آئی ایس پی آر کا ہلال : ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
یہ نصف صدی سے بھی پہلے کا قصہ ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ہمارا پرائمری سکول لالکرتی میں تھا۔ یہ راولپنڈی کے کینٹ کا علاقہ تھا۔ سکول کے بالکل سامنے سڑک کے اُس پار ایوب ہال کی عمارت تھی۔ ایوب ہال اُن دنوں اسمبلی ہال تھا جہاں قومی اسمبلی کے سیشن ہوتے تھے۔
اب یہاں ایک سرکاری دفتر ہے۔ سکول سے کچھ فاصلے پر آرمی میوزیم تھا جہاں اکثر میں دوستوں کے ہمراہ جایا کرتا تھا۔ پاس ہی پرانی طرز کے بنے آرمی فلیٹس تھے جہاں میرا ایک ہم جماعت رہتا تھا اور جہاں میں اکثر جایا کرتا تھا۔ پرائمری کے بعد میرا ہائی سکول بھی لالکرتی میں تھا۔ سکول سے کرکٹ سٹیڈیم زیادہ دور نہیں تھا۔
اس سٹیڈیم میں ہم نے بہت سے میچ دیکھے۔ سٹیڈیم کے قریب ہی جی ایچ کیو تھا اور اس میں ایک عمارت آئی ایس پی آر کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی اور سکیورٹی کے مسائل عام نہیں ہوتے تھے۔ آئی ایس پی آر کی عمارت پرانی طرز تعمیر کا نمونہ تھی۔ سفید رنگ کی عمارت، اونچی چھتیں اور پرانی طرز کے پنکھے، عمارت کے سامنے سنبل کے خوب صورت درخت۔
آئی ایس پی آر میں میری دل چسپی کا سامان اس کا رسالہ ہلال تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے پڑھنے کی بھوک تھی اخبار، رسالے، کتابیں۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس جنگ کی کوریج ”ہلال‘‘ نے موثر انداز میں کی تھی۔ ہلال میں ”فاتح گور مکھیڑہ‘‘ کے عنوان سے میجر شبیر شہید پر مضمون شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون میرے ماموں بریگیڈیئر آئی آر صدیقی (بعد میں کمانڈنٹ ملٹری کالج جہلم) نے لکھا تھا، جو اس معرکے میں میجر شبیر شہید کے ساتھ تھے اور ان لمحوں کے گواہ تھے جب میجر شبیر شہید نے محفوظ مورچے سے باہر نکل کر دشمن کو للکارا تھا۔ میں نے اس مضمون کو کئی بار پڑھا، اور ان لمحوں کی سنسنی اپنے اندر محسوس کی تھی جب عشق کی آتش نے عقل کے حیلوں کو شکست دے دی تھی۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ اس دوران میں کارِ معاش کے سلسلے میں راولپنڈی سے دور رہا۔ تقریباً تین دھائیوں بعد واپسی ہوئی تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے رستے بدل چکے تھے، سڑکوں کی فراوانی تھی۔
سکیورٹی کے معاملات کی وجہ سے نقل و حمل پہلے جیسی آسان نہ تھی۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنجز نے تعلیمی اداروں کو اپنا مرکز بنا لیا تھا۔ اسی پس منظر میں ایک روز دعوت ملی کہ آئی ایس پی آر نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا ہے، جس میں ملکی جامعات کے سربراہان اور میڈیا کے نمائندوں کو بلایا گیا ہے۔ اس سیمینار کے روحِ رواں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور تھے۔ آصف غفور صاحب انتہائی محنتی، مستعد اور دھیمے لہجے کے آفیسر ہیں۔ یہ ایک کامیاب سیمینار تھا، جس میں میجر جنرل عاصم منیر اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سامعین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے۔ انہوں نے جامعات کے سربراہوں کو شدت پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔
سیمینار کے بعد مجھے آئی ایس پی آر جانے کا اتفاق ہوا۔ پرانی عمارت کی جگہ ایک جدید بلڈنگ کھڑی تھی۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ اپنے آفس میں چائے کے دوران وہ ملک کے دور افتادہ علاقوں میں آرمی کے ڈویلپمنٹ کے منصوبوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ دیرپا امن کے لیے ان منصوبوں کی مرکزی اہمیت ہے۔ کچھ دیر میں ہم لنچ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آفس کے دوسرے سرے پر گلاس وال کے پاس ایک چھوٹی سی گول میز اور اس کے گرد چار کرسیاں۔ کھانے کے دوران میں نے فاٹا اور بلوچستان کے طلباء کے لیے فری میٹرک اور وانا میں یونیورسٹی کے ریجنل آفس کے منصوبے کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ گلاس وال کے باہر وسیع سبز لان تھا اور دُور مال روڈ پر واقع چرچ کے مینار کا بالائی حصہ نظر آ رہا تھا۔ پھر اچانک میری نظر ایک منظر پر جم گئی۔ یہ سنبل کے دو درخت تھے۔ سنبل کے وہی درخت جنہیں مدتوں پہلے میں نے آئی ایس پی آر کی پرانی عمارت کے ساتھ دیکھا تھا۔ آئی ایس پی آر کی پرانی عمارت اور اس کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا تھا لیکن یہ درخت اپنی جگہ پر قائم تھے۔ ان درختوں سے مجھے پرانے دن اور ”ہلال‘‘ یاد آ گیا۔
