برصغیر میں مذہبی منافرت کی ابتدا کیسے ہوئی؟
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں انگریزوں کی آمد سے جہاں بہت سے سیاسی، عمرانی، علمی اور فکری فوائد یہاں کے لوگوں کو حاصل ہوئے، جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی، اور آزادی اظہار جیسی اقدار اور سائنسی علوم ، جدید مغربی فلسفہ و ادب سے لوگ متعارف ہوئے، اور ایک نئے بین الاقوامی دور کا آغاز ہوا، اگرچہ عملی طور پر بہت سے کوتاہیاں بھی انگریزوں کے نام پر گنوائی جا سکتی ہیں، تاہم مجموعی طور پر یہ دور یہاں کے لوگوں کو کئی لحاظ سے آگے لے گیا، لیکن اس کے ساتھ انھوں نے مذہب کے نام پر ایک علیحدہ سیاسی اکائی کے تصور کو جو پروان چڑھایا، اس نے برصغیر کی سیاست و معاشرت میں مستقل منافرت اور بد امنی کا بیج بو دیا۔
مغربی افکار سے در آنے والا وطنی قومیت کا تصور یہاں مذہبی قومیت کا روپ دھار گیا۔ وہی ہندوستان جس کی یہ دیرینہ روایت رہی کہ کسی بھی مذہب کے یہاں آنے اور یہاں کے افراد کے کوئی بھی مذہب کا اختیار کر لینے پر مذہبی جبر کا کوئی واقعہ سماجی اور حکومتی دونوں سطح پر نہیں ملتا، ہر مذہب کو یہاں کھل کر پنپنے کا موقع ملا، وہاں اب سب سے زیادہ نفرت اور قتل و غارت گری مذہب کے نام پر ہوتی ہے۔
مذہبی منافرت کی یہ بنیاد 1909 میں اس وقت رکھی گئی جب مذہب کی مذہب کی تفریق کی بنا پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ تقسیم اور نفرت کے اس بیانیے کو حکومتی سرپرستی کے باوجود سماج میں جڑ پکڑنے میںدھائیاں لگ گئیں،1936-37 کے انتخابات تک لو گ اس سے متاثر نہ ہو سکے۔ آل انڈیا مسلم لیگ، جس کی سیاست کی بنیاد ہی جداگانہ انتخابات تھے، اسے ان انتخابات میں بھی مذہب کے نام پر بھی ووٹ نہ مل سکا تھا۔ مسلم سیٹوں پر بھی مسلم ووٹ کانگریس کو ہی ملتا رہا جسے سب کی جماعت ہونے کا دعوی تھا۔
یہ ایک تضاد تھا کہ ایک طرف انگریز مذہب کو سیاست سے بے دخل کر رہا تھا اور دوسری طرف سیاسی حلقہ بندیاں constituencies کو مذہب کے فرق کی بنیاد پر تشکیل دے رہا تھا۔ یعنی ایک ہندو، ہندو رہنما کو ووٹ دے، اور مسلم، مسلم رہنما کو، لیکن دونوں کو اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مذہبی معاملات میں اپنے اپنے مذہب دخیل کر سکیں۔ یہ کھلا تضاد تھا۔
بنام مذہب سیاسی اکائی کی نئی بنیاد فراہم ہوئی تو ہندو اور مسلم مذاہب کے پیشواؤں کو کس طرح سیاست کے اکھاڑے میں اترنے سے روکا جا سکتا تھا ؟جس مذہب کی بنیاد پر یہ سیاسی تقسیم کی گئی تھی اس مذہب کے علم بردار، رہنمائی کا منصب دوسروں کے لیے کیوں چھوڑ دیتے؟ چنانچہ مولویوں اور پنڈتوں کا سیاست میں کود پڑنا اس طرز سیاست کا بالکل منطقی نتیجہ تھا۔ مسئلہ اب بس یہ رہ گیا تھا کہ یہ سیاسی کشُتی بالکل ہی مذہب کے علم برداروں کے ہاتھ نہ آ جائے۔ اس میں کامیابی تو حاصل ہوئی کہ مرکزی قیادت لبرل اور سیکولر عناصر کے ہاتھوں میں رہی، لیکن دونوں اطراف کا مذہبی گروہ اتنا طاقت ور پریشر گروپ بن گیا کہ ان کو اور ان کے اثر سے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ان لبرل اور سیکولر قسم کے سیاسی قائدین کو بھی مذہبی زبان بولنا پڑتی تھی۔ لیکن ایک بار مذہبی سیاسی حلقہ بندیوں کی جو بنیاد ڈال دی گئی تھی وہ تقسیم کے عمل کو مزید وسیع کیے بنا رک نہیں سکتی تھی۔ کپڑے میں چرکا لگ گیا تھا، اس کا علاج رفو کرنا تھا، مگر رفو گروں کی کوئی نہیں سن رہا تھا۔ مہاتما گاندھی نے جان لیا تھا کہ جداگانہ انتخابات نفرت اور تقسیم کا بیانیہ ہے۔ انھوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اور ان کے ہم نوا علما نے بھی سیاسی مذہبی نفرت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی مگر نفرت کا بیانیہ مصالحت کے بیانیے سے ہمیشہ طاقت ور رہا ہے۔ جداگانہ انتخابات کا اصول کانگریس کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے مذہب کے نام پر تقسیم کے اس بیانیے کو اپنے اقتدار کے حصول کا ذریعہ سمجھا۔ اس کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسلم مذہبی سیاسی اکائی کو اپنے لیے مخصوص کرا لیں۔ اس میں انھیں کامیابی ہوئی۔ ان کی سیاست منفی سیاست تھی، یہ سیاست نعروں، اور حقوق کی دہائی کی سیاست تھی۔ اس میں خود کچھ کرنے کی بجائے دوسروں کی غلطی اور کمزوری پکڑ کر اسے ایکسپلائٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سیاست بہت آسان ہوتی ہےاور ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ یہ بھی کامیاب ہو گئے۔ مگر مسئلہ وہی تھا کہ جس مذہب کے نام پر حلقہ بندیوں کی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے تھے اس مذہب کو وہ سیاست میں داخل نہیں کرنا بھی نہیں چاہتے تھے، لیکن اس کا داخلہ روکنا ممکن بھی نہیں تھا۔ اس کے سد باب کے لیے منزل مقصود پر پہنچتے ہیں، 11 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ اعلان کر دیا کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی طور ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ ادھر کانگریس نے اگرچہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی تھی، لیکن مذہب کے نام پر جداگانہ انتخابات کا اصول تسلیم کر لینے کے بعد اور سیکولرازم کو بطور نظم حکومت نافذ کرنے کے باوجود اسے بھی انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان میں مسلمانوں کو کرنا پڑے۔ جب ووٹ، مذہب کی تفریق کی بنا پر تقسیم ہوا ہے تو اس سے اگلے مرحلے میں سیاست میں مذہب شامل کیوں نہ ہو؟ مذہب کے علم بردار بھارت میں ہوں یا پاکستان میں وہ سیاسی مذہبی سیاسی حلقہ بندیوں کے کھیل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ اسی لیے بھارت میں ہندوتوا اور پاکستان میں نفاذ اسلام کی تحریکیں ایک منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہیں۔
تقسیم ہند کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا کہ ہند اور مسلمانوں کے دو مذہبی گروہ سماجی سطح پر آپس میں لڑ پڑے تھے جس کے حل کے لیے مذہبی تفریق پر مبنی سیاسی حلقہ بندیاں کی گئیں اور جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا، بلکہ ہوا یہ ہے کہ مذہبی تفریق کے نام پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا جس نے سیاسی رقابت پیدا کی، مسلم حقوق کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے اس رقابت کو ابھار اور اس کے زور پر انتخابات جیتنا چاہے، یوں دو مذہبی گروہ سماجی سطح پر بھی لڑ پڑے۔ یعنی بے خبر لوگوں کو پہلے یہ بتایا گیا کہ تم دوسروں سے مختلف ہو، اور مختلف ہونے کی وجہ سے تمھیں تمھارے حقوق وہی دلائے گا جو تمھارے جیسا ہو۔ اس بے تکی منطق کو قبول کر لیا گیا۔ ہوتے ہوتے لڑائی ہو گئی اور اس لڑائی نے مسلم لیگ کے مقدمے کو مضبوط کر دیا، نفرت کے شعلے کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ مزید تیل اور ہوا دی گئی جس سے وہ المناک تشدد برپا ہوا جس کی تاریخ ہمیشہ اس قوم کا سر شرم سے جھکائے رکھی گی۔ نجانے کون سی جنت کی ضمانت تھی جو رہنما کے ہم مذہب ہونے پر ملنے والی تھی کہ سادہ لوگ جان کی بازیاں لگانے پر تل گے بلکہ دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ اس میں خواتین کی عصمت دری بھی وطن و مذہب کی محبت کا تقاضا بن گئی۔ یہ کیسی سیاست تھی جس نے انسانوں کو حیوان بنا دیا۔ یہ در حقیقت انسانیت کش سیاست تھی۔
تقسیم اس مذہبی منافرت کا علاج نہیں تھا۔ ایک بار جب مذہبی منافرت کو تقسیم کا جواز مل گیا بلکہ اسی بنا پر کامیابی کی سرشاری بھی مل گئی تو اس کا حوصلہ بلند ہو گیا چنانچہ مزید مذہبی امتیازات کو تلاش کر کے مذہبی منافرت نے مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے سے مختلف فرقوں سے زمینی نہ سہی مذہبی علیحدگی کی تحریک چلا دی۔ اجنبیت کی دیواریں صرف سرحد پر نہیں کھڑی ہوئیں، صوبوں، ضلعوں بلکہ قریہ و کوچوں میں بھی ایستادہ ہو گئیں۔ یہ دونوں ملکوں میں ہوا۔ دونوں ملک آئے دین مذہبی عدم برداشت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر، مذہبی تقدیس کے نام انسانیت پامال کی جا رہی ہے۔ یہ آگ بھڑکتی ہی چلی جا رہی ہے اور اب یہ اپنوں کو نگلتی چلی جا رہی ہے۔ آج اقبال کی طرح کوئی ‘شکوہ’ لکھ کر اپنے تن پر سر کو جدا ہونے سے بچا نہیں سکتا، آج کوئی ہندو، مسلمان ہو کر ہندو سماج کے قھر سے بچ نہیں سکتا۔ آج مندروں اور چرچوں اور مسجدوں کو سیکورٹی کے ضرورت ہے، جب کہ پہلے یہ حال تھا کہ ہندو راجے مسجدیں تعمیر کرا دیتے تھے اور مسلمان بادشاہ مندروں کی مرمت کرا دیا کرتے تھے۔ ہندو بنیے رمضان میں چیزیں سستی کر دیا کرتے تھے اور مسلمانوں ان کی گائے ذبح کرنے کی ضد نہیں کیا کرتے تھے۔ اور اگر گائے ذبح ہو تی تھی تو ہندو تحمل کیا کرتے تھے۔ ان کے سماجی نزاعات مذہبی منافرت کا باعث نہیں بنتے تھے۔
سیاسی جماعتوں میں رقابت اور عداوت ایک ناگزیر امر ہے۔ اس کی بنیاد اگر مذہب بنا دی جائے تو منافرت کا رخ مذہب کی طرف مڑ جاتا ہے۔ مسلم لیگ نے یہی کیا کہ اس نے مذہب کے نام پر تقسیم کی سیاست کو اختیار کیا ۔ دونوں ملک اسی ڈگر پر گامزن ہیں، جس کی بنیاد انگریز نے جداگانہ انتخابات کے ذریعے ڈالی تھی۔
پاک و ہند کا یہ حال انگریز کی اس مذہب کے نام پر سیاسی حلقہ بندیوں کی تشکیل سے پہلے نہیں ملتا۔ پہلے یہاں جتنی بھی جنگیں ہوئیں وہ زمین، دولت اور اقتدار کی وجہ سے ہوتی تھیں۔ مذہب کے نام پر شائد کوئی کوئی ایک جنگ ہندوستان کی اندرونی سیاست کی تاریخ میں موجود نہیں۔ مگر اب کوئی جنگ یا چپقلش مذہب کا نام شامل کیے بنا نہیں ہوتی۔
مذہب اسلام جب تک سیاسی اکھاڑے کا رقیب نہیں بنا ہندوؤں کو مسلمانوں کے مذہب سے کوئی پرخاش نہیں ہوئی۔ حتی کے مسلمان حکمرانوں کو قبول کرنے اور ان کے وہ درباری اور منصب دار بن جانے اور ان کی فوج میں شامل ہو جانے سے انھیں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ لیکن یہی مذہب جب سیاست میں حصہ داری مانگنے آیا تو لڑائی ہوئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جو اقتدار میں حصے کے طالب ہوئے وہ اپنے مذہب کو سیاست میں شامل کرنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ سیاست کی تاریخ میں ایسے لطیفے کی مثال ملنا مشکل ہوگی۔
مذہبی سیاسی اکائی سے ابھرنے والی نفرت کا الاؤ اس وقت تک ٹھنڈا نہیں پڑ سکتا، جب تک اس کی بنیاد، مذہب کے نام پر سیاسی تقسیم کے بیانیے کو جواز فراہم کرنا ختم نہیں کیا جاتا۔ جب تک دونوں ملکوں میں ہونے والے مذہبی دنگے اور فساد کو تقسیم کا جواز بنا کر پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ مسئلہ انسانوں کو انسانیت یاد دلا کر ہی حل ہو سکتا ہے۔ مذہب، سیاست سکھانے نہیں آتا۔ یہ آپ کی اخلاقی تہذیب کے لیے آتا ہے، اس کام اتنا ہی تھا کہ وہ آپ کو ظلم سے منع کرے، عدل کا حکم دے۔ یہ حصول اقتدار کا ذریعہ نہیں ہے۔
سیاسی حلقہ بندیوں کی بنا مذہب نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی بنا علاقائی تقسیم ہونا ہی معقول ہے۔ حکومت میں ایک اقلیتی نمائندہ ملک میں جگہ جگہ پھیلے اپنے ہم مذہبوں کے مسائل حل کیسے کر سکتا ہے؟
یہ خام خیالی ہے کہ ہم مذہب رہنما آپ کے حقوق کا زیادہ خیال کرے گا۔ وزیر اعظم تو ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ لامحالہ کسی ایک مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے بھی اخلاقی اور قانونی اعتبار سے پابند کیا جاتا ہے کہ وہ سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اسی طرح ایم این اے اور ایم پی اے خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اسے بھی اخلاقی اور قانونی طور پر پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کا بلا امتیاز مذہب خیال رکھے۔ مذہبی حلقہ بندیوں کو سیاست سے نکال کر آپ مذہبی رقابت کی جڑ ختم کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد سماج میں پھیلے مذہبی منافرت کے کے جن کو قابو کرنا مشکل نہیں رہے گا۔