سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کی برابری اور آزادی
از، شاداب مرتضٰی
ترقی پسندوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ انیسویں صدی کے آس پاس یورپی و مغربی ملکوں میں عورتوں کے حقوق کی تحریک چلی اور عورت کو سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق ملے جن میں نجی ملکیت رکھنے کا، ووٹ دینے کا، سیاست کرنے کا اور آخر کار مرد کے مساوی انسانی حق رکھنے کا حق بھی شامل تھا۔
سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون وغیرہ میں یورپی و مغربی ملکوں کی ترقی کے علاوہ، اس بات کو لے کر بھی بہت سے ترقی پسند پاکستان کا تقابل باقی دنیا سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپ یا مغربی ملک ہم سے زیادہ ترقی یافتہ معاشرے ہیں کیونکہ وہاں کی عورت آزاد ہے یا کم از کم ہمارے معاشرے کی عورت کے مقابلے میں آزاد ہے۔
اسی بات کو لے کر بعض دوسرے ترقی پسند یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عورت اگر آزاد نہیں تو اس کا سبب بھی یہی ہے کہ یورپی و مغربی ملکوں کے برعکس ہمارے ملک میں پدرسری نظام موجود ہے جو وہاں کی عورت نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ختم کر دیا۔ ہماری تحریکِ نسواں تو یورپی و مغربی ملکوں کی عورت کی آزادی کی جدوجہد سے اور وہاں عورت کو حاصل ہونے والی آزادی سے بہت متاثر پائی جاتی ہے۔ اس جدوجہد میں یورپ کے بہت سے مردوں کا کتنا حصہ ہے اور یہ حصہ کتنا اہم ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔
لیکن خیر، ایک خیرخواہ نے اطلاع دی کہ یورپ و مغربی معاشرے کی عورت کی آزادی کے بارے میں ہماری (اور بہت سے دوسرے لوگوں کی بھی) یہ معلومات سراسر غلط ہیں۔ یعنی، وہاں پدرسری نظام ختم نہیں ہوا بلکہ اب بھی موجود ہے اور اسی لیے، منطقی طور پر، یورپی و مغربی معاشرے میں عورت اب بھی مردانہ بالادستی کا شکار ہے۔
یقینا، بہت سے ترقی پسندوں کے لیے یہ اپنی معلومات درست کرنے کا ایک موقع شمار کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو سچ تو یہ ہے کہ ہمارا تو اس بحث سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے کہ مغرب یا یورپ کی ساری عورتیں مردانہ بالادستی سے آزاد ہیں یا وہاں ساری عورتیں پدرسری نظام کی لعنت کا شکار ہیں۔ ہم تو عورت کی آزادی کے سوال کو طبقاتی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی لیے ہمیں حیرانی نہیں ہوتی جب ہمیں یورپی و مغربی ملکوں میں عورت کی آزادی اور اس کے استحصال دونوں کی مثالیں ملتی ہیں اور یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ یہاں کی طرح وہاں بھی بالادست (ملکیتی) طبقے کی عورتیں نچلے طبقوں کی عورتوں کا استحصال کرتی ہیں۔
یہی نہیں بلکہ اگر ہم اپنے موجودہ سرمایہ دارانہ عہد سے پہلے کے جاگیردارانہ عہد میں دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں حکمران طبقے میں ایسی عورتوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں جو مرد کی طرح آزاد اور خودمختار تھیں۔ مثال کے طور پر انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور روس میں بادشاہت کے دور میں حکمرانی کرنے والی بہت سی ملکاؤں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی رعایا کا اسی طرح استحصال کیا جس طرح ان کے خاوند بادشاہ کیا کرتے تھے۔ موجود عہد میں، سرمایہ دار طبقے میں ایسی عورتوں کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔
البتہ وہ لوگ جو سماجی مسائل کے بارے میں غیرطبقاتی نکتہِ نظر رکھتے ہیں وہ ضرور اس معاملے پر شوق سے بحث کر سکتے ہیں کہ یورپی و مغربی ملکوں میں ساری عورتیں آزاد ہیں یا نہیں یا پاکستان میں ساری عورتیں آزاد ہیں یا نہیں؟ ویسے سچ پوچھیں تو یقین نہیں ہوتا کہ آج کل بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے یورپی و مغربی ملکوں میں پدرسری کی باقیات سے “جدید” پدرسری نظام ڈھونڈ نکالا ہے!