میں نے ہلال رسالے کا سیکشن دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میجر جنرل آصف غفور مجھے بریگیڈیئر انوار صاحب کے پاس لے گئے۔ انہیں اب ایک اور میٹنگ میں جانا تھا۔ میں نے جنرل صاحب کے وقت اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔ بریگیڈیئر انوار بہت ہی شستہ طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے ہمراہ میں ہلال سیکشن پہنچا تو وہاں بریگیڈیئر طاہر اور عزیزم یوسف عالمگیرین تھے۔ بریگیڈیئر طاہر یہاں ڈائریکٹر پبلی کیشنز ہیں اور میرے پرانے جاننے والے ہیں۔ خوبصورت گفتگو کرتے ہیں اور خوبصورت لکھتے ہیں۔
یوسف عالمگیرین نے ملٹری کالج جہلم سے تعلق کو اپنے نام کا جزو بنا لیا ہے۔ وہ آج کل ہلال کے ایڈیٹر ہیں۔ خود اُردو اور پنجابی کے شاعر اور معروف کالم نگار ہیں۔ انگریزی زبان میں ہلال کی ایڈیٹر ماریہ خالد ہیں۔ اُردو اور انگریزی زبان میں ہلال کے تازہ ترین شمارے دیکھے تو خوش گوار حیرت ہوئی۔
ہلال سیکشن میں کام کرنے والی نوجوان ٹیم سے ملاقات ہوئی۔ دل خوش ہوا کہ کیسے اس نوجوان ٹیم نے ہلال کو ایک اعلیٰ پائے کا رسالہ بنا دیا ہے، جہاں مختلف قلم کاروں کو لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے، جہاں موضوعات کا تنوع ہے اور قارئین صرف عساکرِ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کے قاری ہیں۔ آئی آیس پی آر کی اپنی ایک ویب سائٹ بھی ہے۔ ہلال کے لے آؤٹ (lay out)، گیٹ اپ (get up)، کاغذ کی کوالٹی اور مضامین کا تنوع اور معیار اس کو ایک معیاری رسالہ بناتا ہے۔ مجھے ہلال کے سفر کے اولین دن یاد آ گئے۔
یہ 1948ء کا سال ہے جب عساکرِ پاکستان کے لیے ایک رسالے کا اجرا ہوا، جس کا نام ”مجاہد‘‘ رکھا گیا۔ پہلے شمارے میں قائدِ اعظم کا خصوصی پیغام شائع ہوا۔ اس کے علاوہ لیاقت علی خان اور افتخار حسیں ممدوٹ کے پیغامات شائع ہوئے۔ کراچی سے شروع ہونے والے اس رسالے کے بانی مدیران میں خواجہ تصور علی اور آغا بابر کے نام شامل ہیں۔ ”ہلال‘‘ کا باقاعدہ آغاز 17 ا گست 1951ء میں بروز جمعۃ المبارک ہوا۔ اس وقت یہ ایک سہ روز رسالہ تھا، جو ہر جمعے اور منگل کو شائع ہوتا۔ 1952ء میں ہلال کو روزنامہ بنا دیا گیا اور 1964ء میں یہ ہفت روزہ بن گیا۔
ہلال کے بانی مدیر اکرام قمر صاحب تھے۔ اکرام قمر راولپنڈی کے علاقے 22 نمبر میں رہتے تھے، جہاں سے آئی ایس پی آر اپنے دفتر پیدل آتے جاتے تھے۔ اکرام قمر تین مختلف اوقات میں ہلال کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور تقریباً بارہ سال بطور مدیر ہلال کی آبیاری کی۔ مجھے بہت دفعہ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر ندیم اکرام میرے دوست تھے۔
اکرام قمر صاحب ایک شریف النفس انسان تھے۔ راولپنڈی کے سب سے پوش (posh) علاقے ہارے سٹریٹ میں 14 مرے کا پلاٹ لیا اور پھر اسے مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ہلال کے پہلے شمارے میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یوم پاکستان پر اپنے پیغام میں کہا تھا ”خدا ہمارے ساتھ ہے اور اس کے رسول ہمارے راہنما ہیں‘‘۔
ہلال کے شماروں کو ترتیب وار دیکھیں تو پاکستان کی تاریخ زندہ ہو جاتی ہے۔ بریگیڈیئر طاہر نے بتایا کہ ہلال کے تمام پرانے شماروں کو archive کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ہے، اور جلد ہی ویب سائٹ پر وہ قارئین کے لیے میسر ہوں گے۔ اسی طرح مستقبل میں کتابوں کی اشاعت کا پروگرام ہے۔ یہ یقینا بہت اہم اقدامات ہیں۔
دورِ حاضر میں میڈیا ایک اہم سماجی ادارے کے طور پر ابھرا ہے۔ آئی ایس پی آر نے خود کو دورِ حاضر کی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اب پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا حقیقت گری کے اہم ٹولز (tools) ہیں۔ انہیں کے مدد سے ہم اپنا زاویۂ نظر دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ‘ہلال‘ کی نئی صورت گری درست سمت میں ایک مثبت اقدام ہے، جس کے لیے میجر جنرل آصف غفور اور ان کی جواں سال اور جواں ہمت ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