میڈیا کا کردار
از، حسین جاوید افروز
میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو معلومات، اطلاعات اور مواد پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔ میڈیا کا کردار کسی بھی سماج میں ایک آئینہ کا سا ہوتا ہے جو سماج میں پھیلی خرابیوں اور کمزوریوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پرائیوٹ چینلز کو پہلی بار مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے مواقع میسر آئے۔
لیکن بلاشبہ اس بات کا کریڈٹ سابق صدر پرویز مشرف کے سر ہی ہے جن کے دور میں 2002 میں پرائیوٹ نیوز چینلز سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنے نئے انداز، تجزیاتی بیانیے کی بدولت ناظرین میں اپنی جگہ بنا لی۔ یاد رہے اس سے قبل نیوز کے حوالے سے یہ پی ٹی وی ہی تھا جس نے 1964 سے 2002 تک بلا شرکت غیرے راج کیا۔
لیکن اب عوام کے پاس اطلاعات کے متبادل ذرائع بھی سامنے آ گئے۔ یوں رائے عامہ کی تشکیل جدید سانچوں کے مطابق ڈھلنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کی اہمیت بے پایاں ہوتی ہے۔ سچ مانیے تو جمہوری عمارت کی بنیاد آزادی رائے پرہی پر کھڑی ہوتی ہے۔
ایک آزاد میڈیا آج کے دور میں رائے عامہ کی تشکیل اور سیاسی شعور کو جلا بخشنے کا فریضہ عمدگی سے انجام دیتا ہے۔ عوام کو ریاستی اداروں کی کارکردگی، حکومتی ایوانوں کے اغلاط کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ انتخابی عمل کے دوران عوام کو بہتر قیادت کی جانب راغب ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اور دوران انتخابی عمل کسی بھی قسم کی دھاندلی ہو یا بے ضابطگی میڈیا میں فورا بے نقاب ہوجاتی ہے۔
یہ میڈیا ہی ہے جس کی بدولت آج جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ عورتوں سے کی جانے والی زیادتیوں سے پل بھر میں پردہ اٹھتا ہے۔ اسی طرح ایشو چاہے بھٹہ مزدوروں کی بیگار سے متاثرہ زندگی کا ہو یا کسی سرکاری ہسپتال میں عوام کی خواری کا، اب سب کچھ کراچی تا خیبر عوام کے سامنے پلک جھپکتے میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح تمام تر قومی تہواروں سے لے کر مذہبی تہواروں تک یہ میڈیا ہی ہے جو ان خوشیوں کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
آج بلاشبہ میڈیا ایک واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طر ح قدرتی آفات میں میڈیا کاکردار جس میں آزاد کشمیر کا 2005 کا زلزلہ ہمارے مشاہدے میں آتا ہے جس میں میڈیا نے کشمیر اور ہزارہ کے عوام کی پسماندگی اور مصائب کو دن رات کی کوریج کر کے اجاگر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز مشرف جنہوں نے میڈیا کو لب کھولنے کا موقع دیا۔ اسی میڈیا نے ان کی آمریت کے خلاف چلی وکلاء تحریک کو جلا بخشی اور اس تحریک کو گھر گھر تک پہنچا دیا۔
یوں میڈیا رفتہ رفتہ ریاست کا چوتھا ستون بن کر ابھرا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری پاک فوج کے ضرب عضب آپریشن کو بھی جس طرح میڈیا نے اجاگر کیا اور ہمارے بہادر افسروں اور جوانوں کی شجاعت پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سے میڈیا نے خود کو ریاست کی دفاعی لائن کے طور پر بھی کامیابی سے منوا لیا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی ابھرا کہ ریاست کے دیگر اداروں کی طرح میڈیا بھی اغلاط سے عاری ہرگز نہیں ہے۔ اور کہیں کہیں ملنے والی بے حساب آزادی کا غلط استعمال بھی ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے خود میڈیا کے اپنے اندر ہی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے اندر ایک وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔ پرنٹ میڈیا سے وابستہ سابق کہنہ مشق صحافی آج کے نوجوان اینکر حضرات کو اپنے مساوی جگہ نہیں دینے کو تیار نہیں۔ یہاں تک ک مختلف شہروں میں بنے پریس کلبوں میں بھی پالیسی میکنگ میں پرنٹ میڈیا کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔
میڈیا پر کچھ تلخ سوالات اس لیے بھی اٹھتے ہیں کیونکہ اب نیوز چینلز نے بریکنگ نیوز کلچر کو فروغ دیا ہے۔ یعنی کم وقت میں سب سے پہلے خبر تک پہنچا جائے اور فی الفور خبر کو نشر کیا جائے۔ اکثر دیکھنے میں آیا کہ اس ریٹنگ کے چکر میں خبر سے جڑے کئی حقائق نظر انداز ہوجاتے ہیں جن تک پہنچنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جلدی میں خبر نشر کرتے وقت ٹِکر بھی ادھورے رہ جاتے ہیں اور خبر ایک تمسخر بن جایا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ کسی کریکر دھماکے کو ایک بڑے دھماکے کی گونج سے تعبیر کرنا خواہ مخواہ خوف و ہراس پھیلانے کا سبب بن جاتا ہے۔ بریکنگ نیوز کے معاملے پر نیوز ایڈیٹر کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جو خبر کی خبریت کو جانچنے اور مواد کو بھانپنے کے لیے چھلنی کا کام کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب اس شعبے میں کہنہ مشق لوگ بہت کم رہ گئے ہیں۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر ایک ایڈیٹر باقاعدگی سے اخباروں کو گھول کر پینے کی حد تک نہیں پڑھے گا۔ وہ خبر کی جانچ اوراس کی حساسیت کو کیسے سمجھ پائے گا؟ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر رپورٹر حضرات کسی بھی واقعہ کو رپورٹ کرتے وقت درست انداز میں الفاظ کی ادائیگی نہیں کر پاتے۔ وہ دیکھنے میں تو پارلیمنٹ میں کھڑے کوریج کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کو سینٹ یا قومی اسمبلی کا فرق یا ان کے ممبران کی تعداد کا بھی علم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے رپورٹرز کتابوں، اخبار سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک بہت بڑی خامی کہ اعلیٰ عدالتوں میں چلنے والے کیسز پر دوران سماعت رائے زنی کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے ہاں ایک کیس کی دو سماعتیں روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایک کیس عدالت میں چلتا ہے تو دوسرا کیس شام کو سات بجے سے بارہ بجے تک چلنے والے ٹاک شوز کی زینت بنتا ہے۔ اور ریٹنگ کی ریس میں اکثر کئی شرارتی مزاج اینکر حضرات سیاست دانوں میں تکرار ، حتیٰ کہ دھینگا مشتی کروا دیتے ہیں۔ تاکہ شو کو بھرپور ٹی آر پی حاصل ہو جائے۔
ہمارے سامنے بھارتی اینکر ارنب مکر جی کی مثال ہے جو کہ بد تمیزی کی حد تک اپنے مہمان کو زچ کر دیتا ہے اور باقاعدہ چیخ چیخ کر سوالات کرنے کی بے ہودہ مشق جاری رکھتا ہے۔ آنجہانی اداکار اوم پوری کی ارنب مکر جی کی جانب سے کی گئی بے عزتی یو ٹیوب پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
سب سے بڑھ کر بہت کم اینکر حضرات ایسے ہیں جو کہ ملکی تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات سے باخبر رہتے ہیں۔ وہ جب بیٹھتے ہیں تو بھرپور ریسرچ ، کے ساتھ سامنے بیٹھی شخصیت کو دلائل ، علمیت کی بناء پر زیر کر لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب نوجوان اینکر حضرات محض خبروں کے سطریں پڑھ کر اور اخباروں کی ہیڈ لائن پر ہی سارا شو لائیو کردیتے ہیں۔ کئی سینئر صحافی ، نوجوان اینکروں کی اس روش کو سیاپا فروشی قرار دیتے ہیں جو کہ سرشام سات سے رات بارہ بجے تک لائیو شو کی آڑ میں گلشن کا کاروبار چلا رہے ہیں۔
