واہ رے فرعون
انشائیہ از، ڈاکٹر عبدالواجد تبسم
انسان کو پتا بھی ہے کہ اس نے اس دنیا میں نہیں رہنا اور ایک دن مر جانا ہے اور یہ مٹی جسے وہ روند روند کر چلتا ہے اس کا ٹھکانہ بنے گی اور پھر اس کے جسم و جان اور ہڈیوں کا چورا کرکے اسےخاک کردےگی۔ اس خاک سےبہ جز خاک کےاور کیانکلنا ہے کچھ بھی تو نہیں تو پھر بھی وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات، اورجستجووں کے لیے اپنے سامنے آنے والے کو کچلتا جائے اوراپنے جھوٹے اقتدارکے نشےاور انا کے لیے کسی کے جذبات، احساسات اور خوشی کی پرواہ نہ کرے۔
دنیا کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں کتنے فرعون آئے اور چلے بھی گئے جنھوں نے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں جو سامنے آیا اُسے کچل دیا مگر اب کہاں ہیں کہیں بھی تونہیں پر ایک زندہ ہےتاریخ کے دھارے میں عبرت کے نشان کے طور پر وہ بھی اس لیے کے بتا دیا جائے کہ اگر فرعون بنو گے تو پھر انجام کیا ہو گا۔
وہ بھی کوئی عام فرعون نہیں تھا بلکہ وہ تھا کہ جس نے وجود ازلی کو للکارہ تھا اور اسے بتایا تھا کہ میں بھی ہوں اور اس ہونے کے نشے میں اپنی مسند اقتدار کی طرف آنے والے تمام رستوں کو بند کرتے کرتے وہاں پہنچ گیا تھا کہ جہاں اس نے انسانوں سے سر فرازی حاصل کر لی تھی اور وجود حقیقی سے کہا تھا کہ لے دیکھ اب میرا پایہ تخت تیرے ہم رکاب ہے۔ تیری مخلوق، جس کے خالق ہونے کا تو دعوے دار ہے۔ اس سے کہہ کہ میرے سامنے جرات تو کرے۔ اگر تو خالق ہے تو اپنے ہونے کا احساس تو دلا۔ میرے اقتدار کو ہلانا تو دور کی بات ہے کوئی زبان بھی ہلا نہیں سکتا اگر کوئی زبان بھی ہلاتا ہے تو بیک جنبش جان کی امان سے آزاد ہو جاتا۔ دیکھ مجھ تک آنے والے تمام راستے بند ہیں۔ انھیں کھولنا تو درکنارکوئی چھو کے بتائے۔ میرا مقابلہ تم سے ہے تمھاری مخلوق سے نہیں۔
مگر پھر کیا، پانی کے ایسے ہی بند دروازے میں ایسا آیا کہ پھر اسے اپنے نکلنے کا راستہ بھی نہ ملا، وہ فرعون بھی کیا فرعون تھا کہ اس کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے خداوندِ کریم کو خود زمین پر اترنا پڑا۔ اس کا جاہ و جلال، کروفر، اس کی ہیبت کا اثر اب تک محسوس کیا جا سکتا ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اُس کی قوت باطل کے نقش انمٹ ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ انسان تھا، اس نے مرنا تھا مر گیا، فنا ہونا تھا ہو گیا۔ مگر عبرت کا نشان چھوڑ گیا۔
رہتی دنیا بھی اسے یاد رکھے گی مگر انسان سب بھول جاتا ہے کچھ بھی تو نہیں یاد رکھتا۔ ذرا سا اقتدار ملنے کے بعد، ذرا سا حوصلہ ملنے پر بے حوصلہ ہو جاتا ہے۔ اسے پتا بھی ہے کہ یہ سب عارضی ہے چند روزہ ہے، ختم ہونے والا ہے، کچھ بھی تو نہیں رہے گا، پھر بھی وہ اس چند روزہ کو اپنے خاک ہونے تک اپنے جسم وجان سے لپیٹ کر دفن ہونا چاہتا ہے۔ اور اپنی طرف آنے ولاے تمام رستوں کو بند کرتا چلا جاتا ہے اور خود کو ایسی بند گلی میں لے جاتاہے کہ اب کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکے گا پھر اپنے سامنے تمام آنے والوں کو کچلتا چلا جاتا ہے۔
یہ دائمی مرض اسے چین سے رہنے بھی نہیں دیتا۔ اسے ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں کوئی اس سے سے یہ نام ونمود چھین ہی نہ لے۔ یہ ہی خوف اسے دیمک کی طرح چاٹنے لگتا ہے تو پھر باہر کی دیواریں خود ہی گرنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر جتنی لیپا پوتی کی جائے اندر کی دیوار مضبوط نہیں ہو سکتی اس نے ایک دن گرنا ہی ہوتا ہے۔ اور گر کر رہتی ہے۔
یہ حقیقت ہے اسے بھلا کون جھٹلا سکتا ہے۔ ظاہری غا زہ اور چمک دمک کبھی اندر کے حال کو چھپا نہیں سکتا۔ ذرا سی دراڑسے سب کچھ ہلنا شروع ہو جاتا۔ بس کسی ایک پتھر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر کئی پتھر آنے لگتے ہیں۔ بارش کے کسی ایک قطرے کی ضرورت ہوتی ہے، سیلاب خود آجایا کرتا ہےاور خس وخا شاک بہہ لے جایا کرتا ہے۔ پھر فرعون اپنی ہی گلی میں غرقاب ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کے وجود کی درگت بنا کے اسےدنیا کے لیے نشان بنا دیتے ہیں۔
اس بات کومگر کون سوچتا ہے، کون جانتا ہے، کون کھوجتا ہے کہ یہ زمین میری زمین نہیں ہے، یہ ہوا میری ہوا نہیں ہے، یہ پانی میرا پانی نہیں ہے جب میرا کچھ بھی اپنا نہیں ہے تو پھر میں کیوں کسی بات پر اتراؤں، میں کیسے ہواوں کا رخ موڑ سکتا ہوں، پانیوں کا راستہ بند کر سکتا ہوں، انہوں نے تو بہنا ہوتا ہے اپنا راستہ خود بنانا ہوتا ہے وہ جس طرف چاہیں گے مڑ جائیں گے آج نہیں تو کل ایسا ہو کر رہے گا۔
پھر کوئی ان کاراستہ روک نہیں سکے گا بلکہ ایک تماشائی کی طرح دیکھتا رہ جائے گا۔ اس بات کو کون سوچتا ہے، ذرا سا اقتدار، ذرا سا عہدہ د ماغ میں ایسا نشہ بھر دیتا ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو پھر کسی لنگڑے مچھر کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس نشہ تو کم ہو پھر وہ جوتوں کے وار سے ہی کم ہوا کرتا ہے۔
انسان جانتا ہے کہ فرعون بننے والے کا انجام کیا ہے، آسمان تو کیا زمین بھی اس کی جائے امان نہیں ہو گی، پھر وہ ایسا کیوں کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ فرعون تو مر گیا مگر اُس کی سرشت نہیں گئی، اثر نہیں گیا، احساس نہیں گیا۔ وہ کسی کے بھی مسند پر بیٹھ جانے سے خود ہی عود کر آجاتا ہے اور پھر وہ فرعون کے نقش قدم پر چلتے چلتے اپنے اُس انجام کو پہنچ جاتا ہے کہ جس پر چلتے ہوئے فرعون پہنچا تھا مگر پھر بھی مجھے کہنا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واہ رے فرعون خود تو مر گیا مگر اپنی سرشت کو مرنے نہیں دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