2018 کے لاہور کتاب میلے کی مہک
از، حسین جاوید افروز
ایک پرانا مقولہ ہے’’ خریدو نئی کتا ب پہن کر پرانا کوٹ‘‘۔یہ بات لاہور ایکسپوسینٹر میں منعقدہ کتاب میلے پر مکمل طور پر صادق آتی ہے ۔ہر سال فروری کے موسم میں جب جاڑا دھیرے دھیرے رخت سفر باندھ رہا ہوتا ہے تو ایسے میں بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ لاہور میں کتاب میلہ بھی سج جاتا ہے ۔اب کے برس میں وسیع ہال میں قریباٰ پونے تین سو کے قریب بک سٹالز نے گویا ہر طرف کتابوں کی خوشبو کو بکھیر دیا ۔لاہور میں یہ کتاب میلہ 2007 سے ہی منعقد کیا جارہا ہے ۔ابتدا میں یہ فورٹریس سٹیڈیم پر سجایا جاتا رہا لیکن 2011 سے ہی اسے ایکسپو سینٹر جیسا مثالی فورم مل گیا جس کے بعد اب ہر سال لاہورئیے سال بھر کے کڑے انتظار کے بعد کتابوں کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں یہاں پہنچ جاتے ہیں ۔یہاں پہنچ کر آپ کتابوں کی ایک وسیع کائنات سے روشناس ہوتے ہیں ۔ملک کے بڑے بڑے جانے مانے پبلشرز اپنے سٹالز پر قریباٰ ہر موضوع پرکتابیں سجائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔تاریخ ،فلسفے ،سیاسیات ،نصابی کتب ،سفر نامے ،افسانے اور خصوصاٰ بچوں کے لیے تو یہاں ہر وقت دلچسپی کا سامان موجود رہتا ہے ۔کتاب بینی ہمیشہ سے ہی معاشرے میں ایک صحت مند رجحان رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خصوصا نوجوانوں میں کتاب سے دوری ایک دائمی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔اور وہ اپنا وقت اور سرمایہ پلے سٹیشن گیمز ،سوشل میڈیا اور اور موبائل کی خریدو فروخت میں لٹا رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب شہر سے لے کر قصبوں تک محلوں میں آنہ لائبریریاں قائم ہوتی تھیں اور مطالعے کے رسیا ان لائبریریوں میں جاکر علم کی پیاس بجھایا کرتے تھے ۔جبکہ آج لاہور شہر کی بڑی لائبریریوں مثلا قائد اعظم لائبریری یا پنجاب پبلک لائبریری کو ہی لیں، وہاں اب بھی لوگ آتے ہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں لوگوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوچکی ہے۔
آج بھی دیدہ زیب الماریوں میں بند کتابیں اپنے قاری کے قدموں کی چاپ سننے کے لیے بے تاب ہیں ۔اس بار کتاب میلے میں ترک ناولوں کے سٹال پر بھی خاصا ہجوم دیکھا گیا ۔جس طرح ترک ڈرامے میرا سلطان نے پاکستانی ناظرین کو مہبوت کر دیا ہے اسی طرح اب دھڑا دھڑ ترک ناولوں کے اردو میں ترجمے کیے جارہے ہیں ۔اسی طرح ہمارے ہر دلعزیز مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتابوں، جن میں سفر نامے ،ان کے کالمز اور خصوصاٰ ان کے ناول شامل ہیں پر عوام ٹوٹتے نظر آئے ۔ان کی تازہ ترین کتاب شہر لاہور کے بارے میں’’ لاہور آوارگی ‘‘ہے جس کو بڑی تعداد میں لوگوں نے خریدا اور اسے پذیرائی بخشی ۔اس کتاب میں تارڑ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لاہور شہر سے وابستہ اپنی یادوں ،لاہور کی پرانی حویلیوں ،دریچوں ،لاہور کے قدیم دروازوں پر مفصل روشنی ڈالی جو کہ پڑھنے کے لائق ہے ۔ جبکہ ان کے تازہ ترین سفر ناموں ’ میں’پیار کا پہلا پنجاب اور حراموش ناقابل فراموش‘‘ کو بھی لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جس کو ہضم کرنے کی حد تک پڑھ لینا چاہیے۔اور اس کتاب کو بار بار پڑھنے سے اس کے نئے معنی سامنے آئیں اور شعور کو جلا ملتی رہے ۔