مہا بلی اکبر ، ’انارکلی‘ کی عدالت میں، ایک متنی جائزہ
تبصرۂِ کتاب: نعیم بیگ
’اکبر اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعہ لاہور میں جلایا گیا چراغ بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا دِیا پھونک مار کر بجھا دیا۔‘‘
یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول کا، جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا اکتیس برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔ زمانہ تحریر جب اس قدر طوالت اختیار کر جائے، تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا جزوِلاینفک بننا ہے، کھُلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید صفحات پر لکھی گئی خونچکاں داستان جب خود احتسابی کی نذر ہوئی‘ تو صرف ڈھائی سو صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا، جس میں زوائد کا ڈھونڈنا کارِ دارد ہے۔
فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے، جسے کوئی بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے، جو بعد ازاں عالمی سچ کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں ہوا ہے۔ تاریخ کے جن پہلوؤں پر صدیوں کی تاریکی نے گھنے سائے کر رکھے تھے، دربار اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں درباری مورخین، ان کے قلم مصلحت کی نیو پر خاموش رہے ،تب وقت کی خاک نے بھی ایک دبیز چادر تن دی، لیکن حامد بیگ کے قلم کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن ایسی راگنی چھیڑی ہے، جس سے سچائی کے مسحور کن سر اہل علم و فن ، فکر و دانش اور مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ شنا کر رہے ہیں۔
سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار میں عدل کے نام سے گونجتی تھی، یا وہ جو انار کلی کی مہک کو دربار میں پھیلنے سے نہ روک سکی ، اور جس کا شکار شیخو اور خود انارکلی ہوئی۔
سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’ آئین اکبری‘ اور ’ اکبر نامہ‘ میں سپردِ ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے، لیکن اس سے پہلے کہ میں ناول کے مندرجات کو متن کی روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے لاؤں، مجھے دو اہم پہلوؤں پر گفتگو کرنی ہے۔ پہلا نکتہ وہ مثبت عمومی تاثر کا ہے جو اس دور کے وقائع نویسوں اور مورخین نے رقم کیا، اور مغلیہ دور کے بیشتر شہنشاہوں کے ان رویوں پر جو انسانی حقوق پر دال کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، کو معروف معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔ اور دوسری سطح وہ ہے جو شاہی ثقافتی رویوں کی ہے، جس میں سلطنت مغلیہ کے وسطی ادوار بشمول اکبر اور جہانگیر بھی شامل ہیں۔
۱۵۸۴ء سے لے کر ۱۵۹۹.ء تک کا عہد اکبری لاہور میں مدفون ہے۔ اس پر مصنف کی محققانہ طرز نگارش نے تفصیلاً روشنی ڈالی ہے۔ اس سے بُعد نہیں کہ ان پندرہ سولہ برسوں میں قلعہ لاہور کا آسمان کئی ایک منفی اور مثبت روایات کا چشم دید گواہ ہے۔ جس نے دین الہی کی ایک روحانی انجمن کو بنتے دیکھا ، مغلوں کا مذہبی جبریت سے انکار، مذہبی کٹر پن کو گھٹا کر اسلام اور ہندو مت میں براہِ راست تصادم نہ ہونے دینا ، ہندوؤں کے اکثر فرقوں کا اسلامی رسم و رواج کو اپنانا، دوسری طرف ہندوؤں کی بعض رسموں کو مسلمانوں کا اپنانا ، جیسے بسنت ، مائیوں اور مہندی کی رسومات اور پیلے پہناوے۔ جہانگیری دور میں گرجاؤں اور گورستان بنانے اور عیسائی مشنریوں کو آزادانہ تبلیغ کی اجازت جیسے بیسیوں اقدامات ہیں، جنہیں دربار اکبری اور جہانگیری کی تائید اورحمایت حاصل رہی۔
تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف نے اہم سمجھا، وہیں انسانی حقوق کی پامالی کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ انار کلی کے واقعہ پر بحیثیت حقیقت نگار مصنف نے یہ بات شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’ تین سو اکانوے برس گذر گئے، نہ مدعیہ کو انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا علیہ کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکتا ہے، ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا ف کر پائے تو یوں سمجھیے فردِ جرم عائد ہو گئی، ‘‘ (صفحہ ۵۳)
آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ عہد اکبری کے وقائع نویس اِس ضمن میں خاموش ہیں اور عہد موجود کے تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے مقبرہِ انار کلی اور انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو جھٹلاتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، آج ۸ اکتوبر ۱۹۹۰.ء کو ہم لگ بھگ چار سوسال پرانی ایک مبہم سی تصویر پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر، جسے ہمارے اجتماعی حافظے اور شہر لاہور کی سینہ در سینہ روایات نے ہم تک پہنچایا۔‘‘ (صفحہ ۵۳)
یہ بھی کہا گیا کہ اکبر اعظم کے معاصر تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس لرزا دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے گریز کیا، کیونکہ انار کلی کو ۱۵۹۹.ء میں زندہ دفن کر دینے کے بعد ۱۶۰۵.ء سے ۱۶۱۵.ء کے درمیانی عرصہ میں جہانگیر کے حکم سے انار کلی کا مقبرہ تعمیر ہوا، جو اس دور کی لاہور کی شاہی عمارات میں ایک شاندار اضافہ تھا۔
عالمی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت ہے، جسے فرانسیسی میں ’ مائز این ابیمی ‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے اندر ایک اور کہانی بُنی جاتی ہے جو بڑی کہانی کے تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے کرتی ہے ۔جیسے قدیم یونانی شاعر ہومر اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو پہلی بار استعمال میں لایا۔ درحقیقت کہانی اندر کہانی کی بنت کے ذریعے اس سچ کو اگلوانا از حد ضروری ہو جاتا ہے جو مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی خیال کے تحت لاتا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے ، جسے مصنف بڑی ہنر مندی سے عکسی حقیقت کے پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی سچائی کو سامنے لاتا ہے۔
ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اولا یہی ہے، کہ وہ یہ ثابت کرے ،کہ انار کلی کا کردار کوئی امجیری ، کوئی الوژن ، کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک حقیقت تھی اور ہے ،جو مہابلی کے قہر کا نشانہ بنی۔ عین اسی تیکنیک کے تحت شکسپئیر اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے لیے کردار اوفیلیا کو استعمال کیا۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں اردو ادب کے مخصوص لسانی و تہذیبی پس منظر میں یہ تکنیک استعمال کی گئی ہے ، جسے مصنف بڑی ہنر مندی سے ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی عکسی سچائی کو سامنے لانے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔
یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا شہر یار مرزا مرکزی تمثیلی کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی آنکھوں والا، دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی کے مقالے کی ریسرچ کرتے ہوئے کہانی کے اندر اُس وقت داخل ہوتا ہے، جب مری سے ذرا آگے خانسپور کے مقام پر سپانسرڈ فلمی یونٹ بمع اپنے تمام ضروری فلمی یونٹ کے ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ فلمی یونٹ کے سیٹ ڈیزائنر مسعود احمد ( نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ دوست ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں والا کردار وہیں فلمی یونٹ کی انچارچ پروڈیوسر میڈم ڈاکٹر سرجیت کور کی بیٹی شازیہ سے ملتا ہے ، جسے وہ اپنے تخیل میں انار کی کلی پکار اٹھتا ہے۔
کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی آنکھوں والا شہر یار مرزا اور ٹیلی ویژن اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ کو ہیرو ہی سمجھتا ہے کو اِس عمدگی سے آمنے سامنے لایا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی ملاحظہ ہو سکتی ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی کلی (شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے، اور کھُلا چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل شروع ہوتا ہے۔
’’جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل کاک دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی تو سنی بجائے آگے آنے کے ہانپ کر پیچھے ہٹا اور شٹل، اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر کوئی پوائنٹ بنائے ایک سیٹ ہار چکا تھا۔ یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار مچ گئی اور جب شہریار مرزا نے سنی سے پوچھا کہ ’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر کورٹ سے باہر چلا گیا۔ ایسے میں راجہ رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ کورٹ میں لے آئے۔ وہ شہر یار مرزا کے ہاتھوں مزید خوار کرنے کی کوشش میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر برلاس کی بروقت مداخلت نے سنَی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا، ہیرو سے زیرو ہو گیا۔‘‘ (صفحہ ۶۶)
درحقیقت دو کرداروں کے درمیان یہ معمولی سا کھیل اور چیلنج پوری کہانی کے اس بڑے سچ کو تقویت دیتا ہے جہاں مہا بلی اور شیخو انار کلی کے معاملے میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ جاتے ہیں ۔
