مسلمانوں کے آثار اور تاریخی تشدد
از، عادل فراز
واقعہ مغل بادشاہ مرزا نصیرالدین محمد ہمایوں کے مقبرہ کا ہے۔ راقم اور شاہد کمال جو ایک ظریف انسان اور ممتاز شاعر ہے۔ جس کا ذہن خیالات کا مقبرہ بنتے بنتے رہ گیا مگر مجھے حیرت ہوئی کہ اسے بھی مقبروں کی سیاحت کا شوق ہے۔ زیارت کا لفظ عمداَ استعمال نہیں کیا کیونکہ بادشاہوں کے مقبرے سیاحت کے لیے ہوتے ہیں نا کہ زیارت کے لیے۔ درگاہ نظام الدین اولیاء کے روح پرور ماحول، مزار امیر خسرو کی دیدہ بوسی اور غالب آشفتہ سر کی قبر پر حاضری کے بعد یونہی خیال آیا کہ نظام الدین کےمشرقی علاقہ متھرا روڈ پر واقع مغل بادشاہ مرزا ہمایوں کی قبر پر بھی حاضری دی جائے۔
یوں تو مجھے ذاتی طور پر مقبروں میں وحشت ہوتی ہے کیونکہ صاحب قبر یا تو وحشت شکار ہوتا ہے یا وحشت مدار ہوتا ہے۔ زیر زمین راستے سے ہوتے ہوئے سڑک عبور کی اور مرزا ہمایوں کے مقبرے کے داخلی گیٹ پر پہنچے۔ ہرقدیمی و تاریخی عمارت کی طرح یہاں بھی بغیر ٹکٹ کے داخلہ ممنوع تھا۔ شاہد تو یوں بھی زندوں کی زیارت پر ایک دھیلا خرچ نہ کرے مقبروں کی سیاحت پر پیسہ لٹانا تو دور کی بات ہے۔ مگر پھربھی ہم نے ٹکٹ خریدے تاکہ مردوں کا حال جان سکیں۔
کہتے ہیں قبر کا حال مردے سے بہتر کون جانتا ہے۔ مگر شاید مثل کہنے والا شخص یہ بھول گیا تھا مردہ کا حال مقبرے بھی بیان کردیتے ہیںالبتہ ہر مردے کے نصیب میں مقبرہ نہیں ہوتا۔قبر میں مردے کا حال بہ فیض الہی جو بھی ہو مگر مقبرے کی شان و شوکت دیکھ کر اندازہ ہواکہ ہم کسی بادشاہ کے مقبرے کی سیاحت کے لیے نہیں بلکہ دربار میں حاضری دے رہے ہیں۔مقبرے عمارت اور اس کے رقبہ کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آخر کچھ سبک سر مقبرے کو عوامی قبروں کے لیے وقف کرنے کا مطالبہ کیوں اور کس کے اشارے پر کررہے ہیں۔
جائے عبرت ہے کہ جس بادشاہ کے دربار میں طوائفوں کو بھی ادب و تہذیب کا پاس ہو اس کے مقبرے کے چاروں طرف نیم لباس دوشیزائیں بدن تھرکاتی گھوم رہی تھیں۔مقبرے میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف عیسیٰ خاں کا مقبرہ ہے جو اپنی بے سروسامانی کا نوحہ پڑھ رہاہے ۔مقبرہ سے ذرافاصلے پر ایک مسجد کی ویران عمارت ہے جہاں جنات ہی عبادت کا فریضہ انجام دیتے ہونگے ۔عیسیٰ خان کے مقبرہ میں داخل ہوتے ہی یقین ہوجاتاہے کہ حکومت ہند کوان مقبروں سے کتنی دلچسپی ہے اور سیاحوں سے ہورہی آمدنی کہاں صرف ہورہی ہے۔
ہمارے ساتھ ساتھ ایک ہندو فیملی بھی ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہوئی۔ فیلمی میں ایک بزرگ مرد، دو ادھیڑ عمر کی خواتین اور ایک لڑکی تھی ۔ بزرگ کو شاید تاریخی عمارتوں کی سیاحت کا مطلق شوق نہیں تھا اس لیے ان کی طبیعت اوبی ہوئی تھی۔ مگر لڑکی چہک چہک کر عیسیٰ خان کے مقبرے کی تصویریں اتاررہی تھیں۔ بزرگ نے اپنی اکتاہٹ چھپاتے ہوئے لڑکی سے کہا’’ بیٹا بڑا سناٹا ہے یہاں‘‘۔ اس سے پہلے کہ لڑکی کچھ جواب دیتی شاہد کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ ’’مردے سو رہے ہیں جناب،چلیے چل کر جگاتے ہیں۔‘‘اور بزرگ سمیت آس پاس موجود سبھی لوگ کھلکھلا کرہنس پڑے۔
ادھیڑ عمر عورت مقبرہ کا رقبہ اور بلند و بالا عمارت کے دیدار سے ششد ر تھی ۔اس کی نفرت اور حیرانی چہرے پر نمایاں تھی ۔اچانک گویا ہوئی ۔’’ بیٹا دیکھو ہر طرف مسلمانوں کے مجار ہیں۔دلّی بھری پڑی ہے ان کے مجاروں اور مکبروں سے۔ پتہ ہے بیٹا بٹوارہ کے بعد بھارت میں کیول ۵ پرسینٹ مسلمان تھے اور آج پچیس پرسینٹ ہیں ۔کتنی تیزی سے ان کی آبادی بڑھ رہی ہے! ‘‘۔ادھیڑ عمر عورت مسلمانوں کی بڑھتی اور ہندؤں کی کم ہوتی ہوئی آبادی پر اظہار تشویش کررہی تھی کہ پھر شاہد کا ظریفانہ جواب آیا’’ آنٹی یہ تو ہماری سستی ہےمسلمانوں کا کیا قصورہے ‘‘۔(فیملی ہم لوگوں کو ابھی تک ہندو سمجھ رہی تھی ۔اس لیے ایسا جواب دیاگیا)۔’’ نہیں بیٹا ان کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ہماری سرکار کو کچھ کرنا چاہیے۔‘‘مگر کئی بار دریافت کرنے کے بعد بھی وہ مسلمانوں کی آبادی کو قابو کرنے کا آزمودہ نسخہ بیان کرنے سے قاصر رہیں۔شاید یہ نسخہ وہ حکومت ہند کو بتلادیں تو موجودہ حکومت اس نسخہ کی ہدایت پر عمل پیرا ہوسکتی ہے۔
عیسیٰ خان کے مقبرے کی سیر کے بعد ہم لوگ ہمایوں کے مقبرے کی طرف چل پڑے ۔ ابھی بھی ہم اس فیملی کے ٹھیک پیچھے چل رہے تھے ۔میں نے شاہدسے کہا’’یار تھوڑا فاصلہ بنالو یا ان سےآگے بڑھ جاؤ ۔خوامخواہ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ان کا تعاقب کررہے ہیں اور یوں بھی یہ فیملی متشدد ہے ۔ایسا نہ ہو کہ کچھ غلط سمجھ بیٹھیں ۔‘‘ہم لوگ تیزی کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہوگئے ۔عظیم بادشاہ کی آخری آرامگاہ اس قدر ویران اور وحشت آثار ہوگی یہ سوچا بھی نہیں تھا ۔یہ مقبرہ ہمایوں کی یاد میں ان کی بیگیم حمیدہ بانو نے ۱۵۶۲ میں تعمیر کرایا تھا ۔ہندوستانی و ایرانی طرز تعمیر کے امتزاج نے مقبرے کو جلا بخشی ہے اور آج بھی اس کی بلند و بالا عمارت مغلوں کی فن تعمیرمیں دلچسپی کو بیان کررہی ہے۔وسیع و عریض احاطہ کے بعد ایک کشادہ چہار باغ کے درمیان مقبرہ کی صدر عمارت زمین سے کئی گز کی بلندی پر تعمیر کی گئی ہے۔ مقبرہ کے احاطہ میں مقبرۂ عیسیٰ خاں، مقبرۂ بوحلیمہ، افسروالا مقبرہ، نائی کا مقبرہ اور دیگر قبریں موجود ہیں۔ مقبرہ کا رقبہ ،وسیع و عریض احاطہ ،فن تعمیر کی جلوہ گری اور قبروں کی ویرانی دیکھ کر ہم متحیر تھے ۔مگرہندوستان کی موجودہ نفرت آمیز سیاست کے کئی عقدے کھل چکے تھے۔
آخر شدت پسند تنظیمیں اور متشدد اکثریتی طبقے کے لوگ مسلمانوں کے آثار دیکھ کر اپنا آپا کیوں کھو بیٹھتے ہیں؟ اچانک ایسا کیا ہوا کہ بادشاہوں کے عالی شان مقبروں کو عوامی قبرستان میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا؟ جبکہ مطالبہ کرنے والے یا مطالبہ کے پس پردہ کام کرنے والے افراد کو اپنی چتا کو اگنی دینے کے لیے دو گز زمین بھی کافی ہے۔ مگر مسلمانوں کے مردوں کی اتنی فکر انہیں کب سے ہوگئی اور کیوں ہورہی ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب مسلمانوں کے آثار دیکھ کر مل جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہےکہ ہندوستان کے ہر بڑے اوراہم شہر میں مسلمانوں کے آثار موجود ہیں۔ مسجدیں،مزار ات،درگاہیں، خانقاہیں، عظیم الشان مقبرے، لمبے چوڑے قبرستان اور اللہ جانے کتنی ہی وقف کی املاک موجود ہیں۔ بادشاہوں کے مقبرے جن کی زیارت کےلیے ملک و بیرون ملک سے لا تعداد سیاح آتے ہیں۔ ایک ایک مقبرےاور مزار کارقبہ کئی کئی سو مربع میٹر پرمشتمل ہے۔
