مغربی ناول کا ہیرو، حصہ ہفتم
از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
بیسویں صدی کے ہیرو کا بنیادی مسئلہ فرد اور معاشرے کے تصادم میں صداقت کی تلاش ہے جو انسان کی گم شدہ ہستی کی بازیافت اور وجود کی عدم تکمیل سے بھی تعلق رکھتی ہے، نسلی تفاوت اور اس انصاف سے بھی جس کے حصول میں سماجی برائیاں سدِّراہ بنتی ہیں۔ ٹونی موریسن (Toni Morrison) کے ’’بی لوڈ‘‘ کا ہیرو بھی غلامانہ نظام کی سفاکی میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ شطرنج کا ایسا مہرہ ہے جسے بار بار اپنی جگہ سے سرکا دیا جاتا ہے۔
سیموئل بیکٹ (Samuel Beckett) کے ’’مرفی‘‘ (Murphy) گراہم گرین (Graham Greene) کے ’’دی مین ود اِن‘‘ (The Man Within) اور سنکلیر لیوس کے ’’دی ٹرائل آف دی ہاک‘‘ اور ’’ایرو سمتھ‘‘کے ہیرو بھی صداقت کی تلاش کے اسی تناظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وجود کی خلیج یا روح کے خلا کو پُر کرنے کا مسئلہ بھی اسی تناظر کا ایک حصہ ہے۔ میلان کنڈیرا) (Milan Kundera کے ناول ’’Life Is Elsewhere‘‘ اور’’ Unbearable Lightness Of Being‘‘میں یہی مسئلہ عورت اور مرد کے رشتے کو سامنے لاتا ہے۔
عورت اور مرد کو زندگی میں ایک دوسرے کے تقرب کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے جبکہ انسانی خواہشات میں تضاد ہوتا ہے۔ مرد اس عورت کو کیوں چھوڑ دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور جس کے تقرب میں رہ کر وہ مکمل طور پر خوش ہوتا ہے۔ آخر وہ داشتہ کی بانہوں میں غیر محسوس طور پر کیا تلاش کرنے جاتا ہے؟ ۔۔اور پھر یہی مرد اسی عورت کو جسے وہ چھوڑ چکا ہوتا ہے دوبارہ پانے کے لیے اپنی آزادی، اپنے سماجی مرتبے، اپنے کام کاج حتیٰ کہ ہر چیز کی قربانی کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس تضاد اور تغیر کے اسباب کیا ہیں؟ کیا ذمہ داریوں اور بندھنوں سے دوری کسی آگہی یا کسی لطافت کی نمو کا سبب بنتی ہے اور زندگی کے کسی نقطے پر ایک خلا میں ڈھل کر مطلق طور پر ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے۔ اتنی ناقابلِ برداشت کہ یہ بوجھ فریقین کو اپنی زمین پرواپس کھینچ لاتا ہے۔ اس نکتہ سے باور آتا ہے کہ انسان کتنا کمزور ہے اور خواہشات کے تضاد نے اسے کس قدر ناخوش بنا دیا ہے۔
میلان کنڈیرا کے ہیرو جیروم (Jerome) اور تھامس (Thomos) ناخوشی کے اسی خلا کا شکار ہیں۔ جیروم کو اس خلا کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب اسے پہلی بار محبوبہ کا بدنی تجربہ ہوتا ہے مگر یہ تجربہ بھی اپنی معنی خیزی اور سرور انگیزی کے باوجود اس کی زندگی کو کسی متغیر راستے پر نہیں لا سکتا۔ اسی طرح تھامس‘ ٹریسا کی محبت کے باوجود ایک دوسری لڑکی کے ساتھ زناکاری کا شغل بھی جاری رکھتا ہے۔ ٹریسا محبت اور جنس کو ایک ہی شے سمجھتی ہے جبکہ تھامس کے لیے یہ دو الگ الگ عمل داریاں ہیں۔ فہم کا یہی فرق اسے وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت سے دوچار کرتا ہے۔
گبریل گارشیا مارکیز کے ہاں صداقت کی تلاش کا اپنا ایک طلسمی انداز ہے۔ اس کے ہیرو مقامی ثقافتوں کی روایت سے ابھرتے ہیں اور اس راستے سے جدید روایت تک آتے ہیں۔ تنہائی کی شدت، محبت کا روگ اور وجود کا احیا ان کے لیے انسانی تہذیب کا بنیادی المیہ قرار پاتا ہے۔’’ One Hundred Years of Solitude‘‘ کے کرنل ارلیانو بوئندا Colonel Aureliano Buendia کے لیے تنہائی وراثتی میلان کا جبکہ Love in the Time of Cholera کے فلورنٹینو کے لیے محبت ذات کے کہنہ آسیب کا درجہ رکھتی ہے۔
مارکیز نے فلورنٹینو اریزا (Florentino Areza) کو ایسا دلچسپ ہیرو بنا کر پیش کیا ہے جو ایک عورت کی محبت میں پاگل پن کی انتہا تک چلا جاتا ہے۔ فرمینا دازا (Fermina Daza) کی ایک جھلک ہی اسے گھائل کر کے رکھ دیتی ہے۔ معاشرے کے انتہائی مختصر دورانیے میں وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ فرمینا دازا نے اسے رد کر دیا ہے۔ وہ اپنی زندگی اس کے نام کر دیتا ہے، یہ سوچ کر کہ ایک دن وہ اس کی محبت جیت لے گا۔ اکاون برس نو مہینے اور چار دن کے بعد فرمینا دازا کے شوہر ڈاکٹر جووینل اربینو (Dr. Juvenal Urbino) کی موت کے ساتھ، جس کا یقین اسے اعتقاد کی حد تک تھا، اس کی محبت کے پُرمزاحم دور کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ادھر فرمینا پر بیوگی کی اوّل شب وارد ہوتی ہے اور ادھر وہ تجدیدِ وفا کا عہد کرتا ہے۔
فلورنٹینو اریزا کے اعصاب پر ہمیشہ فرمینا دازا کی جنونی محبت طاری رہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس عالم میں بھی سینکڑوں معاشقے رچاتا ہے اور لاتعداد عورتوں کے ساتھ ہم بستر ہوتا ہے مگر پھر بھی خود کو کنوارا سمجھتا ہے۔ اس کا اصرار قائم رہتا ہے کہ وہ جیسی محبت فرمینا کے ساتھ کرتا ہے، کسی دوسری عورت کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ امجد طفیل نے درست لکھا ہے کہ وقت رفتہ رفتہ خستگی اور بوسیدگی پیدا کر رہا ہے۔ جوان جسم بڑھاپے کی چادر اوڑھ رہے ہیں، کرداروں کے ارد گرد کی دنیا تغیرات کی زد پر ہے۔ ہر چیز بدل چکی ہے لیکن فلورنٹینو اریزا کی محبت میں کمی نہیں آتی۔ دراصل فلورینٹینو nymphomaniac مرد ہے۔ وہ مباشرت کے خبط میں مبتلا ہے اور شہوت کو یوں عمل میں لاتا ہے جس طرح ایک نشہ باز منشیات کا استعمال کرتا ہے۔
اس سے یہی مطلب اخذ ہوتا ہے کہ شاید وہ دل کے اس درد کو یا اپنی محبوبہ کی اس طلب کو جو اس کی تمام تر اذیتوں کا منبع ہے، بھلا دینا چاہتا ہے مگر جونہی خمار ٹوٹتا ہے، وحشت اس پر ہلا بول دیتی ہے۔ فرمینا کی محبت جسمانی اور نفسیاتی دونوں سطح پر اسے تڑپاتی ہے۔ دراصل اس کی محبت بمنزلہ ایک بیماری کے ہے جو اکثر اوقات ہیضے کی وبا کے مساوی نظر آتی ہے۔ جس طرح فلورنٹینو پختہ عمر کا ہے، اسی طرح اس کی بیماری بھی مزمن ہے۔ فلورنٹینو کے ہیروانہ تصور میں یہی نکتہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اسی نکتے سے پتہ چلتا ہے کہ محبت کی اناٹومی کیا ہوتی ہے۔
فلورنٹینو ایسا ہیرو ہے جسے محبت مخبوط الحواس بنا کر رکھ دیتی ہے اور ایک طاغوت، ایک جبر یا ایک وہم کی طرح اس پر حاوی رہتی ہے، یہاں تک کہ مجرمانہ حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ فلورنٹینو چھپ کر فرمینا کا تعاقب کرتا ہے۔ اس کے گھر کے چکر لگاتا ہے۔ جذبات کی یورش اسے شراب نوشی کی طرف مائل رکھتی ہے۔ وہ ایک کاروباری خط نہیں لکھ سکتا مگر محبت کے بیان میں اس کا قلم بالآخر رواں ہو جاتا ہے۔ محبت کی راہ میں اسے جو ابتلائیں پیش آتی ہیں اسی میں اس کا نشاط مضمر ہے۔
فرمینا دازا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ روایتی انداز میں وائلن بجاتا ہے اور جب اس اظہار کی پاداش میں اسے تین راتیں جیل کی کوٹھڑی میں گزارنا پڑتی ہیں تو اس کے احساسات ایک ایسے ایثار پیشہ آدمی کے ہوتے ہیں جسے میدانِ محبت میں شہید کر دیا گیا ہو۔ جب فرمینا دازا کا باپ اسے اپنی بیٹی سے دور رہنے کی تنبیہ کرتا ہے اور گولی مار دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ اس دھمکی کو یہ کہہ کر قبول کر لیتا ہے کہ محبت کے لیے جان دینے سے زیادہ شاندار وقوعہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ Thomas Pynchon نے فلورنٹینو کی محبت کو ’’دل کے ابدی پیمان‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔بالآخر یہی پیمان فلورنٹینو کو وقت پر غلبہ پانا سکھاتا ہے۔
مغربی ناول کے ہیرو کی جڑیں بنیادی طور پر تلاشِ ذات اور مطالعۂ وجود کی متنوع زمینوں میں پیوست ہیں۔بیسویں صدی اس ہیرو کی نمود کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوئی ۔اس صدی میں بہت کچھ تبدیل ہواجسے مغربی ناول کے ہیرو نے اپنے کردار میں محفوط کیا۔اصلاًبیسویں صدی مغربی انسان کے لیے ایک اذیت ناک جنم کے مترادف تھی۔ انیسویں صدی کے عقائد و نظریات کا اثر زائل ہو رہا تھا۔ انسان کے بارے میں روحانی تصورات ملیامیٹ ہو رہے تھے۔ مستقبل کے لیے جنتِ ارضی اور خوشحال زندگی کا جو نقشہ مرتب کیا گیا اس کا پول کھلنا شروع ہو گیا تھا۔ احساسِ تحفظ کی دیواریں ڈھ رہی تھیں۔ ناگزیر ترقی، مطلق العنانیت اور عقلیت پسندی نے انسانی یقین کو پارے کی طرح بکھیر دیا تھا۔ ڈارون نے انسان کے اشرف المخلوق ہونے کے تصور میں دراڑ ڈال دی تھی۔ انسان کی حیثیت ارتقائے حیات کی سیڑھی پرحیوانوں سے صرف ایک قدم ہی آگے تھی۔
فرائڈ نے بھی انسان کے مقدس تصور پر کاری ضرب لگادی تھی۔ لاشعور کی سطح پر شخصیت کی نئی ساخت کا ظہور ہونے لگا تھا۔ نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کر دیا تھا۔ انسانی معاملات میں اسباب و علل کی اجارہ داری قائم ہونے لگی تھی۔ جنگِ عظیم نے تو انسانی سماج کی قلعی ہی کھول دی تھی۔ پُرامید دعوے اور بلند بانگ نظریے زمین بوس ہونے لگے تھے۔ بیسویں صدی کی آمد نے یہ حقیقت عیاں کی تھی کہ انسان کے داخل اور اس کی عمیق و بسیط پیچیدگیوں کو جانے بغیر انسانیت کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ اسے سنوارا جا سکتا ہے۔ اس احساس نے ذہنوں میں انقلاب برپا کر دیا تھا اور انسان کا باطن توجہ کا مرکز بننے لگا تھا۔ فکر و نظر کے زاویے بدلے تو زندگی کی سچائیوں اور کائنات کی حقیقتوں کو دیکھنے کا طریقہ بھی بدلنے لگا۔ آرٹ اور ادب کے میدان میں بھی تبدیلی آئی اور انسان کی اصل کا سراغ لگانے کی آرزو تقویت پانے لگی۔ انسان کی اصل کا سراغ لگانے، معاشرے کی روح کو چھونے اور زندگی کے حوادث و تجربات کو بیان میں لانے کے لیے بیسویں صدی کے مغربی ناول نے جو فرض ادا کیا ، ادب میں کوئی دوسری صنف اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:
’’انسانی تقدیر کے مسئلے کی تشویش میں بیسویں صدی کا ناول شاعری سے بھی آگے رہا ہے۔ انسانی اقدار کی نئی تشکیل اور انسان کی تعریف متعین کرنے کی مہم اس ناول نے اس طرح اپنے ذمہ لی ہے کہ نفسیات اور فلسفہ تو ابھی تک اس کے پیچھے گھسٹ رہے ہیں۔ ’’روح کی بھٹی‘‘ میں اپنی تہذیب کا ’’ضمیر‘‘ ڈھالنے کی ذمہ داری بیسویں صدی کے ناول نگار نے ہی قبول کی ہے۔ انسان کیا ہے؟ انسان کی تقدیر کیا ہے؟ ان دو سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی جیسی پیاس آپ کو مالرو، سارتر، کامیو، سین تیگزوپری میں ملے گی، ویسی کسی فلسفی یا ماہر عمرانیات میں نظر نہیں آئے گی۔ نفسیات، فلسفہ اور دوسرے علوم پڑھ پڑھ کے چاہے آپ چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا بن جائیں، لیکن اگر آپ نے ناول نہیں پڑھے ہیں تو آپ بیسویں صدی کے انسان اور اس کے روحانی مطالبات کو نہیں سمجھ سکتے۔ غرض بیسویں صدی میں ناول کو دو کام کرنے پڑ رہے ہیں، ایک تو ’’آدمی‘‘ کی حقیقت بیان کرنا، دوسرے ’’انسان‘‘ کی تعریف ڈھونڈنا۔‘‘
ہیرو چونکہ ناول کا مرکزی یا کبیری فرد ہوتا ہے، اس لیے انسان اور آدمی کے تعلق کے جدلیاتی عمل میں اس کا وجود کوئی نہ کوئی تصور ضرور خلق کر رہا ہوتا ہے جس سے تفہیمِ حیات کا فریضہ ادا ہو سکے۔ تصور پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر ہیرو کی اس طلب یا Quest سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ مغربی ناول کا ہیرو اس تلاش اور طلب سے متصف ہے۔