جاگنے کو ملا دیوے خواب میں

محمد عاطف علیم
محمد عاطف علیم

جاگنے کو ملا دیوے خواب میں

کہانی از، محمدعاطف علیم

بن ڈر کے ڈرے رہنا اور بے بات کے مرے رہنا، بس یہی تھا جو جانے سے کب سے چل رہا تھا۔

رات کے آخر آخر میں جب آسمان کی بھید بھری اتھاہ میں ڈولتا چاند زمین کی اور تکتے تکتے بوریت کے مارے بے دم ہوتا توتماشا شروع ہوجاتا۔

وہ بہت سے تھے اور میں اکیلا۔

جنے کون کو ن دیسوں یہ چنڈال چوکڑی اکٹھی ہوکر اس اینٹ، ریت، بجری اورسیمنٹ سے اٹھائے گئے جیومیٹریکل ملغوبے کی دیواروں، فرشوں اور چھتوں میں تصویر ہوگئی تھی جس کے باہری دروازے پر ہوم سویٹ ہوم کی چٹاخ اڑی تختی آڑھی ترچھی لٹکا کرتی ہے۔ قصور تو خیر میرا ہی تھا کہ میں نے ہی ان سب پاگل خانوں کو تلاشا تھا۔ ورنہ وہ بیچارے تو اپنے اپنے وجود سے کٹے ہوئے، نا ہونے جیسا ہونے پر اکتفا کیے اپنی اپنی قید میں شانت پڑے تھے۔

    ادھر میں تھا، رت جگوں اورتنہائی کا مارا، اپنے ہونے سے کٹا ہوا، پری شیزو فرینک ٹائپ چیز۔ جب دیکھو ہولایا پھروں، ناخنوں سے سر مُنھ کو نوچتا کمرے میں چکر لگایا کروں۔ بس ایک ہی اچمنی کہ کوئی تو دوسرا ہو، اینی ادر سیلف جس سے کوئی بات شات کی صورت بنے۔ بھلے ہم سخن نہ ہو اور کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم زبان بھی نہ ہو لیکن کوئی تو ہو جو میرے بدن کے چھید چھید سے رت جگوں کی لہو رنگ کرچیاں چن سکے۔ کوئی تو ہو جومیری دوسراتھ میں ستاروں کی اعصاب شکن خاموشی اور پورنما کی بے انت شورش کا تماشا دیکھ سکے۔ لوگ مجھے پاغل خانہ کہتے ہیں تو کچھ غلط نہیں کہتے کہ میں عذابوں کا جویایونہی خود کو بے حال رکھتا ہوں۔

    سو اسی اچمنی کے مارے یا ایک موہوم امید کے سہارے میں نے انہیں اپنے گھر نام کے جیومیٹریکل ملغوبے کی اینٹ اینٹ سے تلاشا کہ میرے سنگی ساتھی بنیں گے اور کیا عجب کہ ان سے مجھے کچھ اپنی اور چھور مل جائے۔ خیر، امید تو امید ہے۔ میرے ایسے نصیب کہاں کہ خود کو ان سے ایسوسی ایٹ کرپاتا البتہ یہی غنیمت ہے کہ یہ میری بے خواب راتوں کے گواہ ہیں (آہ یہ کتیا امید!)۔

    ہر روز رات کی آخری ساعتوں میں جب میری جاگتی آنکھوں سے لہو رسنے لگتا ہے یہ خواتین و حضرات دیواروں، فرشوں اور چھتوں سے نکل نکل کمرے میں مجلس جمانے کو آموجود ہوتے ہیں۔ ان میں جو نہیں ہوتی تو بس وہی نہیں ہوتی جس سے کٹ کر بھی میں آج دم تک گویا اس کے آنول سے بندھا ہوا ہوں۔ مجھے ارمان ہے تو بس اسی کااور تلاش ہے تو بس اسی کی کہ وہ میری پہچان کا حرف اول ہے۔ وہ ہو تو کچھ میرا اتا پتا، کچھ میرا اور چھور ملے۔ خیر، اس کا ذکر بعد میں پہلے میں گجر دم تک بپا ہونے والے اس طوفان بدتمیزی کا احوال بیان کردوں جس کا چارو ناچار مجھے حصہ بننا پڑتا ہے۔

    منظر یوں ہے کہ یہ سورما اور مسخرے، کوی اور گائیک، صوفی اور سنت اور وہ تمام جو دن بھر جھڑتے اکھڑتے پلستر کی دیواروں وغیرہ پر کولاج سا بنائے مُنھ جھاڑ دیدے پھاڑ پڑے ہوتے ہیں۔ رات کے اس پہر جب گھڑیال کی نوبت لاوقت کے ہاتھوں وقت کے قتل کا اعلان کرتی ہے تو یکایک جاگ اٹھتے ہیں۔ تب یہ انگڑائی لے کر اپنے لبادوں پر پڑی وقت کی گرد جھاڑتے ہیں اور اپنی اپنی قید کوٹھڑیوں سے نکل پڑتے ہیں۔

    اپنے اپنے وقت سے بچھڑی اس طریوں طریوں کی مخلوق کے لیے جگہ تنگ پڑتی ہے تو دیواریں سرک کر پرے ہوجاتی ہیں اور ہوتے ہوتے کمرہ شور شرابے سے دھڑدھڑاتے پاتال کا سامنظر پیش کرنے لگتا ہے۔ جب سب لوگ منڈلی جما بیٹھتے ہیں تو پنڈورا نام کی بی بی بھی اپنے مُنھ سر سے ریت سیمنٹ جھاڑتے بغل میں اپنا بدنام زمانہ بکسا دبائے نمودار ہوجاتی ہے۔ مجھے اوروں کا تو پتا نہیں لیکن اسے دیکھتے ہی میری سانسیں تہہ و بالا ہونے لگتی ہیں۔ میرے دماغ میں جھماکا ساہوتا ہے۔ کوئی انوکھا خیال، کوئی عجیب سی بات۔ میں مارے ہڑبڑاہٹ کے سگریٹ بجھاتا اور لیٹے لیٹے سیدھا ہو بیٹھتا ہوں۔

