مارشل لا کی تڑپ

مارشل لا کی تڑپ

مارشل لا کی تڑپ

از، نصیر احمد

اردو اخباروں میں بہت سارے صحافی تو جیسے مولانا روم شمس الدین تبریزی کے علاوہ کسی اور کا ذکر سننا نہیں پسند کرتے تھے، ویسے ہی مارشل لا کے علاوہ کوئی اور ذکر نہیں پسند کرتے۔

مطربا بہر خدا

تو غیر مارشل لا مگو

مارشل لا و مارشل لا و مارشل لا

میگوئی و بس

مارشل لا و مارشل لا و مارشل لا

میگوئی و بس

کہ ہم سے تو صرف مارشل لا کی بات کریں، مارشل لا اور کچھ نہیں

اور ان کو اگر کہیں کہ یا علیم یا خبیر کا ورد کریں

تو یہ کہیں گے

یا مارشل لا، یا مارشل لا، یا مارشل

آج کل اسلام آباد میں ہر طرف سائن بورڈ لگے ہیں، میں تم اور چائے کا کپ

اسے بھی یہ یوں پڑھتے ہوں گے

میں، تم اور مارشل لا

اگر انھیں کہیں کہ ‘اوم ناما شوا’ کہو۔ ان کے منہ سے یہی نکلے گا۔ آ مارشل لا آ۔

گانے بھی مارشل لا کے ہی گاتے رہیں گے۔

مارشل لا آئے گا، تے جھلاں گی پکھیاں، بڑے کجھ کہن گیاں اکھیاں کہ مارشل لا آئے گا تو مورچھل لے کر اسے ٹھنڈی ہوائیں پہنچاؤں گی اور آنکھیں روداد محبت کہتی رہیں گی۔

سائنسی بات کریں تب بھی نیوٹن کو پوٹن سمجھیں گے اور اسے کے قوانین حرکت کو بھی کچھ اس طرح بنا دیں گے۔

کہ مارشل لا کی عدم موجودی میں تمام اجسام حالت سکون میں شب دیگیں اور پھجے کے پائے کھاتے رہیں گے اور ان اجسام کو پھجے کے پایوں سے اڈیالہ کی طرف متحرک کرنے کے لیے مارشل لا کی اشد ضرورت ہے۔

جب کسی قوت پر مارشل لا اثر انداز ہوتا ہے اور چوراہوں میں کوڑوں کی شائیں شائیں گونجتی ہے اور ہائے ہائے کے صوتی اثرات سے ماحول الم ناک ہوتا ہے، تب تو جمہوریت کے چوتھے ستون کو بہت ہی مزے آتے ہیں۔ ہر مارشل لا کا حل ایک اور مارشل لا ہوتا ہے۔ اور فلسفے کی بات چھڑے، تب بھی مارشل لا کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ کہ مارشل لا ایک مقدس سوچ ہوتی ہے جو ہر وقت اپنے بارے میں سوچتی ہے، اس سوچ کا حصہ بننے سے ہم بھی روحانی اور معاشی فوائد کی تقدیس کے حصے دار ہو سکتے ہیں۔

اور امراض کے علاج کا بھی ذکر چھڑے ہر مرض کا علاج، نہ یونانی طب میں ہے، نہ ہندوستانی آیورویدک میں، نہ مغربی ایلو پیتھی میں اور نہ ہی چینی سوئیوں میں۔ ہر مرض کا علاج چیف صاحب کی چھڑی میں ہے۔ وہ چھڑی ہلاتے ہیں تو امراض غائب ہو جاتے ہیں۔ دیکھا نہیں، انھوں نے چھڑی پر ہاتھ ہی رکھا تو ڈار جیسا خناق (اسحاق ڈار) اڑن چھو ہو گیا۔

اور جب کچھ مدت کے لیے ظاہری طور پر مارشل لا غائب ہو جائے تو وہ نقلی سی جمہوریت کے لیے امریش پوری کے ولن کرداروں جیسی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں کہ اور جمہوریت کی ہر لمحہ رسوائی دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں لیکن مارشل لا کے ظاہری غیاب پر ہجر و دعوت کے گیت بھی گاتے رہتے ہیں۔

فوج کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں، افسر خوباں لا مارشل لا، وزیر اعظم کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں ۔بت مغرور آمارشل لا اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے گاتے ہیں، عاشق مہجور لالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالالاللاالا مارشل لالالالالالا۔

اب تو اگر شریف فیملی کے ناموں کے حروف تہجی کا بھی ذکر کریں تو یہ صورتحال ہو جاتی ہے۔ ہماری زبان میں لکنت بہت ہے اور ان صحافیوں سے ہماری گفتگو ایسے ہوتی ہے

نننننننننن

نواز شریف ایک ہی حل ہے، مارشل لا۔

اب ہم کچھ اور کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں، سر جھٹک کر کہتے ہیں۔

شششششششششش

شہباز شریف، مارشل لا پھانسی، چکی پیسنگ۔

ہم پھر بھی کو شش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنی بات کر ہی ڈالیں۔

اس دفعہ زور زور سے مستک جھٹکاتے ہیں۔

مممممممممم

مریم؟ مارشل لا، قید با مشقت

اب ہم کچھ سنبھل گئے اور کہتے ہیں۔

نن نہیں، تمھیں بتانا تھا کہ اپنی کولیگ نائلہ شاہ کی ممی بیمار ہیں، ان کو دیکھنے جانا ہے۔

مارشل لا سے پہلے یا مارشل لا کے بعد۔ بعد میں ہی جائیں تو اچھا ہے۔

ہم پھر بوکھلا جاتے ہیں

ککککککککک

کیا کککک لگا رکھی ہے۔ مممم مارشل لل لاکہتے تمھاری زبان دکھتی ہے۔

ککککک کتا۔

کککدھر ہے

سسسس سامنے

کاش مارشل لا ہوتا تو گلیوں میں کم از کم آوارہ کتے تو نہ گھوم رہے ہوتے۔ اور تمھاری بولتی یا سیدھی ہو جاتی یا بند ہو جاتی۔

ھھھا ھا ھا ھا

حسن نواز، اٹک کا قلعہ۔

نہیں یار، ہنس رہے ہیں۔

مزید دیکھیے: پاکستان میں میڈیائی انقلاب بذریعہ تھرڈ ایمپائر