اپنے بچے آپ بچاؤ
از، نرگس زہرا
خاموشی ہوتی ہی شاید ٹوٹنے کے لیے ہے۔ ضبط اور برداشت کا دامن بھی کبھی نہ کبھی ہاتھ سے چھوٹنا ہی ہوتا ہے۔ صبر بھی متزلزل ہوتا ہے۔ مانا کہ سب ٹھیک ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ جس طرح غلطی اور جرم میں فرق ہے اسی طرح جرم اور بربریت، بربریت اور وحشت اور وحشت اور حیوانیت کے بھی درجات ہیں۔ پستی کے بھی درجات ہیں۔ پاتال کی بھی ایک حد ہے۔ اور جب جتنی حد پار ہوجائے تعزیرات اور سزائیں بھی اسی حساب سے ہوتی ہیں۔ مگر جب انسانیت پستی کی تمام حدود سے نیچے گر جائے تو وہ ایک لاش کہلاتی ہے۔ ایک متعفن لاش۔
ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے، ایک ماں، ایک بیٹی، ایک بہن اور ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اگر آج میں ایک ”حساس موضوع” پر خاموشی توڑوں تو میرے پاس کہنے کو اس سے بہتر الفاظ نہیں ہیں۔ ہماری اقدار، روایات اور اخلاقیات کی لاش بہت پہلے ہی بہت پرانی ہوچکی ہے۔ اس پر پڑا ہمارے بھلکڑ پن کا کفن بھی کبھی کا گل سڑ چکا ہے۔
آپ کو کچھ عرصہ پہلے شیخوپورہ میں 8 سالہ بچی کی ملنے والی لاش یاد ہے؟ جو اسی طرح زیادتی کا نشانہ بنی اور پھر قتل ہوئی۔ قتل ہوئی یا مر گئی؟ تاب ہی نہ لا سکی۔ انسان ہونے، لڑکی ہونے کی بہت بھاری قیمت چکاتے ہوئے مرگئی۔ یاد ہے وہ 9 سالہ طیبہ جو ایک پڑھے لکھے انصاف کے علم بردار جج کے گھر تشدد، بربریت اور حیوانیت کا شکار ہوئی۔ کراچی کی معصوم 6 سالہ طوبیٰ راولپنڈی کی 4 سالہ معصوم کبریٰ یا پھر کراچی کی 4 سالہ معصوم ثناء؟
دیکھا ہم سب بھول گئے تھے۔ ہم تو یہ بھی بھول گئے تھے کہ قصور کے ہی ایک گاؤں کے لڑکے سال ہا سال زیادتی کاشکار ہوتے رہے۔ ہم یہ بھی بھول گئے کہ ڈی آئی خان کا ایک قاری اپنی ہی طالبہ کو اللہ کا کلام پڑھاتے ہوئے زیادتی کا نشانہ بنا گیا۔ سچ ہے کہ ہم کراچی میں قتل ہونے والی اس بہن کو بھی بھول گئے جس کا بھائی دنداتا رہا۔ سچ یہ بھی ہے کہ ہم اس معصوم سی پھول بچی زینب کو بھی بھولنے والے ہیں۔
کیا واقعی ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ لمحاتی احساسات کا شکار ہیں۔ زندہ دل ہیں مگر لاشیں اٹھانے کےعادی ہیں۔ شاید زندہ دل ہیں اسی لیے، مردہ بچے بھی ہمارا احساس وقتی طور پہ ہی جگا سکتے ہیں۔
ہم شاید اس لیے بھی مطمئن ہیں کہ ہم نے اسلام کے نام پر ملک حاصل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلی ہے۔ باقی کام حکمرانوں کا ہے۔ اب یہ تو محض اتفاق ہے کہ قصور کے تمام ایم این اے سلمان حنیف، وسیم اختر شیخ، رشید احمد خان، رانا محمد اسحاق اور رانا محمد حیات ایک ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ حکمران جماعت ہے۔ ان میں وہ ایم این اے بھی شامل ہیں جن کا نام قصور میں زیادتی کی ویڈیو فلم سکینڈل میں سامنے آیا تھا۔ اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ زینب بھی اسی علاقے میں بعد اغواء زیادتی قتل ہوئی۔ اب اسلام ایک جادو کی چھڑی تو ہے نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھنے سے سب پاکیزہ ہوجائے گا۔ لوگ سدھر جائیں گے۔
یہ پچھلے کچھ دنوں سے تمام والدین، صحافی، حقوق انسانی کے علم بردار جو لکھ رہے ہیں کہہ رہے ہیں یا بول رہے ہیں وہ محض چار دن کا تماشہ ہے۔ زینب کا قاتل بھی ایسے ہی دنداتا پھرے گا جیسا کہ پہلے ہوا۔ قصور شہر میں اس سے پہلے بھی 11 بچے زیادتی کا شکار ہوئے اور قتل ہوئے مارے گئے یا بچائے ہی نہ جا سکے۔ آج تک کوئی مجرم گرفتار ہوا اور نہ ہی کسی کو سزا ملی۔
