خود احتسابی ، وہ استاد جو میرا ضمیر ہوئے
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کبھی کبھی کوئی ایک لفظ یا جملہ جودل سے نکلتا ہے سننے والوں کے دل میں ترازو ہو جاتا ہے اور عمر بھر کے لیے ان کا دم ساز بن جاتا ہے۔ اس روز بھی ایسے ہی ہوا۔ ایوانِ صدارت میں انسدادِ بدعنوانی کے حوالے سے ایک تقریب تھی جس میں صدرِ مملکت جناب ممنون حسین اور نیب کے سربراہ جناب جسٹس جاوید اقبال شریک تھے۔
مقررین میں غیر ملکی تنظیموں کے سربراہ بھی شریک تھے یہ تقریب انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن کے حوالے سے تھی۔ جسٹس جاوید اقبال نے اپنے ادارے کے طریقِ کار کی وضاحت کی جس میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تین مختلف سطحوں prevention, awareness اور enforcement پرکام کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد جسٹس صاحب نے لکھی ہوئی تقریرسے ہٹ کر گفتگو شروع کی اور یہی وہ مقام تھا جہاں دل سے نکلنے والی آواز سننے والوں کے دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔
وہ کہہ رہے تھے معاشرے میں بدعنوانی ختم کرنے کاسب سے اہم نکتہ خوداحتسابی ہے۔ جس میں باہر کی سزا سے زیادہ ضمیر کی خلش کاخوف ہو اوراگر ہرشخص، چاہے وہ کسی بھی شعبے میں ہو، ہر لمحے اپنا احتساب خود کرے تومعاشرے میں بدعنوانی کی شرح نیچے آسکتی ہے۔ یہ آواز مجھے کئی برس پیچھے لے گئی۔
مجھے یوں لگا میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کی کلاس میں بیٹھا ہوں۔ آج ہمارے سیشن کا آخری دن ہے۔ سجاد شیخ صاحب ہمیں آخری لیکچردے رہے ہیں لیکن آج کا لیکچر انگریزی ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ زندگی کے حوالے سے ہے۔
سجاد شیخ صاحب کا ذکر آتے ہی ایک آئیڈیل ٹیچر کاتصور ذہن میں آتا ہے۔ شیخ صاحب محنت، دیانت اور شرافت کا مُرقع تھے۔ ہمیشہ کلاس میں لیکچر کی بھرپور تیاری کے ساتھ آتے۔ کلاس میں کبھی کسی کا مضحکہ نہ اڑاتے۔ مجھے یاد نہیں ہمارے ایم اے کے پورے سیشن میں انہوں نے کبھی چھٹی کی ہو۔ ہم اکثر دعا کرتے کبھی تو ایسا دِن آئے جب شیخ صاحب کالج نہ آئیں۔
آخر وہ دن آہی گیا جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا اس دن ہماری دعا قبول ہوتی نظرآئی۔ صبح سے روز موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ہماری کلاس جوبلی ہال کی بالائی منزل سے متصل کمرے میں ہوتی تھی۔ جہاں کے روشن دان سے باہر کا منظر نظر آتا تھا۔ شیخ صاحب کو سیٹلائٹ ٹاؤن سے آنا ہوتا تھا، کبھی ویگن، کبھی ٹیکسی، کبھی بس میں۔
اس روز سارے راستے جل تھل تھے۔ آسمان پر سیاہ گھٹاؤں نے گردوپیش کو تاریک کر دیا تھا۔ دن میں بھی رات کا گماں ہوتا تھا۔ ہمیں یقین ہو چلا تھا آج شیخ صاحب کا آنا محال ہے۔ یہ تصور بھی کتنا خوش کُن تھا کہ آج کلاس نہیں ہو گی اور ہم کالج روڈ پر واقع زم زم کیفے میں جائیں گے جہاں شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں چائے ملتی تھی اور جہاں ہم چھوٹی چھوٹی چٹوں پر فرمائشی گانے لکھ کر دیتے اور گراموں فون ریکارڈ پر ہماری پسند کے گیت چلائے جاتے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ بارش میں تو چائے اورگیتوں کا لطف اور بڑھ جائے گا۔ لیکن ہمارے تصور کا شیش محل اچانک ایک چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے جب ہمارے ایک ہم جماعت کی چیختی ہوئی آواز آتی ہے ـ ”شیخ صاحب‘‘۔
ہم سب روشن دان سے باہر کا منظر دیکھتے ہیں جہاں موسلا دھار بارش میں تیز ہوا کے زور سے الٹی سیدھی ہوتی چھتری کے ہمراہ شیخ صاحب آ رہے تھے۔ اس روز شیخ صاحب کو ہمارے ایک دوست نے کہا سر ہم تو سمجھے تھے آج آپ نہیں آسکیں گے۔ شیخ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے only death can part us (صرف موت ہی ہمیں جدا کر سکتی ہے) اور پھر ایک دن واقعی موت نے ان کو ہم سے جدا کر دیا، لیکن یہ اُس دن کی بات ہے جب ہمارے سیشن کا آخری دن تھا اور شیخ صاحب ہمیں کا رزارِ حیات کے لیے تیار کر رہے تھے۔ شیخ صاحب نے ہمیں تین چیزوں کی تلقین کی۔ وہ بولے: سب سے پہلی چیز پابندئِ وقت ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائیں وقت کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔ دوسری اہم چیز اپنے کام سے لگن اور پیشگی پلاننگ ہے۔ کبھی اپنے کام کو taken for granted نہ لیں۔
شیخ صاحب کے مطابق تیسری اہم چیز دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرنا ہے۔ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ ہر انسان چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا، امیر ہو یا غریب اس کی عزت نفس ہوتی ہے۔ آپ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں پوری کوشش کریں کہ آپ کی کسی حرکت، کسی بات اور عمل سے دوسروںکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ان تین باتوں کا ذکر کرنے کے بعد شیخ صاحب نے کہا اور اب میں آپ کو سب سے اہم بات بتانے لگا ہوں اور وہ یہ کہ ان تین نصیحتوں پر عمل درآمد کسی بیرونی خوف اور لالچ کے بجائے آپ کے اندر کی آواز پر ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کے اندر ایک مانیٹر آپ کو صحیح اور غلط میں فرق بتاتا رہے جو آپ کو ان تین نصیحتوں کو ہمہ وقت یاد دلاتا رہے۔
جب آخری دن کا آخری لیکچر ختم ہوا اور ہم کمرے کی سیڑھیاں اتررہے تھے تو دل کی عجیب سی کیفیت تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور سوچا اب ان سیڑھیوں پر شاید ہمارے قدم دوبارہ نہیں پڑیںگے۔ اس دن کوبیتے تقریباً چاردھائیاں ہونے کو آئی ہیں۔
اس عرصے میں شیخ صاحب کی تین نصیحتیں ہمیشہ میری ہم سفر رہیں۔ میں سوچتا ہوں کیسے ایک استاد کی باتیں اوراس کاعمل اس کے شاگردوں کو متاثرکرتا ہے۔ کیسے احتساب کا اندرونی مانیٹر ہمیں اقدارسے جوڑ کر رکھتا ہے۔
کئی سال پہلے مجھے کینیڈا کی براک یونیورسٹی (Brock University) میں ایک کانفرنس میں جانے کااتفاق ہوا۔ کانفرنس کے دوران چائے کے وقفے میں وہاں کے ایک نوجوان پر وفیسر سے ملاقات کا ہوئی۔ تفصیلی ملاقات کے لیے اگلے روز چار بجے کا وقت طے ہوا۔ میں وقتِ مقررہ پر تیسری منزل پرواقع پروفیسر کے آفس پہنچا تو وہ بند ملا۔ میں نے سوچا شاید وہ میٹنگ کے بارے میں بھول گیا ہو۔ میں جانے کے لیے واپس مڑ ہی تھا تو دیکھا کہ نوجوان پروفیسر تقریباً دوڑتا ہوا آفس کی طرف آرہاتھا۔ لفٹ آنے میں دیر تھی وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیاتھا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا، معاف کرنا مجھے دیر ہوگئیI hate to miss the appointments اس بات کو کئی برس گزر چلے ہیں، اب بھی میرے حافظے میں اس دن کی یاد آج تک روشن ہے۔
یہ ہے وہ اندر کا مانیٹر جو آپ کو وعدہ ایفائی پرمجبور کرتاہے۔ پاکستان میں کئی بار ایسے واقعات سننے کوملتے ہیں کہ سواریاں ٹیکسی اور رکشے میں اپنا قیمتی سامان بھول جاتی ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور یا رکشے والا یہ سامان بحفاظت ان کو واپس پہنچا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک اندر کے مانیٹر سے ممکن ہے۔
خود احتسابی کے تصور کو پروان چڑھانے میں ہمارے سماجی ادارے اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔ اس میں خاندان، تعلیمی و مذہبی اداروں اور میڈیا کا مرکزی کردار ہے۔ بچے کی شخصیت انہی اداروں سے تشکیل پاتی ہے لیکن اس کے لیے ایک کڑی شرط ہے اور وہ یہ کہ استاد بچوں کوجس بات کی نصیحت کرے وہ اوصاف خود اس کے اندر پائے جاتے ہوں۔
بالکل اسی طرح جیسے سجاد شیخ خودبھی وقت کے پابند تھے، ہمیشہ لیکچرتیار کرکے کلاس میں آتے تھے اورکبھی کلاس میں کسی کی تضحیک نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے جب انہوں نے تین نصیحتوں کوہمارے پلو سے باندھا توہمیشہ کے لیے ہماری شخصیت کا حصہ بن گئیں۔
آج کئی دھائیوں بعد ایوانِ صدر کی تقریب میں جناب جسٹس جاوید اقبال کے خود احتسابی کے تصور نے مجھے سجاد شیخ اوران سے جڑی ہوئی باتوں کی یاد دلا دی۔ کبھی کبھی کوئی ایک لفظ یا جملہ جو دل سے نکلتا ہے، سننے والوں کے دل میں تراز و ہو جاتا ہے اور عمر بھر کے لیے ان کا دم ساز بن جاتا ہے۔
4 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.