آپ کو ان شوز میں چترال سے تھرپارکر، ژوب سے استور تک کے عوامی مسائل کے متعلق جانکاری نہیں ملے گی۔ لیکن وہ ایک دو مخصوص سیاسی بقراطوں کو بلا کر سیاسی خطبے کی کامل آزادی دے کر ٹائم پاس کیا ضرور کریں گے۔ ان شوز میں آپ کو حکومت کے جانے کی تاریخ ضرورمل جائے گی اور بے سر و پا پیش گوئیوں کا بازار گرم کر دیا جائے گا۔ کرپشن کی عجب غضب کہانیاں سنائی جائیں گی۔ لیکن کسی مسئلے کا منطقی نتیجہ، یا عام آدمی کے مسائل کا حل نہیں مل سکے گا۔ میڈیا کا سنسنی خیزی پر مبنی یہ کردار معاشرے کی کیا خدمت کر رہا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اب تو کئی ہاؤسز باقاعدہ کھل کر سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ اور یوں سماج میں تقسیم اور ہیجان کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں مائیک لے کر اینکر کسی بھی دکان، ہوٹل، سرکاری دفتر میں پہنچ جاتے ہیں اور لائیو ٹی وی کی آڑ میں باقاعدہ دھونس جما کر ریٹنگ ریس جیت لیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہلکی سی اس قسم کی مہم جوئی کسی کی ساکھ کو معاشرے میں آلودہ کر دیتی ہے۔ آپ خرابیاں ضرور اجاگر کریں لیکن کسی کی تضحیک نہیں کریں۔
ایسے میں بی بی سی رپورٹرز کی حقیقت پسندانہ کوریج سے ہی سبق سیکھ لیں جن کے نیوز پیکیجز میں تیز میوزک اور بھارتی میڈیا کی طرح مصالحہ نیوز نہیں پیش کی جاتی۔ بلکہ کسی بھی معاملے کی عملی اور حقیقی رپورٹنگ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اصل میں مسئلہ میڈیا مالکان کا بھی ہے۔ ایک جانب بعض اینکر حضرات کی دھونس جس کو اب اینکر کریسی کا نام دیا گیا۔ اس نے میڈیا کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی ہے۔ تو دوسری جانب اگر کوئی اینکر عوامی مسائل، ادب، فلم، فلسفہ اور سیاحت پر مبنی شوز کرنا چاہے، اور اپنی تخلیقی سوچ کو کیمرے پر اتارنا چاہے تو چینلز مالکان کی دخل اندازی شروع ہوجاتی ہے۔ کہ ان موضوعات کو مارکیٹ میں کون خریدے گا؟ ایسے مو ضوعات تو بالکل منافع نہیں دے سکتے۔
یوں content جس کو بیانیہ بھی کہا جاتا ہے اس پر آسانی سے سمجھوتہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ عوام کو ان کرپشن کہانیوں اور دھرنوں کے بعد کیا ہوگا کے بجائے تعلیم اور فنون لطیفہ پر مبنی پروگرامز جس کو infotainment بھی کہا جاتا ہے ان پر راغب کیا جانا چاہیے۔ افسوس کہ اب جگت بازوں نے علم اور تخلیق کو تسخیر کر لیا ہے۔ اب لوگوں کو کرائم شوز میں جرم کے نئے طریقے تو بتائے جا رہے ہیں لیکن جرائم کے تدارک پر اتنا وقت صرف نہیں کیا جاتا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ اب پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد کئی خامیوں کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں اس طرح سے ہے۔ کسی نظریہ کے خلاف کچھ نشر نہ ہو۔ فحش کلامی نہیں کی جائے۔ جمہوریت کے خلاف، اینٹی اسلامی اقدار، فرقہ واریت کے خلاف کچھ نشر نہیں کیا جائے۔ کسی قومیت کو ہدف بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ نفرت انگیز مواد جس سے تشدد پھیلنے کا احتمال ہو اس سے گریز کیا جائے۔ مسلح افواج کے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ پروگرام میں مدعو مہمانوں کا احترام کیا جائے۔ دھماکوں اور حادثے کے بعد خونی مناظر نہ دکھائے جائیں۔ ٹی وی پروگرام میں شامل معلومات گمراہ اور غلط نہ ہوں۔ ذاتیات کا احترام کیا جائے۔
پروگرام میں ایسی خبر نہ ہو جس سے کسی تفتیش، تحقیقات یا ٹرائل کو احتمال پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو۔ کرائم شو میں جنسی جرم کی تمثیل کاری نہ ہو۔ زیادتی کی شکار لڑکی کو کیمرے کی زینت نہ بنایا جائے۔ اس کی شناخت کو مخفی رکھی جائے۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا اطلاعات و معلومات کا مجموعہ بھی ہے محض شیطان کی آنت ہی نہیں ہے۔ اس سے خیر اور شر کے پیمانے تلاش کرنا ناظر کے اوپر منحصر ہے۔ پاکستانی میڈیا ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے۔ اسے بالغ ہونے میں ابھی وقت درکار ہے۔