قائد اعظم ثانی سے نظریاتی تک
از، ملک تنویر احمد
کسی انقلابی جد و جہد کا بنیادی کام مخالف کو اخلاقی لحاظ سے تنہا کرنا ہوتا ہے، اس کی اپنی آنکھوں میں اور دنیا کی نظروں میں۔ تاہم فریق مخالف کو اس کی اپنی نظروں اور دنیا کی نگاہوں میں ہیچ ثابت کرنے کے والے کسی انقلابی و نظریاتی شخص کا اخلاقی تشخص ایسا جاندار اور بھرپور ہو کہ اس کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ پر ریا کاری، تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہ پڑتا ہو۔ تاریخ انسانی میں ایسے ان گنت افراد گزرے ہیں جو انقلابی جہد و جہد کے مشن پر گامزن ہوئے تو ان کے دامن اخلاق و کردار کے اوصاف سے ایسے اجلے تھے کہ پھر ان کی کہی ہوئی بات پرعوام اور معاشروں نے آمناً صدقناً کہنے میں ذرا سا تامل بھی نہ کیا۔
ایسے افرا د کی ایک طویل فہرست ہے کہ جس کا ذکر کے لیے کالم کی تنگی داماں آڑے آرہی ہے اس لیے پاکستان کے ذکر تک ہی اسے محدور رکھ لیتے ہیں۔ ذرا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ذکر کر لیتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران کسی جلسہ عام میں جب ایک شخص سے پوچھا گیا کہ قائداعظم تو انگریزی زبان میں خطاب کر رہے ہیں جب کہ تم اس زبان سے نابلد ہو تو پھر کیسے تمھیں پتا چلے گا کہ جو کچھ جناح صاحب کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ اس شخص نے جواب دیا مجھے انگریزی زبان تو سمجھ نہیں آتی ہے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ جو کچھ اس شخص کی زبان سے نکل رہا ہے وہ میرے اور میری قوم کے مفاد میں ہے کیونکہ اس کے لبوں سے قوم کے مفاد کے خلاف کچھ نکل ہی نہیں سکتا۔
یہ قائد اعظم کی ذات میں ودیعت اعلیٰ اخلاق و کرداد کو وہ جوہر تھا کہ جس نے انہیں مسلمانان بر صغیر کا ایسا نجات دہندہ بنا دیا کہ انگریزی زبان میں خطابات کے باوجود متحد ہ ہندوستان کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک مسلمانوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اوران کی قیادت میں ایک نظریاتی جدو جہد کے بعد پاکستان اس کرہ ارضی پر ایک الگ وطن کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔
قائد اعظم گزر گئے اب ’’قائد اعظم ثانی‘‘ کا دور دورہ ہے۔ موصوف کا سارا زور کلام اس نکتے پر خرچ ہو رہا ہے کہ قوم انہیں ایک ’’انقلابی و نظریاتی‘‘ رہنما مان کر ان کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دے۔ ان قائداعظم ثانی کو اس بات کا زعم ہے کہ وہ اخلاق و کردار کے ایسے بلند منارے پر تشریف فرما ہیں کہ ان کے سیاسی حریف اور ریاست کے دوسرے اداروں کے کرتا دھرتا ان کے سامنے بونے کی حیثیت سے زیادہ کے حامل نہیں ہیں۔ قائد اعظم ثانی کے کان میں کسی مصاحب نے یہ بات ڈالی دی کہ جناب والا! آپ اس خطہ ارضی پر انقلابی و نظریاتی جد وجہد کے واحد و تنہا علمبردار ہیں اس لیے جھٹ سے اپنے انقلابی و نظریاتی ہونے کا اعلان کر دیں۔
قائد اعظم ثانی نے بھی ایک ذرا سے تامل کے بغیر اپنے اس درباری مصاحب کی بات پر عمل کر ڈالا اور بھرے جلسے میں عوام الناس کو آگا ہ کر ڈالا کہ میں ایک انقلابی و نظریاتی رہنما بن چکا ہوں اور اب سے آپ میرا ایک نیا روپ ملاحظہ کریں گے۔
