گفتگو میں کچھ معنی لائیے، سطحیت سے دوری ضروری ہے
از، نصیر احمد
پہلے پنجابی فلمیں آئیں، شوخ کپڑے، گرج دار چنگھاڑیں، بدمعاشوں کی لڑائیاں، عجیب عجیب سے گانے، کبھی کچھ اچھا لیکن زیادہ تر چھچھورا، جوشیلا، سفلہ، شہدا، گھٹیا، کمینہ۔ ظاہر ہے اس سب کا تعلق فلم کے فن، عقل، تخلیق، گہری سوچوں، گہرے مشاہدوں، گہرے تجربوں، جمہوریت، انسانیت سے کیا ناتا ہو سکتا تھا؟ بس ایک چھچھوری سی آمریت اپنی صورت میں معاشرے کو ڈھال رہی تھی، ایک سانچا بنا رہی تھی جس میں کروڑوں فٹ ہو جائیں۔ اور آمریت کو سہولت رہے۔
اس کا حل بے ہنگم سے پنجابی ڈراموں میں ڈھونڈا گیا۔ جن کو شاید ڈراما کہا ہی نہیں جا سکتا۔ بس ایک چھچھوری قسم کی فحش گوئی جسے لوگ جگت بازی کہتے تھے، اس کا رواج ہو گیا۔ جس میں ناک نقشے سے لے کر صنف تک پر بات کے ساتھ بھونڈی قسم کی تفریح وابستہ ہو گئی۔ راہ چلتے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ اک فضیلت سی بن گئی۔ اس سب کچرے کے ساتھ ایک جزوی سی قومیت پسندی منسلک کر کے اس کچرے کو فروخت کیا جاتا تھا۔
اب خبریں ہیں اور معلومات عامہ کے پروگرام۔ جس طرح ان گھٹیا فلموں اور ان گھٹیا ڈراموں کا فلم اور ڈرامے کے فن سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح ان خبروں کا خبر سے کوئی تعلق نہیں۔ اور معلومات عامہ کے پروگراموں کا معلومات عامہ سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ سیاسی تجزیوں کا سیاست سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
اب تو اس سب کو چالیس پچاس سال ہونے کو آئے۔ اس سب کی ابتدا میں جو لوگ نوجوان تھے، وہ بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان بوڑھوں میں کچھ بڑے افسر، بڑے جنرل، بڑے سیاستدان، بڑے جج اور دیگر اہم عہدوں پر موجود ہیں۔
جن خبروں کا خبر سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہاں یہ سب لوگ موجود ہیں۔ اور جن خبروں کا خبر سے کوئی رشتہ نہیں ہے ان خبروں میں موجود رہنے کے لیے بے تاب بھی بہت رہتے ہیں۔
ہمیں تو ان سب میں وحشی ڈوگر، مولا جٹ، نوری نت، دارو، طوفان گجر اور اس طرح کے کردار نظر آتے ہیں۔ ہم نے یہ فلمیں اتنی زیادہ دیکھیں نہیں ورنہ کچھ اور کرداروں کے نام لکھ دیتے۔ جو دیکھیں، ان میں کچھ تھا ہی نہیں کہ یا د رکھ پاتے۔ اسی طرح مولانا مودودی کے افکار بھی بھول جاتے ہیں۔ دوست کہتے رہتے ہیں کہ ان کا ایک تفصیلی تجزیہ کریں، لیکن ان فلموں، ڈراموں اور فلموں کو دیکھنا اور ان افکار کو پڑھنا ایک اذیت دہ سی بوریت کا سبب بن جاتا ہے کہ اس سب میں کچھ با معنی تو ہے ہی نہیں۔
اسی طرح کے ہمارے ہاں کے بڑے لوگوں کے اشارات، بیانات اور احکامات میں معنی موجود ہی نہیں ہے۔ اب کہاں تک کوئی سطحی سی سازشوں کے پیچ و خم میں الجھا رہے۔ کسی نے یہ ٹویٹ کیا، کسی نے وہ پریس کانفرنس کی، کسی نے انٹرویو دیا اور مخالفین کے لتے لیے، اس سب میں کیا رکھا ہے؟ آگہی دام شنیدن بچھاتی رہتی ہے لیکن عالم تقریر سے کچھ واضح نہیں ہوتا کہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں، جو کہہ رہے ہیں، اس کا قانون، عقل، تخلیق، تجربے، جمہوریت اور انسانیت سے کوئی ناتا ہے؟ طول شب فریق شاید ماپ لیں بڑے لوگوں کی باتوں کا معنی سے کوئی تعلق دریافت کرنا بہت مشکل ہے۔
سیاسی جماعتیں متحد ہو جائیں گی تو جمہوریت کیسے مضبوط ہو گی؟ سیاسی جماعتیں متحد بھی رہیں لیکن جمہوریت توانا نہیں ہوئی۔ جمہوریت کیوں نہیں توانا ہوئی کہ سیاست دان جس آمریت نے رنگین پنجابی فلمیں شروع کی تھیں اس کے اثر سے آزاد نہ ہو پائے۔ وہ بس شوخی میں نقلی سے کام کرتے رہے۔ جو کرنے تھے وہ نہیں کیے۔
