عورت کو صرف انسان سمجھ لیجیے، بس
از، نصیر احمد
خواتین کا عالمی دن ہے۔ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ اوسط اور شرح کے حساب کتاب سے دنیا میں خواتین کے ساتھ مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادتی ہو رہی ہے اور اس کی تلافی کے لیے صنفی برابری کی بنیاد پر خواتین کو ان کے معاشی، معاشرتی، سیاسی، ماحولیاتی اور ہر قسم کے انسانی حقوق دلانے کے لیے عالمی سطح پر ایک اجتماعی کوشش کی جائے۔
لیکن نہ خواتین کو دیویاں بنا کر پوجا جائے اور نہ ہی ان کو بھیڑ بکریاں بنا کر بد سلوکی کی جائے۔ برابر کی انسان ہی سب سے احسن شکل ہے۔ اور خواتین کو بھی انسانی برابری کسی دیومالا کی بنیاد پر ختم کرنے کی کوششیں نہیں کرنی چاہئیں۔
باقی تفہیم کے اور صلاحیت کے، اچھائی کے اور برائی کے انفرادی فرق ہوتے ہیں جن کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی وجوہات ہوتی ہیں لیکن صنفی فرق نہیں ہو تے۔ جسمانی فنکشنز کے ذرا سے فرقوں کی ارد گرد مردوں نئی دیو مالا گھڑی، جو ظلم و ستم کا سبب بنی، اسے بہتر سائنس نے جھوٹا ثابت کر دیا اور اگر خواتین بھی ایسی ہی دیو مالا گھڑیں گی، وہ بھی ظلم و ستم کا سبب بنے گی اور بہتر سائنس کے ذریعے جھوٹی ثابت ہو جائے گی۔
صدیوں سے مرد جو باتیں خواتین کے لیے کہتے رہے کہ یہ سپاہی نہیں بن سکتیں، فلسفی نہیں بن سکتیں، کھیل نہیں سکتیں، سیاست نہیں کر سکتیں، قوت فیصلہ کمزور ہے، تھوڑی سی آزادی کے تھوڑے سے عرصے میں سب کچھ خواتین نے غلط ثابت کر دیا ہے۔ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ثابت ہوا کہ خواتین زہرہ سے وارد ہوئی ہیں اور مرد مریخ سے اترے ہیں، تو پھر یہ سیارہ بازی بنتی تو نہیں۔
کچھ عرصے سے یہ بات بہت چل رہی ہے اور اسے سائنسی بنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ دماغوں میں بھی فرق ہے، خواتین میں مہربانی زیادہ ہوتی ہے، مردوں کے منطق زیادہ ہوتی ہے لیکن اربوں خواتین میں صرف ایک خاتون چاہیے ہوتی ہے جس کی منطقی صلاحیتیں مردوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور اربوں مردوں میں صرف ایک مرد اگر کسی خاتون سے زیادہ مہرباں ثابت ہو تو یہ مقدمہ لڑکھڑا جاتا ہے۔
لیکن اس سائنس کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک تو سیمپل بہت چھوٹے ہیں، دوسرا بھیجے میں جو کچھ چل رہا ہے، اس کے بارے میں بھیجے کی تصویروں کے ذریعے ابھی تک اندازے ہی لگائے جا سکے ہیں۔ کام تو ہو رہا ہے لیکن کچی بات ہے اور سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو کام کر رہا ہے اس کا بھیجا ہے اور بھیجا ہے تو پسند نا پسند، ترجیح و تردید سے یہ کارکن کیسے محفوظ ہے؟
اور بھیجے کی وارداتیں دل کی وارداتوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ فورا ہی بدنیتی کا پتا چل جائے۔ یہ ایک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے جیسا معاملہ ہے۔ابھی تک تو یہ نہیں سمجھ پائے کہ ایک چراغ کیسے جلا، سو کے بارے میں کیسے خبر ہوئی؟
یہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے، ایک چھوٹے سے ایکشن سے دماغ میں اتنی زیادہ فعالیت رونما ہوتی ہے کہ بنیادی وجہ کے بارے میں ابھی تک ثبوتوں کی مدد سے کوئی حکم لگانا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
باقی یہ روحانی پاکیزگی والا معاملہ بھی بات ہی ہے، اگر ایسی کوئی صلاحیت ہے جس کا تخمینہ رویوں سے لگایا جا سکے، وہاں بھی یہ کیس ڈگمگا سا جاتا ہے کہ یہاں بھی کثیر الجہتی ہوتی ہے۔ کبھی کوئی مردوں سے زیادہ پارسا خاتون مل جاتی ہے اور کبھی کوئی خواتین سے زیادہ متقی مرد مل جاتا ہے۔
باتیں جن کی بنیادیں کچی ہوں، وہ کرنے سے کیا فائدہ؟انسانی برابری میں کیا برائی ہے، جس کی کامیابی کی اتنے ثبوت ہیں کہ گنتی ہی ختم ہوتی۔
ایسا ہے کہ قدیم ایرانی جبلی یا فطری وجوہات (جن کے بارے میں ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے) کی بنیادوں پر قدیم یونانیوں کو کم تر سمجھتے تھے اور ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے تھے، پھر یونانیوں کے دن پھرے اور انھی خود ساختہ فطری اور جبلی وجوہات کی بنیاد وہ ایرانیوں کو کم تر سمجھنے لگے اور ایرانیوں کے سر پر سوار ہو گئے۔سب دارا، کوروش، گشتاسپ غائب ہو گئے اور ایرانی شاہنشاہی میں ہر طرف ٹولمی ٹولمی(بطلیموس) ہونے لگی۔ جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں ایک کے بعد دوسرے بطلیموس نے ایسا موس چڑھایا (اذیت دینے کو کہتے ہیں) کہ ایرانیوں کی زندگی عذاب ہو گئی۔ اور یہ مقابلہ صدیوں تک چلتا رہا اور بڑی شکلیں بدل بدل کر سامنے آتا رہا لیکن آخر میں اسی بات پر اتفاق کرنا پڑا کہ دونوں ہی انسان ہیں اور ہار جیت کا فیصلہ سائنسی صلاحیتیں ہی کرتی ہیں۔اور سائنسی صلاحیتوں کا فیصلہ معاشرتی انتظام کے زیر تحت آزادی اور برابری ہی کرتی ہے ۔یعنی جتنی زیادہ آزادی اور برابری ہو گی، اتنی ہی زیادہ سائنسی صلاحیتیں ہوں گی۔کبھی جورو جبر کے ذریعے بھی یہ صلاحیتیں بڑھائی جا سکتی ہیں مگر جب بھی اس جبر و جبر کا سامنا آزادی و برابری سے ہو گا، جوروجبرکے یہ مقابلہ ہارنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
یہ جو صنفی معاملہ ہے، ہمارے خیال میں صنفی سے زیادہ، انسانی معاملہ ہے اور ہر معاملے کی طرح اسے بھی جمہوری اور سائنسی طریقے سے بہتر سمجھا جا سکتا ہے، دیو مالا تو مسائل گھنے کر دیتی ہے کیونکہ دیو مالا نا انصافی کو بڑھاتی ہے۔
اور پھر بیسویں صدی کو تو آپ دیکھ چکے ہیں، بڑے بڑے اچھے ناموں کے ذریعے انسانی برابری ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ کیا نکلا کہ چاہے چھوٹی مونچھ ہو کہ بڑی مونچھ یا ایسی مونچھ ہو جیسے گدھے پر ٹانڈے لادے ہوتے ہیں انسان جنگ، بھوک، تشدد اور قحط کا ہی شکار ہوئے۔اس برتری کی بنیاد بھی آمریت اور جعلی سائنس کی بنیاد پر رکھی گئی تھی اور اس طرح کی جعلی سائنس کی واپسی کے ساتھ آمریت بھی واپس ہوئی ہے۔
بات مساویانہ حقوق اور انسانی برابری تک ہی بنتی ہے، اس سے بہتر ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا، جب بھی کوشش کی گئی نتائج خراب ہی نکلے۔ مرد اگر فطری طور پر خواتین سے برتر سمجھے جائیں گے، تو خواتین کے حقوق پامال ہوں گے اور اگر خواتین فطری طور پرمردوں سے بہتر سمجھی جائیں گی، تو مردوں کے حقوق پامال ہوں گے۔ ابھی تو برابری اور حقوق تک رسائی کا معاملہ حل نہیں ہو سکا، ابھی اسی پر ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو اچھا ہے اور ہو سکتا ہے، بدی سے تو بہرحال بہتر ہے۔
بہرحال ہم ایسے ہی سوچتے ہیں، ہمیں نہ بطور صنف مردوں کی برتری کے بیانوں میں کوئی سچائی دکھائی دیتی ہےاور نہ بطور صنف عورتوں کی برتری کے بیانوں میں کوئی صداقت نظر آتی ہے۔ اور انفرادی طور پر بھی کوئی برتری یا کمتری نہیں ہوتی۔ حالات، واقعات، معاملات اور فیصلوں کا ایک تسلسل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ناہمواریاں رو نما ہوتی ہیں لیکن ان کا کسی فطری یا جبلی برتری یا کہتری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