سال نو ! خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

سال نو ! خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟

از، ملک تنویر احمد

سن دو ہزار سترہ کا سورج تاریخ کی اتھاہ گہرائی میں ڈوب کر ماضی کا حصہ بنا چکا ہے۔ ان سطور کو سپرد قلم کرتے وقت سن دو ہزار اٹھارہ کا سورج اپنے پورے آب و تاب اور رعنائی کے ساتھ افق کے اس پار سے طلوع ہو کر دھرتی کو اپنی کرنوں سے منور کر رہا ہے۔

یہ نئے سورج مہ و سال کے بدلنے کا سندیسہ اپنے ساتھ لایا ہے۔ اس نئے سورج نے اس مملکت کے باسیوں کو ایک نئے سال کی شروعات کی نوید دی ہے۔ ایک ہنگامہ برپا ہے۔ ایک شورو غلغلہ بلند ہوتا ہے۔

نئے سال کی آمد پر یہ شور سن کر فارسی کا شاعر یاد آرہا ہے جس نے کہا تھا ’’ایں چہ شورے ست کہ در دور قمری ہینم (یہ کیسا شور ہے جو میں چاند کے چکر میں دیکھ رہا ہوں)۔

یہ کیسا شور ہے جو میں سورج کے تین سو پینسٹھ چکر مکمل کرنے کے بعد ایک بار پھر اپنے مدار میں نئے چکر کی شروعات پر برپا ہے۔

یہ شور، ہنگامہ، جشن، رنگ و نور کی بارش نئے سال کی آمد کی نوید تو دیتی ہیں لیکن یہ نیا سورج ہم پاکستانیوں کے لیے شاید پرانے سورج سے زیادہ مختلف نہ ہو۔ یہ نیا سورج اس پرانے سورج کا ہی پرتودکھائی دیتا ہے جو اکتیس دسمبر دوہزار سترہ کو افق کے پار ڈوب کر ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔

اس ماضی پر یاد آیا کہ انسان تو کیا قدرت بھی ماضی کو بدلنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ہم میں ماضی کو بدلنے کی سکت عنقا ہو سکتی ہے لیکن مستقبل کو سنوارنے کی قوت و اختیار قدرت نے ودیعت کر رکھی ہے۔

اس طاقت سے ایک سنہری، روشن اور تابناک مستقبل کشید کیا جا سکتا ہے،غازہ و رخسار کو سنوارا جا سکتا ہے، خوابوں کو تعبیر کی صورت دی جا سکتی ہے، تصورات کو اقدامات کے قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کے لیے سن دو ہزار سترہ کچھ ایسا خوش کن اور دلفریب نہیں رہا کہ ہم اس کی یاد سے سرشار ہوں۔ اس ریاست اور سماج کی جنم جلی قسمت میں سن دو ہزار سترہ بھی گزشتہ کئی برسوں کی طرح پستی، تنزلی، ندامت، ہزیمت اور کمزوری کی نئی داستانیں رقم کر کے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

گزشتہ برس ریاست اور سماج کس طرح اپنوں اور غیروں کے دیے ہوئے چرکوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ہوئے اس کے لاتعداد مظاہرے گنے جا سکتے ہیں۔ دیگ کے چاولوں کا رنگ اور ذائقہ چکھنے کے لیے جیسے ایک چاول ہی کافی ہوتا ہے کچھ ایسے ہی اسلام آباد میں برپا ہونے والے اس دھرنے کا تذکرہ ہو جائے جس میں مذہب کے نام پر ایک گروہ نے مملکت کے پایہ تخت کو مفلوج بنانے کے بعد ریاست کے کارپردازوں کو بھی کچھ ایسے اپاہج کر ڈالا کہ انہوں نے ریاست کی اس ساری شوکت و سطوت کو ایک معاہدے کی نذر کر ڈالا اورجس میں ریاست ہر نوع سے ایک شکست خوردہ فریق ٹھہری۔

گزشتہ برس مذہب اور مسلک کے نام پر انتہا پسندانہ افکار اور رجحانات کو بھی مہمیز ملی اور اب انتہا پسندانہ سوچ و فکر ایک مخصوص مکتب فکر کی اجارہ داری سے نکل کر دوسرے بہت سے مکاتیب فکر تک پھیل چکی ہے اور اس سلسلے میں تقریباً تمام ہی مکاتیب فکر خود کفیل ہو چکے ہیں۔

