی شریک نہیں ہوتیں اور اس کے جنازے میں صرف چار آدمی ہوتے ہیں۔ محمد حسن عسکری کے نزدیک گوریو کوئی قابل رحم پگلا نہیں ہے بلکہ ایک مکمل انسانی شخصیت ہے، اس کی کہانی یہ سوال پوچھنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا بے غرض محبت ہلاکت کا دوسرا نام ہے؟ کیا عظیم شخصیت کا انجام ہمیشہ المناک ہوتا ہے؟ کیا روحانی بلندی مضحکہ خیز بھی ہو سکتی ہے؟
گوریو کے اعمال و احساسات میں گو کہ حماقت، عجب اور خبط کے عناصر گھلے ملے ہوئے ہیں مگر اس کی رنجیدگی و بے چارگی اپنے تجربے اور تخیل میں بشریت سے ارفع نظر آنے لگتی ہے۔ اولاد کی خوشی ایک فطری چیز ہے لیکن یہی چیز اسے انتہائے محبت کی راہ سے تباہی کے کنارے پر لے جاتی ہے۔ کنگ لیئر کی تباہی میں بھی اس کی بیٹیوں کا ہاتھ تھا۔ المیے کا وہ مشترک نقطہ ہے جس کی بنا پر گوریو جیسا معمولی تاجر کنگ لیئر جیسے شاہانہ ہیرو کا رتبہ حاصل کر لیتا ہے۔
وکٹر ہیوگو نے ’’لے مزرابلز‘‘ میں ایک نیک صفت مجرم ژاں ول ژاں (Jean Valjean) کے روحانی سفر کو موضوع بنایا ہے جسے روٹی کا ایک ٹکڑا چرانے کی پاداش میں انیس برس تک قید کی صعوبتیں جھیلناپڑتی ہیں۔ جب وہ جیل توڑ کر فرار ہوتا ہے تو اس کے دل میں نامنصفانہ معاشرے کے خلاف سخت نفرت ہوتی ہے جو آدمی کو مجرم بناتا ہے اور پھر ٹھوکریں کھانے کے لیے اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ مجرم اگر اپنی اصلاح بھی کر لے تب بھی معاشرہ اس کے ماتھے سے رسوائی کا داغ نہیں ہٹا پاتا۔
وکٹر ہیوگو کا نظریہ تھا کہ ہمدردی اور محبت کی طاقت بھٹکے ہوئے آدمی کو بھی راہ راست پر لا سکتی ہے بلکہ اسے کامل بنا سکتی ہے۔ اس نظریے کی انتہائی مثال ژاں ول ژاں ہے جس کی سزا یافتہ مجرم سے برگزیدہ ولی میں کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ ژاں ول ژاں ایسا ہیرو ہے جو معاشرے کے گمراہ کن ماحول کا غلام نہیں بنتا۔ وہ اپنی خواہش کو اثباتی سطح پر بروئے کار لا کر ایک مثالی انسان بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ مر رہا ہوتا ہے تو اس کے سرہانے وہی چوری شدہ شمع دان پڑے ہوتے ہیں جو پادری نے اسے بخش دیے تھے۔ ہمدردی اور محبت کی انہی نقرئی قوتوں کے طفیل ژاں ول ژاں کو اندر کی روشنی حاصل ہو جاتی ہے۔
اندر کی یہی روشنی محبت، اطاعت اور وفا کی یہی لافانی کشش نوٹرے ڈیم کے مکروہ صورت کبڑے میں بھی نظر آتی ہے جس کے سبب وہ دنیا کے حسین ترین انسانوں پر سبقت حاصل کر لیتا ہے اور انسانی روح کی خوب صورتی اور اخلاقیات کی پاکیزگی کا اعلامیہ بن جاتا ہے۔ نوٹرے ڈیم ڈی پیرس (Notre Dame De Paris) کے مترجم نے بھی اسے ریاکاری، خود غرضی اور ہوس پرستی کے ماحول میں محبت کا سدا بہار پھول کھلانے والا ایسا ہیرو قرار دیا ہے جس کے ذریعے نام نہاد اخلاق پرستوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وکٹر ہیوگو کو انسانیت کا قائد خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے متذکرہ دونوں ہیرو اس تصور کے بہترین نمائندے نظر آتے ہیں۔
نتھینئل ہاتھورن کے ناول ’’دی سکارلٹ لیٹر‘‘ کے اولیا صفت اور عالم فاضل پادری ڈمسڈیل (Dimmesdale) کے ہیروانہ تصور میں آدم و حوا کی کہانی کا اثر صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ عیسوی روایت میں گناہ اور علم کا انسلاک بہت پرانا ہے۔ آدم کو شجر ممنوعہ یعنی نیکی و بدی کے علم کا پھل کھانے کی پاداش میں باغ عدن سے نکال دیا گیا تھا۔ یہی وہ گناہ تھا جس کے نتیجے میں آدم کو اپنے ہونے کا علم نصیب ہوا مگر بے دخلی کے نتیجے میں اسے بہشت یعنی آرام و آسودگی سے دور ہونا پڑا اور مشقت اس کے مقدر سے نتھی کر دی گئی۔
حیات انسانی جن مشکلات میں مبتلا نظر آتی ہے اس سے بے دخلی کے نتائج کی علامتی جہت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عورت کے ہاں زچگی کا عمل تو اس مشقت کو اور بھی نمایاں کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈمسڈیل اور ہیسٹر(Hester) ایک دوسرے سے مسحور ہو کر اضطراری حالت میں گناہ کر بیٹھتے ہیں تو عورت ہونے کے ناطے ہیسٹر کا حمل اور پھر بچی کا جنم اس کی سزا کو جلد ہی واضح کر دیتا ہے اور وہ سارا الزام اپنے سر لے کر زنا کاری کے سرخ نشان کو ایک تمغۂ رسوائی کے طور پر اپنے سینے پر سجا لیتی ہے جبکہ مرد ہونے کے ناطے ڈمسڈیل کی سزا مخفی رہتی ہے اور اسے خود کوبی اور ذہنی ایذا کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے مگر یہی عقوبت اسے عرفان ذات سے بھی ہمکنار کرتی ہے۔
ضمیر کا کانٹا یا گناہ کا بوجھ اس کے ذہن کو ایک ایسی رحیمانہ بلندی پر لے جاتا ہے جہاں وہ اپنے جیسی انسانی برادری کے گناہ گارانہ اعمال سے واقفیت کا عمیق رشتہ قائم کر سکتا ہے۔ حالانکہ گناہ سے قبل بیدار ضمیر ہونے کے باوجود وہ کم آمیز اور فاصلے پر رہنے والا شخص تھاجو کسی مرد یا عورت سے فطری انداز کا ہمدردانہ ربط رکھنے کا اہل ہی نہیں ہوتا۔
لیکن جونہی وہ کاملیت کے مقام سے گرتا ہے، اس کے اندرجذباتی تبدیلی آ جاتی ہے چنانچہ اس کا دل ہم آہنگی کی وحدت میں دوسرے دلوں کے ساتھ دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کے وعظ میں ایسی فصاحت آ جاتی ہے کہ وہ مذہبی جلسوں کو اپنی روحانیت کی آگہی سے گرما دیتا ہے۔ وہ اپنے گناہ کو روزمرہ کے معمول کا ایک تجربہ جان کر اس پر غور و خوض کرتا ہے۔ جب وہ وعظوں میں خود اپنے ہی گناہ کا پس منظر بیان کر کے اس پر احتجاج کرتا ہے تو لوگ اس کی بلیغ تقریر کو اس کی ذات کے بجائے اعتراف گناہ کی ایک بین الانسانی تمثیل خیال کرتے ہیں مگر اس تمام تر بلاغت کے باوجود اس میں اپنے گناہ کو واضح طور پر قبول کرنے کی جرأت پیدا نہیں ہوتی۔
ایک تجزیہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ شرم کی دیوار جسے ہیسٹر نے اپنے راستے میں ایستادہ نہ ہونے دیا، ڈمسڈیل تادم مرگ اس کے نیچے دبا رہا۔ یہی چیز اس کے احساس جرم کو بڑھاوا دیتی ہے۔ دن بہ دن اس کی جسمانی اور روحانی حالت مخدوش ہوتی چلی جاتی ہے۔ خود کو کوڑے مارنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ اس کا سارا تشدد داخلی پامالی پر آ کر مرتکز ہو جاتا ہے۔ دراصل یہی ڈمسڈیل کی فتح تھی جو قبول گناہ کے ساتھ ہی اسے موت کی آغوش میں سلا دیتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ پیورٹن گناہ کو ایسا زمینی تجربہ خیال کرتے ہیں جو انسان پر جنت کا دروازہ بند کر دیتا ہے یا پھر اسے معاشرے کی طرف سے دی گئی ایسی دھمکی خیال کرتے ہیں جو قانونی طور پر سزا دیے بغیر نہیں رہتی جبکہ ڈمسڈیل کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گناہ کا تجربہ شخصی نشوونما، ہمدردی اور تفہیم انسانی کا اعلامیہ بھی بن سکتا ہے۔ ڈمسڈیل کا نام بھی اس کے ہیروانہ تصور کے رخ کو متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ خیال فوراً dim یا dimness کی طرف جاتا ہے۔
روشنی اور تاریکی یا خیر و شر کے بیچ کی ایک دھندلی حالت۔ انسان کے ذہن کی اس جدلیاتی حالت پر نظر ڈالیں تو ہمارا المیہ ہیرو گناہ و علم کے مسیحی عقیدے کا ایک بدلا ہوا پیکر بن کر ابھرتا ہے اور یہ باور آتا ہے کہ ’’کوئی شخص اپنی شخصیت کے اعتبار سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اخلاقی قوانین توڑنے کی پاداش میں اسے سزا بھی مل سکتی ہے اور یہ سزا خود اس کو ضمیر دیتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ڈمسڈیل کی ضمیر پرستی اس تطہیر پسند اور دین دار معاشرے سے مختلف تھی جو گناہ کی تشہیر میں تشفی پاتا تھا اور جس میں چلنگ ورتھ جیسے سیاہ کار اور کینہ پرور لوگ بستے تھے۔ دراصل ہاتھورن نے اپنے ہیرو کی وساطت سے سزا کے اس ریاکارانہ تصور پر ضرب لگائی ہے جو سماج کے چہرے کو داغدار کرتا چلا جا رہا ہے۔
