بابا جان، مجھے کالے کمرے نہ بھیجیں
از، یاسر چٹھہ
آج کی اہم بات یہ ہے کہ آج میاں انار سلطان کا رخ لائبریری کی طرف ہو گیا۔ اس شہ سُرخی کی تفصیل سے پہلے میاں انار کی علمی و ڈِگروی تاریخ پر کچھ بصیرت حاصل کرنا مناسب خیال ہو سکتا ہے۔ بطورِ صلہ آخر میں ان کی شخصیت کا ایک پَرتو ان کی زندگی کے فلسفے کی ایک مثال کے طور پر دیکھنا بعض کی زندگی کے لیے نئے در کھولنے کے در کھولنے کے امکانات رکھتا ہے۔
گو کہ میاں انار سلطان عام بھولی بھالی کتاب سے کوسوں کا فاصلہ رکھنے ہی کو وقت کی بچت کا حامل صحت مندانہ اور مناسب رویہ سمجھتے ہیں، لیکن وہ ایسے بھی کافر نا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیمی ڈگریوں کے کشیدی برسوں میں خوب انداز سے درسی کتابوں کے خلاصے اور امدادی کتب ازبر کی تھیں۔ جی، تعلیمی ڈگریوں کے کشیدی برسوں میں! جملے کے اس حصے کے دُہرانے کو ٹائپنگ یا ادارت کی سہو مت جانیے گا۔ ایسی ایسی ذات کے گیس پیپروں کی مجلد کتابوں کو ثواب دارین سمجھ کے رٹتے تھے کہ حیرانی دم بہ خود رہ جاتی تھی۔
خدا بھلا کرے امتحانی پرچوں کے مرتب کرنے والوں کا کہ سب ڈگریوں کے امتحانی دنوں میں ہر ایک پرچہ ہمارے میاں انار کو کسی اہلِ کشف کی طرح دیکھا بھالا سا ملتا۔ خدا بھلا کرے ان عبقری پرچے مرتب کرنے والوں کا کہ کبھی صراطِ مستقیم سےرُوگردانی نا کرتے تھے؛ ہمیشہ بازار میں پائے جانے والے گیس پیپروں میں موجود سوالوں اور جوابوں کو من و سلوٰی جانتے تھے؛ ان صاحبان کو بنے بنائے سوال کیا پورے کے پورے پرچے با آسانی دستیاب جو ہو جاتے تھے۔ جی بالکل بنی اسرائیل کے برعکس، نا شکرے کبھی نا ہوئے۔
نتیجہ یہ نکلتا رہا کہ میاں انار سلطان اور ان جیسے، ہر جماعت میں ہمیشہ پہلی نہیں تو دوسری پوزیشن کے تو کسی اور کو قریب نا پھٹکنے دیتے۔ اور آج ماشااللّہ میاں انار سائنس کے ایک بہت اہم مضمون میں ایم فل کیے بیٹھے ہیں۔ نوکری کے حصول کے سلسلے میں مقابلے کے امتحان میں بھی یہ آزمودہ نسخہ ہمہ گیر طور برحق رہا۔
ایک جملے میں اوپر کی سطروں کو سمیٹوں تو میاں انار سلطان نے کامیابی کے تمام گُر نا صرف جان لیے تھے بلکہ پتلی گلیوں اور سب یُو ٹرنوں اور شارٹ کٹوں کا شعور اپنی ذات کا حصہ بنا لیا تھا، اور نظام نے بھی ثمر جھولی میں بھر بھر ڈالا تھا۔
اس پورے تعلیمی اور ڈِگروی کامیابیوں کی اونچی پروازوں کے رنگین سفر سے اور نظام کی جانب سے قدم قدم کے انعامات و اکرامات کے صدقے انہوں نے ایک فوق تجربہ کشید کر لیا تھا۔ اس تجربے کو میاں انار سلطان ایک جملے میں سموتے تھے؛ اور ایک سانس میں اپنے ہمیشہ کے با وضو جسم کے اوپری حصے میں لگے مُنھ سے ادا کرتے تھے کہ یہ ادب، یہ فلسفہ، یہ کہانیاں، یہ شاعری، یہ سب کتابیں ساری کی ساری لا یعنی اور لغو ہیں؛ ویہلے اور نکمے لوگوں کا کام ہے۔