اس حوالے سے بھارتی دانشور ارون دھتی رائے کے شہرہ آفاق ناول’’ Ministry of utmost happiness‘‘ پر اس برس بھی خاصی گہما گہمی دیکھنے میں آئی ۔ا س ناول سے انڈین سماج کی تلخ سچائیوں سے پردہ اٹھانے کی سچائی سے کوشش کی گئی ہے ۔یاد رہے ارون دھتی رائے نے یہ ناول بیس برس کے طویل وقفے کے بعد تحریر کیا ہے ۔تاہم جب کرکٹ کے حوالے سے کتابوں پر بات کی جائے تو ایک امر نہایت افسوس ناک تھا کہ میلے پر پاکستانی کرکٹ پر کتابیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس کے برعکس انڈین رائٹر ز کی ہندوستانی کرکٹ کے حوالے سے کتابیں تواتر سے نظر آئیں اور ہر سال ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسا کہ سابق بھارتی بلے باز سنجے منجریکر کی سوانح حیات Imperfect بھی کرکٹ سے شغف رکھنے والوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔بچوں کے کے لیے اس کتاب میلے میں کرنے کو بہت کچھ تھا ۔بچوں کی انگریزی اور اردو زبان میں کہانیوں کی کتب ،نظمیں اور کلرنگ بکس کا وسیع ذخیرہ یہاں موجود تھا ۔یہ نہایت خوش کن امر تھا کہ والدین بڑی تعداد میں بچوں کے ہمراہ آئے ہو ئے تھے ۔اور اس کم عمری میں بچوں کو کتابوں کے میلے کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جو کہ ان کے مستقبل کے لیے ایک بہت سود مند مشق تھی ۔ہمیں بچوں کو کتابوں کی جانب واپس لانا ہوگا تاکہ تعلیمی نصاب کے علاوہ بھی وہ تاریخ ،جغرافیہ اور فکشن کی ابتدائی بنیادوں کو سمجھ سکیں اور مستقبل میں خود کا مستقل مطالعے کا شائق بنا سکیں ۔المیہ ہے کہ ہمارے بچے جسمانی کھیل کود اور کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں جن کے ذمہ دار والدین ہیں۔
ہم نے اپنے بچپن میں عمرو عیار، ٹارزن، داستان امیر حمزہں تعلیم و تربیت، نونہال، پھول، آنکھ مچولی اور پھول کو ڈوب کر پڑھا اور اس کے نتیجے میں آج ہم خود سے کچھ پڑھنے کی عادت ڈالنے میں کسی حد تک کامیاب ہیں۔ جبکہ اب ہم نے اپنے بچوں کو رسالوں اور کہانیوں کے بجائے joystick تھما دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے بچہ تاریخ ،جغرافیہ، اور فکشن سے دور پرتشدد وڈیو گیمز پر وقت گزار رہا ہے جوکہ بدقسمتی سے ایک ضرررساں رجحان ہے۔ جبکہ اسی کتاب میلے میں پاکستانی، مسلم، ہندوستان اور دنیا کی تاریخ پر مبنی تصویری کتابیں نہایت مناسب قیمت پر بچوں کے لیے دستیاب تھیں۔
افسانے کی صنف سے شغف رکھنے والوں کے لیے نامور افسانہ نگاروں کے بیشمار شاہکار رکھے گئے تھے۔ احمد ندیم قاسمی ،پریم چند ،کرشن چندر، عصمت چغتائی ،گلزار ،اشفاق احمد اور راجندر سنگھ بیدی کے شاندار افسانے دماغ کے دریچے کھولنے اور زندگی کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں ۔سفر نامے کے شوقین قارئین کے لیے مستنصر حسین تارڑ اور عطاء الحق قاسمی کے سفر نامے ،سفر کے شوق آوارگی کو جلا بخشنے کے لیے تازیانے کا کام کرتے ہیں ۔پاکستان کی بات کریں تو جس طرح مستنصر حسین تارڑ نے گلگت بلتستان سے سندھ کے ریگزاروں تک کی منظر کشی اپنے سفر ناموں کے ذریعے بہت مہارت سے کی وہ ہمارے لیے پاکستان کے لینڈ سکیپ کو سمجھنے کے لیے بہت مدد دیتی ہے۔
