سوموٹو دور کی واپسی
از، بابر ستار
عوامی مقبولیت کے اس دور میں ہم خود کو یقین دلا چکے ہیں کہ ہمارا نظام شکست و ریخت کا شکار ہے۔ ہمیں بچاؤ کے لیے کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ از خود نوٹس دور کی واپسی کا بے حد گرم جوشی سے استقبال کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں جوڈیشل پنڈولم کی فعالیت انتہائی تکلیف دہ ہوگئی تھی، یہاں تک مظہرشاہی بڑھکیں آہ و بکا میں بدل کر دم توڑ گئیں۔ اس کے بعد فاضل عدالت میں وقار اور تحمل کا عمدہ امتزاج دکھائی دیا۔ کیا پنڈولم ایک بار پھر انتہائی جانب بڑھ رہا ہے؟ کیا جوڈیشل فعالیت کا دور واپس آچکا ہے؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوعشروں سے بطور ایک جج نہایت ممتاز طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔ کوئی بھی وکیل، یا عدالت کے امور پر نظر رکھنے والا شخص آپ کو بتائے گا کہ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور جسٹس آصف سعید کھوسہ، جو دوسرے انتہائی سینئر جج ہیں، وہ ذہین ترین لیگل دماغ ہیں جو ہمارے ہاں کبھی بنچ پر دیکھے گئے ہیں۔ جسٹس کھوسہ اگلے برس کے آغاز میں جسٹس ثاقب نثار کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ ان جج صاحبان کے تجربے، عدالتی خدمات اور واضح سوچ، اور اُن کے عدالتی معاملات پر مکمل کنٹرول کو دیکھتے ہوئے بہت سی توقعات پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن عملی طور پر ہماری نظروں کے سامنے افتخار چوہدری کے ماڈل کا اعادہ ہورہا ہے۔
بطور ایک جج، چیف جسٹس ثاقب نثار سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184(3) کے تحت حاصل لا محدود اختیارات کے ناقد رہے ہیں۔ بہترین صلاحیت رکھنے والے سول وکیل ہونے کے ناتے اُنھوں نے ہمیشہ دلیل دی کہ جس طرح عدالتی حکم نامے (writ jurisdiction) کی توسیع ڈسٹرکٹ کورٹ کو غیر فعال کردیتی ہے، اسی طرح 184(3) کی بڑھتی ہوئی فعالیت ہائی کورٹس کے کردار کوغیر موثر کرسکتی ہے۔ اس وقت 184(3) کے تحت حاصل اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نہ تو ایسے قوانین ہیں اور نہ ہی جوڈیشل سطح پر کوئی جانچ پٖڑتال کا نظام موجود ہے ۔سپریم کورٹ کا اہم ترین مقصد قانونی ابہام کو دور کرنا ہوتا ہے لیکن 184(3) پر بڑھتا ہوا انحصار ا س کے برعکس ابہام کو بڑھا رہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے انتہائی قابل احترام عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے جسٹس ثاقب نثار نے ناقص جسٹس سسٹم پر اپنی ناراضی کا برملا اظہار کیا ہے۔ چونکہ سپریم کورٹ اس تمام سسٹم کی نگران ہے ، محترم جج صاحب اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے دور میں اس میں بہتری لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں قائم ہونے والا تاثر یہ رہا ہے کہ وہ سوچ سمجھ رکھنے والے ذہین انسان ہیں، چنانچہ بے معانی لفاظی اور شعلہ بیانی سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ عوامی مقبولیت کا باٹ عدالت کے پلڑے میں رکھنے کے مضمرات سے بھی واقف ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اپنے طویل اور شاندار کیرئیر کے آخری برسوں میں وہ اپنے بارے میں قائم ہونے والے تاثر کو زک پہنچانے کی کوشش کیوں کریںگے؟لیکن پھر چیف جسٹس سپریم کورٹ کی موجودہ فعالیت کو کیا نام دیا جائے؟
آئیے سوموٹو (از خود نوٹس ) لینے والے جوڈیشل جواز کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلا (اور سب سے کمزور) جواز یہ ہے کہ ملک میں گورننس کا خلا موجود ہے۔ ایگزیکٹو اور قانون سازاداروں کی عدم فعالیت سے پیدا ہونے والا خلا پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور فطرت بھی خلاکو پسند نہیں کرتی۔ ہمارے جری جوانوں کی طر ف سے آئینی نظام کو تہہ بالا کرنے کے لیے یہ وضاحت ارزاں کی جاتی رہی ہے ، لیکن جوڈیشل فعالیت کے لیے کبھی یہ جواز نہیں تراشا گیاتھا۔ عدلیہ ہمارے آئینی نظام کا ایک ستون ہے۔ اسے آئین ہی اتھارٹی دیتا ہے۔ یہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف فراہم کرتی ہے۔
