نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
از، خضر حیات
رات کے اس پہر جب چاند کے پہرے میں ہمارے حصے والی کائنات سکون کے لمحے میں داخل ہو چکی ہے اور دور کسی اکیلے اداس کتے کی بے قرار بھونک چین کے اس پردے کو چاک کرتی ہوئی مجھ تک پہنچ رہی ہے، میں سگریٹ کے دھوئیں میں کسی کی یادوں کی دھونی دھونکا کر غائب سے آنے والی نیند کی آمد کا انتظار کر رہا ہوں۔
آج یا تو میں غلط پلیٹ فارم پہ آن پڑا ہوں یا میرے حصے کی نیند والی ٹرین کئی گھنٹے لیٹ ہو گئی ہے۔
سوچ رہا ہوں غائب میں چھپی چیزوں پہ ہمارا اختیار ہی کتنا ہے۔ مثلاً خوابوں ہی کو دیکھ لیجیے، آئیں تو آئیں اور نہ آئیں تو انہیں کون مجبور کر سکتا ہے۔وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ کبھی تو گروہ کی شکل میں آ دھمکتے ہیں، ساری ساری رات دوڑاتے ہیں اور کبھی بوند بھر بھی نہیں آتے۔ان معاملوں میں ہم کتنے بے بس ہیں۔
کون کہہ سکتا ہے کہ آج مجھے تکیے پہ سر رکھتے ہی نیند آن ملے گی اور فورًا ہی اس سے لپٹ جاؤں گا۔ نیند سے پہلے نا جانے کتنے ہی خیالوں کے جنگل روز پاٹنے پڑتے ہیں اور تب کہیں جا کر نیند کی آغوش میسر آتی ہے۔ الٹے سیدھے، ٹیڑھے میڑھے اور بے سر پیر خیالوں نے بھی ٹھان رکھا ہے کہ کسی پل چین نہیں لینے دینا۔دن کے جھمیلوں میں تو ساتھ ساتھ یہ بھی دوڑتے دوڑاتے رہتے ہیں اور معمول کے کام بھی اونے پونے قالبوں میں ڈھلتے رہتے ہیں مگر یہ سراسر نا انصافی ہے کہ رات کو نیند بھی ان ہی منچلے اور بے ترتیب خیالوں کی طرفدار ہوکے ایک طرف کھڑی ہوکے یہ تماشا دیکھنے لگ جائے۔ وہ اپنی باری بھی ان خیالوں کو ہی دینے لگ جائے تو میں کس ریفری کے سامنے جا کر اس کی شکایت کروں گا۔اسے بھی ذہن کے اکھاڑے میں بازی گروں جیسے جھولتے یہ خیال دیکھنا بھلا لگتا ہوگا تبھی تو اکثر غائب رہ کر یہ کھیل دیکھتی رہتی ہے اور جس تواتر سے وہ غیر حاضر رہتی ہے مجھے یقین ہے وہ خیالوں اور واہموں کے اس منتشر کھیل سے ضرور محظوظ ہوتی ہوگی۔نیند بھی مجھے سرابوں میں بھٹکتا اور واہموں سے الجھتا دیکھ کر خوش ہوتی ہوگی.
میں لاکھ سماجتیں کرکے تھک بیٹھتا ہوں کہ مجھے آج بہت سے خواب دیکھنے ہیں، آ بھی جاؤ اب، بس کرو، اور نہ ستاؤ مگر مجال ہے جو وہ میری ایک بھی سنتی ہو۔
میں آج ہی سوچ رہا تھا کہ سونے سے پہلے میں نیند کی تلاشی لوں گا کہ میرے لیے اس رات میں وہ کیا کیا لے کے آئی ہے۔کس قسم کے اور کن لوگوں کے خواب لائی ہے۔آج میں کہاں کہاں کی سیر کروں گا، کن کن گلیوں میں گھومتا پھروں گا۔کیا آج بھی انہی کوچوں میں دوڑوں گا جہاں اپنا بچپن چھوڑ آیا تھا یا آج بھی اپنے سرکاری پرائمری سکول کے کلیجی رنگ کے کمرے کے سامنے ٹاٹ پہ اپنا بستہ کھول کے سکے، سلیٹیاں اور کانے کی قلمیں گن رہا ہوں گا یا کیا میں آج بھی اپنے گھر کے قریب کے کھیتوں سے کینو چراتے ہوئے پکڑا جاؤں گا یا کیا میں آج بھی اپنی پرانی سائیکل کچے پکے راستوں پر بھگا رہا ہوں گا یا کیا آج بھی میں کسی خوف کی چادر میں لپٹ کر اپنی اماں کو یاد کرکے روؤں گا یا کیا میں آج بھی ہسپتال کے بیڈ پر بے ہوش پڑے، آخری سانسیں لیتے اپنے ابا جی کو دیکھ کر بے سکون ہوں گا یا کیا میں آج بھی گہرے پانیوں میں ڈوب رہا ہوں گا یا کیا میں آج بھی اپنی محبوبہ سے بالمشافہ ملاقات کروں گا۔
میں آج ہی سوچ رہا تھا کہ نیند کی ہتھیلی کھول کے دیکھوں گا کہ آج اس میں میرے لیے کیا چھپا ہے اور آج ہی نیند نے غیر حاضری کر لی ہے۔ نیند اپنے اسرار کب کسی پہ افشا کرتی ہے۔ اب کھڑی ہے ایک کونے میں اور دیکھ رہی ہے میرا تماشا۔
خیال بھی روز اس زور سے آتے ہیں کہ جیسے آج ہی کا دن ہے اور جو کرنا ہے آج ہی کے دن کرنا ہے۔
میں ناجانے اس پلیٹ فارم پہ اور کتنی دیر کروٹیں لوں گا اور ناجانے کتنی دیر تک بازی گروں کو جھولنے سے باز رکھنے کی لاحاصل کوشش میں ہلکان ہوتا رہوں گا۔
اچھا کبھی میرا بس چلا تو ایک ہی بار میں اپنے حصے کی ساری نیند کو اپنے پاس پکڑ کے رکھ لوں گا اور حسبِ ضرورت جب دل چاہا اس میں سے استعمال کرتا رہوں گا۔صرف اسی صورت میں اپنی بے خوابی کو قابو کر سکتا ہوں اور یہی وہ صورت ہے جس میں میں خیالوں کے جنگلوں میں بھٹکنے سے بھی محفوظ رہ سکوں گا۔
لیکن جب تک یہ اختیار میری بجائے غائب سے آنے والی نیند ہی کے پاس ہے، مجھے ایسے ہی رات رات بھر جاگ کر خیالوں سے الجھتے رہنا ہے۔