آئین کی حکمرانی اور ضیاء الحق کی روح
از، امتیاز عالم
لگتا ہے کہ ضیاء الحق کی روح آئین میں عود کر آئی ہے۔ اب تمام بنیادی حقوق مشرف با ضیائی اخلاقیات ہوچکے ہیں۔ جس آئین کے نفاذ کے لیے، جس کی تکریم اور بالادستی کے جو خواب ہم نے دیکھے تھے، اُنہیں ہم نے ٹوٹتے اور ردّی کی ٹوکری کی نذر ہوتے تو بار بار دیکھا تھا، لیکن یہ منظر گزشتہ آٹھ برس سے دیکھ رہے ہیں کہ آئین کی بالادستی ایسے عجب منظر دکھائے گی کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا لیلائے جمہوریت کا وصال ایسا سوہانِ روح بھی ہو سکتا ہے۔
بیچاری جمہوریت کی عزت جیسے تار تار ہو رہی ہے، خواب و خیال میں نہیں تھا۔ اگر ایسا شائبہ ہوتا تو حبیب جالب جیسے سر پھرے اس کے لیے کیوں سر پھڑواتے پھرتے اور فیض ’’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ کی خوش فہمیوں کی مستی مے کیوں پھیلاتے۔ علامہ اقبال اس کا خواب کیوں دیکھتے اور بانیِ پاکستان اسے حقیقت کا روپ دینے کی آفت کیوں مول لیتے۔ اگر مارشل لاؤں نے ہی براجمان ہونا تھا تو پھر نوآبادیاتی چنگل سے خلاصی سے مُکتی ملی بھی تو کس کام کی۔ اور اگر جمہور کی حکمرانی کا یہی حشر ہونا تھا جو مسلسل ہوتا چلا آیا ہے تو پھر شہریوں اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدے کے تکلف کی کیا ضرورت تھی۔
رہی آئین کی حکمرانی تو اس کے گھر کو کتنی بار ہے کہ گھر کے چراغ سے آگ نہیں لگی۔ قرونِ اولیٰ کے قاضیوں کی طرح کون کون سے نظریہ ہائے ضرورت نہیں تھے جو نہ گھڑے اور غاصبوں کے سامنے آئین کے ٹکڑے بکھر کر رہ گئے۔ اور ہمارے روایتی بابے رحمت اپنی بے کسی پہ آنسو بہایا کیے۔
جن جغرافیائی طور پر متصل اور غیرمتصل مسلم اکثریتی علاقوں کے لوگوں نے نئی مملکت کی برادری میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی کیا، ان کے ساتھ کیا کیا حشر سامانیاں ہوئیں، بس اُن کا خیال ہی جانے کن کن زخموں کی ٹیسوں کو تازہ کر دیتا ہے۔ رہے شہری اُنھیں کب اپنی آزادی اور حقوق کی صبح ملنے کو تھی جس کا کہ وعدہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے (فیض سے معذرت کے ساتھ)
1973ء کے پہلے جمہوری وفاقی اور اسلامی آئین سے قبل تو جو اسمبلیوں کی دُرگت بنتی رہی وہ اپنی جگہ، اور تو اور حقِ بالغ رائے دہی بھی جنتا کو نصیب ہونے سے رہا۔ بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیاں تو تھیں ہی مکروہ کہ ان کا حسب نسب تو تھا ہی مغربی یا پھر ملحدانہ! رہی اسلامی نشاۃِ ثانیہ وہ جمہوریت اور جدید تہذیب کے خلاف ایک مقدس تلوار کے طور پر پوری ریاکاری سے استعمال ہوئی اور آخر دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کی خونریزی اور جاہ پرستی کی بھینٹ چڑھی۔
اب کوئی تقدیس بچی نہ کوئی مقدس گائے اور نہ کسی کا کسی کے لیے ایجاب و احترام۔ ایک فکری المیہ، اداراتی خلجان، قانون کی منافقت اور اقتدار کی بندر بانٹ کی جنگ۔ 1973ء کا متفقہ آئین بنا بھی تو تین بار بوٹوں تلے روندا گیا اور بی عظمیٰ بھی اس کی مغفرت پڑھ کے ثوابِ دارین سے فیضیاب ہوئی۔ جمہوریت پسندوں نے طویل جیلیں کاٹیں، دربدر ہوئے، کوڑے کھائے اور جان سے گئے۔
ان کی قسمت میں ایک کتبہ بھی نہ آیا۔ نظریۂ ضرورت والے مسند پی سی او پہ رونق افروز ہوئے۔ بدبختی آئی بھی تو منتخب اداروں پہ یا پھر وزرائے اعظم پہ جو سوئے یار سے یا تو سوئے دار چلے، رسوا کر کے نکالے گئے، ملک بدر ہوئے اور وہ بھی بی عظمیٰ کی مہرِ تصدیق سے، یا پھر بیچ چوراہے مار دیے گئے اور قاتل کی للکار کے ساتھ کہ ہے کوئی جو خونِ ناحق کا حساب مانگ سکے۔
اگر کوئی کسی بھی طرح کی آئینی دسترس سے بچا بھی تو مردِ آہن۔ بھلا اس نے ملک توڑا، وطنِ عزیز کو دہشت کدے میں تبدیل کر دیا یا پھر ججوں سمیت سبھی کو جوتے کی نوک پہ رکھنے کو شرفِ امتیاز جانا۔ اور جب اُسی چیف جسٹس افتخار چوہدری جس نے جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، کو اُسی مشرف نے دوبارہ آئین توڑ کر نکالا تو سیاسی جماعتیں، وکلا، صحافی اور دانشور میدان میں نکل آئے کہ شہریوں کے حقوق و آزادیوں کی پامالیوں کے خلاف داد رسی کے لیے اگر آزاد عدلیہ نہ ہوئی (جو کہ نہیں تھی) تو اقوامِ متحدہ نہیں تو پھر کہاں جائیں گے۔
ہمارے ہیرو جسٹس افتخار چوہدری جب دوبارہ مسندِ انصاف پہ براجمان ہوئے تو انتظامیہ، مقننہ اور صدارتی محل کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ مقننہ و حکومت شکن اٹھاون ٹو بی (58-2-B) تو دفن ہو چکی تو کفن پھاڑ کر نکلا بھی تو عدالت عظمیٰ کا آئینی استحقاق جس کے ہاتھوں دو وزرائے اعظم عوامی مینڈیٹ کے باوجود مدت پوری ہوئے بغیر بیک جنبش سبک دوش کر دیے گئے۔ ایک توہینِ عدالت کے اس جرم میں جس کا کہ وزیراعظم گیلانی کو استحقاق ہی نہ تھا کہ صدرِ مملکت کو آئینی تحفظ حاصل تھا، اور دوسرا وزیراعظم گھر سدھارا بھی تو اُس اقامہ کی عدم بیانی پہ جس میں عدم آمدنی کے سوا کچھ نہ تھا۔
آٹھ برسوں میں چلی بھی تو ایک نئی آئینی درفنطنی۔ اب آئینی حکمرانی کا بزمِ خویش چالو سکہ ہے بھی تو یہ کہ حکمرانی تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس سے مفر کی کسی کو کیا جرأت۔ اللہ کی حکمرانی تو ویسے بھی اُس کی مخلوق سے ماورا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نائب اللہ فی الارض کون ہے؟
قرار دادِ مقاصد جو آئین کا حصہ تو نہ تھی اور جو جنرل ضیاء الحق کی کرم فرمائی سے آئین کا حصہ بنا دی گئی کے مطابق یہ فریضہ عوام کے منتخب نمائندوں کے گناہ گار کندھوں پہ ڈالا گیا بھی تو اس شرط کے ساتھ کہ وہ خالقِ حقیقی کے احکامات بجا لائیں۔ اب منتخب نمائندے ایسا نہیں کرتے تو وہ اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں بلکہ اُن کے منتخب کردہ منصفوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔ سادہ لفظوں میں پارلیمنٹ اقتدارِ اعلیٰ کی مالک تو ہے لیکن اُس کی تخلیق یعنی آئین اُس سے بالاتر ہے اور آئین کیا ہے وہ وہ ہے جو عدالت عظمیٰ خیال کرے؟ نتیجتاً عدالتِ عظمی سپریم ٹھہریں جس طرح قرونِ وسطیٰ میں ہمارے جید قاضی القضاۃ ہوا کرتے تھے۔