عدالت کے کردار کے متعلق قانونی ماہرین کے درمیان بحث کا دروازہ کھلا ہے۔ کیا یہ قانون کی عدالتیں ہیں یا انصاف کی ؟انصاف کی عدالت وہ ہے جو انصاف فراہم کرتی ہے۔ اس انصاف کا تعین جج کی مرضی اور اخلاقی تصورات کے مطابق ہوتا ہے۔ اور یہ انصاف قانون کی معروضیت سے آزاد ہوتا ہے۔ لیکن اس قسم کے انصاف کی فراہمی ایک تحریری آئین رکھنے والے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس نظام میں تحریری آئین تمام اداروں کی اتھارٹی کا تعین کرتا ہے۔ تاہم ایک جذباتی معاشرے میں قانونی حدودقیود کی پروا کم ہی کی جاتی ہے۔
دوسرے جواز کا تعلق ’مسیحا کی سدا بہار ضرورت‘ سے ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آسمان گرنے ہی والا ہے۔ چنانچہ وقت کا تقاضا ہے کوئی قدم آگے بڑھائے اور آسمان کو تھام لے۔ ہماری تاریخ میں یہ مسیحا وردی پوش رہے ہیں لیکن موجودہ دور میں تاثر ابھر رہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ یہ مسیحائی خاکی وردی پوشوں کی بجائے عدالت کرے ۔موجودہ عوامی مقبولیت قانون کی حکمرانی کے اسی تصور کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو عقل اور منطق کو دیس نکالا دیتے ہوئے ہیرو اور ولن تخلیق کرتا ہے۔ چند سال پہلے جب آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ ہوا تھا تو اُس وقت فوج ہیرو تھی اور عدلیہ ولن۔ کہا گیا کہ دہشت گرد عدالتوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ عدالتوں کی ناکامی کا تدارک کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ لیکن اب ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ ملک کاہر بگڑا کام سنوارے۔
اس سے متعلق کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ جب سندھ ہائی کورٹ کے شاہ زیب کیس کے فیصلے پر سپریم کورٹ 184(3) کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتی ہے تو کیا یہ ہمیں ہائی کورٹس میں ہونے والی زیادتی سے بچا رہی ہے ؟ جب یہ خدیجہ کیس میں سووموٹو لیتی ہے تو کیا یہ ہمیں ضلعی عدالت سے بچا رہی ہے؟ جب یہ زینب اور اسما ریپ اور قتل کیسزکو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے تو کیا یہ ہمیں کریمنل جسٹس سسٹم سے بچا رہی ہے ؟208 ملین کی آبادی والے ایک ملک میں سپریم کورٹ کتنے افراد کو اپنے سووموٹو نوٹسز کے ذریعے تحفظ دے سکتی ہے ، جبکہ اس ملک کے اکثر شہریوں کا تھانے اور کچہری سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ؟
تیسرا (اور سب سے پریشان کن) جواز انصاف کو تنقیہ (catharsis) کا ذریعہ بنانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب ہر طرف انحطاط اور گراوٹ کا سماں ہوتو انصاف کے ایوان سے امید بندھائی جائے کہ ہم سب ٹھیک کردیںگے ۔اس کا نقطہ ٔ آغاز یہ احساس اجاگر کرنے سے ہوتا ہے کہ یہ نظام اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اب اس کی بحالی ناممکن ہے۔ بلکہ معاملات اتنے بگڑ چکے ہیںکہ اب اپنے تمام تر آئینی اختیار کے باوجود سپریم کورٹ بھی کچھ نہیں کرسکتی ۔یہ صرف مشتعل معاشرے کو تنقیہ فراہم کرسکتی ہے۔ اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب کسی اعلیٰ سطح کے عوامی نمائندے کو عدالت میں طلب کر کے اُس کی گوشمالی کی جاتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایگزیکٹو کو گورننس کے معاملات درست کرنے میں وہی مسائل درپیش ہوں جو عدلیہ کو ماتحت عدالتوں کو درست کرنے میں درپیش ہیں؟کیا اس مشکل کی تفہیم ممکن ہے ؟
