اشفاق سلیم مرزا کا فلسفۂ تاریخ
از، شاداب مرتضٰی
اشفاق سلیم مرزا، جو بعض افراد کے نزدیک “جدلیاتی مادیت پسند”، یعنی کمیونسٹ، بھی ہیں، اپنی تنقیدی کتاب “مکیاولی سے گرامچی تک” میں کہتے ہیں کہ مارکس کا تاریخی مادیت کا نظریہ محض ایک “مفروضہ” تھا۔ ان کی دانست میں قدیم انسانی معاشرے کے بارے میں مارکس کا یہ خیال کہ ما قبل تاریخ کا قدیم انسانی معاشرہ غیر طبقاتی تھا محض ایک تاریخی مفروضہ ہے جس کا کوئی “ثبوت” موجود نہیں ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک تاریخی مادیت کا نظریہ، یعنی سماجی ارتقاء کا سائنسی نظریہ، غیرسائنسی ہے اور اسی لیے غلط ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“مارکس کے جتنے بھی بنیادی تعقلات ہیں ان میں سے زیادہ متنازعہ فیہ تاریخی مادیت ہے۔ حتی کہ فرینکفرٹ اسکول اور مغربی مارکسیت کے داعیوں نے بھی اس کے متعلق بہت سے سوال اٹھائے ہیں۔ اس کی بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کی بنیاد ایک ایسے مفروضے پر قائم ہے جس کا کوئی تاریخی، دستاویزی یا کسی اور حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔۔۔ معاہدہِ عمرانی کے پرچارکوں نے بھی اولین سماجی نظام کے بارے میں ایسے ہی دعوے گھڑے تھے۔۔۔ ایسا ہی ایک مفروضہ مارکس نے بھی سماجی نشوونما کے مختلف مراحل پر بات کرتے ہوئے، اولین سماج کے بارے میں قدیم اشتمالی نظام کا مفروضہ وضع کیا وہ بھی انہی میں سے ایک تھا اور پھر اس کی بنا پر آخری سماج کو اشتراکی سماج (Communism) کا نام دیا۔۔۔”
اشفاق سلیم مرزانے تاریخی ارتقاء کے بارے میں، سماجی نشوونما کے بارے میں، اپنا جونظریہ پیش کیا ہے وہ کتنا سائنسی ہے یہ ہم آگے دیکھیں گے۔ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ اشفاق سلیم مرزا خود اپنی ہی بات کی نفی اس خوبی سے کیسے کرتے ہیں کہ انہیں خود بھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک جانب وہ مارکس کے فلسفہِ تاریخ کو گھڑا گیا مفروضہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں اوردوسری جانب وہ خود ہی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ مارکس نےتاریخی مادیت کے ذریعے علمِ تاریخ کو سائنسی بنیادوں پراستوار کیا!نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
“(سینٹ) سائمن نے فلسفہِ تاریخ میں اس نظریے یا تعقل کو استحکام بخشا کہ تاریخ چند قوانین کے تابع ہوتی ہے۔ اس نظریے کو بعد ازاں ہیگل نے اپنی کتاب فلسفہِ تاریخ میں مزید سنوارا اور مارکس نے تاریخی مادیت کے حوالے سے اسے اپنے لحاظ سے مزید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔”
اشفاق سلیم مرزا کی بات مجموعی طورپریوں ہے : مارکس کا فلسفہِ تاریخ ( تاریخی مادیت) ایک بے بنیاد، من گھڑت نظریہ تھا لیکن اس کے ذریعے مارکس نے فلسفہِ تاریخ کو، تاریخ کے علم کو، مزید سائنسی بنیادوں پراستوارکیا! عہدِ حاضر کے بعض دانشوروں کی فکرپر”ہیگل” کا بت حاوی ہے۔اس ضمن میں، اشفاق سلیم مرزا پنی فکر کے تضاد سے ہیگل کے تھیسز اوراینٹی تھیسزکے سنتھیسز کی ، ہیگیلیائی جدلیات، کی ایک شاندار مثال پیش کرتے ہیں!