یہ اب آئین کی حکمرانی کا زمانہ ہے اور مقننہ کی بدبختی یہ ہے کہ وہ وہ تمام بارودی سرنگیں صاف نہ کر پائی جو آئین کے گورکن آمر اس میں ٹھونک گئے تھے۔ اب 62/63 کا کلہاڑا ہے اور منتخب نمائندے۔ نہ اپیل ہے، نہ انصاف کا جائز عمل، بس جو مزاجِ منصفاں اللہ کی لاٹھی بن کر برس رہا ہے۔ اب یہ عدالت عظمی کا استحقاقِ جلیلہ ہے کہ وہ اپنی عینک سے آئین یا قانون کی کس شق کو کیسے پڑھتی ہے۔ ایسے میں سابقہ لاڈلے پہ تو آفت ٹوٹنی ہی تھی۔ اس لیے بھی کہ وہ اب ماضی کے گناہوں کی تلافی میں غیرمنتخب اداروں اور آہنی مقتدرہ کی تجاوزات کو روکنے کے لیے کمر باندھ میدان میں اُترنے کی جرأت کر بیٹھا ہے۔
موصوف پہلے تو وزارتِ عظمیٰ سے نکالے گئے، پھر اُن کی پارٹی کو توڑنے کی کوششیں جب بر نہ آئیں تو ایسا شخص جو صادق و امین ہی نہ رہا کیسے اُس امانت کو سنبھال سکتا ہے جو اُسے اس کی جماعت نے تفویض کی تھی، یعنی مسلم لیگ ن کی صدارت۔ اب انجمن سازی کا بنیادی شہری حق اور منطقی طور پر تمام دیگر بنیادی حقوق 62/63 کے پیمانے پہ پرکھے جائیں گے۔
اگر ان کا ووٹ کا حق محفوظ ہے تو پارٹی کارکن بنے رہنے پہ کیسے ممانعت ہو سکتی ہے، اگر ممبرشپ باقی ہے تو پارٹی کے کسی عہدے کے لیے منتخب ہونے میں کیسے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اب کوئی پارٹی کسی کو اپنا عہدیدار بناتی ہے تو اس کا حق ہے بھلے وہ کیسا ہی ہو۔ اور اگر وہ حقِ اظہار استعمال کرے گا اور پارٹی کی اکثریت اُس سے اتفاق کرے تو کیا ایسی پارٹی بھی صادق و امین نہیں رہے گی؟
نہیں اب شاید ایسے نہیں ہو سکتا۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ انصاف وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ نواز شریف جنہیں اب اپنے نام کی بھی فکر آن پڑی ہے کے تمام فیصلے جب سے وہ نااہل ہوئے ہیں کالعدم ہو چکے جن میں سینیٹ کے اُمیدواروں کی نامزدگی بھی شامل ہے۔ اب مسلم لیگ ن کے منتخب کردہ ووٹرز بھی آزاد اور اُس کے اُمیدوار بھی آزاد۔ اب وفاق کے سب سے معتبر منتخب ادارے سینیٹ کی ایسی مٹی پلید ہونے جا رہی ہے اور گھوڑوں کی وہ بولیاں لگنے جا رہی ہیں کہ کوئی صادق و امین کا ذکر کرنے کی پشیمانی نہ لے۔
یہ تو کھلی دھاندلی ہی نہیں بلکہ ایک بڑی پارٹی کو انتخابی عمل سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ مارشل لا ڈکٹیٹرز اور جسٹس ڈوگر اور وزیراعظم گیلانی کے مقدمات تک ماضی کے فیصلوں کو آئینی و عدالتی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ مگر آخر ایک خائن کے ماضی کے اقدامات کو تحفظ فراہم کر کے گناہِ صغیرہ کا کوئی مرتکب کیسے ہو سکتا ہے۔ مخفی ہاتھوں نے مسلم لیگ ن کو بلوچستان سے فارغ کیا تو اب باقی صوبوں میں صادق و امین نامی شق کی تلوار چل گئی ہے۔ اگر سینیٹ کے انتخابات کا یہ حشر ہونا ہے تو عام انتخابات کا کیا ہوگا۔ لگتا ہے کہ ضیاء الحق کی روح آئین میں عود کر آئی ہے۔ اللہ خیر کرے!
روزنامہ جنگ