سوموٹو طرزِ انصاف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسائل کی نشاندہی کرسکتا ہے، انہیں حل نہیں کرسکتا۔ جب سپریم کورٹ کسی مسئلے کا نوٹس لیتی ہے تو ہر کوئی اس پر توجہ دیتا ہے۔ لیکن جب سرکاری افسران کی عدالتوں میں سرزنش ٹی وی ہیڈلائنز کا معمول بن جائے تو غیر معمولی صورت ِحال ایک معمول بن کر زمینی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ ہم افتخار چوہدری کے دور میں اس کا تجربہ کرچکے ہیں۔اُس وقت اسکینڈلز منظر ِعام پر آئے، مقدمات درج کیے گئے، افسران کی سرزنش کی گئی لیکن عملی طور پر کچھ بھی تبدیل نہ ہوا۔
سوموٹو کے دور نے باقاعدہ عدالتی نظام کو نیم جان کردیا۔ جب سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جائے تو پھر تمام متاثرہ افراد براہ ِراست سپریم کورٹ جانا چاہیں گے۔ ایک نظام جہاں چیف جسٹس کی نظروں میں آنے والی ہر چیز اہمیت اختیار کر جائے اور اُسی پر توجہ دی جائے، جبکہ دیگر امور کا کوئی پرسان حال نہ ہو تو اسے قانون کی بجائے من مانی کا نظام کہا جائے گا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 10A سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ آرٹیکل باقاعدہ طریق کار اختیار کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ جب کسی معاملے میں سپریم کورٹ خود ہی مدعی ہو تو یہ بیک وقت غیر جانبدار منصف کیسے بن سکتی ہے ؟اور پھریہاں سے جس کسی کے خلاف فیصلہ آجاتا ہے، اُسے اپیل کرنے کے لیے کوئی فورم دستیاب نہیں ہوتا۔
سوموٹو کے ذریعے تمام اختیارچیف جسٹس آف پاکستان کے دفترکے پاس آجاتا ہے۔ اس کا استعمال سپریم کورٹ کے الفاظ اور افعال کی میکانیات کو مہمیز دیتاہے۔ تاہم اس میکانیات کا تعلق کسی بھی دور میں موجود چیف جسٹس کے سوموٹو کے استعمال پر ہوتا ہے۔ افتخار چوہدری کے سوموٹو ایکشن نے سپریم کورٹ کو اختیارات کی مساوات کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ اُنھوں نے اس کی اتھارٹی کو بے دریغ استعمال کیا۔ اُس وقت کے چرب زبان حلقے سوموٹو کے استعمال پر شادیانے بجا رہے تھے۔ لیکن اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کی کارکردگی کے غیر جذباتی تجزیے سے ظاہر ہوا کہ جسٹس سسٹم کی اصلاح کا کتنا اہم موقع گنوا دیا گیا ہے۔
اب ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کے پے درپے سوموٹو نوٹسز نے ریاستی اداروں کو گویا خواب ِ غفلت سے جگادیا ہے ۔اگرچہ جھنجھوڑنا، تنقید کرنا اور سخت لہجے میں سرزنش کرنا معاملات کی حدت، چنانچہ افسران کی فعالیت، بڑھادیتا ہے لیکن ان کی وجہ سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی ہے۔ ان کے ذریعے تیزی اور تندی ضرور دکھائی دیتی ہے لیکن ان کا حتمی اثر مایوسی اور قنوطیت کی صورت ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ تحریک کے باوجود کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر سوموٹو کے ذریعے اصلاح کے غیر جانبدار عمل کو تقویت دی جائے تو پھر یہ مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ لاکمیشن اینڈ نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کو فعال کریں گے تاکہ شکستہ جسٹس سسٹم کی اصلاح کی جا سکے۔
سوموٹو نوٹسز سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام صوبوں میں کریمنل جسٹس سسٹم کے عناصر(نگرانی اور تادیب، تحقیقات، استغاثہ، عدالتیں اور جیلیں ) کس قدر غیر فعال ہیں، نیز عوام کو معیاری خوراک، صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے والا نظام کس قدر ناقص اور غیر معیاری ہے۔ چیف صاحب نے چیئرمین سینیٹ کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے اصلاحات لانے کے لیے قانون سازی کے تصورات پر بات چیت کی ہے۔ اگر موجودہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ گیئر تبدیل کرتے ہوئے اداروں کو قریب لاتے ہیں اور دیرپا اصلاحات کا عمل شروع کرتے ہیں تو سوموٹو بامقصد ہوجائیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ کی فعالیت پر مغز ہوگی اور اصلاح کی طرف جھکاؤ رکھے گی۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.