بعض مقبروں کے حدود تو ایک چھوٹےشہر کی آبادی کو سمیٹ لینے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ شدت پسند طبقے کے تعصب کا اصل راز یہی ہے ۔ان کے یہاں مردوں کو جلانے کا قانون ہے اور مسلمانوں کے یہاں دفنانے کا نظام ہے ۔ہندودھرم کےجتنے بھی عظیم راجہ گزرے ہیں آج اکّا دکّا کسی کا محل یا قلعہ موجودہے۔ مردہ کا جسم ہی جلا دیا گیا تو مقبرہ بنانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس لیے ہندوستان کے راجاؤں اور عظیم شخصیات کے نام تاریخ کی زینت ضرور بنے مگر ان کے نشانات اور آثار موجود نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے قلعے موجودہیں ۔قلعوں سے زیادہ کشادہ اور مضبوط مقبرے ہیں۔
صوفیوں کی درگاہیں اور مزار ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی قبریں موجود ہیں۔امام باڑے اور مسجدیں ہیں۔ لہذا ہندوستان کی کل اراضی کا بڑا حصہ مسلمانوں کے آثار کا شاہد ہے اس لیے شدت پسند طبقہ اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ مختلف پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے تاکہ ان آثار کو ختم کردیا جائے یا ان کا تسلط تسلیم کرلیا جائے۔ اگر آج کہیں شری رام چندر جی کا مزار ہوتا تو آس پاس کے درجنوں گاؤں ان کے نام پر خالی کرادیے جاتے۔ مرنے والوں کی قبریں ہوتیں تو آج کسی بھی درگاہ اور امام باڑے سے یونہی راتوں رات کسی دیوی دیوتا کی قبر نکال دی جاتی اور اپنی وراثت کا دعویٰ کرکے قبضہ کرلیا جاتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں کر سکتے۔
مجھے حیرت نہیں ہوتی جب کوئی زر خرید مسلمان زعفرانی تنظیموں کے اشارے پر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہمایوں کے مقبرے کو عوامی قبرستان کے لیے وقف کردیا جائے کیونکہ مسلمانوں کے دفن ہونے کے لیے حکومتوں کو الگ سے بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ قبرستانوں میں جگہ کی تنگی ہے اور نئے قبرستانوں کے لیے شہروں میں جگہ نہیں ہے ۔بیرون شہر اگر قبرستان کی جگہ خریدی جائے تو وہاں تک مردے کو لے جانا مشایعت کرنے والوں کے ساتھ خود مردے پر بھی جبر ہے۔
مگر پھر بھی ہم اپنی حکومتوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مردوں کو دفن کرنے کی فکر کرنا چھوڑ دیجیے جس طرح مسلمان اپنے ہر مسئلے سے خود نمٹ رہا ہے اس پریشانی کا حل بھی وہ خود تلاش کرلے گا۔ اگر حکومتوں کو مسلمانوں سے اس قدر ہمدردی ہے تو ان کے مردوں کی فکر کرنے کے بجائے زندوں کی فکرکریں اور ان کی ترقی کے لیے لائحۂ عمل ترتیب دیں۔ مغل بادشاہوں کی تاریخ یا خلجیوں اور انگریزوں کے کارنامے نئ نسل کو ضرور بتائیں مگر انہیں گمراہ مت کریں ۔ازمنۂ قدیم کی تاریخ بدلی نہیں جاسکتی مگر مستقبل میں لکھی جانے والی تاریخ کا ہر باب ابھی ہمارے ہاتھوں میں ہے، جیسے چاہیں لکھیں۔ ایسا نہ ہو آنے والی نسلیں تمہارے کارنامے بھی نفرت کے ساتھ یاد کریں اور افسوس کا پتھر پھینکنے کے لیے انہیں تمہاری قبروں کا نشان تک بھی نہ ملے۔