قارئین یہ حقیقت بھی مدنظر رکھیں کہ دنیا بھر انقلابی و نظریاتی رہنماؤں نے جب اپنی جد و جہد کا آغاز کیا تو کسی اعلیٰ و ارفع اصول اور آدرش کا حصول ان کا مطمع نظر تھا اور اس میں ان کی ذات میں پنپنے والے کسی بغض و عناد کو قطعی طور پر دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے قائد اعظم ثانی کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وہ اقتدار کے بہتی گنگا میں تین دھائیوں تک خوب اشنان کر چکے اور جب ان سے اقتدار کے دوران بنائے جانے والے اثاثوں کی بابت جانچ پڑتال کی گئی تو ان کا کردار مشکوک ٹھہرا۔
قائد اعظم ثانی بڑے تیز و طرار اور چالاک اور زیرک ہیں اس لیے انہوں نے اپنے بیرون ملک اثاثے اپنے نام کی بجائے اپنے بر خوداروں کے نام پر بنا کر قانون کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔
جب قائد اعظم ثانی کو احتساب کے لیے اقتدار کے محل سے رخصت ہو کر عدالتوں کے کٹہروں میں محاسبے کے لیے پیش ہونا پڑا تو انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو عوام کے ساتھ ایک ظلم عظیم قرار دے ڈالا کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے رہنما کو اس طرح خارج اقتدار کر دیا گیا کہ جس طرح دودھ میں گری ہوئی مکھی کو باہر پھینک دیا جاتا ہے۔
قائد اعظم ثانی کے درباریوں میں بھی ایک سے ایک کایاں شخص موجود ہے۔ ایک نے قائد اعظم ثانی سے عرض کی کہ حضور آپ ووٹ کے تقدس کے نام پر اپنے آپ کو مظلوم اور مخالفوں کو جابر و ظالم قرار دے ڈالیں۔ اس روز سے قائد اعظم ثانی کا نیا بیانیہ منصہ شہود پر ابھرا کہ یہ میرے ساتھ نہیں عوام کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ قائد اعظم ثانی نے اپنی اخلاقی برتری کے لیے ایسی ایسی داستانیں پیش کیں کہ ایسی تو شاعر نے بھی زیب داستان کو بڑھانے کے لیے پیش نہ کی تھیں۔
قائد اعظم ثانی اخلاقی طور پر کس درجہ کمال پر ہیں اس کے بہت سے مظاہر اس ملک کی تاریخ میں برپا ہو چکے ہیں او ر ان پر قائد اعظم ثانی نے کبھی بھی خجالت و ندامت محسوس نہ کی۔ قائد اعظم ثانی کے دربار میں چونکہ درباریوں اور خوشامدیوں کا جھمگٹا لگار ہتا ہے اس لیے ان کی چکنی چپٹری باتوں سے پھوٹنے والی چکا چوند روشنی میں کچھ دکھائی نہیں دیتا اس لیے وہ آج تک اس نکتے کو سمجھ نہیں پائے کہ فریق مخالف کو ڈھیر کرنے کے لیے کہ اخلاقیات کا موتی پہلے اپنے دامن میں جڑے جاتے ہیں پھر کسی انقلابی و نظریاتی جدو جہد کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
آپ مبینہ بد عنوانیوں کے لیے ہر نوع کے ہتھکنڈے آزما کر اپنی جان خلاصی کرانا چاہتے ہیں۔ رات کے اندھیروں میں آپ کے بردار خورد رحم کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں تو آپ کے نامزد کردہ ایک ’’والئی دولت‘‘ قاضی القضاہ کے حضور کچھ معاملات طے کرنے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
آپ نے اپنے کسی حواری کی باتوں میں آکر انقلابی ونظریاتی ہونے کا نعرہ مستانہ تو بلند کر دیا لیکن اس کے لیے برتے جانے والے لوازمات و ضروریات سے آپ کو کسی نے آگاہ نہ کیا۔
آپ کے کسی حواری نے قائد اعظم ثانی کا لقب آپ کو دیا آپ نے اسے حکومتی عہدوں سے نواز دیا۔ اب آ پ نے کسی درباری کی باتوں میں آکر اپنے آپ کا نظریاتی و انقلابی ہونے کا دعویٰ کر ڈالا۔ قائد اعظم ثانی سے شروع ہو کر آپ کے نظریاتی ہونے پر کچھ اور نہیں ایک لطیفہ حاضر ہے۔ ایک شخص نے دوسرے شخص سے پوچھا آپ کی ذات کیا ہے۔ دوسرا بولا’’پانچ سال پہلے میں جولا ہا تھا، اب شیخ ہوں اور اگر کاروبار میں یوں ہی ترقی ہوتی رہی تو اگلے چند سالوں میں سید ہو جاؤں گا‘‘۔ یہ لطیفہ تمام ہوا لیکن قائدا عظم ثانی کے لطائف بھرے دعوے یقیناً ملک کو محفل زعفران بناتے رہیں گے۔