مذہبیت، قومیت، جمہوریت اور حقوق انسانی کے آپسی روابط
از، نصیر احمد
نیا یروشلیم
از، ولیم بلیک
عہد قدیم میں
کیا وہ قدم
وطن کے
سلسلہ کوہ پہ
کبھی چلے بھی تھے؟
خدا کے میش مقدس نے
وطن کے گلگشت و گلزار
کبھی دیکھے بھی تھے؟
وطن کے
بادلوں میں گھرے پہاڑوں پر
نور روئے الھی
کبھی چمکا بھی تھا؟
ان شیطانی چکیوں کے درمیاں
کیا کوئی
نیا یروشلیم
کبھی بنا بھی تھا؟
سونے میں دہکتی میری کمان تو لاو
لاو خدنگ آرزو
لاو بادلوں کے کھلے نیزے
میرے آتشی رتھ کی
لاو ہاو ہو
میں انگلستان رزم آرا
ذہن سے میری جنگ
ختم ہوتی نہیں
جب تک
انگلستان کی ارض سرسبز و خوش کن میں
اک نیا یروشلیم
بن نہ جائے
میرے ہاتھوں میں شمشیر
سوتی نہیں
(ترجمہ : نصیر احمد)
یہ نظم نو آبادیاتی زمانے کی نظم ہے۔ اس طرح کے قومی تعصب کو بعد میں رڈیارڈ کپلنگ نے ایک باقاعدہ صنف بنا دیا جس میں انگلستانی تہذیب کے فروغ کے لیےپرائے ملکوں پر قبضے کو ایک فضیلت جانتے تھے کہ آدھے شیطان تہذیب کی برکات سے فیض یاب ہوں۔
وہ کسی مصنف نے انگلستان کے ایک ڈرائنگ روم کی نقشہ کشی بھی کی تھی جس میں ڈرائنگ روم میں موجود زیادہ تر اشیا نو آبادیوں سے ہی منگوائی گئی تھیں۔ ایک حساب سے تو نیا یروشلم بن گیا تھا مگر کسی کو جنگ کی شکل میں اور کسی کو قحط کی شکل میں یہ قیمت ادا کرنی پڑی تھی جس کو نیال فرگوسن ولیم بلیک کی طرح بڑے بڑے جھوٹ بول کر چھپاتے رہتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کچھ حقیقت پسندی کا رجحان ہو گیا تھا جس میں انگلستانی نو آبادیاتی ورثے پر کچھ شرمندہ شرمندہ سے رہتے تھے لیکن جب سے آدھے شیطان کم از کم آئینی طور پر پورے انسان ہو گئے ہیں ان میں سے کچھ نے اس شرمندگی کے ایسے ناجائز فائدے اٹھائے کہ دھیرے دھیرے شرمندگی ختم ہوتی گئی۔
لیکن بنیادی طور پر ان کچھ آدھے شیطانوں کی جو اب پورے انسان بن چکے ہیں کی کارستانیاں تو اک بہانہ ہی ہے، بس وہ ایک معیشتی زوال آیا تو وطن کے لوگوں کی انسانیت اور تہذیب میں دراڑیں سی پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی ابھی اتنا اندھیر نہیں ہوا اور شاید مستقبل میں چیزیں کچھ بہتر بھی ہو جائیں۔
بہرحال، ولیم بلیک کی یہ قوم پرستی کافی مقبول ہے لیکن یہ بس ہرا ہی دیکھنے کی سعی ہے اور اپنی قوم میں ہرا دیکھنے کی لت ایسی ہی ہوتی ہے کہ فکر کے جو رنگ ستم رسیدے بناتے ہیں، ان کی طرف دیکھنے سے گریز ہی کیا جاتا ہے۔
لیکن انگلستان میں ایک خوبی ہمیشہ سے ہی رہی ہے کہ جن گوشوں کی طرف دیکھنے سے لاج آتی ہے ان پر تحقیق و تفتیش کرنے والے حلقے موجود رہے ہیں اور ان کا معاشرے میں اثرو رسوخ بھی رہا ہے۔
جہاں بُرک تھے وہاں فوکس بھی تھے، جہاں ڈزرائیلی تھے، وہاں گلیڈ سٹون بھی تھے، جہاں پاویل تھے، وہاں جارج آرویل بھی تھے، جہاں چرچل تھے وہاں ایٹلی بھی تھے، جہاں کارلائل تھے، وہاں برٹرینڈ رسل بھی تھے،جہاں آزاد بازاری تھے، وہاں بیٹرس ویب بھی تھیں۔ اور تو اور کارل مارکس کو بھی فکری آزادی کے لیے خوش کن اور سرسبز میں ہی پناہ ملی لیکن انھیں انگلستانی طریقوں سے اور خوش کن اور سرسبز سے کچھ اتنی دل چسپی نہیں تھی ۔جہاں خون کی ندیوں سے ڈرا رہے تھے، وہاں ولسن مہاجروں کو سب شہری اور انسانی حقوق بھی دے رہے تھے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک چلا رہا ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے۔