تاریخی ارتقاء کے بارے میں مارکس کے تاریخی مادیت کے غیرسائنسی نظریے کے مدمقابل، ظاہرہے، اشفاق سلیم مرزا تاریخ کے ارتقاء کا درست اورسائنسی نظریہ پیش کرنے سے غافل نہیں رہ سکتے۔ ان کا فلسفہِ تاریخ کا نظریہ تاریخی مادیت کے عین مخالف ہے۔
تاریخی مادیت کے مطابق :
-اولین انسانی سماج “غیرطبقاتی ” تھا۔
-انسانی سماج نے غیرطبقاتی سماج سے طبقاتی سماج میں ارتقاء کیا ہے۔
– نجی ملکیت کی وجہ سے انسانی سماج غیرطبقاتی سےطبقاتی سماج میں تبدیل ہوا۔
-سماجی ارتقاء میں پرانے سماجی ادارے ختم ہوجاتے ہیں اوران کی جگہ نئے سماجی ادارے لے لیتے ہیں۔ اس لیے غیرطبقاتی سماج سے طبقاتی سماج میں منتقلی کے دوران سماجی ادارے بھی تبدیل ہوئے ۔ پرانے غیرطبقاتی سماجی ادارے ختم ہوگئے اورنئے، طبقاتی سماجی ادارے وجود میں آئے۔ نجی ملکیت، طبقات اورریاست طبقاتی سماج کے ادارے ہیں۔
-نجی ملکیت، طبقات اورریاست کے خاتمے سے سماج کا وجودختم نہیں ہوگا۔ کیونکہ سماج اپنے وجود کی بقاء کے لیے ان اداروں کا محتاج نہیں۔ قدیم اشتراکی سماج میں نجی ملکیت، طبقات اورریاست کے ادارے موجود نہیں تھے لیکن نہ صرف سماج موجود تھا بلکہ اس نے ارتقاء بھی کیا۔ دنیا کے متعدد ملکوں میں نجی ملکیت اورطبقات کو ختم کرکے سرمایہ دارانہ معاشرے سے کہیں ذیادہ بہتر اورحقیقی معنی میں انسان دوست معاشرے قائم کیے گئے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
تاریخی مادیت کے اس نظریے کے برعکس اشفاق سلیم مرزا کے تاریخی نظریے کے مطابق “طبقاتی سماج” ہی اولین انسانی سماج تھا۔ انسانی سماج کی تاریخ کی شروعات، یعنی انسان سماج کی ابتداہی “طبقاتی ” معاشرے سے ہوئی۔ تاریخ میں “غیرطبقاتی” سماج نام کی کوئی چیز کبھی نہیں رہی۔غیرطبقاتی سماج محض ایک “مفروضہ” ہے۔ گویا، طبقاتی سماجی ادارے، نجی ملکیت، طبقات اورریاست ، سماج میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ انسانی سماج کی ابتداء نجی ملکیت، طبقات اورریاست کے ساتھ ہوئی تھی۔ نجی ملکیت، طبقات اورریاست ایسے سماجی ادارے نہیں ہیں جو سماجی ارتقاء کے عمل میں سماج میں وجود میں آئے بلکہ یہ سماج میں ہمیشہ سے موجود تھے اور”دائمی” اداروں کی حیثیت سے سماج میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔
دوسرے لفظوں میں تاریخ نے، نجی ملکیت، طبقات اورریاست یعنی طبقاتی سماج کوانسانوں کے “مقدر” میں ہمیشہ کے لیے لکھ دیا ہے۔ تاریخی “ارتقاء” کے اس تصور کو حقیقتا”ارتقائی” کہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا معروضی عینیت پسندی (ہیگیلیائی جدلیات) کو جدلیاتی مادیت کہنا! یہ سماجی ارتقاء کے بارے میں ایک جامد میکانیکی نظریہ ہے۔ انسانی سماج تاریخ میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھا، طبقاتی سماج تاریخ میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ انسان بھی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھا بلکہ اس نے بھی دوسری انواع سے ارتقاء کر کے موجودہ شکل پائی۔ ہر شے کی طرح مستقل تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے انسانی سماج میں ابدی و ازلی سماجی اداروں کا تصورسماجی ارتقاء کی حقیقت سے متصادم ہے۔
اگر سماج ہمیشہ سے طبقاتی تھا اورہمیشہ طبقاتی رہے گا اورنجی ملکیت، طبقات اورریاست جیسے ادارے اس میں ہمیشہ سے تھے اورہمیشہ رہیں گے تو پھر سماجی ارتقاء کیسے ہوگا؟ کیا سماج کا ارتقاء یہ ہے کہ سماج طبقاتی معاشرے سے شروع ہو کرطبقاتی معاشرے پر ہی ختم ہوتا ہے! اس میں وہ عمل کہاں ہے جسے “ارتقاء” کہا جا رہا ہے؟ عینیت پسندی موضوعی ہو یا معروضی اس کی خامی یہ ہے کہ یہ اپنے مقولات عمل سے، حقیقی انسانی تاریخ سے اخذ کرنے کے بجائے، اپنے فکری مفروضوں سے کرتی ہے۔ مارکس اسی لیے کہتا ہے کہ عمل ہی سچائی کی “واحد” کسوٹی ہے۔
پولیٹیکل سائنس میں بھی اور سوشیالوجی میں بھی انسان کے “سماجی” ارتقاء کے مختلف ادوار کی درجہ بندی موجود ہے اور اس میں وہ دور بھی شامل ہے جب انسان سماجی طبقوں میں تقسیم نہیں تھے،۔ طبقات، نجی ملکیت اور ریاست نام کی کوئی چیز ہزاروں برس تک انسانی سماج کا حصہ نہیں تھی۔ عہدِ وحشت اور عہد بربریت میں پورے کرہِ ارض پر انسان کی سماجی تنظیم قبیلوں کی صورت میں موجود تھی۔ نجی ملکیت کے وجود میں آنے سے پہلے قبیلے میں کوئی طبقاتی اونچ نیچ نہیں تھی، کوئی امیر و غریب، کمزور اور طاقتور، ظالم اور مظلوم نہیں تھا۔ قبیلے کے تمام وسائل اور پیداوار قبیلے کے تمام افراد کی مشترکہ ملکیت ہوتے تھے۔
آج بھی دنیا کے کئی علاقوں میں قدیم غیر طبقاتی سماج کی یہ نشانیاں باقی ماندہ قبیلوں کی صورت میں موجود ہیں۔ چنانچہ، سماجی سائنس کے مصدقہ حقائق کے برعکس اشفاق سلیم مرزا کا یہ خیال کہ انسانی تاریخ میں غیر طبقاتی سماج کبھی وجود نہیں رکھتا تھا اور نجی ملکیت، طبقے اور ریاست ہمیشہ سے انسانی سماج کا حصہ ہیں، انسانی تاریخ اور اس کے حقیقی ارتقاء کو جھٹلانے کے لیے گھڑا گیا ایک ایسا “مفروضہ” ہے جو سائنسی کمیونزم کا نظریاتی مقابلہ کرنے کے لیے لبرل فلسفے، تاریخ اور سرمایہ دارانہ سماجی سائنس میں “مسلمہ حقیقت” کے طور پر ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ استعمال کیا جانے والا “آزاد خیال آئیڈیا” ہے۔ سائنسی علم کے خواہاں لوگ حقیقت تک پہنچنے کے لیے مفروضے بناتے ہیں اور سائنسی علم کے حریف حقیقت کو جھٹلانے کے لیے مفروضے ایجاد کرتے ہیں۔
اشفاق سلیم مرزا کے “آزاد خیال” نظریے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نجی ملکیت کا دفاع کرے کیونکہ نجی ملکیت کا دفاع طبقاتی سماج اورطبقاتی سماج کے پیدا کر دہ انسانی استحصال کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ تاریخی مادیت کے مطابق، یہ نجی ملکیت ہی ہے جو انسانی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا، انسانوں کے مابین اونچ نیچ، تفریق و امتیاز اور ظلم و ناانصافی کا “تاریخی” اور “مادی” سبب ہے۔ نجی ملکیت ہی ریاست کے وجود کا سبب بھی ہے۔ انسانی سماج میں طبقاتی تقسیم اور ریاست کا وجود دونوں ہی نجی ملکیت کی پیداوار ہیں۔ بظاہر، اشفاق سلیم مرزا بھی تاریخی مادیت کی یہ بات جزوی طو پر درست تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“بہت سی سماجی برائیاں نجی ملکیت کے ہونے سے پیدا ہوتی ہیں اور یہ اس سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ان سے کنارہ کشی کارِ دارد ہے اور میری اس بات کی تصدیق صدیوں کی تاریخ کے مطالعے سے ہوجاتی ہے۔۔۔”