ناول کا ایک باب یہ واقع یوں پیش کرتا ہے، کہ ایک روز شام کے وقت پہرے داروں کی غفلت کی وجہ سے ایک شخص پاگل کا سوانگ رچائے حرم سرا کے اس حصے سے پکڑ لیا گیا ، جو صرف شہنشاہ کے لیے مختص تھا، شور مچنے پر ظل الہی باہر نکل آئے، گو شہزادہ دانیال نے اس پاگل کو پکڑ رکھا تھا لیکن اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔
’’سال ۱۵۹۴.ء نومبر کا مہینہ، موسم سرما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔ وہ پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں یقیناً شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور حرمِ شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی، لیکن دیوانِ عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر ۱۰۹)
’’ ابو الفضل کے مطابق تو اکبر نے اس پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے دیا، لیکن سر ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے ، کہ جہانگیر کے معافی مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے بادشاہ اسے حرم سرا میں لے آیا۔ حرم سرا میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے کو ایسے مکے مارے کہ وہ گر پڑا۔ ’ اکبر چنگھاڑا: ابے او احمق اور گدھے تو نے کس طرح میرے وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ نمبر۱۰۹)
یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ اکبر کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی ، لیکن شاہی اطباء کے بروقت علاج کی وجہ سے جانبر ہو گیا تھا۔
’’لگتا ہے کہ اکبر کو پھر ایک بار شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس بد گمانی کی فضا میں چند ماہ بعد ۱۵۹۸.ء میں اکبر نے شہزادہ سلیم کو حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف ایک فوجی مہم کی قیادت کرے، لیکن سلیم نے کسی خدشے کے پیش نظر اس درو دراز مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس سے باپ بیٹے کے درمیان تلخی بڑھی۔ تب یقیناً شاہی حرم سرا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر بہت سی نظریں گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر ۱۱۱)
یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے، کہ یہ تاریخی المیہ کسی فرد سے کہیں زیادہ اس سے وارد ہونے والے اعمال اور زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔ جوں جوں مہابلی ، شیخو اور انارکلی کے تاریخی تمثیلی واقعات آگے بڑھتے ہیں، اسی طرح ناول کی کہانی میں شہر یار مرزا ، انار کی کلی ( شازی) اور سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر اسی طرح سیریز آف ایونٹس کی مماثلت میں آگے بڑھتے ہیں۔
’’سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا، پر وہ دھوکے باز نکلا، اب تم درمیان میں آن کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں درمیان سے، یوں بھی کل خانسپورمیں ہمارا آخری دن ہے، شام کو چل پڑیں گے، یہاں سے مری کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر تمہاری بس آگے نکل جائے گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں اور ہوٹل برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید کی خالی کرسیاں۔‘‘
’’ کون کہہ رہا ہے تمہیں پیچھے ہٹ جانے کے لیے۔۔۔ لاہور سے کوہ مری تک کے سفر میں مجھ سے مدیحہ نے سنَی کو چھینا، تم نے سنَی سے مجھے چھین لیا۔ اگر دل لگی کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں راجپوت ہوں مدیحہ سے کبھی ہار نہیں ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے گرجا گھر کے ساتھ والی راہداری پر مجھ سے ملنے آ سکتے ہو۔ میں ماما کو ان کے کمرے تک پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘ (صفحہ نمبر ۱۷۴)
انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو کہانی کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات ڈھلتے ہوئے گرجے کے بائیں جانب راہداری پر سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا انتظار کی گھڑیاں گزار رہا تھاکہ دو سایوں نے اسے چونکا دیا، ریسٹ ہاؤس سے کوئی نکل کر گرجے کی جانب مڑ گیا۔ مرزا یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ اس کی طرف آنے کی بجائے دوسری طرف کیوں مڑ گیا ہے تب ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا، جسے چھٹکی ہوئی چاندنی میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی کلی تھی، اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہلا سایہ کون تھا ؟ سنَی تھا یقیناً۔ انار کی کلی نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کچھ میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ بلاتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔ شہریار چکرا کر رہ گیا ، کیونکہ اس کا احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے آثار جاگ رہے تھے، اس کی ٹانگیں شل تھیں، شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