    ’’کیا پتا یہ وہی ہو۔‘‘میں کاسمیٹک سرجری کی معجز نمائی کا اعتراف کرتے ہوئے سوچتا ہوں۔

    خدا لگتی بات ہے کہ یہ صاف میرا پاگل پن تھا۔ وہ دکھنے میں ہی کوئی اور تھی۔ تصویری جھیل سی نیلی آنکھوں اور یونانی ناک نقشے والی گوری چٹی بی بی جبکہ مجھے ایک پھولے ہوئے نتھنوں والی قدرے پچکی ہوئی ناک اور کشادہ پیشانی والے شام رنگ چہرے کی تلاش تھی۔

    ’’ایکسکیوز می۔‘‘امکان کی لامحدودیت اس کے باوجودمجھے اکساتی اورمیں ایک اضطراب بھری شائستگی سے اسے مخاطب کرتا۔

    وہ پلٹ کر خفگی سے میری جانب نگاہ کرتی :

    ’’کیا مجھے ہر روز بتانا پڑے گا کہ میں وہ نہیں ہوں جس کی تمہیں تلاش ہے؟‘‘

    میرے روز روز کے استفسار پر وہ تیز لہجے میں جواب دیتی اور پھر اگلے لمحے میرے چہرے پر پھیلتی اندوہناک مایوسی کو بھانپ کر وہ مامتا کی ماری مجھے تسلی دیتی ہے۔

    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے دل برا نہ کرو۔ اگلی مرتبہ میں ہائیڈرا سے پوچھتی آؤں گی۔ اکثر مسنگ پرسنز اسی کے ہاں سے برآمد ہوتے ہیں۔‘‘

    حاضرین مجلس میرے دخل در نامعقولات پر چیں بجبیں ہوتے ہیں اور میں چپکا ہورہتا ہوں۔ اپنے بھانویں وہ نامطلوب خاتون مجھ سے فراغت پاکر کمر لچکاتی منڈلی کے عین درمیان میں آلتی پالتی مار بیٹھتی ہے۔ سد ا کی نروس اور ہڑبڑائی ہوئی یہ بی بی بحث کے شوق یا کوئی بڑا انکشاف کرنے کے جوش میں اپنے بکسے کو دھم سے زمین پر دے مارتی ہے۔ اس امکانی طور پر دانستہ بے احتیاطی پر کسی کام چور ترکھان کے بنائے ہوئے اس ناقص بکسے کا ڈھکن ایک جھٹکے سے کھل جاتا ہے اور ماحول اچانک بلاؤں کے شور اور تکدر سے لبریز ہوجاتاہے۔ روز روزکی مہلک غلطی دہرانے کے بعد وہ پکا سا مُنھ بنا کر آئی ایم سوری کہتی ہے اور جھینپ مٹانے کو کوئی ٹھس لیکن اپنے تئیں اہم بات چھیڑ دیتی ہے۔

    رسیلے پن کی رسیا اس مجلس میں اس رسیلی بی بی کی آمد سب کو بھاتی لیکن وائے کہ وہ منحوس بکسا۔

    ’’ بی بی! کم از کم اس نحوست کو تو پہلے بند کرلو۔ ہر طرف پولیوشن پھیلا دی ہے تم نے آن کی آن میں۔‘‘یہ نفاست اور خمار کے متلاشی اندر جی مہاراج تھے۔ رسیلی گوپیوں کے رنگیلے پیا۔ انہیں ڈر رہتا کہ ماحول کا تکدر سوما کے خمار کو بھنگ نہ کردے۔ اندر مہاراج یوں بھی جب سے سورگ لوک میں وشنو جی کے ساتھ اقتدار کی ایک طویل اور پیچیدہ جنگ میں آخری ہزیمت اٹھانے کے بعد اپنے عہدہ جلیلہ سے تیاگ پتر دے کر آئے تھے، کچھ چڑچڑے سے ہورہے تھے۔

    پنڈورا بی بی کھسیانی سی ہو بکسے کو بند کرنے کی کوشش میں جت جاتی لیکن تب تک ساری بلائیں مجلس میں جہاں جہاں سماسکتیں سماچکی ہوتیں۔

    ’’رہنے دو بکسے میں اب اس نامعقول امید کے سوا کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘کوئی سابق ڈگ وجے بہادرناک چڑھا کر گویا ہوتے۔

    ’’امید؟‘‘ شنکر مہاراج کا ایک بالکاچونک اٹھتا۔ ’’ ایک اور دھوکا، مایا جال کی ایک اور گرہ، مرتیہ لوک کی ایک اور کپٹ۔ تمہاری بڑی مہربانی بی بی! اسے وہیں پڑا رہنے دو۔‘‘

    ’’یوں بھی امیدہو ہی کیوں کہ اس نے سوائے دکھ کے انسان کو دیا ہی کیاہے؟‘‘ ایک دانشور نے پھننگ پر چشمہ درست کرتے ہوئے ارشاد کیا۔

’’دکھ ہی ستیہ ہے۔‘‘ ایک کوی نے آہ بھرتے ہوئے مصرعہ موزوں کیا۔

 ’’اتم دکھم۔ ۔ ۔ یہ شاکیہ منی نے کہا تھا۔‘‘ ایک بھکشو نے کندھے پر نارنجی لبادے کو سیدھا کرتے ہوئے یاد دلانا ضروری سمجھا۔

اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں نظریات کا کوروکشیتر شروع ہوگیا۔ میں بے بسی سے ایک ایک کو دیکھے گیا۔

“بھائیو! میری بھی تو سنو۔ میں آنول سے کٹا ہوا ہوں اور۔ ۔ ۔ اورمیں بے پتا ہوں اگر کسی کو میرا ایڈریس معلوم ہو تو مطلع فرما کر ثواب دارین حاصل کرے۔‘‘

 نظریات کی آپا دھاپی میں کون کسی کی سنے؟ میں وہاں سے اٹھ کہیں اور چل دیا۔

  ایک اور منڈلی میںیونہی سے کسی موضوع پر برین سٹارمنگ سیشن چل رہا تھا۔

’’ہاں تو بھائی پرو میتھیس!‘‘ہیڈزکا کوئی من موجی یونہی بات چلانے کو چٹکی بھرتا۔ ’’ تم نہیں جانتے تھے کہ تم جس انسان کو دیوتاؤں کا ہم سر بنانے چلے تھے اس کے لچھن کیا ہیں؟‘‘

 ’’ثنا ہو دیوتاؤں کے دیوتا کی۔ تحقیق کہ برباد ہوا وہ جس نے سرکشی اختیار کی اور اپنی الگ راہ تراشی۔‘‘پرومیتھیس کی جانب ملامت کے یہ شبد ارسال کرنے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا بھائی ایپی میتھیس تھا۔ اس ہڑبڑائی ہوئی بی بی پنڈورا کا شوہر نامدار۔

’’یار! تم لوگوں کے پاس کوئی اور بات نہیں کرنے کی؟‘‘ پرومیتھیس ہزار بار کی دہرائی ہوئی بات پر چڑجاتا۔ ’’میں نے کوئی فال نکلوا کر تو نہیں دیکھی تھی۔ سکین کرکے تو نہیں دیکھا تھا حضرت کے دماغ کو۔ میں نے تو ان گڈ فیتھ آگ کا تحفہ دیا کہ میاں جی چولہا جلائیں گے۔ برفیلی راتوں میں ٹھٹھرکر مرنے سے بچ رہیں گے۔ مجھے کیا پتا تھاکہ حضرت کس کینڈے کے نکلیں گے؟‘‘

 ’’تمہاری چرائی ہوئی آگ اب بستیوں کو جلانے کے شبھ کام میں استعمال ہورہی ہے بھولے بادشاہ!‘‘ ایک دل جلے نے کہ یکے از مخلوقات نوری تھا اپنے پنکھ گود میں درست کرتے ہوئے کومنٹ کیا۔

 ’’میں نے تو پہلے ہی کہا تھا شری ہے، شر پھیلائے گا لیکن کوئی تھا جو میری سنتا۔ الٹا مجھے مردود ٹھہرادیا گیا۔‘‘

 ایک تاریک کونے سے آواز آئی۔ یہ وہ تھا کہ نام اس ہمہ صفت کا عزازیل تھا اوروہ یگوں سے تھیسس کو انٹی تھیسس میں منقلب کرنے کے کارِ رنگین و سنگین میں مصروف رہا کرتا تھا۔

 ’’تم توچپ ہی رہو۔ تمہارا مسئلہ صرف پرسنیلٹی کلیش کاہے۔ اور پھر تم کہاں کے معصوم ہو؟۔ گند پھیلانے میں تم نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘

تقدس مآب خدا کے گڈ ول ایمبیسڈر کم ایلچی جبرائیل نے اپنے نورانی پروں پر پڑے ریت کے موہوم ذرے کو جھاڑتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی۔

’’میرا مُنھ نہ کھلواؤ چمچے!اگر تم جاکر ایک کی چار چار نہ لگاتے تو شاید تمہارے تقدس ماب سے کمپرومائز کی کوئی صورت نکل ہی آتی۔‘‘

 قدیم کے کسی لایعنی جھگڑے کی تکرار پر حاضرین کے چہروں پر بیزاری پھیل گئی۔

 ’’بھائی لوگو! تم اپنی ہی کہے جاؤ گے یا میری بھی سنو گے؟‘‘میں بوریت کے مارے کراہ اٹھتا ہوں۔

 ’’سوری مسٹر!یہاں نجی مسائل ڈسکس نہیں کیے جاسکتے۔‘‘، یہ کہیں کا کوئی نک چڑھا دیوتا تھا جسے ارفع ہستیوں بیچ کسی ہیچ مدان کی موجودگی گوارہ نہ تھی۔

 ’’میری جستجو کی لاحاصلی، میری آنکھوں سے رستا لہو اور میرا عمروں لمباجگراتا محض نجی معاملہ ہے۔ ۔ ہیں!؟۔‘‘

 ’’تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم اپنی میں سے کٹ چکے ہو۔ رہی نیند تو وہ کیوں کر تمہارے پاس آئے الا یہ کہ تم اپنی میں سے جڑ نہ جاؤ۔ کیوں بھائی تھاناٹوز! کیا کہتے ہو بیچ اس مسئلے کے؟‘‘، متکبر و کم گوتھانا ٹوز کے ایک چاپلوس نے ٹانگ اڑانا ضروری سمجھی۔

تھاناٹوز، ہمیشہ کا عدیم الفرصت کہ موت کی بھیانکتا بانٹنے کی ہما ہمی میں فرصت معلوم۔ اس نے لحظہ بھر کے لیے اپنی سیاہ پلکیں اٹھا کر میرے بھیتر میں کٹیلی، سیاہ نگاہیں گاڑیں اور سر کی پرخیال جنبش سے تائید ظاہر کی۔ تب اس نے سیاہ کاغذ پر لکھی فہرست پر ایک نظردوڑائی، کچھ ناموں پر ٹک مارک لگایا اور ایکسکیوز می کہتے ہوئے ترنت اپنے دھندے پر روانہ ہوگیا۔

فرائیڈ کا ایک شاگرد رشید میری جانب متوجہ ہوا اور دلی فکر مندی سے بولا۔ ’’بھائی جی! تمہارا کیس بھی اوڈی پس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ تمہارا کرونک گلٹ ہی تمہارے دماغ کی تباہی کا موجب ہے‘‘۔

’’بکتا ہے سالا فرائیڈین۔‘‘ ایک مارکسی دانشور نے نفرت سے ہونٹ سکیڑے۔ ’’دیکھو میاں! تم مارکیٹ اکانومی کی تباہ کاریوں کے زندہ۔ ۔ ۔ اگر تمہیں زندہ کہا جاسکے۔ ۔ ۔ ثبوت ہو۔ دراصل سارا مسئلہ سسٹم کا ہے۔ یہ سسٹم جو ہے۔ ۔ ۔‘‘

