مقدمۂ تصوف از، ایویلائن انڈر ہل، حصہ دوم
ترجمہ: جمشید اقبال
شخصی میلانات اورداخلی آب و ہوا دانش ورانہ پرواز کی سرحدوں کا تعین کرتی ہے۔ اس بنیاد پر ہماری ڈھونڈ ڈھانڈ، کھوج اور جستجو کی حدزمین کے آخری سروں تک نہیں بلکہ ہمارے حواس کی محدود تر سرحدوں تک ہے۔ اس لیے عرفانِ ذات (to know oneself) ہی عرفانِ کائنات ہے۔ لہٰذا جس نے اپنے آپ کو پہنچان لیا۔ وہ سب جان گیا جسے جانا جاسکتا ہے۔ ہم سب حواس کے قیدی ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اچانک اِن حدود کو توڑ کر باہر نکل آئیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں حواس کی راہیں کہاں لے کر جاتی ہیں۔
اکہارٹ کے الفاظ آج بھی اس ضمن میں سندی قدر کے حامل ہیں:
”ذات (قبل از عرفان، خالق کے برعکس) صرف تخلیق/ مخلوق تک محدود رہے گی۔ یہ اپنے بنائے ہوئے واہماتی تصورات اور تاثرات کے صحراؤں میں نا آسودہ بھٹکتی پھرے گی۔”
تاہم ممکن ہے کہ اس صحرانوردی اور آبلا پائی کے لمحات میں ہمارا زاویہ نظر بدل جانے سے سب بدل جائے۔ اور ایک نئی کائنات لباس مجاز میں چمک اٹھے۔
ولیم جیمز نے ایک مرتبہ اپنے ایک تصوریت پسند دوست کو نہایت خوب صورت مشورہ دیا تھا۔
”ہر حس سے وہ کام لینے کی کوشش کروجو اُس کے دائرہِ کار میں نہیں ہے۔”
اُس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سب سنو جو دیکھتے ہو اور وہ سب دیکھو جو سنتے ہو۔ ساز دیکھو اور رنگ سنو!
ایک دانش ور کا یہ جملہ ایک عملی صوفی کی بظاہر لا یعنی اور غیر منطقی بات میں پنہاں روحانی دانش کی رمز کشائی کرتا ہے۔ سینٹ مارٹن نے کہا تھا:
”میں نے پھولوں پر کان دھرے تو مجھے سنائی دیا۔ میں نے سُروں کو دیکھا اور وہ جگمگا اُٹھے۔”
دیگر صوفیا نے بھی اس سے ملتے جلتے تجربات پر بات کی ہے۔ یوں لگتا ہے سماعت کو بصارت سے جدا کرنے والی دیوارِ فاصل صوفیانہ واردات کے بعد دھربوس ہوجاتی ہے۔ اور اُس کے بعد رنگ و بو ، صوت و آہنگ ایک حقیقت کے باہم مربوط پہلو دکھائی پڑتے ہیں۔
موسیقی کیا ہے؟ منظم ارتعاش کا ایسا دریا جس کااداراک محض سماعت کو ہوتا ہے۔ رنگ کیا ہے؟ ہم آہنگ ارتعاش کی ایک دوسری قسم جس کی لہریں بصارت پر وا ہوتی ہیں۔ اِن سب حقائق کا طبیعی سائنس کے دائرہِ کار میں داخل ہونا ضروری ہے۔
فکر و نظر کے اس انقلاب کے بعد بھی ہم دنیا کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھیں گے؟ اس کایا پلٹ کے بعد بھی ہم غیب سے آنے والے پیغامات کی روایتی اور سطح پرست تشریح و تعبیر پر اکتفا کریں گے؟ نہیں! ہمیں وہ کچھ دکھائی دینے لگے گا جو آج تک دکھائی نہیں دیا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ حُسن اور اسرار میں دُھل جائے گا۔ سب کچھ وہی رہے گا۔ صرف زبان بدل جائے گی۔ پیغام بدل جائے گا۔ پرندوں کے گیت ہماری آنکھوں میں رنگ ہی رنگ بکھیر دیں گے۔ ہم ہواؤں کے جادوئی سُروں پر جھوم اٹھیں گے۔ ہم جنگل کے سبزے کو دل کے کانوں سے سن کر بے خودی کا لطف اٹھائیں گے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ ہماری حسیات کو کس قدر معمولی تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ معجزہ ہمارے سامنے رُو پذیر ہونے لگے گا؟ اُس وقت ہم جان پائیں گے کہ وہ لوگ بہری اور اندھی دنیا میں اصحابِ گوش و نظر تھے جنہوں نے کائنات کو نورِ ازل (un-created light) سے منور اور ملکوتی موسیقی سے مترنم پایا۔ یہ لوگ ہمارے سطح پسند دوستوں طرح اس جنون میں مبتلا نہیں تھے کہ ”جو مجھے دکھائی دے رہا ہے وہی حقیقت ہے اور اِسے تسلیم کرنا سب پر فرض ہے۔”
یہ لوگ حقیقت کے کسی معیاری اور سرکاری تصور کو عام کرنے کے لیے کام نہیں کر رہے تھے بلکہ اِن کا مقصد کائنات اور حقیقت کے استعاراتی و جمالیاتی پہلوؤں کو بے نقاب کرنا تھا۔
معلوماتِ عامہ، تجزیے اور مشاہدے پر قائم نظریۂ کائنات تصوراتی خاکے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تصور ظاہری کائنات کی وضاحت کرنے کی بچگانہ اور بے مرادکوشش کے سوا کچھ نہیں۔ یقینا یہ تصور انسانی ذہن کی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اور ہم میں سے بیشتر اس تصور پر قناعت کیے بیٹھے ہیں۔ سارا کھیل اس ذہن کے اندر کھیلا جارہا ہے۔ لیکن ہم ظاہر ی کھیل تماشوں میں مگن ہیں۔
اس لیے باطنی مذاق سے محروم افراد کے نزدیک حقیقت مطلقہ کے دیدار کا تصور ہی ناممکن ہے۔ ہم حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ یہاں تک کہ عام سے عام شے کے وجود کی حقیقت کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ انسانی کی مدرکاتی حدود کا احساس سب کو ہے۔ تاہم بعض اسے تسلیم کرتے ہیں اور بعض انکار۔ لیکن انسانی کنبے میں ہر دور میں ایسی پُراسرار ہستیوں نے جنم لیا ہے جو انسانی ادراک کی ناداری کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ لیکن اس پر قناعت کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔
ان لوگوں نے دُرون بینی کا آغاز ایک ہستی کے تصور سے کیا جو ٹیلی گراف کے دوسرے سرے پر موجود تھی۔ وہ سب ہیولوں اور پرچھائیوں سے پار حقیقت کو بے نقاب دیکھنا چاہتے تھے۔ غیب تک رسائی کا درد اُنہیں مسلسل بے چین کیے جاتا ہے۔ یہ لوگ حقیقت کے بھوکے ہیں اور انہیں بطن سیری کا اہتمام کرنا ہے۔ سیر نہ ہوپائیں تو روحانی فاقوں سے تو بچنا ہی ہے۔
ما بعداز طبیعات اور جمالیاتی تجربات کی طرح مذہبی اور روحانی تجربات بھی موضوعی اور ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس لیے حقیقت شناسوں نے ان تجربات کو اپنی الگ زبان میں ڈھالا ہے۔ اسی بنا پر ولیم جیمز نے (موضوعی کائنات میں) روحانی تجربے کو ”استدلال” کی بجائے ”وژن” کہا ہے۔ تاہم مابعدازطبیعاتی فکر کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو روایتی دبستانوں سے آزاد رکھ سکے لیکن روحانی اور مذہبی تجربات کے سلسلے میں ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ مذہبی تجربات ، ظاہری سطح پر، مخصوص کلیسائی لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
آگے چل کر ہم حقیقتِ مطلقہ کے کلاسیکی نظریات پر بات کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ انسان تنہا عقل کے بل بوتے پر حقیقت تک رسائی کے قابل ہوسکا ہے یا نہیں۔
1۔ عقل پرست دبستانوں کے سُرخیل واقعیت پسند (Naturalist) ہیں جنہیں عام طورپر حقیقت پسند کہا جاتا ہے۔ یہ دبستانِ فکر محض فطری عناصر، قوتوں اور سائنسی قوانین کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے اور فوق الفطرت، روحانی اور غایتی دلائل پر کان نہیں دھرتا۔ بعض واقعیت پسندوں یا حقیقت پرستوں کے نزدیک دینی حقائق بھی الہام ، کشف اور وجدان کی بجائے مطالعۂ قدرت سے حاصل ہوتے ہیں۔
واقعیت پسندی حواس پرستی کی پیداوار ہے اس لیے حقیقت پسندانہ تعبیرعرفان ِ کائنات کی ایک بچگانہ کاوش ہے۔ حقیقت پسنداس غلط فہمی کا شکار ہیںکہ” حقیقی دنیا وہ ہے جس کی تصویر ہمارے سامنے۔ لیکن ہم اُسے اچھی طرح دیکھ نہیں پائے۔”
جو کچھ ایک عام شخص کو نظر آرہا ہے۔ وہ (تقریباً) موجود ہے۔ اس لیے حقیقت پسند مادی دنیا کو ہی حقیقی دنیا سمجھتے ہیں۔
وہ لوگ جو حسیاتی لحاظ سے ایک متبادل دنیا کے باسی ہیں خارجی کائنات سے مختلف معنی کشید کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم حواس کی خبر پر یقین کرتے ہوئے خارجی کائنات کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ”حواس خمسہ سودمند غلام مگر خطرناک رہنما ہیں۔ “تاہم حواس کی پیش کردہ شہادتیں اُن لوگوں کے نزدیک کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں جن کے بیانات حواسی اشارات سے متصادم اور متناقض ہوتے ہیں۔
باشعور ذات، مثال کے طورپر، ٹیلی فون لائن کے ریسیور پر مقیم ہے۔ اُس کی حقیقت شناسی کا دارومدار ٹیلی فونک آلے پر ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ دوسری طرف کیا ہورہا ہے۔ اُس نے وہی کچھ ماننا ہے جو اُس آلے کے توسط سے اُس تک پہنچ رہا ہے۔ وہ وہی کچھ جان پائے گی جو اُس تک ٹرانسمٹ ہوپائے گا۔ کیونکہ ”مفروضاتی خارجی دنیا” اور شعور کے رابطے کا ذریعہ ایک ایسا آلہ ہے جو حقیقتِ مطلق کو اُس تک نہیں پہنچا پائے گا۔ اُس تک جو کچھ پہنچے گا وہ چنیدہ اور امکانی نوعیت کا حامل ہوگا۔ اس لیے وہ اُس حقیقت کو کبھی نہیں جان پائے گی جو تار کے دوسرے سرے پر موجود ہے۔ وہ اُس سنٹر کو کبھی نہیں جان پائے گی جہاں سے پیغامات اور اشارے بھیجے جارہے ہیں۔ اور اِن پیغامات کی مدد سے پیغام رساں تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ کیونکہ یہ پیغامات شعور تک رسائی پاتے ہی اُس کے باطنی موسموں کے مطابق بھیس بدل لیتے ہیں۔
لیکن اِن پیغامات کی مدد سے ذات یہ جان لیتی ہے کہ اُس کے علاوہ کوئی ایسی ہستی بھی موجود ہے جو زمانی و مکانی حدود سے آزاد ہے۔ جو اُس کے ریسیور سے ماورا اور بلند تر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آلات، جن کی مدد سے آپ تک پیغامات پہنچ رہے ہیں، پیغامات میں رد و بدل کر رہے ہیں۔ یہ آلات اِن پیغامات کو آپ کی داخلی کیمسٹری اور جغرافیہ سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔
اس لیے آپ کو موصول ہونے والے حواسی پیغامات فرض کردہ حقیقت سے متعلق ہونے کے باوجود اُس کا نقشِ ثانی نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ لطیف ترین اشارات کی منتقلی بذریعہ حواس ممکن نہیں۔ اس لیے پیغام کی روح ہمیشہ ذائل ہوجاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر دنیا کے کچھ پہلو اس قدر لطیف ہیں کہ ہمارے کثیف آلات اُن کی خبر دے ہی نہیں سکتے۔