اسی لیے ہم والدین یہ فیصلہ کیے لیتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچے محفوظ رکھنے ہیں یا پھر سینہ کوبی کرنی ہے۔ حکمران ، جج ، استاد، قاری ، پولیس او ردیگر پڑھے لکھے طاقتور لوگ تو ہماری فہرست میں نہیں وہ تو دوسری فہرست کا حصہ ہیں ۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نہ تو ہماری بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ ہی بیٹے تو آپ میری مانیےکہ سوشل میڈیا کی جنگ سے نکل کر اور الزام تراشی سے بچتے ہوئے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیے ۔
بچے والدین کی ذنہ داری ہیں کسی ہمسایے، آیا، نوکر یا ڈرائیور کے ساتھ انہیں اکیلے مت چھوڑیں۔ اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو ایسے بہت سے واقعات ملیں گے کہ بچے جو زیادتی کا نشانہ بنے یا لمبے عرصے تک بنتے رہے اور انہیں میڈیا میں کبھی کوریج نہیں ملی۔ یہ بچے نارمل نہیں رہ سکے۔ میڈیا کوریج صرف لاشوں کو ملتی ہے۔ میڈیا کو سنسنی چاہیے جو ایک زندہ لاش سے نہیں مل سکتی۔ جنہیں لگتا ہے کہ ان کے بچے محفوظ ہیں وہ ذرا اپنے بچوں سے بے تکلفی سے پوچھ کر تو دیکھیں۔
اپے بچوں کو با وقار طریقے خبر دار کریں ۔ چونکہ وہ لا علم ہیں اس لیے خطرے میں رہتے ہیں۔ یہ معاملہ ہمیشہ ایک غلط لمس سے شروع ہوتا ہے۔ بے وجہ تحفہ ، بے جگہ اعتبار ، بہت سے بچوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے۔ وہ اس لیے سالوں تک خاموش رہتے ہیں۔
جب بھی اپنے بچے یا بچی کو ٹیوشن کے لیے چھوڑیں تو کوشش کریں کہ خود چھوڑیں ، آپ کا بچہ گروپ میں پڑھے اور بلو غت آمیز الفاظ استعمال کرنے پر بچے کو نرمی سے ٹوکیں۔ پوچھیں کہ کہاں سے سنا، اور پھر اگر ہوسکے اپنے بچے کو محبت سے وہاں سے دور کرلیں۔ اپنے بچے کو کسی کی گود میں نہ اٹھائیں۔
کچھ غیر ملکی کارٹون پروگرام اور فلمیں بالغ مفہوم پر ہوتی ہیں یا پھر اس طرح کے ڈائیلاگ ہوتے ہیں جو کہ بچے میں ہیجان پیدا کرسکتے ہیں۔ آج کل بڑی عمر کے بچے چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ فحش مذاق کرتے ہیں۔ بچوں کو زیادہ دیر تک اکٹھے بغیر نگرانی کے نہ چھوڑیں۔ بازار جائیں تو بچے کو اپنی نگاہوں میں رکھیں۔
اکثر مائیں بچوں کو موبائل یا انٹرنیٹ دے کر بے فکر ہوجاتی ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ فلٹر کمزور ترین ہے اور آپ کا بچہ کچھ بھی دیکھ سکتا ہے۔ کوئی بھی فحش ویڈیو کسی سائیٹ یا یوٹیوب پہ خود بخود آسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک قابل اعتراض تصویر ہوتی ہے جس میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ 18 سال سے زاید عمر کے ہیں۔ 10 سے 15 سال کے بچے تجسس میں اسے دیکھتے ہیں۔
تمام انسان ایک طبعی ماہیت کے ہیں۔ آپ کا بچہ عمر کے لحاظ سے بچہ ہے مگر یہ خالق کی مکمل انجینئرنگ ہے۔ اس کے جسم کے نظام بلوغت کو وقت سے پہلے فعال نہ ہونے دیں۔ ایسی صحبت، گفتگو، مناظر، لٹریچر یا کسی بھی خطرے سے اس کو دور رکھیں تاکہ وہ وقت سے پہلے ہی بلوغت کی سمجھ بوجھ سے دور رہے۔
بچے رحمت اور نعمت ہیں مگر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں بچے ہیں تو باقی تمام مصروفیات اور روز مرہ زندگی کے معاملات ان کی حفاظت اور تربیت کے حوالے سے ترتیب دیں۔ بچہ خود رو جھاڑی نہیں ہے جسے نہلا دھلا کر اور کھا پلا کر ٹی وی کے آگے چھوڑ دیا جائے۔ یا اسے موبائل اور ٹیب پکڑا دیا جائے۔ کیونکہ حادثہ زندگی میں کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مگر احتیاط روز کرنا پڑتی ہے۔