’’موبی ڈک‘‘ کے پیکوڈ کا کپتان اہاب (Ahab) وقوف اور فعالیت کی عام بشری سطح سے ماورا ایک خبطی ہیرو ہے جس کے خمیر میں ہلاکت کی جبلی خواہش رچی ہوئی ہے۔ اس میں قدیم اور جدید دونوں قسم کے ہیروؤں کی خوبو پائی جاتی ہے۔ وہ بیک وقت المیے کا بھی ہیرو ہے اور رزمیے کا بھی۔ اس میں اوڈیسس اور فاؤسٹ جیسے اساطیری کرداروں کا جوہر ملا ہوا ہے۔ علامتی کردار کی سطح پر اہاب کا درجہ کئی ہستیوں کے مساوی سمجھا جاتا ہے مثلاً یسوع مسیح کے طور پر، مین چائلڈ (Man child) کے طور پر جو اپنے باپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو طیش کا اظہار کرتا ہے یا خدا کی حاکمیت کے خلاف بطور شیطان احتجاج کرتے ہوئے۔ نیلسن جے سمتھ Nelson J. Smith کے مطابق یہ انفرادی شناختیں غلط بینی کا نتیجہ ہیں۔ اہاب ان شخصیات کا مجموعہ بھی ہے اور الگ سے ایک ’’آرکی ٹائپ‘‘ بھی دراصل ہرمن میل ول اہاب کو ایک بددماغ اور اذیت پسند کپتان کے کردار میں ڈھالنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اسے ایک ہیرو کی عظمت اور جلالت دے دی۔
موبی ڈک کے ناقدین اہاب کے پاگل پن کو غیر متنازعہ حیثیت دیتے ہیں۔ یہی دیکھیے کہ اگر وہیل شعوری لحاظ سے بداندیش مخلوق ہوتی تو اس کے تعاقب میں اہاب کی وحشت خیزی کو تسلیم کیا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ اہاب کے خبط نے متخیلہ کے تنزل یا تغیر کی ایسی شکل اختیار کر لی تھی کہ اسے سراب میں حقیقت نظر آنے لگتی ہے۔ دراصل اہاب ایک صاحب رویا مراقی ہے ۔اس کا خود کو پائیدار مینار اور آتش فشاں پہاڑ کے القاب دینا خود فریفتگی اور برگشتگی کے اس تجربے کو ظاہر کرتا ہے جس کی سزا سوائے سرگردانی اور تباہی کے اور کچھ نہیں ہوتی۔ ہرمن میل ول نے اپنے ناول ’’مارڈی‘‘ کے ہیرو کو بھی ایسی ہی سرگردانی و تباہی سے گزارا تھا۔ ایک ایسی یلّا(Yellah) کی تلاش میں جو تمثیلی سطح پر حسن و عفت کا نادر نمونہ تھی۔ بہرکیف خود اپنے ہی وجود کی تباہی، اپنے ہی خون کی عمیق ترین ہستی کی پامالی یا اپنی ہی سفید روح کی فنا پذیری پر کمر بستہ ہو جانا ایک ایسا امریکی رویہ ہے جسے لارنس نے موبی ڈک اور اس کے شکاری اہاب کے منتقمانہ رشتے میں تلاش کیا تھا۔
دراصل وہیل ایک غیر جانبدار قوت ہے جو اکثر ناقدین کے نزدیک خدا کی نمائندگی تمثیلی سطح پر کرتی ہے۔ موبی ڈک ایک آزادانہ وجود رکھتی ہے جسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس سے نباہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے تفہیم میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے وجود کے بیشتر حصے ہمہ وقت زیر آب رہتے ہیں۔ انسان کو بھی صرف سمندر کی بالائی سطح ہی مشاہدہ و تشریح کے لیے دستیاب ہو سکتی ہے جبکہ صداقت یا حقیقت وہیل کی طرح اس کی گہرائی میں مقفل و ملفوف رہتی ہے۔
اشمائیل کئی طریقوں سے وہیل کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ واضح نہیں ہو پاتی۔ وہ جب اس کے مکمل وجود کا ذکر کرتا ہے تو یہ یقین کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ کونسا مکمل وجود؟ سر، کھوپڑی یا کھال یا کوئی اور حصہ۔ وہ وہیل کے تمام تر وجود اور اس کے جوہر کو بیان نہیں کر سکتا۔ اس معمے کو خدا اور انسان کے بیچ تعلق کے استعارے کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اسے خواب اور حقیقت یا زندگی اور موت کا رشتہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال موبی ڈک اور اہاب کے بیچ جو رشتہ ہے اس کی توجیہہ جس زاویے سے کی جائے، اہاب کی بطلیت میں کوئی فرق نہیں آتا اور وہ ایک برگزیدہ ہیرو کے منصب پر فائز رہتا ہے۔