قانون کمزوروں کے لیے پھندہ اور طاقت وروں کے لیے موم کی گُڑیا

Khizer Hayat
خضرحیات

قانون کمزوروں کے لیے پھندہ اور طاقت وروں کے لیے موم کی گُڑیا

از، خضرحیات

13 اپریل 2017ء کے دن مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں صحافت کے ایک طالب علم مشال خان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر درجنوں ساتھی انسانوں نے اسے تشدد کرکے بے رحمی سے موت کے حوالے کر دیا۔

سیاست، معاشرت، میڈیا سب اس خبر پر سہم گئے اور اس خبر کے میڈیا پر آنے یا کسی سیاسی رہنما کی زبان پر اس واقعے کا تذکرہ آنے میں گھنٹوں لگ گئے۔ اس دن میڈیا اور سیاسی رہنما باقی مسئلوں میں اُلجھے رہے، یہاں تک کہ جب سوشل میڈیا کے ذریعے اس واقعے سے متعلق خبریں اور ویڈیوز گردش کرنے لگیں تو میڈیا کو بھی اس جانب توجہ پھینکنا ہی پڑی اور عام انسان بھی اس جانب متوجہ ہوئے۔ ڈان اردو کے علاوہ کسی بھی دوسرے نیوز چینل نے اس واقعے کو اس دن اپنے کسی بھی پروگرام میں بحث کے قابل نہ سمجھا۔ وسعت اللہ خان کے ٹاک شو ‘ذرا ہٹ کے‘ میں اسی دن یہ واقعہ زیر بحث آیا اور پھر دوسرے دن باقی ٹی وی چینلز نے بھی چاہتے نا چاہتے کچھ نہ کچھ نشریاتی وقت اس واقعے کے حوالے کر ہی دیا۔

مشال خان کو گستاخ قرار دے کر مارا گیا تھا اس لیے پہلا تنازعہ اس کے جنازے پر ہی کھڑا ہوگیا۔ مقامی علماء حضرات کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا کہ ایک مبینہ گستاخ کی نماز جنازہ پڑھا کر گناہ گار ہو جائیں لہذا یہ نماز جنازہ مقامی علماء کے بغیر ہی بندوق کے زور پر ایک عام آدمی نے پڑھائی اور مشال کی میت کو بھی خوف کے سائے میں دفن کیا گیا۔

شروع سے ہی کوشش کی جاتی رہی کہ معاملہ غیر اہم قرار دے دیا جائے اور اس بارے میں بات چیت کم سے کم کی جائے۔ چونکہ اس قتل میں ملوث حضرات کا تعلق خیبر پختون خوا کی سیاسی جماعتوں سے تھا اور قاتلوں کو ان جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی اس لیے میڈیا بھی اس واقعے کو جلد ہی بھولنے لگا اور کوشش کی گئی کہ عوام کے ذہن و شعور پر نت نئے ہنگاموں کا اتنا بوجھ لاد دیا جائے کہ وہ مشال خان کے قتل کو معمولی واقعہ سمجھ کے آگے بڑھ جائیں اور جب کبھی ان کا شعور ہلکی سی جھپکی لے تو وہ محض ایک سرد آہ بھر کر باقی خبروں کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اللہ اللہ خیری سلاّ!

اس ساری صورت حال میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو پہلے دن سے ہی قاتلوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوگیا اور آخر تک اس واقعے کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں رہا۔ اقبال لالہ جسے مغرب کا ایجنٹ بھی کہا گیا اور اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اسے باہر سے پیسے مل رہے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ملالہ یوسف زئی اور اقبال خان جیسے لوگ مل ملا کر ملک کی عزت کو خاک میں ملا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ٹھیک ہے آپ کا بیٹا مر گیا، مگر ایسے کئی بیٹے روز مرتے رہتے ہیں پھر آپ کیوں اتنا شور ڈال رہے ہیں۔ چپ کرکے اللہ کی رضا پہ راضی کیوں نہیں ہو جاتے، کیوں چیخ چیخ کے ملک کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ مگر وہ بولا کہ ٹھیک ہے ایسے بچے پہلے بھی مرتے رہے ہیں، مگر میں چاہوں گا کہ میرے بچے کے بعد کوئی اس طرح محض شک کی بنیاد پر بے رحمی سے نہ مار دیا جائے۔ میں اپنے بیٹے کے لیے اور باقی تمام بچوں کے لیے جو اس وقت ہمارے ملک کی نوجوان نسل ہیں، ان سب کے لیے آواز اٹھاؤں گا اور ملزمان کو پھانسی تک لے جاؤں گا۔ یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں تو روکنا ہی پڑے گا۔

خیر مقدمہ شروع ہوگیا۔ جے آئی ٹی بن گئی۔ اب اس جے آئی ٹی کو بھی اپنے کام میں رکاوٹیں پیش آنا شروع ہو گئیں، کئی ممبران کو بیچ تفتیش کے ہی تبادلے بھی کرانے پڑے۔ جب قتل کی ویڈیوز کی جانچ پڑتال شروع ہوئی اور قاتل پہچانے جانے لگے تو پریشر ناصرف جے آئی ٹی ممبران پر بڑھا بلکہ مشال کے والد اور باقی گھر والوں نے بھی خطرہ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ مشال کے گھر پر سکیورٹی تعینات کر دی گئی، اس کی بہنیں سکول چھوڑ کر گھر بیٹھ گئیں اور اقبال لالہ روزانہ کی بنیاد پر دھمکیاں سنتے رہے مگر اپنی بات پر اڑے رہے۔ اس دوران کیس کی سماعت بھی یہاں سے وہاں منتقل ہوتی رہی اور میڈیا میں بھی بس کبھی کبھار ہی اس بارے میں کوئی سنگل کالمی خبر پڑھنے یا سننے کو ملتی۔ ان سارے حالات میں بدگمانی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور اقبال لالہ سمیت سبھی کو لگنے لگا کہ انصاف اتنی بھی آسانی سے نہیں ملنے والا، پتہ نہیں ملے گا بھی یا نہیں۔

اس کیس میں مشال خان کے والد اقبال لالہ کی حالت فرانز کافکا کی کہانی Before the Law والے اس شخص جیسی ہو گئی تھی جسے قانون و انصاف تک رسائی کے لیے ایک چوکیدار ساری عمر دروازے سے اندر ہی نہیں جانے دیتا اور جب وہ شخص مرنے والا ہوتا ہے اور چوکیدار سے پوچھتا ہے کہ یار اتنے سالوں سے میں یہاں آ رہا ہوں، میرے علاوہ تو کوئی بھی بندہ انصاف کے لیے یہاں اس دروازے کے سامنے نہیں آتا جاتا دیکھا۔ اس پر چوکیدار بتاتا ہے کہ جناب ہر بندے کے لیے میرے جیسا الگ ایک چوکیدار تعینات ہے جس کی ذمہ داری صرف اسی بندے کو ہی انصاف تک پہنچنے سے روکے رکھنا ہے۔ میری ذمہ داری صرف تمہارے تک محدود تھی۔ اب تم مر جاؤ گے تو میری ڈیوٹی بھی ختم ہو جائے گی۔

خیر 7 فروری 2018ء کو ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بالآخر مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت ایک شخص عمران علی جس کا تعلق جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا، اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی، پانچ مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، 25 مجرموں کو چار چار سال کی قید سنائی گئی جبکہ 26 کو ناکافی ثبوتوں کی بناء پر رہا کر دیا گیا۔

بے چین حلقوں میں کچھ نہ کچھ امید کی لہر جاگی کہ چلیں آدھا ہی سہی انصاف تو ہوا۔ مشال خان کے وکیل شہاب خٹک کا بھی کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی جن لوگوں کو رہا کیا گیا، انہیں کس بنیاد پر کیا گیا جبکہ اگر مجمع کسی کو مارنے کے لیے اکٹھا ہوا ہے تو ہر شخص اس میں ملوث ہے اور اگر ویڈیوز میں چہرے پہچانے جا سکتے ہیں تو پھر انہیں چھوڑنے کا جواز ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ خیر جن لوگوں کو سزا سنائی گئی ان کے حوالے سے تسلی ہو گئی کہ چلیں اقبال لالہ کا مقدمہ کچھ تو معتبر ہو گیا اور عدالت نے ایک بے رحمی پر مجرمان کو سزائیں سنا دیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ ظلم ہو تو انصاف بھی نظر آئے اور سزائیں ہوں گی تو ایسے واقعات رکیں گے یا کم از کم تعداد میں گھٹ ضرور جائیں گے۔ گھٹن کے ماحول میں یہ فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آیا تھا۔

ابھی یہ تذبذب چل ہی رہا تھا کہ رہا ہونے والے 26 ملزمان کا مردان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس استقبال میں سراج الحق صاحب والی جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان والی جمعیت علمائے اسلام اور مولانا سمیع الحق والی جمعیت علمائے اسلام پیش پیش تھیں۔ مولانا سمیع الحق وہی شخصیت ہیں جن کے مدرسے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت ہر سال کروڑوں کی امداد دیتی ہے۔ چنانچہ اس استقبال میں رہا ہونے والے حضرات نے مشال کے خلاف نعرے لگائے، اسے گستاخ قرار دیا اور رہائی پانے کی بنیاد پر خود کو غازی کہہ کے پکارا۔ ان چھوٹنے والے حضرات نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ آئندہ بھی اس طرح کے قتل جاری رکھیں گے اور اللہ ہم سے وہ کام لے رہا ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے بھی صرف جستجو ہی کرتے ہیں۔ سارا ہجوم ان نعروں میں یک زبان تھا اور تینوں مذہبی فرینچائزز کے عہدیدار بھی نعرے لگوانے میں آگے آگے تھے۔

یار لوگوں نے اس پر بھی امیدیں لگائیں کہ ایسے اشتعال انگیز بیان دینے پر ان لوگوں کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیے جائیں گے اور انہیں دوبارہ سے سزائیں دی جائیں گی کیونکہ وہ اپنی زبانوں سے اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے مشال کو مارا اور آئندہ بھی مشال جیسوں کو قتل کرکے اپنی جنت پکی کرتے رہیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔ الٹا یہ ہوا کہ 27 فروری کو پشاور ہائی کورٹ کے ایک سرکٹ بینچ ایبٹ آباد بینچ نے سزا پانے والے 25 مجرمان کو بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مشال خان کے والد اور کے پی کے گورنمنٹ نے بھی رہائی پانے والوں کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں مگر پشاور ہائی کورٹ نے یہ ساری اپیلیں ایک ساتھ سننے کی بجائے چپ چاپ مجرمان کی اپیلیں سنیں اور انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ مشال خان کے وکیل شہاب خٹک کہتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ فیصلہ انتہائی اچانک تھا اور ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یکطرفہ اپیلیں سن کر انہیں نپٹا بھی دیا جائے گا۔ یہ پشاور ہائی کورٹ کا عُجلت میں دیا گیا فیصلہ ہے جس کا معاشرے، قانون کے طالب علموں اور مشال کے گھر والوں پر نہایت برا اثر پڑے گا۔ شہاب خٹک کا کہنا تھا کہ کسی بھی ایسے مجرم کو ضمانت دیتے ہوئے بار بار سوچا جاتا ہے جس کے بارے میں خطرہ ہو کہ وہ رہا ہو کر پہلے والا جرم دوبارہ سے کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ اب یہ دوبارہ سے کرنے کا خطرہ تو ہم پہلے ہی مردان انٹرچینج پر رہا ہونے والے حضرات کے استقبال میں دیکھ سکتے ہیں جب وہ سینہ ٹھونک کر کہہ رہے تھے کہ اللہ نے ہم سے یہ کام لیا ہے اور ایسے گستاخوں کے ساتھ آئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔

حیرانگی ہوتی ہے کہ جو باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہیں وہ پشاور ہائی کورٹ (ایبٹ آباد بینچ) کے دو فاضل ججوں جسٹس لال خان اور جسٹس عتیق شاہ کی سمجھ میں کیوں نہیں آئیں؟ یہ جج صاحبان کیا کسی اور دنیا کے باسی ہیں جن کو زمینی حقائق بھی ٹھیک سے نظر نہیں آتے؟

دوسری جانب کل ہی سپریم کورٹ نے بھی وہ ازخود نوٹس نمٹا دیا جو اس نے مشال قتل کیس کے حوالے سے لے رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کا موقف یہ تھا کہ چونکہ اس کیس میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں اس لیے اس ازخود نوٹس کو خارج کیا جاتا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ کی طرف سے سزائیں سنائے جانے کی بنیاد پر یہ ازخود نوٹس خارج ہوا اور ادھر پشاور ہائی کورٹ نے مجرموں کو ضمانتیں جاری کر دیں۔ اسے آناً فاناً بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرف آناً اور دوسری طرف فاناً ہو گیا۔

اب پھر اپیلیں ہوں گی اور ضمانتیں منسوخ کرانے کی کوششیں ہوں گی۔ جن ملزمان نے ضمانتیں حاصل کی ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک درخواست مزید فائل کرکے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو خارج کرا لیا جائے۔ رسہ کشی چلتی رہے گی، جیتے گا وہی جو زیادہ با اثر ہوگا اور یہ تو اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اس کیس میں کون زیادہ با اثر ہے۔

اگر آپ مردان انٹرچینج پر ہزاروں کے استقبالی ہجوم کے سامنے کھڑے ہوکر سینہ ٹھونک کر مشال کو گستاخ ہونے پر قتل کرنے کا اقرار اور باعزت بری ہونے پر خود کو غازی کہہ رہے ہیں، آئندہ کے لیے بھی ایسی کار روائیوں کے لیے تیار ہیں اور کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تو آپ کے با اثر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا!

یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کمزوروں کے لیے پھندا، مکڑی کا جالا جبکہ با اثر لوگوں اور طاقت وروں کے لیے موم کی گُڑیا سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