تعلیم اور پائیدار ترقی کا تصور
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ کہتے ہیں تعلیم ترقی کا زینہ ہے لیکن عام طور پر ترقی کی اصطلاح کو محدود معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے ذریعے ایک بہتر نوکری کا حصول آسان ہو جاتا ہے یا پڑھے لکھے شہری معاشی ترقی میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ ترقی کا محدود تصور ہے کیونکہ محض بڑے بڑے آبی ذخائر، ریلوے ٹریک، پختہ شاہراہیں، بلند و بالا عمارتیں اور شاپنگ پلازے کسی ملک کی ترقی کے آئینہ دار نہیں ہوتے۔
ترقی کے تصور کے کچھ اور اہم پہلو اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ترقی کے معاشرتی پہلوؤں میں تعلیم، صحت، لوگوں کا معیار زندگی، خوراک اور پانی شامل ہیں ترقی کے اسی پہلو پر ہندوستان کے ماہرِ معاشیات امرتا سین نے اپنی شاہکار کتاب (Development as Freedom) لکھی جس میں ترقی کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ امرتا سین کے مطابق کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کا پیمانہ اس کی مادی ترقی کے علاوہ وہاں دستیاب آزادی بھی ہے۔ انہی خطوط پر پاکستان میں ترقی کے معاشرتی پہلو کی طرف ہمارے ماہرِ معاشیات محبوب الحق نے توجہ دلائی۔
ترقی کا جامع نکتہ نظرمحض سائنس کے مطالعے تک محدود نہیں بلکہ اس کی حدود سوشل سائنسز اور ہیومینیٹز تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ترقی کا ایک اوراہم پہلو اس کی پائیداری (sustainability) ہے۔ پرویز مشرف کے دورِحکومت میں 9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بلندیوں کو چھو رہے تھے اور معاشی اعداد و شمار بھی متاثر کن تھے لیکن کچھ ہی مدت میں معاشی نقشہ بدل گیا اور معاشی ترقی روبہ زوال ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ ایک پائیدار ترقی نہیں تھی۔ عالمی کمیشن برائے ماحول اور ترقی کے مطابق پائیدار ترقی وہ ہے جو آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لائے بغیرحال میں بہتری لائے۔
پائیدار ترقی کا تصور تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جومفید مہارتیں، نظریات، قدریں اور وہ تصورات سکھاتی ہے جن کی بنیاد پرمعاشرے میں شہریوں کی سوچ تشکیل پاتی ہے۔
تعلیم ہی ایک عام معاشرے کو تعلیم یافتہ معاشرے میں بدل سکتی ہے اور اسی کی بنیاد پرعصرِ حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تخلیقی قسم کے جوابات ملتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے کہ کیا محض شرح خواندگی ہی ترقی کے امکانات بڑھانے کاباعث بنتی ہے؟
اس سوال کاجواب نفی میں ہے کیونکہ صرف شرح خواندگی نہیں بلکہ معیارِ تعلیم ہے جو کہ پائیدار معاشی و سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اگر ہم پاکستان کے مرکزی دھارے کے سکولوں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ لیں تو ہمیں تعلیمی عمل معروف ماہرِ تعلیم پالو فریرے کے Banking Concept of Knowledge کے مطابق نظر آتا ہے جہاں طلبہ خاموش سامعین کی طرح پیچھے بیٹھتے ہیں۔ اساتذہ معلومات طلبہ تک معلومات منتقل کرتے ہیں اورطلبہ اپنی یاد داشت کی بنیاد پر امتحانات میں یہ معلومات پرچے پر منتقل کر دیتے ہیں اور یوں اعلیٰ گریڈزحاصل کرلیتے ہیں۔ تدریس و تعلیم کایہ طریقۂ کار اس وجہ سے ناقص ہے کہ یہ محض روبوٹ پیدا کرتا ہے جو فہم وفراست سے عاری ہوتے ہیں۔