اسٹیبلشمنٹ کا بھی دیکھ لیں، اگر ملک کا ہر شہری بزنجو بن جائے، اس سے ملکی مفاد کا دیرپا تحفظ کیسے ہو گا؟ پنجابی فلموں کے کردار تو بن گئے، لاہور کے ڈراموں جیسی بات چیت بھی کرنے لگے اور سنسناتی خبروں سے بھی زیادہ سنسنی خیز بیان بھی دینے لگے، اس سے سب سے کیا فائدہ ہوا؟ یہی ناں کہ پوری دنیا میں ملکیوں کی بات کا بھرم ہی نہیں ہے اور ان کے بارے میں مجموعی طور پر دنیا میں یہی تاثر ہے کہ ملکیوں کا فن، عقل، تخلیق، جمہوریت، قوانین، اخلاقیات سے ناتا بہت ہی کمزور ہے۔
ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ سطحیت کی تربیت کے نتائج معاشرے میں فن، عقل، تخلیق، جمہوریت، قوانین، اخلاقیات اور انسانیت کے فروغ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔
پتا نہیں سچ ہے کہ جھوٹ لیکن کہتے ہیں اس آمریت کے دور میں زلفی بھٹو صاحب کی پھانسی پر دو رکعت نماز نفل کی ادائیگی اعلی عہدوں تک رسائی کی وجہ بن جاتی تھی۔ واقعہ شاید جھوٹا ہی ہو لیکن آمریت کے دور میں جو لوگ اعلی عہدوں پر فائز تھے ان کی نالائقی کا ثبوت حالات، واقعات اور اعداد و شمار میں ہر کہیں نظر آ جاتا ہے۔
وہ سطحیت جو درسی کتابوں، مذہبی تقریروں، ڈراموں، فلموں اور خبروں میں اتنے طویل عرصے تک تعلیم کی گئی، وہ تو ناکام ہو گئی۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی فہرستیں دیکھ لیں، وہاں ہم لوگوں کا ذکر انسانیت کی ناکامی کی سرخیوں کے تحت ہی ہوتا ہے۔ اب تو وہ سطحیت بلا بن گئی ہے، جس سے پیچھا چھڑانا ہی مشکل ہو گیا۔ ایک ہی حل ہے کہ گفتگو میں کچھ معنی شامل ہو جائیں۔ شور شرابا تو پچھلے تیس چالیس سال سے ہو رہا ہے اور کرنے سے اجتماعی بہتری یا اجتماعی بقا کا کوئی مقصد تو حاصل نہیں ہوگا۔
اب کتنی نسلیں برباد کریں گے؟ ایک اہم انسان ہونا بڑی بات ہوتی ہے لیکن اس اہمیت کا کچھ رشتہ کام سے بھی تو جوڑ لیں۔ اور اس سطحیت سے کوئی مختلف پالیسی تو سوچ لیں۔ کم ازکم جو آج کل نوجوان ہیں، ان کا ہی کچھ دھیان کریں۔ آپ لوگوں کی نوجوانی میں سطحیت کا فروغ ہوا۔ وہ جیسے جناب امیر سے منسوب ہے کہ انھوں نے کسی کو کہا تھا، جب تم بچے تو ناشائستہ تھے، اب بوڑھے ہو گئے ہو، ابھی تک نا شائستہ ہو۔ ہمارے کہنے کا مطلب ہے کہ تمھیں نوجوانی میں سطحیت تعلیم کی گئی اور بوڑھے ہو گئے ہو، ابھی تک اسے سے چمٹے ہو۔
اب جو نوجوان ہیں، ان کو اگر فن، عقل، شائستگی، تخلیق، جمہوریت، کام، ہنر، اخلاق اور انسانی حقوق کی تعلیم ملے تو یہ شاید اچھائی اور گہرائی سے وابستہ رہیں اور تم جو کام نصف صدی سے زیادہ عرصے میں نہ کر سکے، وہ دہائیوں میں کر لیں ۔ پھر تم لوگوں کے تجربے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو بچپن اور نوجوانی میں لوگ سیکھتے ہیں، اس کا اثر کافی دیرپا ہوتا ہے۔ اور اچھائی اور گہرائی کا عمومی فروغ حکومتی اور ریاستی امداد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت آپ لوگ اہم جگہوں پر موجود ہیں تو اچھے فیصلے کریں۔ لیکن آپ لشکاروں میں کچھ اس طرح کھو گئے ہیں کہ آپ کو یاد ہی نہیں رہتی کہ آپ کا عہدہ کیا ہے اور اس عہدے سے وابستہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟
لیکن اب انائیں کوہساروں سے بلند ہیں اور عمومی ذہانت کی بات چیونٹی بنی کھائیوں میں رینگ رہی ہے، اب کوہساروں سے کہاں چیونٹیاں دکھتی ہیں۔ اور کوئی عمومی ذہانت کا سائز بڑا کرنے کی کوشش کرے، وہ صنم کی کمر کی طرح ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا کہ ایسے لوگوں کو موہوم اور معدوم کرنا کوہساروں جیسی اناوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
لیکن اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ عقل کی، علم کی، فن کی، تخلیق کی، عمومی ذہانت کی، کام کی، ہنر کی، قانون کی، اخلاقیات کی، جمہوریت کی اور انسانیت کی بات تو سننا ہی پڑے گی۔ جیسے ہم اکثر کہتے ہیں پانچ صدیوں کے بعد بھی یہی کچھ کرنا پڑے گا۔ ابھی سے کیوں نہیں؟