اخلاقیات کی جنگ انسانی تہذیب کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ ہے۔ ہمیشہ قرون وسطیٰ کے انسان نے صدیوں میں یہ سیکھا کہ قانون کے مطابق حکمرانی ہونی چاہیے۔ انسان نے ایک شکاری سے پیشہ ور ملبوس انسان بننے میں بھی نسلیں گنوائیں مگر یہ اصول فطرت ہے کہ واپسی کا رستہ ہمیشہ تیزی سے طے ہوتا ہے اسی لیے انسانیت ابھی اپنے عروج تک نہیں پہنچی تھی کہ پستی کی انتہاء پہ چلی گئی۔ انسان کمزور ہے۔ بیرونی عناصر کا غلام، جیسا ماحول ویسا انسان۔ آج سے پہلے میں سوچتی تھی کہ پاکستان کیسے اپنے بچوں کو پروان چڑھائے؟ کیپیٹلزم کے ساتھ؟ کیمونزم کے ساتھ؟ حب الوطنی کے ساتھ یا گلوبلائزیشن کے ساتھ؟ مگر اب میں دعا کرتی ہوں کہ کاش ہم اپنے بچوں کو صرف ”انسان” بنا کر ہی پروان چڑھا لیں۔
زینب کوئی پہلی بچی یا بچہ نہیں ہے اور افسوس ناک خیال یہ ہے کہ یہ کوئی آخری بھی نہیں ہوگا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سب سے بڑی جمہوری جماعت ، جماعت اسلامی ہے ، جہاں سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ دیا جاتا ہے۔ جہاں سب سے زیادہ حجاج ہر سال حج پہ جاتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ میلاد منعقد ہوتے ہیں۔ وہاں ایک سال میں 4 ہزار سے زاید بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ منافقت اس سے سوا کیا ہوگی؟
اسے بھی ملاحظہ کیجیے: بچے اور ہم والدین
ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ زیادتی کرنے والوں کو پیشہ ور جنسی کارکنان کا رستہ معلوم نہیں ہوگا۔ صدیوں پرانی روایت ہے بازار حسن، سینکڑوں سال پرانا پیشہ۔ چھوٹے بڑے قریب اکثر شہروں میں ہی یہ بازار موجود ہوتا ہے۔ سستا مہنگا، ہر طرح کا سودا ملتا ہے۔ پھر بھی اس قدر وحشت، جنس کی یہ کون سی خواہش ہے کہ آپ معصوم ، نابالغ اور لاعلم بچوں اور بچیوں کو ہی پامال کریں۔ یہ صرف جرم نہیں بلکہ بربریت و حیوانیت ہے۔ چوپاؤں کے بھی جنسی تعلق کے کچھ اصول و ضابطے ہیں ۔ حضرت انسان نے تو ان سے بدتر ہونا تھا۔
میری ایک رائے ہے کہ اگر اس معاشرے میں رہنا ہے اور یہاں رہ کر بچے پیدا کرنے ہیں اور ان کے لیے محفوظ ماحول کی ایک کوشش کرنی ہے تو جنس کے بازار کو قبول کرنا پڑے گا۔ اس کی صنعت بنانی پڑے گی۔ دیگر ملکوں کی طرح ان کے اوقات مقرر کریں اور وہاں جانے کے لیے کوئی چٹ پرمٹ یا رسید بنا دیں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بچے محفوظ کرنے کی کوئی قابل عمل کوشش کرسکتے ہیں۔
اگر یہ نہیں کرسکتے تو ملک بھر میں دستیاب انٹرنیٹ پہ موجود پورن کے مواد کو بہر صورت بند کیا جائے۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ ایک بیماری ہے اور اس میں مبتلا شخص کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی آدھی کے لگ بھگ آبادی انٹرنیٹ یوزر ہوچکی ہے اور اس میں سے اکثریت کے پاس سمارٹ فونز ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں گوگل پہ سب سے زیادہ سیکس کو سرچ کیا جاتا ہے۔ مجھ سے یہ مت پوچھیے کہ ہمارے ملک میں ہمارے پاکیزہ ذہنوں والے پاکستانی بھائی کس ٹائپ کے سیکس کی تلاش میں رہتے ہیں۔
خدارا خود کوشش کیجیے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہ سہی آواز تو اٹھائیے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.