تعلیم کا جامع تصور یہ ہے کہ اسے متعلمین کے علم، رویوں اور مہارتوں کو جِلا دینی چاہیے۔ تعلیم کا ایک اور بڑا مقصد جو کہ پائیدار ترقی کا ضامن ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طلبہ میں آزادئِ فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا اور نکھارا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ طلبہ کو تعلیم اس قدر توانا بنا دے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کا نہ صرف نئی صورتحال میں اطلاق کرسکیں بلکہ اس کا مکمل ادراک بھی کر سکیں۔ تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکے تاکہ وہ بحیثیت متعلمین نہ صرف معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہوسکیں بلکہ اس قدر جرأت مند بھی ہوں کہ وہ معاشرے کے ممنوعات (taboos) کو بھی للکار سکیں۔
اب سوچنا یہ ہے کہ تعلیم میں معیار کے حوالے سے یہ تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ دراصل بہت سارے عوامل و عناصر مل کر معیار تعلیم میں بہتری لاسکتے ہیں اور یوں پائیدار ترقی کے امین کہلاسکتے ہیں۔ ان عناصر میں فنڈز، بنیادی ڈھانچہ(infrastructure) بنیادی مادی سہولتیں، نصاب، درسی کتب اورجائزے کا نظام ہے۔ اگرچہ یہ تمام عناصر از حد اہم ہیں اورتعلیم کی بہتری میں بھرپور کردارادا کرتے ہیں لیکن ان سب میں اہم ترین استاد ہے جو دیگرعوامل پربھی اثرانداز ہوتا ہے۔
اگر ہم نے اساتذہ کو ایک کمیونٹی کے طور پر زیادہ موثر اور فعال بنانا ہے تو اس کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم انہیں مالی فوائد، سماجی شہرت و مرتبہ اور پیشہ ورانہ ترقی سے لیس کر دیں۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے ذرائع میں سے اہم ترین ذریعہ تعلیم اساتذہ ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں تربیتِ اساتذہ کے بہت سے ادارے پاکستان میں بہت ہی قدامت پسندانہ اور روایتی انداز میں تعلیم اساتذہ کا کام سر انجام دے رہے ہیں جوکہ تخلیقی سوچ اور عملی مہارتوں سے مکمل طور پر عاری ہیں نظریے اور مہارت کے درمیان مکمل لاتعلقی پائی جاتی ہے اور سارے کا سارا زور طریقۂ تدریس پر ہے۔
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیمِ اساتذہ کی تجدید اور تعمیر نو کی جائے تاکہ یہ تربیت اساتذہ کے لیے زیادہ موثر ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تنقیدی اورتخلیقی سوچ کو باہم مربوط کریں اور یوں تھیوری اور عملیات (theory & practice) کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کریں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم تعلیم کے علاوہ دوسرے مضامین سے بھی استفادہ کریں اورسیکھنے کے عمل میں بین الکلیاتی نقطہ نظر (interdisciplinary approach) کا بھرپور استعمال کریں۔
اساتذہ کو بھی اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تدریس کے رسمی اور غیر رسمی طریقہ استعمال کر کے اپنی تدریس میں جدت لائیں موثر تعلیم اساتذہ ہی وہ واحد رستہ ہے جس کے ذریعہ اساتذہ پیشہ ورانہ اندازمیں با اختیار بن سکتے ہیں اور پھر اس اختیار کی بدولت وہ ایسی تعلیم دے پائیں گے جو پائیدار ترقی کی ضامن ہوگی۔
تعلیم کا ایک اوربڑا مقصد جو کہ پائیدار ترقی کا ضامن ہے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طلبہ میں آزادئِ فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا اورنکھارا جائے لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہمارے مرکزی دھارے کے سکولوں میں خال خال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ طلبہ کو تعلیم اس قدر توانا بنا دے کہ وہ سیکھے ہوئے علم کا نہ صرف نئی صورتحال میں اطلاق کر سکیں بلکہ اس کا مکمل ادراک بھی کر سکیں۔ تعلیم کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکے۔