اسی طرح بیرون ملک سفر نامے کی بات کریں تو اس ضمن میں عطاء الحق قاسمی کے یورپ ،امریکہ ،بھارت اور آسٹریلیا کے حوالے سے سفرنامے قارئین کے لیے خاصی دلچسپی کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔اسلامی تاریخ ،دین اسلام ،قرآن فہمی اور تفسیر قرآن سے شغف رکھنے والوں کے لیے وافر تعداد میں انمول ذخیرہ موجود تھا ۔کئی ممتاز عالم دین کے وڈیو لیکچرز بھی بڑی تعداد میں دستیاب تھے ۔بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور سیاستدان ،دانشور ششی تھرور کی کتاب an Era of Darkness British Empire بھی تاریخی حقائق کی عمدگی اور مہارت سے عکاسی کرنے میں خاصی کامیاب ٹھہری ۔ اس کتاب میں ششی نے اعدادوشمار کی روشنی میں ثابت کیا کہ کس طرح برطانوی راج کے دوران ہندوستان کی دولت اور وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا اور اگر ہندوستان پر ا نگریزی غلامی کے سائے نہ پھیلتے تو آج کا برصغیر زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ۔اسی طرح عالمی امور کے ماہر رائٹراحمد رشید کی کتاب ’’امریکہ کی بدعہدی ‘‘بھی پاک امریکہ تعلقات کو افغانستان کے پیچیدہ ترین مس لیے کے تناظر میں سمجھنے کے حوالے سے ایک نادر اضافہ ہے۔جبکہ سابق بھارتی صحافی دیوان سنگھ مفتون کی سوانح عمری’’ ناقابل فراموش ‘‘ کا تازہ ایڈیشن بھی قارئین کے لیے ایک قابل قدر کاوش ہے جس کے مطالعے سے برطانوی ہندوستان اور تقسیم ہند کے حالات کا عمیق گہرائی سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح حسن معراج کی کتاب’’ ریل کی سیٹی‘‘ بھی پنجاب کے کئی بڑے چھوٹے ریلوے سٹیشن اوران سے ملحقہ شہروں اورقصبوں کی تاریخ ،ان کی معاشرت پر ایک پرلطف تجزیہ پیش کرتی ہے ۔اگر آپ عثمانی سلطنت کے عروج و زوال کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں ’’سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال کی داستان‘‘ ایک شاندار کتاب ہے جو ہمیں ترک عظمت اور جاہ جلال سے لے کر تاریخی لغزشوں کے متعلق نہایت مفید جانکاری فراہم کرتی ہے۔
تاہم لاہورئیے جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں ان کے لیے برابر کے ہال میں کھانے پینے کے مختلف سٹالز سجائے گئے تھے ۔جہاں مختلف فیملیز کتا بیں خریدنے کے بعد پیٹ پوجا میں مشغول رہیں ۔کچھ دوستوں کے خیال میں لاہور لٹریری فیسٹول کی طرز پر یہاں کتاب میلے کے ساتھ ادبی محفلوں کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے ۔کہیں فلسفے پر ممتاز فلسفیوں کے ساتھ مکالمہ ہورہا ہو،کہیں ڈرامے کے پس منظر اور معاشرے پر اس کے اثرات پر گفتگو کی جارہی ہو ،کہیں تاریخ دان ،تاریخ کے مختلف ادوار پر ذہانت کے موتی بکھیر ے جا رہے ہوں ۔تو کہیں فلم میکنگ ،ناول اور افسانے کی بنیادوں اور تکنیک پر مباحثے ہورہے ہوں ۔تاہم یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ شہر کے سب سے بڑے کتاب میلے پر کئی مشہور پبلشرز غیر حاضر رہے جن کی کمی بہرحال محسوس کی جاتی رہی ۔ اس کے ساتھ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ انگریزی کتب کے سٹالز پر کتابیں تو ہر موضوع پر دستیاب تھیں لیکن ان کی قیمت بہت ہی زیادہ تھی ۔اس پر پبلشرز کو دھیان دینا چاہیے ۔لیکن صاحب ایسے علمی میلے کا مستقل بنیادوں پر انعقاد ہونا اپنے آپ میں ایک لائق ستائش کاوش ہے ۔لاہور شہر کی اصل پہچان کتاب ،علم ،مباحثہ ہی رہا ہے ۔تو جب اس بھاگتی ہوئی زندگی میں کبھی کبھی کتاب میلے جیسی صحت مند کوئی سرگرمی ظہور پذیر ہوتی نظر آئے تو اس سے استفادہ کریں اور بار بار کریں ۔یاد رکھئے کتاب سے بہترین رفیق کوئی نہیں،اس کی قدر کریں۔