تو اوپر ہم نے بات کی تھی، یہ کہ آج کا دن کوئی عام دن نہیں تھا۔ آج میاں انار سلطان لائبریری آئے تھے۔ لائبریری کے در و دیوار اور سارے کان کھڑے تھے کہ سُلطانِ زمان و تعلیمی نظام پتا نہیں کیا بولیں گے، کہ وہ تو آج کتابوں کی مسجد، مندر، چرچ، ہیکل، مدرسہ و آشرم میں آ گھسے تھے۔ بمطابق انگریزی محاورے کے چائنہ شاپ میں آج کون گُھس آیا تھا کہ سب برتن کانپ رہے تھے۔ میاں انار آئے تو آگے آ کہ کیا دیکھتے ہیں کہ عاجز علمی صاحب ایک موٹی سی کتاب پر نظریں جھکائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھے ہیں۔
میاں انار سلطان نے اپنی سلیقہ سے بڑھائی داڑھی کو اپنی مُٹھی میں گرفت کرتے اور سارے بالوں کو مَس کرتے آخر میں جا کر آزاد کر دینے کے بعد مُکرر اسی مشق کو دہراتے دہراتے عاجز علمی صاحب کو سلام کہا۔
عاجز صاحب چونکہ اپنے آپ میں اور اس موٹی کتاب میں مگن تھے اور لائبریری کا روح افزاء سکوت و سکون تھا، اس پہ اچانک با آواز بھاری سلام پہ کچھ ٹھٹھکے۔ پھر سنبھل کر جواب دیا اور کہا،” میاں آپ آج کدھر کو آن پہنچے!” میاں انار نے کہا بس ایسے ہی ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا دیکھوں تو سہی کون کیا کر رہا ہے۔
خیر، رسمیاتِ علیک سلیک سے دم پاتے ہی میاں انار سلطان نے اپنے تئیں پہلا علمی سوال داغا،” یہ کیا کتاب پڑھے جار ہے ہو؟”؛ عاجز علمی صاحب نے جواب دیا کہ یہ اردو کے ایک کلاسیک شاعر داغ ہیں ان کی کلیات دیکھ رہا ہوں۔ میاں انار سلطان کے چہرے پہ سوالوں کی جُھریاں در جُھریاں اُبلنے لگیں، کہنے لگے، “یہ شاعری وائری سے کیا ملتا ہے، کوئی فائدہ ہے اس کا زندگی میں؟”
عاجز علمی صاحب کو اس سوال پر کچھ اچنبھا نا ہوا۔ پھر بھی انہوں جواب دینا مناسب سمجھا اور کہا، ” شاعری آدمی کو انسان بناتی ہے؛ گوشت پوست سے بلند کر کے ایک روح میں ڈھالتی ہے۔ سوچ کو اور عمل کی تاریکیوں میں روشنی بنتی ہے۔ الغرض نا صرف خود زندگی ہے، بلکہ زندگی کرنا سکھاتی ہے۔”
وہ اور بولنا چاہتے تھے لیکن میاں انار سلطان کے کان سُرخ ہونا شروع ہوگئے اور ان کی کِناریوں پہ کچھ کچھ حدت سی ہونا شروع ہوگئی۔ یہ سب باتیں ان کی حسابی کتابی شعورِ ذات سے ٹکراتی محسوس ہوئیں تو عاجز علمی کو کہتے ہیں کہ آئیے ذرا لائبریری سے باہر جا کے کینٹین میں چائے پیتے ہیں۔ عاجز صاحب چائے کی دعوت ٹالنا گناہ سمجھتے تھے اور یوں بھی میاں انار سلطان کی موجودگی میں کوئی شعر و سخن کی بات تو ہو نہیں سکتی تھی۔ اس لیے سب رستے انہیں کینٹین ہی کو بلاتے مناسب محسوس ہوئے۔
کینٹین کے رستے میں میاں انار سلطان کہتے ہیں کہ ان کا ڈھائی سال کا بیٹا بڑا شریر ہوگیا ہے۔ عاجز عملی نے کہا “ہر وقت ہمارے بھتیجے کے شکوے ہی کرتے رہتے ہو، اب کیا کر دیا اس معصوم نے؟” میاں انار کہتے ہیں کہ کل رات ڈیڑھ بجے جاگ گیا اور کہتا تھا کہ ‘بابا مجھے نیند نہیں آ رہی، میرے ساتھ کھیلو!’ میں نے بہتیرا کہا کہ سو جاؤ، لیکن وہ بضد رہا۔ پھر میں نے اسے کہا کہ اگر اب تم مجھے کھیلنے کا کہو گے اور سوؤ گے نہیں تو میں تمہیں گھر کے کالے اندھیرے کمرے میں چھوڑ آؤں گا۔”
