ہیرو ہی تو ولن ہے
از، وسعت اللہ خان
وہ فلمیں نچلے کچلے طبقات میں سپر ہٹ کیوں ہوتی ہیں جن میں ہیرو آخر تک ولن کا مقابلہ کرتے کرتے یا جان دے دیتا ہے یا لے لیتا ہے۔تالیاں دونوں صورتوں میں بجتی ہیں اور ہیرو کو دونوں صورتوں میں فتح مند گردانا جاتا ہے۔ ولن ہارے کہ جیتے ولن ہی رہتا ہے۔ ایسی فلموں کے ہیرو کا حیاتی پس منظر بھی فلم بینوں کی طرح کا ہی دکھایا جاتا ہے۔
جیسے قلی، رکشے والا ، مزدور،کسان، جرائم پیشہ باپ کا اصولی بیٹا ،کسی دکھیاری بیوہ کا اکلوتا سپوت۔ اور پھر ہمارا ہیرو برداشت کی سرخ لائن عبور کر کے بغاوت کر دیتا ہے۔وہ جہاں کھڑا ہو جاتا ہے لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے۔وہ پولیس کی زیادتیوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ خون چوس مل مالک کے استحصال اور معاوضے کو ترستے مزدوروں کے درمیان سدِ سکندری ہو جاتا ہے، کسی ظالم زمیندار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے سینہ چوڑا کر لیتا ہے،کسی بدعنوان سیاستداں کی بدمعاشیوں کا پردہ چاک کر دیتا ہے، عدالت کے نام پر ہونے والی ناانصافیوں کا پول کھول کے نظام کی دھجیاں اڑا دیتا ہے،کسی بچے کو خرکاروں کے چنگل سے اور کسی لڑکی کو ریپ ہونے سے بچا لیتا ہے۔
غرض ہمارا ہیرو ہر وہ ہمالیہ سر کر لیتا ہے جو پردہِ اسکرین کے سامنے مبہوت بیٹھا عام آدمی نہیں کر سکتا۔اور جب یہ ناٹک ہو رہا ہوتا ہے تو ہر تماشائی خود کو ہیرو کی جگہ ایسے تصور کرتا ہے گویا یہ لڑائی وہ لڑ رہا ہو۔
ہیرو ہر اس شخص کی نفسیاتی ضرورت ہے جو خود ہیرو نہیں اور دنیاوی جکڑ بندیاں اسے ہیرو بننے سے باز رکھتی ہیں۔ ہیرو وہ بادل ہے جس کے گھنگھور سائے میں میری بزدلی کچھ دیر کے لیے پڑاؤ ڈالتی ہے اور پھر آگے چل پڑتی ہے۔ہر وہ شخص جو سینما سے باہر کسی کا چھوڑ اپنا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس کے لیے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہیرو ڈھائی تین گھنٹے کا محسن ہے۔
ہیرو میرے جبلی احساسِ محرومی کا مداوا ہے بھلے عارضی ہی سہی، جھوٹا ہی سہی ، یہ ہیرو ہماری دبے ہوئے، مسلے ہوئے اعصاب کو کچوکے دیتا ہے اور انھیں مختصر وقت کے لیے زندہ کردیتا ہے۔ہیرو تیسرے چوتھے سین میں ہی ہمارا دودھ شریک بھائی، سرپرست اور محافظ بن جاتا ہے۔ہم اس کے اور وہ ہمارا ہو جاتا ہے۔ہم اس کی محبت،خوشی،دکھ، مشکلات،کامیابی و ناکامی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں۔ ڈھائی تین گھنٹے کے لیے ہی سہی۔
فلمی ہیرو کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ پرفیکٹ ہوتا ہے۔جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا وہ کسی صورت نہیں ہار سکتا، بھلے کہانی کتنے ہی خطرناک موڑ لے لے۔مگر ایک مقام ایسا ہے جہاں وہ بھی ہار جاتا ہے اور وہ ہے سینما کے باہر زندگی کے حقیقی پردے پر چلنے والی فلم۔ سینما اسکرین سے باہر وہ بھی میری آپ کی طرح ایک عام سا آدمی ہی ہوتا ہے۔ایک ایسا اکبرِ اعظم جو شوٹنگ پیک اپ ہونے کے بعد اسکوٹر کو ککیں مار مار کر اسٹارٹ کرتا ہے اور راستے میں سے سبزی اور دودھ لیتا ہوا مضافات میں بنے گھر کی جانب چل پڑتا ہے۔
جہاں سے آگے پردے کا ہیرو نہیں جا سکتا عین وہیں سے زندگی نامی فلم کی ازلی کہانی کے حقیقی ہیرو کا سفر شروع ہوتا ہے۔فلمی ہیرو کے برعکس حقیقی زندگی کے ہیرو کا ناقابل ِ تسخیر یا پرفیکٹ ہونا ہرگز ہرگز ضروری نہیں۔بلکہ اصل زندگی کا ہیرو تو وہ ہوتا ہے جسے اگر اکثریت ہیرو سمجھے تو کچھ لوگ اسے ولن بھی سمجھیں۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں۔
اصل زندگی کے حقیقی ہیرو کی حقیقت و مقبولیت و عزت ناپنے کا فارمولا بہت سادہ ہے۔اگر عوام کی اکثریت کسی کو غدار ، نظریاتی دشمن ، سیکیورٹی رسک ، بیرونی قوتوں کا آلہ کار، تخریب کار، شرپسند، منافق اور اکثریتی طبقے کا دشمن سمجھ رہی ہے تو نوے فیصد تک امکان ہے کہ اس تاثر کے پیچھے کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہو گی۔
لیکن اگر کسی خفیہ کا کوئی دیہاڑی دار خبری،کسی مخصوص نظریاتی گروہی سوچ کا فوٹو کاپئیر، جعلی نام اور شناخت کی نقاب کے پیچھے سے کارروائی ڈالنے والا کوئی ٹویٹری تخریبیا، کوئی آرام کرسی توڑ بک بکی فیس بکیا، نرگسیت کا مارا کوئی یو ٹوپیا، سیکنڈ ہینڈ دماغ کا مالک کوئی دانش ور، کرائے کی عقل استعمال کرنے والا کوئی اینکر، کوئی فارغ العلم کالمی، ارسطو کو اپنی فرسٹ کاپی سمجھنے والا کوئی مضمون نگار، کوئی عرضی نویس صحافی، ہر موسم میں شکوک بونے والا کوئی تعلیمی کسان، علم کے توے سے ادھ پکی روٹی اتار کر دوڑ پڑنے والا کوئی عالم، موقع پرستی کے مندر کا کوئی توتا چشم پروہت، ’’حسین سے بھی مراسم یزید کو بھی سلام‘‘کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے قانون دانوں کا کوئی ٹولہ، غرورِ جہل گزیدہ کوئی استاد، یا کوئی ماتھا ٹیک ٹائپ سیاسی کمدار اگر عوام کے کسی ہیرو کو متواتر ولن بتا رہے ہوں تو آنکھ بند کر کے مان لو کہ کانٹے کی طرح کھٹکنے والا یہ ولن تکلیف سے جوج رہی انسانیت کے حق میں کوئی نہ کوئی بڑا یا اچھا کام ہی کر رہا ہوگا۔ عاصمہ جہانگیر ایسے ہی ہیروز اور ولنز کی عوامی عرفیت ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو