زاد راہ، احمد ندیم قاسمی کی یاد میں
از، فارینہ الماس
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہوتی ہے کہ ہمارا ذہن یاد ماضی کے عزاب سے بلکل مبراء ہوتا ہے۔ ھم صرف آگے بڑھنے کی لگن میں مبتلا رہتے ہیں ۔اگر کبھی پیچھے مڑ کے دیکھو بھی تو سوائے دھند کے کچھ دکھائی نہیں پڑتا۔دراصل ہمارے اندر خواہشوں اور تمناؤں کی ایسی چیخم چنگھاڑ مچی رہتی ہے کہ لاشعور کے تاریک گوشے میں کسمساتی ،کلبلاتی یادوں کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔پھر جب رفتہ رفتہ کچھ خواہشیں کامیاب ہو کر اپنا طلسم کھونے لگتی ہیں اور کچھ ناکام ہو کر مرنے لگتی ہیں تو یہ سفر کچھ تھم سا جاتا ہے۔زندگی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے پرانے لوگوں اور واقعات کی یادیں وقت کی گٹھڑی سے پھسل کر باہر آتیں اور ہمارے خیالات کی دھرتی پر خوب دھماچوکڑی مچانے لگتی ہیں۔ان واقعات کا ہجوم اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آسانی کے لیئے انہیں اپنے مختلف احساسات سے وابستہ کر لیتے ہیں۔اسی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کرکے انہیں الگ الگ رکھ لیا جاتا ہے۔ایسے ہی جیسے باورچی خانے میں اپنی آسانی کے لیئے ہر شے کو الگ الگ ڈبوں میں بھر لیا جاتا ہے،تاکہ بوقت ضرورت انہیں تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔ہر واقعہ،ہر قصہ اور ہر شخص دکھ، سکھ، کامیابی، ناکامی، جستجو،خوشی،ندامت،ذلّت،فخر اور ایسے ہی ڈھیروں احساسات سے وابستہ ہو جاتا ہے ۔سب باری باری لاشعور کے تاریک گوشے سے نکل کر شعور کے روشن آنگن میں اترتے چلے جاتے ہیں۔اور ہمارے حال کے ناتواں لمحوں کی انگلی تھامے دھیرے دھیرے ہمارے ہمراز اور ہمراہی بننے لگتے ہیں ۔ ہم عموماً انہی واقعات اور اشخاص کو زیادہ یاد کرتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے دکھ اور غم سونپ جاتے ہیں ۔یہ یادیں بہت جان لیوا ہوتی ہیں ۔ان کے خیال کی فسردگی اور شکستگی روح کو گھائل کر دیتی ہے ۔سو ہمیں انہیں خیال بننے سے روکنے کے لیئے وہ واقعات اور اشخاص یاد کرنے چاہیں جو کسی نہ کسی طور ہمارے حوصلے بڑھاتے رہے اور ہمیں ہماری ذات کا اعتماد دیتے رہے۔ایسا بہت قسمت سے ہی ہوتا ہے کہ ہمیں زندگی میں ایسے لوگوں کی یا دیں بھی دستیاب ہو سکیں جنھیں یاد کرنے سے سوچ کے دھارے اطلسی اور سندسی ہو جائیں۔جن کی یاد کا لمس روح کی سیرابی اور فکر کی مہتابی بن کر اندر اترنے لگے۔جن کے ھمارے لئیے کہے گئے کچھ کلمات عمر کے ایک پلڑے میں ڈال دو تو دوسرا پلڑہ ہلکا ہو کر بے وزن اور بے معنی ہو جاتا ہے۔ بس یہی یادیں ہمارے لئے وقت کی مسیحائی اور ہمارے فن کی کمائی بن جاتی ہیں۔
لکھنے لکھانے کی طرف میرا رحجان اس عمر میں ہی ہو گیا تھا جس عمر میں لڑکیاں زندگی کے سنہری پل گڑیوں کے کھیل تماشے میں بیتاتی ہیں ۔پہلے پہل تو محض لکھنا ہی لطف انگیز محسوس ہوا کرتا تھا،لکھے ہوئے کو چھپوانے کا نہ تو کچھ پتہ تھا اور نہ ہی اس کا کوئی شوق تھا۔پھر جب دوسروں کا لکھا پڑھنا شروع کیا تو من میں یہ خواہش جاگنے لگی کہ کیا ہی اچھا ہو جو سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی نظروں سے ہمارا لکھا ہوا بھی گزرنے لگے ۔لفظوں کو سنوارنا ،انہیں بصد احترام کاغذ کے پنوں پر اتارنا ،پھر انہیں سرمایہ حیات سمجھ کر کسی کی سپردگی میں چھپنے کو دینا یہ سوچ کر کہ نجانے ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے ،آج سوچو تو یہ بلکل ایسا ہی تھا جیسے ماں باپ اپنی بیٹی کو پال پوس کر اسکے سبھی ناز نخرے اٹھا تے اور پھر اسے کسی کے ساتھ بدا کر دیتے ہیں دل میں یہ کھٹکا لیئے کہ ’’نجانے اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟‘‘ ایسے میں تحریر کی عزت افزائی اور اسکے جلد چھپنے کی نوید کے لمحات سارے کشٹ اور تکلیف کو مٹا دیتے یونہی اخبارات میں لکھتے لکھتے کسی صحافی نے ہی مشورہ دیا کہ مجھے اپنی تحریریں ادبی جرائد کو بھیجنا چاہیءں ۔انکا ماننا تھا کہ ادبی جرائد ہی میرے لکھنے کے وصف کو اسکا جائز مقام دلا پائیں گے۔پھر انہوں نے ادبی جرائد کے کچھ پتے بھی مجھے دئیے ۔اپنی بے دھیانی اور کم سنی کے باعٖث ایسا دھیان ہی ذہن میں نہ آیا کہ ان جرائد کو چلانے والوں کے بارے بھی استفسار کیا جائے۔سو اپنا پہلا ادبی افسانہ فہرست کے اول پتے پر بھیج دیا گیا۔اب اس کے چھپنے کا انتظار دل میں جاگ اٹھا تھا۔کچھ ہی دنوں بعدایک خط موصول ہوا۔خط اس’’ ادبی جریدے‘‘ کے اپنے ہی چھپے ہوئے لیٹر پیڈ پر لکھا گیا تھا لیکن اسکے کونے میں چھپے جریدے کے نام کے نیچے مدیر کا نام نہیں تھا۔خط اختصار کے ساتھ کچھ یوں لکھا گیا تھا
’’مکرمہ و محترمہ ! تسلیم
آپ کا افسانہ ’’پنکھ پکھیرو‘‘ پڑھا ۔بہت لطف آیا۔کہانی بہت موثر ہے۔ہر اعتبار سے قابل اشاعت ہے۔انشاء اللّہ اسے ضرور شائع کیا جائے گا‘‘
خط کے اختتام پر کسی کے گڈ مڈ سے دستخط تھے جو میرے بلکل پلّے نہ پڑے۔کچھ عرصہ ایسے ہی گزر گیا۔خط ملنے سے اتنی تسلی تھی کہ افسانہ چھپ تو جائے گا اور جب چھپے گا مجھے اطلاح بھی ضرور مل جائے گی۔اس کے بعد بہت طویل عرصہ گزر چکنے کے بعد ایک اور خط موصول ہوا۔
’’محترمہ و مکرمہ۔سلام مسنون!
آپ کا انتہائی خوبصورت افسانہ اشاعت کے مراحل طے کر چکا ہے۔آپ کا پتہ مجھ سے کہیں کھو گیا تھا۔آج ضروری کاغذات کا پلندہ دستیاب ہوا تو آپ کا پتہ مل پایا۔عرض یہ ہے کہ آپ سے تاخیر سے رابطے پر معذرت اور دوسرے یہ التماس کہ آپکا افسانہ اتنا عمدہ تھا کہ مزید افسانوں کی درخواست کرتا ہوں۔دعا کے ساتھ۔۔۔‘‘ خط کے نیچے پھر وہی گڈ مڈ سے دستخط۔۔۔۔مجھے اس تحریر میں کوئی کشش دکھائی نہ دی ۔سوچا ’’آئندہ اس جریدے میں کبھی کچھ لکھ کے نہ بھیجوں گی ۔اتنا طویل انتظار۔۔۔۔بس خدا کی پناہ‘‘ اس دفعہ لیٹر پیڈ کچھ نئے طریقے کا چھپا ہو ا تھا ۔میں نے خط کو بے دھیانی میں میز پر پھینک دیا ۔جیسے ہی ہوا سے پھڑ پھڑاتے کاغذ کی بالائی سطر پر میری نگاہ گئی تو جیسے میرے قدموں تلے سے زمین ہی کھسک گئی۔’’یا خدا یہ خطوط جس عظیم شخصیت کے قلم سے نکلے حروف سے مزین تھے مجھے اسکا نام تک نہ پتہ تھا۔‘‘۔۔۔۔۔اس دفعہ جریدے کے نام کے نیچے جلی حروف میں مدیر کا نام بھی چھپا ہوا تھا ’’احمد ندیم قاسمی‘‘۔میری تو جیسے خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔کبھی اوپر چھپے نام کو تو کبھی نیچے کیئے گئے گڈ مڈ دستخط کو تکتی۔اتنی کم عمری میں ایسی بڑی اور عظیم شخصیت کی تعریف تو میرے لیئے دنیا کے سب سے بڑے اعزاز سے بھی بڑا اعزاز تھی۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ قاسمی صاحب کے اندر اپنے مقام مرتبے کا رتی بھر بھی غرور نہ تھا ۔جب کہ اکثر جدید اور قدیم لکھاریوں میں ایسی خرافات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ایسوں میں تو بہت ذیادہ جو صرف نام کے لکھاری ہیں اورکام کے اناڑی۔بہت حیرانی بھی ہوتی ہے اس بات کی کہ آج کے دور میں ایسا کہاں ہوتا ہے کہ کوئی لکھاری جس کا کوئی نام مرتبہ ہو وہ کسی ان دیکھے ،نو وارد اور بہت کم چھپنے والے کی لکھائی کے انداز اور سلیقے کومحض چند ایک تحریروں سے ہی نا صرف پرکھنے کی قابلیت رکھتا ہو بلکہ اسکی تعریف کر کے اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرنے کا ظرف بھی رکھتا ہو ۔قاسمی صاحب جن کا فن ان کی زندگی میں ہی اپنی شناخت اور قابلیت کے عالمی سطح کے اعتراف کے انتہائی اعلی درجے کو چھو چکا تھا ۔لیکن ان کی شخصیت اور مزاج انتہائی قلندرانہ تھا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب زمانہ طالبعلمی میں ہی اپنی کتاب چھپوانے کا دل میں شوق امڈ آیا اور جب میں نے اپنی پہلی کتاب کا مسوّدہ پبلشر کے ہاتھ میں دیا تو نجانے کیوں دل میں اک کسک سی محسوس ہوئی ۔ایسے جیسے کوئی کمی سی رہ گئی ہو۔دل میں ایک خواہش مچلنے لگی کہ ’’اے کاش! قاسمی صاحب کی رائے شامل کتاب ہو۔‘‘ہمارے ملک کے بہت ہی نامور اور قابل احترام شاعر جن کی رائے میں پہلے ہی اپنی کتاب کے سلسلے میں لے چکی تھی انہیں جب میری اس خواہش کا علم ہوا تو وہ میری اس بچگانہ سوچ سے بہت محظوظ ہوئے،وہ بولے’’اول تو قاسمی صاحب اب صاحبِ فراش ہیں تو اب ایسا امکان بالکل ہی مبہم ہے کہ وہ آپ کی اس خواہش کو پورا کر سکیں اور اگر حامی بھر بھی لیں تو وہ کم سے کم سال بھر کی مدت میں ہی آپ کو کوئی رائے بھجواپائیں گے ۔تو کیا آپ اتنا انتظار کر پائیں گی جب کہ آپ کا مسوّدہ پریس میں جانے کو تیار ہے۔‘‘میں ان کی بات پہ اپنا سا منھ لے کر بیٹھ گئی۔محترم شاعر نے اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لئے ایک آدھ مثال بھی دی کہ کس طرح ایک بڑے لکھاری کو ان سے رائے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑا اور آخر کار اسے اس رائے کے بغیر ہی مسوّدہ چھپوانا پڑا۔لیکن ان کی کسی بھی مثال یا جواز کو قبول کرنے سے پہلے میں ایک بار کوشش کرنا چاہتی تھی ۔پبلشر زسے میں نے وعدہ کیا کہ اگر دو ہفتوں میں جواب نہ آیا تو وہ بے شک مسودہ چھاپ دے ۔میں نے ڈرتے ڈرتے بجائے خود بات کرنے کے قاسمی صاحب کو اپنی خواہش کے اظہار کے لیئے ایک عدد خط لکھ بھیجا۔حیرت انگیز طور پرقاسمی صاحب کا جواب ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں موصول ہو گیا، میرے دل میں ہزاروں وسوسے جا گزیں تھے۔ایسا خیال تو متعدد بار ذہن میں ابھرا کہ اس خط میں معذرت ہی لکھی ہو گی ۔بھلا ایسا کیونکر ممکن تھا کہ میرے کچھ ہی افسانے پڑھ کر ادبی دنیا کی اتنی بڑی شخصیت میرے نا آزمودہ فن پر اپنی کوئی حتمی رائے قائم کرلے۔میں نے ڈرتے ڈرتے خط کی تہہ کو کھولا اور دھڑکتے دل سے پڑھنا شروع کیا۔خط میں لکھا تھا،
’’گرامی نامہ موصول ہوا۔ممنون ہوں ۔میں آپ کے تخلیقی جوہر سے بخوبی واقف ہوں اور اس کا معترف بھی ۔مجھے آپ کی مجبوریوں کا بھی کماحقہ احساس ہے ۔لیکن کیا کروں شدید علیل ہوں ۔دمے کا بھی مریض ہو چکا ہوں ۔یاد داشت بھی متاثر ہو رہی ہے ۔اپنی اسی علالت کے باعث جلد جواب نہ بھیج سکا ۔اسکے لیئے معزرت ۔اس خط کے ساتھ ہی آپ کے افسانوں پر اپنی ادنی رائے بھی بھیج رہا ہوں ۔مجھے اس کی رسید سے ضرور مطلع کر دیجئے گا۔اور جب آپ کا مجموعہ چھپے مجھے ضرور بھیجیں۔خیر اندیش ۔۔۔ ‘‘
آج جب سننے میں آتا ہے کی بڑے بڑے لکھاری اور شاعر کسی نئے لکھاری کی کتاب کا فلیپ لکھنے یا کتاب کی رونمائی میں شرکت کے لئے معاوضہ طلب کرتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔لیکن جب کبھی حوصلے شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتے ہیں تو اپنی ڈبڈباتی آنکھوں سے قاسمی صاحب کے ڈھیروں خطوط پڑھنے لگتی ہوں۔گو کہ میری قاسمی صاحب سے وابستہ یادیں بہت ذیادہ نہیں مجھے ان کی شخصیت سے فیض یاب ہونے کا بھی زیادہ موقع نہ مل سکا افسوس کہ ھمارے حصے ان کے عہد کا بہت کم وقت آیا لیکن بے غرض اور مخلص لوگوں کی رتی بھر بھی یاد عمر بھر کے لیئے زاد راہ بن جاتی ہے ۔وہ ہم میں نہ بھی رہیں تو بھی ان کی یاد کا قطرہ قطرہ ہمارے اندر امرت بن کر اترتا اور ہماری حیات کی تمام تر تلخیوں کو نگل لیتا ہے۔۔۔۔اور ایسا زادِ راہ بھی تو کسی کسی ہی کا نصیب بنتا ہے۔
I have honour to attend Qasmi Sb in 1986 when he was invited to Century Celebrations of S.E College Bahawalpur where i was student of first year. IN the evening there was a grand All Pakistan Mushaira. Memories of those auspicious moments are still fresh in my memeories. When i joined Ptv i got opportunity to meet Qasmi Sb many a times. The most memorable was Ptv Lahore programme Kheraj e Tehsin. i traveeled to Lahore to atend its recording though i was not part of the production team .