عاجز علمی صاحب کے ماتھے پہ شِکنیں نمودار ہونا شروع ہوگئیں، البتہ میاں انار سلطان کی باچھیں کِھلنے کی آخری حدوں کو چھونے لگیں۔ ایک عجیب سی فتح کی سرشاری کا احساس ان کی باتوں اور لہجے میں جھلکنے لگا۔ عاجز علمی صاحب نے مارے حیرانی کے پوچھا، “تو پھر کیا ہوا؟” میاں انار سلطان نے کھلکھلاتے ہوئے اپنے ڈھائی سال کے معصوم بچے کے جملے کو اپنی زبان میں دہراتے کہا کہ پھر کہتا تھا، ” بابا، مجھے اندھیرے کمرے میں نا بھیجنا، مجھے وہاں بہت ڈر لگے گا۔ میں سو جاتا ہوں۔”
میاں انار سلطان تو اپنے اس نو دریافت شدہ شارٹ کٹ اور اس کی کامیاب برت سے جامے میں پُھولے نہیں سما رہے تھے، البتہ عاجز علمی ایک ڈھائی سال کے بچے کو اس طرح تاریکیوں میں ڈالے جانے سے ڈرانے اور اس کے بچے کی بنتی ابھرتی اور فطرت کے اس پھول کی کِھلتی شخصیت پر پڑنے والے نفسیاتی مضمرات پہ سٹپٹاتے رہ گئے۔ غور سے دیکھنے پر پتا چلتا تھا کہ وہ ہلکے سے آبدیدہ بھی ہوگئے تھے اور زیرِ لب انہیں یہ بولتے سنا جا سکتا تھا، “آدمی سے انسان بننے کا سفر کس قدر طویل ہے۔ بھلا اندر کی تاریکیوں کا شعور کیونکر ہو۔ ڈُونگا پینڈا ہجر دا نئیں مُکدا!”
ہماری یاد کے پانیوں میں بھی کارل یُونگ کا یہ کہنا تیرنے لگا کہ روشنیوں کا سفر اپنے اندر کی تاریکیوں کے شعوری ادراک سے ہی شروع ہوتا ہے۔ کتابیں، شاعری اور لائبریری اپنے اندر کی تاریکیوں کو جھانکنے میں معاون ہوتی ہیں۔ مگر ہمیں اپنے اندر کی تاریکیوں کا ادراک کرنے کی تڑپ تو ہو۔ ہم کب تک اپنے اندر کے اندھیرے کمرے کو سینے سے لگائے رکھیں گے؛ محض معصوم بچوں کو اس سے خوف زدہ کرنے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر برتتے رہیں گے؟
پس تحریر: کچھ مہینے قبل عزت مآب وفاقی وزیر برائے داخلہ، ترقیات، منصوبہ بندی، اصلاحات احسن اقبال صاحب نے بھی پاکستانی سماج کی ایک موجودہ روایت سے جڑا ایک جملہ بولا تھا اور راوی کا کہنا ہے کہ وہ اکثر یہ جملہ مختلف منصوبہ جات کی منظوری دیتے وقت دہراتے ہیں۔ ہماری یادداشت کچھ ضعیف ہوتی جاتی ہے، درست ترتیب سے کہے سنے لفظ یاد نہیں رہتے۔ بہرحال روح و قلب پر لفظوں کی پڑی خراشیں کچھ کچھ یاد رہتی ہیں۔ وزیر موصوف صاحب کہتے ہیں یونیورسٹیوں میں فلسفہ، ادب اور زبان کی تدریس پہ اخراجات قومی خزانے کا زیاں ہوتے ہیں۔
ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں ایسی سوچ اور جملے صرف اسی وقت ادا ہوتے ہیں جب ان علوم و فنون پر اٹھنے والے اخراجات وزیر صاحب اور ان جیسے اصحاب نے کافی حد تک پہلے ہی بچا لیے ہوتے ہیں۔