ان کے پُر وثوق بیان سے یہ واضح ہے کہ انسانی سماج میں بہت سی سماجی برائیوں کا سبب نجی ملکیت ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی یقین ہے کہ سماجی برائیوں کا ایک دائمی سبب ہونے کے باوجود نجی ملکیت انسانی معاشرے کے وجود اور اس کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔ سو نجی ملکیت کا دفاع کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ
“۔۔ نجی ملکیت کا نہ ہونا بھی اپنے ساتھ مسائل کی گٹھڑی اٹھا کر چلا آتا ہے۔۔۔تاریخ نے مجھے یہ سبق دیا ہے کہ نجی ملکیت کی جبلت فی الحال ایک زندہ حقیقت ہے اور ابھی تک تاریخ میں اسی کا راج رہا ہے۔۔نجی ملکیت ایک ایسی جبلت ہے جو انسان کو پر حرکت رکھتی ہے اور میں اپنے طور پر اسے بھوک، جنس اور زندہ رہنے کی جبلتوں کے ساتھ شمار کرتا ہوں۔ جو سیاسی فکر تاریخ میں اس سے گریز کرتی نظر آتی ہے اس کا باعمل ہونا پائیدار نہیں رہتا۔۔” سو، نجی ملکیت کے بارے میں ان کا “سائنسی” تصور یہ ہے کہ اگرچہ نجی ملکیت سماجی برائیوں کا ایک سبب ہے (اورمنطقی طورپراس لحا ظ سے خود ایک سماجی برائی ہے) لیکن سماج میں اس کا وجودسماجی ارتقاء کے لیے ضروری ہے کیونکہ اگر سماج میں نجی ملکیت نہیں ہوگی تو اس کے نہ ہونے سے بھی سماجی برائیاں جنم لیں گی۔
گو ان کے نزدیک نجی ملکیت ہر صورت میں سماجی برائیوں کا سبب ہے لیکن سماج کے ارتقاء کے لیے ، یعنی سماج کو بہتر بنانے کے لیے، جس کے لیے سماج سے سماجی برائیوں کو ختم کرنا ضروری ہے، ہمارے “سائنسدان” اشفاق سلیم مرزا ، ہرصورت میں سماجی برائیوں کوپیدا کرنے والی، نجی ملکیت ، کو ہی بطور ارتقائی ضرورت پیش کرتے ہیں! گو ان کو یقین ہے کہ انسانی سماج ہمیشہ سے طبقاتی تھا اوراس بنا پر، منطقی طورپر، ا ن کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ نجی ملکیت کا رجحان بھی انسان میں ہمیشہ سے موجود تھا لیکن اس نازک فکری مقام پر وہ ڈگمگاکرکہتے ہیں کہ “۔۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نجی ملکیت کی طرف رجحان تاریخی طور پر کسی ایک مرحلے میں انسان کے اندر جاگزیں ہوا یا پھر جبلی طور پر موجود تھا یا جیسے بھی ہوا۔۔۔” گو نجی ملکیت کو “جبلی” کہنا کچھ کم دلچسپ نہیں ہے لیکن یہ الفاظ کہ “جیسے بھی ہوا” قہقہہ لگانے کی دعوت دیتے ہیں۔
اشفاق سلیم مرزا دو متحارب طبقوں کے متضاد فلسفوں کی کشتیوں میں ایک ساتھ سفر کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف وہ تاریخی مادیت کے سائنسی نظریے کی مخالفت میں قدیم غٖیر طبقاتی سماج کے وجود سےانکار کرتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ تاریخی مادیت کے نظریہ دان، فریڈرک اینگلز کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ اس نےاپنی تصنیف “خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز” میں نجی ملکیت کےارتقاء کا بہت عمدگی سے تجزیہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں اینگلز غیر طبقاتی سماج کے تجزیے کا خلاصہ کرتے ہوئے تیسرے باب میں لکھتا ہے کہ “… یہ تھا انسان اور انسانی سماج طبقاتی تقسیم سے پہلے.”
سماجی تحقیقات کی بنیاد پر اینگلز نے انسانی سماج کے ارتقاء کا جو تجزیہ کیا تھا اس کا محور انسانی سماج کے”غیرطبقاتی” سماج سے “طبقاتی” سماج میں “ارتقاء” کی سائنسی وضاحت کرنا تھا اور تاریخی شواہد کے ساتھ یہ دکھانا تھا کہ ہم انسانوں کاابتدائی معاشرہ غیرطبقاتی تھا اورجب یہ طبقاتی معاشرے میں بدلا تو اس میں پرانے غیر طبقاتی سماج کے سماجی ادارے ختم ہوگئے اور نئے سماجی ادارے وجود میں آئے جو نئے طبقاتی سماج کی مناسبت سے طبقاتی ادارے تھے جن میں نجی ملکیت، طبقات اورریاست شامل ہیں۔
ریاست کے مارکسی تصور پر اپنی تنقید سے ہمارے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اشفاق سلیم مرزا کہتے ہیں کہ ریاست کے بارے میں جدلیاتی مادیت کی تان ریاست کے آہستہ آہستہ تحلیل ہوجانے پر آکر “ٹوٹتی” ہے۔ جس طرح انہیں یہ یقین ہے کہ سماج میں طبقوں کی موجودگی اور نجی ملکیت ضروری ہے اسی طرح وہ یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ریاست بھی سماج کے لیے ضروری ہے۔
دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی اسی طبقاتی معاشرے کی ایک مثال ہے جسے اشفاق سلیم مرزا انسانی تاریخ کا مقدر اور اس کے تاریخی ارتقاء کی آخری منزل سمجھتے ہیں۔ اشفاق سلیم مرزا کے فلسفہِ تاریخ کے مطابق، مثال کے طور پر، ہمیں موجودہ تباہ حال پاکستانی معاشرے کو، طبقاتی تقسیم اور سماجی استحصال سے لت پت پاکستان کو، اسی طرح قبول کر لینا چاہیے کیونکہ طبقاتی معاشرہ ہی انسان کا مقدر ہے۔ اس لیے پاکستانی معاشرے کو بہتر بنانے کی، اسے عوام دوست بنانے کی، اس میں سے طبقاتی تقسیم کے خاتمے کی کوشش بیکار ہے۔ اس ارتقائی نظریے کی رو سے زیادہ سے زیادہ بس یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں نجی ملکیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی برائیاں اپنی شکل تبدیل کرتی رہیں۔ سماجی برائیوں کی قسموں اورشکلوں کی تبدیلی ہی اشفا ق سلیم مرزا کے نزدیک تاریخ کا، انسانی سماج کا ارتقاء یعنی اس کا مقدر اور مستقبل ہے۔
اشفاق سلیم مرزا کے فلسفہِ تاریخ کا نظریہ ان مقولوں پر قائم ہے: انسانی سماج ہمیشہ سے طبقاتی سماج رہا ہے۔ نجی ملکیت، طبقات اور ریاست کا وجود انسانی سماج کے لیے لازم ہے۔ (اس لیے) غیر طبقاتی سماج کا قیام تاریخی طور پرنا ممکن ہے۔ تاریخی ارتقاء کا مقدرطے کرتا یہ نظریہ ایک جامد نظریہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق تاریخ (انسانی تاریخ، انسانی سماج کی تاریخ) خود کوطبقاتی سماج کے ظلم، جبراوراستحصال کی غلام گردشوں میں ہمیشہ ایک دائرے کی صورت میں دوہراتی رہتی ہے ۔ تاریخی جبرکے اس دائرے کو توڑکرآگے بڑھنا انسان کے لیے ناممکن ہے حالانکہ انسان کی تاریخ اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے۔
سیاسی سطح پروہ اسیکنڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں کو سماجی بہتری کی مثال کے طورپر پیش کرتے ہیں جہاں نجی ملکیت اورعوامی فلاح میں “مثبت توازن” قائم کیا گیا ہے ۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ اسکینڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں میں سرمایہ دارانہ نجی ملکیت پر استوار بین الاقوامی معاشی نظام میں آنے والے گزشتہ بحران کے سبب مقروض سویڈن دیوالیہ ہوگیا تھا جبکہ دیگرریاستوں میں نجی ملکیت کے تحفظ کے لیے سرمایہ داروں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے اورسماجی تحفظ اورعوامی سہولیات میں تخفیف کرنے کی وجہ سے وہاں عوام کا معیارِ زندگی گرگیا ہے اورسماجی نابرابی میں اضافہ ہوا ہے۔
ظاہر ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے مبلغ، اشفاق سلیم مرزا سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کیوبا اورشمالی کوریا جیسے اشتراکی ملکوں کو بہترمعاشرے کی مثال کے طورپرپیش کریں کیوں کہ انہوں نے اپنے تئیں، ہیگل کی جدلیات کی سری طاقت سے، یہ مفروضہ قائم کررکھا ہے کہ کیوبا اور شمالی کوریا جیسے ممالک اس لیے بہتر نہیں کیوں کہ ان میں نجی ملکیت اورطبقات موجود نہیں جنہیں وہ انسانی سماج کے “ازلی و ابدی” سماجی ادارے سمجھتے ہیں باوجود اس تاریخی حیقت کے کہ مختلف وقتوں میں دنیا کے متعدد ملکوں سے ان “ازلی و ابدی” سماجی اداروں کو ختم کیا جا چکا ہے اوردنیا بھرکے استحصال زدہ محنت کش عوام ان کے خاتمے کے لیے مختلف سطحوں اوردائروں میں کوشاں ہیں۔ اشفاق سلیم مرزا کے خیال میں یہ لوگ مارکس جیسے رومانیت پسند کے بہکاوے میں آکر تاریخ کے دیوتا “ہیگل” کی حکم عدولی کے مرتکب ہورہیں۔
پاکستان کے نوجوانوں اور طالب علموں کی بدنصیبی ہے کہ ان کو صرف دائیں بازو سے نہیں بلکہ بائیں بازو سے بھی ایسے دانش ور اور “تنقیدی مفکر” میسر ہیں جو مارکسزم جیسی انقلابی اور سائنسی فکر کا نقاب اوڑھ کر تاریخ، سماج، اور انسان کے مستقبل کے بارے میں “تقدیر پرستی” کے ایسے مڈل کلاس، منافقانہ، قدامتی، دقیانوسی اور شکست خوردہ فلسفے موٹی موٹی کتابیں لکھ کر فروخت کر رہے ہیں اور انسان و سماج دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے دفاع کے لیے اس کےنظریاتی وکیل بن کر محنت کش عوام کو اعتدال پسندی، نظریاتی منافقت، اورطبقاتی مصالحت کی تبلیغ کررہے ہیں۔
تاریخی مادیت پراشفاق سلیم مرزا کا “انتقاد”، ان کا “ہیگیلی” فلسفہِ تاریخ کس قدر دقیانوسی ہے اس کا اندازہ جدلیاتی و تاریخی مادیت کے نظریہ دانوں، مارکس اور اینگلز، کی پہلی مشترکہ تصنیف “مقدس خاندان” میں ہیگیلی عینیت پسندوں کے ایک جرمن گروہ، برونوبائیر اینڈ کمپنی، کے “تنقیدی انتقاد” پراس رائے سے لگایا جا سکتا ہے۔”انتقاد سوائے اس کے کچھ اور نہیں کرتا کہ جو موجود ہے یہ اس کی اقسام سے فارمولے گھڑتا ہے، یعنی موجودہ ہیگیلی فلسفے سے اورموجودہ سماجی تمناؤں سے۔ فارمولے، کچھ اورنہیں بس فارمولے۔ اورعقیدہ پرستی پراپنی دشنام طرازیوں کے باوجود یہ خود کو عقیدہ پرستی کے آگے ڈال دیتا ہے، حتی کہ نسوانی عقیدہ پرستی کے۔ یہ ایک بوڑھی عورت ہے، مرجھائی ہوئی، بیوہ ہیگیلی فلسفہ، جو بناؤسنگھار کرکے، خود کوانتہائی کراہت انگیزتجرید میں لپیٹ کرپورے جرمنی میں کسی عاشق کی تلاش میں نگاہِ شوق لٹاتی پھرتی ہے۔”