’’تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ’’ بولو۔۔۔ کیا میں تمہارے لیے اب بھی ۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں والا چپ کھڑا اسے تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا اور بولا ’’ بہت دیر ہوگئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریسٹ ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ ۱۹۶)
ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں مصنف اپنے دعویٰ میں کوئی معانی پیدا کر سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا قاری یا کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس قدر نمایاں رہا ہے۔ راقم کا منصب نہیں کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا متن حقیقتاً اپنے جوہر میں واقعات کی اُس تمثیلی عکس کو بیان کرتا ہے، جسے افلاطون نے عکسی حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ نظریات کے جوہر کو حاملِ وجود اور بصری الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے، لیکن یہاں مصنف نے اسی فلسفے اور ادب کے استاد اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات کی بنیاد پر اس پورے تاریخی واقعہ کی مربوط اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو بیان کر دیا ہے۔ مصنف نے اس المیہ کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کی غنائیت، تاثر آفرینی، طریق کار اور حدود کا مکمل ادراک کیا ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا گیا وہ سنجیدہ، مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔ اس کی کرافٹ میں فکشن اور حقیقت کا لازوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال قائم کی گئی ہے۔ راقم کی نظر میں اس ناول کی تاریخی حیثیت کے علاوہ بھی اور کئی سامان موجود ہیں جس سے ناول کی زبان، ہیئت، تلفیظ (ڈکشن)، المیہ کے عمل اور تاریخی میلان، جذباتی توازن و اعتدال، تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔
’ انار کلی‘ جیسے تاریخی المیہ کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت میں مصنف نے کمال مہارت سے ایک ایسی سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں فکشنلائز کیا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔
’’ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی ایک لونڈی، جو انار کلی کہلائی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا آپ سب نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ چیخ کر بتا رہی ہوں کہ I am the sufferer of male chauvinism، ایک سو چھبیس سال ہوگئے ہیں، مجھے میری قبر سے بے دخل کر دیا گیا ہے، اللہ کا گھر آباد کرنے ے نام پر، گوری چمڑی والوں نے پورے چالیس سال میرے مقبرے کو کھیتڈرل چرچ بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال پرانے میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور میڈیکو لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی، ثابت ہو جائے گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔ میری موت دم گھٹنے سے ہوئی۔۔۔‘‘
’’چلو، بی بی چلیں ، پولیس وین سے نیچے اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیسر کی آواز سنائی دی۔ عین اسی لمحے زرد رنگ کا ایک بڑا چھکڑا آن پہنچا، جس سے اتر کر ٹی ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و چوبند اہلکاروں نے آناً فاناً وہ چھوٹا سا سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں سجایا گیا مختصر سا سٹیج ڈھا کر سارا سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ جا، وہ جا۔
’’ تمہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی معنیٰ درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل، داغ، دھبا ۔۔
شازی چیخی۔
’’چلو بی بی چلیں۔ ‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے پولیس آفیسر نے شازی کو اپنے حصار میں لیا اور ایک لیڈی کانسٹیبل کی مدد سے اپنے بازؤں میں بھر کر پولیس وین میں بٹھا لیا۔ شازی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دائیں ہاتھ باہر نکال دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا، تو اس کی کلائی میں پہنا چاندی کا کڑا تیز دھوپ میں ڈلک رہا تھا۔
وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا، ٹریفک رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر کے اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ کچھ بھی تو نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ ۲۴۴)