لیکن ہم اپنی خواہش کے برعکس یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے، اسے چھپانے، اسے اچھا دکھانے کے لیے ہر جتن کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے۔ مثلا، یہ کوئی اتفاق یا حادثہ تو نہیں کہ بہت سے “ترقی پسند” برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی عورت کو آزادی دیتا ہے! ہمیں ان کی بات سے جزوی طور پر اتنا اتفاق ضرور ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ملکیتی طبقے کی عورت کو غیر ملکیتی طبقے کے استحصال کی اسی طرح آزادی دیتا ہے جس طرح یہ آزادی یہ سرمایہ دار طبقے کے مرد کو دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنے تصورات کو ہی حقائق سمجھتے ہیں اور حقائق کا انتخاب اپنی پسند و ناپسند کے مطابق کرتے ہیں، وہ ہمارے نکتہِ نظر کو نہیں سمجھ سکتے۔
جاگیرداری سے سرمایہ دارانہ نظام میں سماج کے ارتقاء نے پدرسری نظام اور عورت کے استحصال میں کیا تبدیلی کی اس کی ایک مثال ہم خود کارل مارکس سے لے لیتے ہیں جس نے سرمایہ دارانہ سماج کا سائنسی تجزیہ کیا۔ “کلاسیکی” کمیونسٹوں کی جانب سے کمیونسٹ تحریک کے مفکروں اور رہنماؤں کی تحریروں سے دیے جانے والے حوالوں سے چڑنے والے افراد کے لیے مارکس کی کتاب “سرمایہ” سے یہ اقتباس پڑھنا ہمارے نزدیک ہر گز لازمی نہیں ہے۔ البتہ وہ اپنی صوابدید پر اگر اسے “ادب” سمجھ کر پڑھنا چاہیں تو ہمیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا:
“…جون 1863 کے آخری ہفتے میں لندن کے تمام روزناموں نے ایک پیراگراف “سنسنی خیز” شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا:”معمولی اضافی کام سے موت.” اس کا تعلق ایک زنانہ ٹوپیاں بنانے والی، 20 سالہ میری اینی واکلی، جو سوٹ بنانے والے ایک نہایت معتبر ادارے میں کام کرتی تھی، اس کی ایلیسا جیسا خوشگوار نام رکھنے والی ایک شریف خاتون کے استحصال سے ہونی والی موت سے تھا۔
پرانی، اکثر سنائی گئی کہانی کو پھر سے دہرایا گیا۔ یہ لڑکیاں، اوسطا، ساڑھے سولہ گھنٹے کام کرتی تھیں، اور سیزن کے دوران، بغیر بریک کے، ستائیس گھنٹے مسلسل، جبکہ ان کی گرتی ہوئی قوتِ محنت کو شیری، ، پورٹ یا کافی کی وقتا فوقتا فراہمی سے سنبھالا جاتا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ یہ لازم تھا کہ پلک جھپکتے میں جادو دکھا کر ان رئیس عورتوں کے لیے شاندار لباس تیار کیے جائیں جنہیں نئے درآمد شدہ ویلز کے شہزادے کے اعزاز میں ہونے والی محفلِ رقص میں جانا تھا
میری اینی واکلی نے، بغیر وقفے کے، ساڑھے چھبیس گھنٹے، ساٹھ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کام کیا، جن میں سے تیس ایسے کمرے میں تھیں جہاں انہیں درکار کیوبک فٹ ہوا میں سے صرف ایک-تہائی ہوا میسر تھی۔ رات کو وہ جوڑوں کی شکل میں دم گھونٹ دینے والے ان سوراخوں میں سے کسی ایک میں سوتی تھیں جن میں خواب گاہ کو بورڈ لگا کر تقسیم کیا گیا تھا۔ اور یہ لندن میں زنانہ ٹوپیاں بنانے والے بہترین اداروں میں سے ایک تھا۔ جمعے کے دن میری اینی واکلی بیمار ہوئی، اور مادام ایلیسا کی حیرانی کے بغیر، اپنا کام پورا کر کے، اتوار کو مر گئی۔
بسترِ مرگ پر کافی دیر بعد بلائے گئے ڈاکٹر کیز نے موت کی تحقیق کرنے والی جیوری کو گواہی دی کہ: “میری اینی واکلی پرہجوم، بہت چھوٹے اور بری طرح گھٹن ذدہ کمرے میں طویل دورانیے تک کام کرنے کی وجہ سے مری”. ڈاکٹر کو اچھے آداب کا سبق سکھانے کے لیے جیوری نے یہ فیصلہ دیا کہ “متوفیہ مرگی کی وجہ سے مری لیکن اس بات کا افسوس کرنے کی وجہ موجود تھی کہ کام کے پرہجوم کمرے میں انتھک کام نے اس کے مرنے کی رفتار بڑھا دی، وغیرہ”.
عورت کے استحصال سے عورت کی موت۔ سرمایہ دار عورت کے استحصال سے مزدور عورت کی موت۔ طبقات سے ماورا مظلوم عورت کا، ساری عورتوں کے مظلوم ہونے کا پورا فسانہ اس ایک واقعے سے زمین بوس ہوجاتا ہے
اور اب عظیم لینن کے الفاظ:
“۔۔۔ان جھوٹوں اور منافقوں کو، ان کند ذہنوں اور اندھوں کو، سرمایہ داروں اور ان کے ہمنواؤں کو سب کی آزادی کی، سب کی برابری کی، سب کے لیے جمہوریت کی باتوں سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے دو۔
ہم مزدوروں اور کسانوں سے کہتے ہیں: ان جھوٹوں کے چہروں سے نقاب نوچ لو، ان اندھوں کی آنکھیں کھول دو۔ ان سے پوچھو:
“کس صنف کی کس دوسری صنف کے ساتھ برابری؟”
“کس قوم کی کس دوسری قوم کے ساتھ برابری؟”
“کس طبقے کی کس دوسرے طبقے کے ساتھ برابری؟”
“کس لعنت سے، یا کس طبقے کی لعنت سے آزادی؟ کس طبقے کی آزادی؟”
ہم “سوشلسٹ” رفیقوں کے لیے، جن کا مقصد “غیرطبقاتی” سماج کا قیام ہے، ان سوالوں میں ایک مزید سوال شامل کردیتے ہیں: “کس طبقے کی عورت کی کس دوسرے طبقے کی عورت کے ساتھ برابری؟ کس طبقے کی عورت کی آزادی؟”