اور سب سے اچھی بات تو ناٹزیوں اور فاشسٹوں سے بہادرانہ جنگ تھی، جو دوسرے یورپی نہیں لڑ سکے تھے اور ایک فلاحی ریاست کا ایک قائل کرنے والا آغاز جو دوسرے یورپیوں میں سے کچھ نے انگلستان سے زیادہ بہتر کر لیا تھا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، لیکن یہ جنگجو قسم کی قومیت ایک اچھا رجحان نہیں ہے، کہیں بھی ہو۔ شعر و سخن میں تو بھلی لگتی ہے لیکن اس قومیت کو انسانیت اور جمہوریت کا پابند ہی رکھا جائے تو ملکیوں کے لیے بھی اچھا ہوتا ہے اور غیر ملکیوں کا بھی بھلا ہو جاتا ہے۔
اب نئے یروشلیم کے لیے کمانوں، شمشیروں اور نیزوں کی اتنی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر پاکستان میں ولیم بلیک کی پیروی میں ہما رے لوگوں نے بھی راکٹ کر دینے والی شاعری کی مگر ایک اچھے شہر کے لیے ضمیر و خرد، علم و عمل، تحقیق و تفتیش، تنظیم و ترتیب کی شاید زیادہ ضرورت ہے۔ اب تو ہمارے پاس جدید ترین جنگی آلات ہیں مگر شہر کا نظارہ ابھی تک سوز نظرہے۔اور کبھی کسی کا احوال جاننے کی کوشش کریں تو درد جگر بڑھ جاتا ہے۔
ولیم بلیک کی نظم میں بھی قومیت کے ساتھ دین منسلک ہے۔ایک تاریخی قصہ بھی ہے کہ جناب مسیح ایک دفعہ انگلستان آئے بھی تھے۔ ہم تو ہنس ہی پڑے ہیں مگر دین داروں کی ہم اکثر دلداری ہی کرتے ہیں، اس لیے جناب مسیح کو انگلستان میں پہنچا دیتے ہیں لیکن ولیم بلیک کو خود بھی کچھ زیادہ یقین نہیں ہے مگر انھوں نے اس بے یقینی کے ارد گرد بھی وطنیوں کا کلیجہ سیر کردیا ہے۔
اب جناب مسیح کے ذکر کے ساتھ دعا و مناجات ہی سجتے ہیں، مگر ولیم بلیک نے بھی شمشیر و سناں کے ساتھ ہی اس مذہبی قومیت کو منسلک کیا ہے۔ آپ کو بھی یہ سب کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہو گا۔ کچھ ہم توجہ دلا بھی رہے ہیں، مگر اس ساری فنکاری کا ایک نتیجہ جنگ، جبر اور قحط ہی نکلا تھا۔
ہمارے ہاں بھی نتائج کچھ مختلف نہیں نکلے ہیں لیکن جو آدمی خود کہے
صورت نہ پرستم من
بت خانہ شکستم من
جب اس کی بات بھی بت بن جائے تو ہمیں بھی یہی کہنا چاہیے
صورت نہ پرستم من
بت خانہ شکستم من
انصاف کا تقاضا تو یہی ہے مگرہم لوگ لفاظی سے کچھ ایسے متاثر ہو جاتے ہیں کہ سچی بات نہیں کہہ پاتے۔ لیکن یہ بات کہنی تو پڑے گی، اچھے انسان، اچھے شہر، اچھے سکول، اچھے کالج، اچھے ادارے اور اچھی دکانیں سچی بات کے بغیر کب ممکن ہوتی ہیں؟
ولیم بلیک بھی اک ذہنی سفر تھا جس کا انگلستان میں کچھ مقابلہ بھی ہو گیا لیکن جرمنی اور بر اعظمی یورپ میں اس سفر کو بہت سہولتیں مل گئیں۔ بھارت والے اور ہم بھی ان سہولتوں سے فیض یاب ہوئے جس کے نتیجے میں شعر میں تہور و تمکنت تو آ گئی مگر معاشرت سے انسانیت بے دخل ہوتی رہی، اور ہوتی رہے گی، جب تک ہم لوگ مذہبیت اور قومیت کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے تابع کرنے کے لیے سچی بات نہیں کرتے۔