اب اس نوع کی سوچ و فکر کو پروان چڑھانے کے لیے یہ زمین بہت سازگار ہے۔ ازکار رفتہ قصائص اور منقولات کی بھرمار جس کے ذریعے ایک ہیجان پرور ماحول پروان چڑھایا جاتا ہے جو ہر مخالف رائے کو تکفیر و الحاد کی تیغ سے کاٹ ڈالتا ہے۔

گزشتہ برس مردان یونیورسٹی میں مشال خان نامی نوجوان کی اس ہجوم کے ہاتھوں موت کو ہی ملاحظہ کر لیں کہ جس میں مذہبی جذبات کو بر انگیختہ کر کے ایک زندگی سے بھرپور

نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

گزشتہ برس سب سے زیادہ ہزیمت ہمارے ہاں اس جمہوریت اور اس کے نام نہاد علم برداروں کو سہنی پڑی جن کے ناکردہ اور کردہ گناہوں کی بدولت سویلین بالادستی کو خواب تو خاک شرمندہ تعبیر ہوتا مزید گراوٹ کا شکار ہو گیا۔

جمہوریت نامی ریاستی بندوبست کے تحت انتخابات میں کامیاب ہونے والے حکمرانوں پر بجا طور پر ان قوتوں نے کچھ زیادہ ہی بھاری ہاتھ رکھا جو دراصل ملک میں قوت و اختیار کے سرچشمے پر قابض ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی اور کج فہمی کے بھی کیا کہنے جو ہر پڑی لکڑی سے ٹکرانے اور اڑتے تیر سے اپنے آپ کو زخمی کروانے کے شوقین ہیں۔

سویلین بالادستی جس بری طرح مجروح ہوئی اس میں نادیدہ قوتوں کے ساتھ ساتھ سویلین حکمرانوں کی حرکتوں کو بھی دخل رہا وگرنہ ڈان لیکس اور ختم نبوت جیسے نازک موضوعات کو اس بری طرح ہینڈل نہیں کیا جاتا جس کا نظارہ اس ریاست کے خاص و عام نے تمام نوع کے میڈیا پر کیا۔

اب نئے سال کی شروعات ہو رہی ہیں، یہ سویلین حکومت اب فقط آئینی مدت کے بچے کھچے دن پورے کرنے کی تگ و دو میں جتی ہوئی ہے۔

فرد ، قوم اور معاشرے کی تعمیر کے بارے میں سوچنے کے لیے ان کے پاس فرصت ہے اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں ان کے لیے جگہ۔ دو چار سڑکیں، میٹرو اور چند ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر کے یہ ملک و قوم کے مسیحا بننے کی نا بکار کوشش کر کے سال نو میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں نئے مینڈیٹ کے متلاشی ہیں۔

سال رفتہ میں ان کے دور حکمرانی میں سماج اور اس میں بسنے والے افراد ان کے خراب طرز حکمرانی سے جس بری طرح مجرو ح ہوئے ہیں اس کے بعد خوش کن توقعات کی سوچ بعید از قیاس ہے لیکن جب ان کے مقابل سیاسی قوتوں کی حالت ملاحظہ کی جائے تو پھر مایوسی و ناامیدی کے مزیدجھٹکے جسم و جان کو لگتے ہیں۔

ان سے بھی یہ توقع باندھنا کہ یہ معاشرے کے بکھرتے تارو پود کو دوبارہ سے جوڑ دیں گے ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں کیونکہ ان کی واضح ترجیح بھی فقط اقتدار تک رسائی ہے جس کے لیے چاہے وہ پس پردہ قوتوں کے آلہ کار بن جائیں یا انتہا پسندقوتوں سے تائید و حمایت کے طلب گار ان کے لیے اب کچھ معنی نہیں رکھتا۔

سال نو میں شاید اس ملک میں حکمران تبدیل ہو جائیں لیکن تلخ معروضی و زمینی حقائق تبدیل ہونے کی کوئی آس و امید نئے حکمرانوں سے لگانا خودفریبی سے زیادہ کچھ نہ ہوگا کیونکہ پاکستانی ریاست اور سماج کے حقیقی سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی کے پاس فہم و فراست ہے اور نہ شاید کوئی اس کٹھن اور مشکل راہ پر گامزن ہونے کے لیے آمادہ کہ انتہا پسندی، جنونیت او ر وحشت کی آگ کے بڑھتے شعلوں سے معاشرتی تارو پود بھسم ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اب سال نو میں بھی ہمارے مقدر بدلنے والے نہیں تو پھر آدمی کیوں نہ فیض صاحب کی طرح بول پڑے ع

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی

ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی