بے مقصد امیدیں
از، نصیر احمد
جب محمد رضا شاہ کے خلاف مزاحمتی تحریک برپا ہوئی تو آقا (روح اللہ خمینی) ایران میں بہت مقبول ہو گئے کہ آقا کی محمد رضا شاہ کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی ایک تاریخ تھی۔ محمد رضا شاہ تو آقا کو ساٹھ کی دھائی میں ہی مروا دیتا مگر آیت اللہ شریعت مداری نے آقا کو مرجع تقلید بنوا کر آقا کو موت سے بچا لیا۔ مرجع تقلید شیعہ علما کی درجہ بندی میں ایک اہم حیثیت ہوتی ہے اور مرجع تقلید کے قتل کے سیاسی مضمرات سے تحفظ کے لیے محمد رضا شاہ نے آقا کی جلا وطنی پر ہی اکتفا کیا۔ اور آقا عراق میں جلا وطن ہوئے اور وہاں سے ان کی تقریریں ٹیپ ریکارڈرز کی ٹیپوں میں ایران پہنچتی رہیں اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی شمع روشن رہی۔
جب ستر کی دھائی میں رضا شاہ کی آمریت ڈانواں ڈول ہوئی تو آقا مزاحمت کے استعارے کے طور پر ایران میں بہت زیادہ محترم ہو گئے۔ اشتراکی بھی ان کو پسند کرنے لگے، جمہوری بھی ان کے گن گانے لگے اور مذہبی تو ان کا اپنا گروہ تھے۔ ان کا ایک مسیحا اور نجات دہندہ کا امیج بن گیا۔
اور تو اور اپنی قوقوش ( گوگوش، مشہور ایرانی مُغنیہ) بھی اس طرح کے گیت گانے لگیں
آقا خوبہ، آقا جونہ، آقائی گل، آقا جون
کہ آقا خوب ہیں، آقا ہر دل عزیز ہیں، آقا پھول کی طرح اور آقا زندگی ہیں۔
لیکن آقا ایک چالاک سیاست دان بھی تھے۔ محمد رضا شاہ کے فرار کے بعد آقا نے مذہب کے نام پر اپنی آمریت قائم کر لی اور سٹالن کی طرز پر وہاں پر ایک قاتل عدالت قائم کر لی۔ اور جرمنی کی ایس ایس، ہٹلر یوتھ اور گشٹاپو کی پیروی میں ظاہر و خفیہ تنظیمیں قائم کر لیں اور آئین کو اس طرح اپنے تابع کر لیا کہ اسمبلی میں بات چیت تو ہوتی تھی مگر حکم آقا کا ہی چلتا تھا۔
جس کے نتیجے میں پہلے رضا شاہ کے حامی بڑی تعداد میں قتل کیے جانے لگے ،جن میں عباس ہویدا( رضا شاہ کے وزیر اعظم تھے) کا ٹرائل کافی مشہور ہے۔ آقا کی قاتل عدالت کے سربراہ خلخالی تھے اور آقا کی طرح مولوی ہی تھے، ان کے ذہن میں مقدمے کا مطلب ہی یہی تھا کہ جو بھی پکڑا گیا ہے، اسے ہر صورت سزائے موت ہی دینی ہے۔ پھر عباس ہویدا اور دوسروں کو کہاں انصاف ملنا تھا۔
پھر جمہوریوں کی باری آئی، پھر اشتراکیوں کا خاتمہ ہونے لگا، اس کے بعد کرد ،لری، سنی اور آقا کے اپنے حمایتی خلخالی کی عدالت، پاسداران اور بسیج کا شکار ہو گئے۔ اور جب آقا کا آخری وقت قریب آیا تو انھوں نے جیل میں موجود قیدیوں کو بھی قتل کروایا۔ قوقوش بیچاری کے گیت بھی بند ہو گئے اور شریعت مداری کو بھی بے دستار کرتے ہوئے اذیتیں دی گئیں کہ وہ آقا کو امام ماننے سے انکاری تھے۔ اور ولایت فقیہ کے قائل نہیں تھے۔
ہمارے ہاں بھی ضیا کی حکومت کے دوران بہت کچھ آقا خوبہ، آقا جونہ کی گئی اور اسلام کا نفاذ بھی ہو گیا لیکن ضیا ظلم و ستم کے حوالے سے آقا سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکلے۔ آئین معطل ہو گیا، بنیادی انسانی حقوق کا خاتمہ کر دیا گیا، ایک منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھا دیے گئے، معاشرے میں تشدد کو فروغ دیا گیا، سیاسی مخالفین کو سر عام درے مارے گئے اور پھانسیاں دی گئیں۔ لیکن ہمارا کچھ جمہوریت کا تجربہ تھا، اس لیے آقا عوامی نگاہ میں کبھی بھی خوب نہ ہوئے اور موت کی حقیقت اور علامت ہی رہے۔
پھر افغانستان میں طالبان کی آمد پر آقا خوبہ، آقا جونہ ہونے لگی۔ امید و خواب کے ساتھ تجربے ہونے لگے کہ امن ہو جائے گا، ترقی کے در کھلیں گے، ابھی وحشت ہے، پھر کاروبار حکومت سیکھ جائیں گے۔ ایسا کچھ نہ ہوا، ہزارہ قوم کے لوگ اور جتنے بھی مخالف تھے، ان کا بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا،ایک مذہبی آمریت قائم کر دی گئی، عورتوں کے لیے جینا محال کر دیا گیا، شاکیہ منی کے مجسمے توڑے گئے، عالمی دہشت گردوں سے رشتے گانٹھے گئے اور ایک لٹا پٹا ملک جہنم بن گیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ ایک سیانے کی حکومت اچھی حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسا کوئی سیانا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہم سب سارے لوگ سیکھنے کے ایک مسلسل عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں اور اس عمل کے دوران رقیب کے تجربے سے فیض یاب پونا پڑتا ہے ورنہ اچھے طریقے سے ہم سیکھ نہیں پاتے۔ اور اگر اس دانش مند کی حکومت کے نفاذ کے لیے حمایتیوں کو انعام اور مخالفوں کا قتال ضروری ہو جائے تو یہ عمل مافیا کے ڈون کے زیادہ قریب ہے اور مافیا کے ڈان میں دانش مندی دیکھنا شروع کر دیں تو پھر اپنی حسیات کی تردید کرنی پڑتی ہے۔
اب حسیات کی تردید ہو گئی تو پھر علم کہاں سے آئے گا اور علم کے بغیر تہذیب کیسے رائج کی جا سکتی ہے ؟ اور تہذیب سے انکار کو دانش مندی کہنے سے ضد تو پوری کی جا سکتی ہے لیکن انسانی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی ترقی مسلسل مجروح ہوتی رہتی ہے۔ بہت زیادہ بہتر ہو جائے تو سوویت یونین کی طرح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے سائنسی علوم اور مہارتوں کو فروغ دیا تھا مگر آزادوں سے مقابلہ نہیں ہو پاتا۔ اب اس ہار کو آپ استعمار اور سامراج کی سازشیں کہہ کر دل بہلا سکتے ہیں مگر اصل مسئلہ آمریت میں ہوتا ہے۔
اب ایک آدمی کے پاس لاکھوں کروڑوں انسانوں پر مبنی بڑے بڑے علاقوں پر مکمل تصرف ہو، اس نے تو وہی کرنا ہے جو وہ درست سمجھتا ہے نہ کہ وہ جس کی معاشرے کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ تصرف اگر آئن سٹائین جیسے کسی سائنسدان کو بھی دے دیا جائے تو دو تین سالوں کے بعد اس آئن سٹائین میں آئن سٹائین نہیں سٹالن ہی ملے گا۔کیونکہ جب مشورہ نہیں ہو سکتا، تنقید نہیں ہو سکتی، ترمیم نہیں ہو سکتی، اور رضا ضروری نہیں ہے تو دانائی برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ بس تشدد، خوف، بلیک میلنگ اور سازشیں اور لمحہ بہ لمحہ فزوں ہوتی ہوئی وحشت۔
ولایت فقیہ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ آقا نے اگر تعلیل میزان یا صرف بہائی رٹی ہوئی ہے تو ان کے اس رٹے کا ملکی مسائل کے حل سے کیا تعلق؟ یعنی آقا دو چار پھونکیں ماریں گے اور سکولوں میں پڑھائی کا معیار شیطان بزرگ سے بہتر ہو جائے گا۔خرقہ و جبہ و دستار کے ساتھ ناز آفریں ہوں گے تو خلا میں خود بخود چاند گاڑیاں رواں ہو جائیں گی۔ آقا نے بھی کچھ بہتر کرنا ہے تو انھیں سیکھنا پڑے گا، پوچھنا پڑے گا، سوچنا پڑے گا ، یہ ساری باتیں تو ہم سب کے لیے بھی ضروری ہیں ،پھر آقا کو آمر مطلق کیوں بنایا جائے؟ سیکھنے سوچنے اور کرنے کے لیے ملک کے سارے لوگوں کو معاملات میں کیوں نہ شامل کیا جائے؟
سوچنے کی بات ہے، ایک تو مولوی دانا نہیں ہیں کہ وہ ہر قسم کے علوم سے بے خبر ہیں اور ان کی بنیادی دلیل ہے کہ وہ پڑھے پڑھائے، لکھے لکھائے ہیں اس لیے انھیں انسانوں پر کامل تصرف ہونا چاہیے۔ ایک ایسی بات جس کی تصدیق ہی ممکن نہیں، اس دلیل پر ایک آدمی کو زندگی اور موت کے فیصلوں پر مکمل تصرف دے دیا جائے؟
یہ تو کوئی پاگل کر سکتا ہے اور مولوی اقتدار پر قبضے سے پہلے لوگوں کو پاگل ہی تو بناتے ہیں ۔ وہ جمپ کرتے معتقدین تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر بلیک میل نہ ہوں اور مذہبی یا کسی قسم کی آمریت کے دھوکے نہ کھائیں ورنہ قوقوش جانم کی طرح فریب کھا کر آقا کی خوبیاں دیکھتے رہیں گے لیکن وہ حکومت میں آ کر آپ کی ہی بولتی بند کر دیں گے۔