 اس کے بعد یدھ تو پڑنا تھا سو وہ دانتا کل کل ہوئی کہ توبہ بھلی۔ میں چپکے سے سٹک لیا۔

    قریب ہی شجر و حجر اور چرند و پرند کی منڈلی جمع تھی۔ اس کے بیچوں بیچ دھونی رمائے شری شنکر مہاراج بزبان خاموشی ابدی چپ کا درس دے رہے تھے۔ میں نے از راہ احترام ان کے چرن چھوئے اور تھوڑا آگے سادھوؤں سنتوں کی ایک سبھا کا رخ کیا۔ وہاں میاں کبیر بھی بیٹھے مل گئے۔ مجھے جگہ دینے کو وہ تھوڑا سرک لیے۔ منڈلی کے درمیان میں ایک سادھو اکتارہ بجاتے ہوئے گارہا تھا۔

    ’’ماتم ان حسرتوں پر جو بھیتر میں دم توڑ گئیں

    ماتم ان چیخوں پر جو سینے کے پنجرے میں پھڑ پھڑاتی رہ گئیں

    ماتم ان مسرتوں پر جو کرب کی گپھا میں حبس دم مرگئیں۔‘‘

    ’’ اورماتم ان روحوں پر جو بدن کی دیوار تلے دب کر رہ گئیں‘‘۔ کسی نے اپنے تئیں ایک قدیم شاعر کی نظم مکمل کی۔

    ’’وا حسرتا! کہ پہلے میں سے تو اور پھر میں سے میں تک جدا کردی گئی۔‘‘میں نے توجہ طلب انداز میں ایک آہ سرد کھینچی۔

    وہیں کوئی بھگت بیٹھے تھے۔ میری طرف دیکھ کر شفقت سے مسکرائے۔ ’’ دکھی جان پڑتے ہو۔ کون ہو بالک؟‘‘

    ’’کی جاناں میں کون!‘‘، ایک پرندے نے ونک کیا اور بلندیوں کی جانب پرواز کرگیا۔

    ’’میں کون!؟۔ ۔ ۔ میں کون!؟‘‘، ہیڈز کے عفریتوں اورپنڈورا کے بکسے سے نکلی بلاؤں نے لہک لہک کر کورس گانا شروع کردیا۔

    میں نے تلملا کر دیکھا توبلائیں کھسیانی سی ہوکر چپ ہورہیں۔ تب میں اس نرم خو بھگت سے مخاطب ہوا۔

    ’’کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ ۔ ۔ آئی مین، اگر آپ جان پائے ہوں تو ارشاد فرمائیے۔‘‘

    ’’ آئیڈنٹٹی کرائسس وغیرہ؟‘‘ بھگت نے رسان سے پوچھا۔

    ’’شاید ہاں، شاید نہیں۔ وہ ملے تو کچھ جان پاؤں۔‘‘

    ’’تیسری آنکھ کھول کر دیکھو کیا پتا وہ یہیں کہیں ہو۔‘‘ بھگت نے اپنے بھانویں نویکلی بات کی۔

’’اسی آنکھ میں تو کم بختوں نے تاک کر تیر مارا تھا۔‘‘، میں نے جل کر جواب دیا۔

’’اتم دکھم۔‘‘، ایک مہایانی نے اپنے گنج پر ہاتھ پھیر تے ہوئے آہ بھری۔

تب میاں کبیر ہماری جانب متوجہ ہوئے۔ کچھ کہنے کو مُنھ کھولا لیکن پھر رنجور سے ہوسر جھکائے آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے لگے۔ دیر بعد انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی:

چلتی چکی دیکھ بھگت کبیرا روئے

دو پاٹن کے بیچ ثابت بچا نہ کوئے

تب وہ بھگتوں کا بھگت، ذات کا جولاہا دکھ کی ایک لہر میں اٹھا اور چادر درست کرتے ہوئے کسی اور جانب روانہ ہوگیا۔

’’بائی دا وے!یہ کن پاٹن کا ذکر خیر ہورہا تھا؟‘‘ کسی نے کسی سے پوچھا۔

’’اللہ جانے شاید علامتی پیرائے میں بین الاقوامی سیاست کی کوئی بات چھیڑی تھی میاں جی نے۔‘‘

’’ثابت بچا نہ کوئے۔ ۔ ۔ ثابت بچا نہ کوئے۔‘‘، ایک اندھے یوگی نے اکتارے پر دھن چھیڑ دی۔

وہ سب میرے لیے اجنبی تھے کہ میں خود اپنے لیے اجنبی تھا۔

وہاں سے نکلا تو شوریدگی کے مارے یونہی کبھی اس جا کبھی اس جا گھومنے لگا۔ وہیں کہیں شعر خوانی کی مجلس جمی تھی۔ شاعر تحت اللفظ میں پڑھ رہا تھا۔

’’عرض کیا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ۔‘‘

’’واہ نوشہ میاں واہ! قسم اللہ پاک کی دل کھینچ کے رکھ دیا ہے۔‘‘، کوئی سن کر پھڑک اٹھا۔

’’ارے واہ! مار ڈالا ظالم، کیا مصرع کہاہے۔‘‘، یہ کوئی اور تھا جومصرع اٹھاتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوا۔ ’’ ایک ہم ہیں کہ۔ ۔ ۔ ماشاء اللہ، سبحان اللہ۔‘‘

’’بندگی۔ شکریہ۔ نوازش۔ ۔ ۔‘‘، احساس تفاخر سے سرشارشاعر کو کئی بار ماتھے پر ہاتھ لے جانا پڑا۔

’’ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ۔‘‘، مکرر مکرر کے شور میں شاعر نے دسویں بار مصرعہ اولیٰ دہراتے ہوئے شعر مکمل کیا۔ ’’’’ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے۔‘‘

’’بے کار، سب بے کار۔ لفظوں کا سلسلہ ہے۔ لفظوں کا سلسلہ۔‘‘

مارے اکتاہٹ کے میں نے ان سبھوں سے کنارہ کیا اور ایک تنہا گوشے میں بیٹھ رہا۔

’’میں کہاں تلاش کروں اسے؟۔ ۔ ۔ اور اگر وہ نہ ملی تو مجھے میرا پتا کون بتلائے گا؟؟‘‘

تب گجر دم کی نوبت بجتی ہے اور لاوقت کا مقدس طلسم ریزہ ریزہ بکھر جاتا ہے۔ بوڑھا وقت بغل میں جھاڑو دبائے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا کھنگھورا سنتے ہی سب تصویر یں ایک ایک کرکے رخصت ہواپنی اپنی جگہ پر جاسجتی ہیں۔

مجھے تیار ہوکر دفتر جانا ہوتا ہے سو میں اپنے بیڈ پر ایک پرکیف نیند میں ڈوبی پڑی اپنی نصف بہتر کو جگائے بغیر باتھ روم میں گھس جاتا ہوں۔

    ۲

میں جانتا ہوں کہ سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ خیر، نفرت تو شاید ٹھیک لفظ نہ ہو البتہ خوف کہا جاسکتا ہے۔ لیکن شاید خوف بھی نہیں کراہت سمجھئے۔ ظاہر ہے ایک ستے ہوئے ڈل ایکسپریشن والا شخص جس کی آنکھوں سے لہو رستا ہو اور جس کے مو مو سے وحشت ٹپکتی ہوکسی کا للو پتو تو نہیں ہوسکتا۔ اور پھر میری یہ عادت جتنی بری ہے اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ میں راہ چلتے کسی بھی عورت پر نظریں گاڑ دیتا ہوں اور تب تک نظریں واپس نہیں پھیرتا جب تک مجھے کوئی اور ٹارگٹ نہ مل جائے۔ خاص طور پر اگر خاتون نقاب پوش ہو تو میری نگاہیں اس کا نقاب نوچنے کے درپے ہوجاتی ہیں۔ یہ سب اس امر کے باوجود ہے کہ جنسی تلذذ کے اعتبار سے میں خدا کی اس غبی مخلوق سے ذرا برابر رغبت نہیں رکھتا۔ مجھے عورتوں کو گھورتا پاکران کے ساتھ کے لوگ کھاجانے والی نظروں سے میری طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ڈائریکٹ ایکشن کی نوبت اس لیے نہیں آتی کہ دیوانوں کا سا حلیہ میری ڈھال بن جاتا ہے اور لوگ پہلی نظر میں ہی جان لیتے ہیں کہ مجھ سے الجھنا بے کار ہے۔

طویل راستوں چلتا، عورتوں کو لتاڑنے کی حد تک تاڑتا میں دفتر پہنچ جاتا ہوں تو وہاں لوگ مجھے دور سے آتا دیکھ کر سراسیمگی کے مارے ادھر ادھر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں جیسے میں کوئی خطرناک پاگل ہوں۔ کبھی کبھی بے خبری میں مجھ سے کچھ سرزد ہوجائے تو اس کی قسم نہیں لیکن خطرناک میں بہرحال نہیں ہوں۔ یہاں بے خبری کا لفظ میں نے اپنی اس کیفیت کے متبادل کے طور پر لکھا ہے جسے یہ لوگ دورہ پڑنا کہتے ہیں۔

بہت مزہ آتا ہے جب کوئی نیا بھرتی ہونے والا یا والی اچانک میرے سامنے آجائے تو مجھ سے نظریں چار ہوتے ہی اس کا رنگ فق ہوجاتا ہے اور وہ جلدی سے سلام مار کر کھسکنے کی کرتاہے۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ میری رت جگے کی ماری لال بوٹی آنکھوں سے رستا لہو اور میرا نہایت ٹی پیکل حلیہ ہی ہے۔ اس کا فائدہ بہر طور یہ ہے کہ مجھے تنہائی وافر مقدار میں دستیاب رہتی ہے اور میں بے کار کی سوشلائزیشن سے بچا رہتا ہوں۔ اگر کرنے کو کوئی کام ہو تو وا بھلا، نہ ہو تو میرا سارا وقت کمپیوٹر پر نظریں جمائے دنیا کی سیر کرنے میں کٹ جاتا ہے۔

ہر دوسرے تیسرے روز یہ ہوتا ہے کہ دفتر میں میرے پہنچتے ہی مسٹر بل شٹ کا بلاوا میرا منتظر ہوتا ہے اور مجھے جلدی جلدی کاغذ قلم تلاش کرکے اس کے کمرے کی طرف دوڑ لگاناپڑتی ہے۔

مسٹر بل شٹ میرا باس ہے، کمپنی کا مالک۔ وہ مجھ جیسے بدلحاظ اور بدتمیز ملازم کو اپنے سامنے تو کجا دفتر میں بھی ایک لحظہ برداشت نہ کرے لیکن میں اس کی مجبوری ہوں کہ جو کام میں کرسکتا ہوں وہ میں ہی کرسکتا ہوں۔

سین یوں بنتاہے کہ میں اس سب ہیومین کے سامنے ہوں اور مارے خوشامد کے اس کی باچھیں کھلی جارہی ہیں۔ وہی بات جس سے مجھے چڑ ہے۔ اگروہ منافقت کے شیرے سے لتھڑی مسکراہٹ سے باز رہ سکے جس سے اس کے چہرے کے تمام عضلات اذیت ناک حد تک کھنچ کر اس کی بدشکلی کو بے مثال بنادیتے ہیں تو شاید اس پرگھٹا ٹوپ برستی

بے ہودگی قابل برداشت حدوں سے باہر نہ نکلے۔ بہرطور وہ بھی کیا کرے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں تو کچھ اس جیسے مانس ہی چلتے ہیں۔ خیر، وہ مجھے کمرے میں داخل ہوتا دیکھتے ہی اچھلتا ہے اور دروازے کی جانب دوڑ لگادیتا ہے۔ اندر سے چٹخنی چڑھانے سے پہلے وہ احتیاط کے رواج سے باہر جھانکتا ہے اور پھر سیدھے فریج کی جانب لپکتا ہے۔ یہ علامتیں اور اس کی اس وقت کی باڈی لینگوئج بتاتی ہے کہ کوئی لاکھوں کروڑوں کی کیمپین آئی ہے جس کا بار تنہا میں ہی اٹھا سکتا ہوں۔ تب میں خود پر اہمیت کا احساس اوڑھے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے پھیل کر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ فریج میں سے کوئی امپورٹیڈ بوتل نکالتا ہے۔

’’کل ہی تحفہ ملا ہے، ایمبیسی سے۔ میں نے خاص تمہارے لیے بچا رکھی تھی۔‘‘

وہ ایک مستعد بیرے کی طرح ٹاکی مار کر میز صاف کرتا ہے اور پھر بہت کمال عقیدت کے ساتھ بوتل کھول کر بمع بلوریں گلاس کے میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔

’’ساری کی ساری ڈکار جاؤ۔‘‘

’’آپ بھی لیجئے ناں!۔‘‘ میں اوپری دل سے اسے دعوت دیتا ہوں۔

’’لاحول و لا قوۃ!یہ ماء الخنریر اور اس مقدس ماہ میں۔ ؟‘‘ وہ برہمی کے اچانک حملے کو پسپا کرتے ہوئے کہ تقاضائے وقت ہے اپنے لہجے کو نرم کرتا ہے اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’میرا مطلب افطار سے پہلے کیسے؟‘‘

میں مسٹر بل شٹ کی تاریخی مجبوری کو سمجھتے ہوئے سر ہلاتا ہوں اور ماء الخنزیر جرعہ جرعہ حلق میں اتارنے لگتا ہوں۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میری آنکھیں نشے میں سرخ سے سرخ تر ہوچکی ہیں تووہ گلاس اور بوتل کو ہٹا کر کاغذوں کا پلندہ میز پر بکھیر دیتا ہے۔

’’تمہیں یاد ہے یو ایس ایڈ والی کمپین جو ہم نے ڈنڈا دے کر جیتی تھی؟ارے بھائی!وہی دیہاتی بچوں کو صابن سے ہاتھ دھونے کی تمیز سکھانے والی؟ بس سمجھو کچھ ویسا ہی کام آیا ہے۔ پورے پچیس کروڑ کی ایڈورٹائزنگ کمپین ہے۔ ۔ ۔ آہ! پچیس کروڑ۔‘‘وہ آنکھیں بند کرکے چٹخارہ سالیتا ہے۔ ’’ اور کمپی ٹیشن بھی بہت بھاری ہے۔ بہت یدھ پڑے گا۔ میں ابھی سے بتاریا ہوں۔ گو کہ میں نے منسٹر کو رام بلکہ زیر دام کرلیا ہے لیکن گاٹیاں مارنے والے بھی کم کایاں نہیں۔‘‘ وہ فائل میری جانب سرکاتے ہوئے اپنے لہجے میں خوشامد کی شیرینی کو دو چند کردیتا ہے۔ ’’ تمہیں ہی کوئی شعبدہ دکھانا پڑے گا۔ تم جینئس ہو کچھ بھی کرسکتے ہو۔ ہاں، اگر یہ بوتل کم پڑے تو اور بھی ہے۔ بس تم نے آج ساری کری ایٹوٹی نچوڑ دینی ہے کاغذ پر۔ ایسے ایسے آئیڈیاز سوچنے ہیں کہ سالے تھاں مرجائیں۔‘‘

’’کسی لوز کریکٹر خنزیر کا نطفہ حرام۔‘‘تیز غصے کی گرم لہر میرے دماغ کو گرما دیتی ہے۔ ’’دو ٹکے کی بوتل دے کر مجھ سے میری لاکھوں کی متخیلہ کا طلب گارہے۔ وہ بھی اس تنخواہ کے بدلے جو کبھی ملتی ہے کبھی نہیں۔‘‘

’’تم فکر نہ کرو، میں اکاؤنٹنٹ سے کہہ دوں گا کہ تمہاری پچھلی تنخواہوں کا کلہم چیک بنادے۔ آن ارجنٹ بیسز۔‘‘بل شٹ مجھے چاپلوسی کی مار مارنے پر تلا ہوا تھا۔

میں متوقع چیک میں درج مفروضہ رقم اور گھر کے التوا شدہ خرچوں کو آپس میں جوڑ جوڑ سے بٹھانے کی کوشش کرتا ہوں اور پھر مجبوری کے بوجھ تلے دبی ایک ٹھنڈی سانس بھر تے ہوئے ایک بغل میں بوتل اور دوسری میں فائل اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔

’’ارے، ارے ! کیا غضب کرتے ہو؟ کیوں گنہگار کرتے ہو۔ ماہ مقدس ہے، سمجھا کرو۔ یہیں چڑھالو ورنہ وہ پکڑ دھکڑ والا آرڈی نینس تو ہے ای۔‘‘

میں دھپ سے صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ انٹرکام پر بات کرنے کے بعد ہاتھ کی پشت سے دہن سے چھوٹتی شیریں جھاگ پونچھتا ہے اور مجھے آنکھ ٹکاتاہے۔

’’مس ڈول تمہیں بریف کردے گی۔‘‘

’’؟‘‘

’’نئی جوائننگ ہے۔ ملو گے تو ایمان تازہ ہوجائے گا۔ بہتر ہے کنگھی شنگھی کرکے کالا چشمہ لگالو کچھ پرسنیلٹی بن جائے گی۔ خیر، تو بھیا جی! گیم ساری یہ ہے کہ اس بار تمہیں ٹور ازم کے فروغ کے لیے ملک کا سافٹ امیج بلڈ کرنا ہے۔ کام بڑا ہے بہتر ہے کہ ابھی سے ذہن کو تیار شیار کرلو۔‘‘

’’ٹورازم، اس ملک میں؟۔ ۔ ۔ اورسافٹ امیج؟؟۔ ۔ ۔ ٹھائیں ٹھائیں کرتے مجاہدین حق اور ٹورازم منسٹری کے اس شیخ الشیوخ قسم کے منسٹر اور اس کے ہم خیال اگیا بیتالوں کے ہوتے ہوئے؟۔ ۔ ۔ اٹ از جسٹ امپوسبل۔‘‘

’’ہاں وہ شیخ الشیوخ۔‘‘وہ ہنستا ہے۔ ’’ مس ڈول بھی صبح سے اس کے تھل تھلے پیٹ کے لمس کو یاد کرکرکے ابکائیاں لے رہی ہے۔ کیا کریں پچیس کروڑ کا سوال ہے۔ اتنی بڑی رقم کے لیے مس ڈول کی جگہ میں بھی اس کے نیچے لیٹ سکتا تھا۔ ۔ ۔ آخ !وہ تھل تھلا پیٹ۔ ۔ ۔‘‘

وہ ہنستا ہے اور اس کے چہرے پر حیا کی سرخی سی دوڑ جاتی ہے پھر وہ لجایا لجایا سا اٹھتا ہے اورمیرے لیے باہر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

میں اپنے کمرے میں الہامی موڈ میں بیٹھاتھا کہ دفعتاً ایک نیلی آنکھوں والی34x24x36 سائز کی قیامت ہائی ہیل کھٹ کھٹاتی اندر داخل ہوئی۔ مس ڈول کے انگ انگ سے پھوٹتی شہوانی لذت اورشیخ الشیوخ کے تھل تھلے گنبد کا لمس؟۔ آہ!جسٹ امپوسبل۔ انہیں ایک ساتھ بریکٹ کرنا کس قدر اذیت ناک بد ذوقی اور کس قدر جھرجھرادینے والا خیال تھا۔ لیکن پچیس کروڑ کے لیے تو خودمسٹر بل شٹ بھی۔ ۔ ۔

اس نے اپنا تعارف کراتے سمے ایک نظر مجھے دیکھا تو اس کے گل رخ چہرے پر کرب انگیز کراہت میں گھلے قابل رحم تاثرات نمودار ہوئے۔ وہ تہذیب الاخلاق کی ماری بی بی میرے سامنے بیٹھی تواس نے چھت پر نظریں گاڑ کر ترنت پروفیشنل لُک اوڑھ لی اور چٹاخ پٹاخ انگریزی جھاڑنی شروع کردی۔ وہ مجھے پراجیکٹ کے بارے میں بریف کررہی تھی اور میں اس کی تاحد امکان لو نیک لائن سے پھٹے پڑتے جوبنے کوپر خیال نظروں سے گھور رہا تھا۔ اس نے میری نظروں کا محور بھانپ کر در فٹے مُنھ قسم کی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر لاپرواہی سے سو واٹ سٹائل میں بال پیچھے جھٹکے۔

اچانک ایک بینگ ہوا اور میں قرنوں کے سفر پر روانہ ہوا۔

میں کھلی آنکھوں ایک کایا کلپ سی دیکھ رہا تھا کہ اس کے پروفیشنل لُک دیتے چہرے پر تمازت کھائی موم کی سی نرمی آرہی ہے اور نقوش آہستہ آہستہ اپنی ساخت بدل رہے ہیں۔ چہرہ جہاں پہلے گلاب رنگ تمازت تھی وہاں شام اتر آئی تھی۔ پھر اس کی رومن ناک کا بانسا ذرا ساپچکا اور پھننگ کی طرف اٹھتے سمارٹ، کسے ہوئے نتھنوں میں ڈھیلاپن اور پھیلاؤ آگیا۔ جب آنکھوں کی نیلی جھیل میں اماوس کی رات ستارے اوڑھ کر اتر ی تو اس کا جنم بدل چکا تھا۔ اب وہ اولمپس کی نیلگوں آنکھوں والی افرودیتی نہیں موہنجوداڑو کی سیاہ چشم نرتکی بن چکی تھی۔ اس دوران آسمانوں سے سبز کناری والی چادر کا اتر آنا اور اس کے بلونڈ لک دیتے بالوں پر جم جانا البتہ محض میرے بے لگام تخیل کا کرشمہ تھا۔

میں اس پر نظریں گاڑے بے خود تھا اور ایک جھماکے کی زد میں تھا۔

’’ماں؟‘‘، میں بھونچکا سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

’’تمہیں یاد ہیں وہ دن جب میں تمہاری گود میں ہمکتا تھا۔ ننھاسا، گل گوتھناسا۔ جب۔ ۔ ۔ جب میں بھوک سے بیاکل ہوکر تمہیں ٹٹولتا تھا؟‘‘، کہیں دور سے میری آواز بازگشت کی صورت میری سماعت سے ٹکرائی۔

اور پھر ایک چھناکا ہوا۔

’’واٹ؟۔ ۔ ۔ مین ! آر یو میڈ؟‘‘اس نے کراہت کے مارے آنکھیں سکیڑیں اور اپنی نگاہوں کا نیلا ب میری سیاہی مائل سرخی میں انڈیل دیا۔

میں نے چھن سے کرچیاں بکھرنے کی آواز نہیں سنی اور میں اپنی متخیلہ کی پگڈنڈی پر بے خود سا بھاگے گیا۔

شاید یوں نہیں تھا بلکہ یوں تھا کہ اس شام رنگ عورت کی سیاہ آنکھوں میں ممتا کی چمک کوندی اوراس نے لپک کر میرے تھکے ہوئے، جگراتوں کے مارے وجود کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔

’’تم کہاں تھے میرے لال؟۔ ۔ ۔ کون ظالم تمہیں مجھ سے چھین لے گیا۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘وہ چٹاخ پٹاخ مجھے چوم رہی تھی اور مجھے پانے کی خوشی میں حال سے بے حال ہوئے جارہی تھی۔

میرے دماغ میں پھر سے میری آواز گونجی۔ میں لاڈ میں تھتھلاتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔

’’جب تم پر چھاجوں ساون برستا اور تمہیں دور تک نرما دیتا۔ تب میں تمہاری چھاتیوں میں ہولے سے اپنے ہل کی انی اتار دیتا اور تمہاری سوندھی مہکارکو من میں بسائے تمہارے نمی سے گدرائے وجود میں میں نئی فصل کا بیج ڈالتا۔ پھر میں دن بھر کی مشقت سے تھک کردم لینے کو آم کے بور تلے جابیٹھتا اور تم لاڈ میں میری جھولی کو پھولوں سے بھردیتی۔ ۔ ۔ اور پھر بسنت رت آتی۔ میں بسنتی صافہ باندھتا، تم بسنتی چولا پہنتیں اور سارا سنسار نیلے پیلے پرندوں کی چہکار سے بھر جاتا۔ تمہیں یاد ہیں نا وہ بیتے سمے؟۔ ۔ ۔ وہ شہر میں لگی راشن کی قطاروں سے پہلے کے دن؟۔ ۔ ۔ ہم ماں بیٹا تب کتنے شانت تھے۔ کتنے خوش خوش جیا کرتے تھے۔‘‘

میں اپنی رو میں کہے گیا۔ تب میں دریافت کے جنون میں تھا، ایک طریوں کی آبدیدگی کے عالم میں اور میری زبان پراس کے دودھ کا گم گشتہ ذائقہ میری تشنہ کامی کو تڑپائے دے رہا تھا۔ اس کے گداز، شہوت میں گندھے سینے پر کائنات کا مقدس نور ٹوٹ کر برس رہا تھا۔ وہ سینہ کہ سمجھو ایک جانگلی گلاب بھری چنگیر تھی جس سے اٹھتی باس مجھے بیاکل کیے دے رہی تھی۔ میرے ہونٹوں میں تشنج اتر آیا تھا اور میں حریص سا اس کی چھاتیوں کو بھینچ لینے کی پر اذیت چاہ میں بولایا جارہا تھا۔

یہ ٹھیک وہی وقت تھا جب رات کی سیاہی اپنے سیال بھیدوں سے تہی ہوتی فجر کے دودھیا تقدس میں ڈھلنے کو ہوتی ہے اور جب رگ وید کے نیک نہاد پجاری چندر بھاگ کے جھلملاتے پانیوں کے کنار کھڑے صبح کی دیوی اوشاس کے سامنے سر جھکا دیا کرتے تھے۔

اور پھر ابتدائے آفرینش سے پہلے کے وہ دن میری یاد داشت میں جھلملائے کہ جب تھکن کے مارے میری پلکیں بوجھل ہوتیں تو وہ مجھے خود سے لپٹا کرلوری سنایا کرتی تھی اور میں نیند کے مدھر ساگر میں تحلیل ہوجاتا۔ یہ وہی لوری تھی جوایک روز بھائی اورفیوس نے مجھے ری کری ایٹ کرکے سنائی تو کئی دن تک میں کھلی آنکھوں بے سدھ پڑا رہا۔

میں بے خبری کے عالم میں تھا اور نہیں جانتا تھا کہ معاملات کی کیا صورت ہے لیکن میرے دماغ کے عقبی حصے میں اس کے تیزی سے بھاگتے ہائی ہیل قدموں کی ڈری ہوئی کھٹ کھٹ ابھی تک محفوظ پڑی ہے۔

 بے کار تھا، سب بے کار۔

وہ کوئی اور تھی، کسی اور جنم میں تھی۔ میں کوئی اور تھا، کسی اور جنم میں تھا۔

    ۳

ارشمیدس کو بھی کیا خوشی ملی ہوگی جب اس پر انکشاف کا دروا ہوا اور وہ شور مچاتا برہنہ تن باتھ روم سے نکلا تھا۔ خوشی تو میں نے پائی تھی جب میں اتفاق سے کسی چیز کی تلاش میں اپنے گھر کے ایک ہمیشہ بند رہنے والے کمرے میں کہ جسے کاٹھ کباڑ کا عجائبستان کہا جاسکتا ہے داخل ہوا تھا۔ جونہی میں نے دیمک کھائی لکڑی کے پٹ کھولے تو قدیم کی سڑاند سے میں چکرا گیا۔ میں نے سڑاند سے بچنے کے لیے ناک مُنھ لپیٹا اور چیزوں کو ٹٹولنے اور انہیں اٹھا نے پٹخانے میں لگ گیا۔ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں تھا کہ مجھے دراصل کس چیز کی تلاش ہے لیکن ضرور کوئی بھاری بپتا آن پڑی تھی کہ میں اس ہولناک سڑاند کو برداشت کیے جارہا تھا۔ اس کمرے کا ایک عقبی دروازہ بھی تھا جس پر قدیم طرز کا ایک زنگ آلود تالا جھولا کرتا تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ دروازہ پاتال کی تاریک گھٹن میں کھلتا ہے۔ جب میری نظریں تاریکی سے مانوس ہوئیں تو کیا دیکھا کہ تالا ٹوٹا ہو ا تھااور دروازے کے دونوں پٹ اکھڑے پڑے تھے۔ قدیم سڑاند کے بھبکے وہیں سے آرہے تھے۔ مجھ سے پہلے کوئی وہاں آیا تھا لیکن کون؟ میری غبی نصف بہتر تو یہاں آنے سے رہی۔

پاتال والوں کی جانب سے اپنے قیمتی کاٹھ کباڑ کی چوری کی کسی ممکنہ واردات کے بارے میں سوچتے ہوئے میں نامعلوم مطلوبہ شے کی تلاش میں کاٹھ کباڑ کو پھرول رہا تھا کہ اچانک ایک ٹوٹا ہوا تصویری فریم میرے ہاتھ لگا۔ یونہی بے خیالی میں میں نے اسے اٹھایا تو لکڑی کا فریم جھڑ گیا۔ بوسیدہ فریم میں شیشہ بھی جڑا تھا جو گرنے سے کرچی کرچی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ فریم کی اندرونی تہہ میں چھپائی گئی ایک تصویر بھی پھسل کرنیچے آرہی تھی۔ اچانک کمرے کی دیواروں میں کسی نامعلوم چھید سے سورج کی ایک کرن لپکی اورتصویر پر پھیل گئی۔ میں نے تعجب سے دیکھا کہ وہ کسی عورت کی تصویر تھی۔ دھندلی ہونے کے باوجود میں دیکھ سکتا تھا کہ اس عورت کے چہرے پر شام کا تقدس پھیلا

ہوا تھا اور اس نے سر پر سبز کناری والی چادراوڑھ رکھی تھی۔ میں اس عورت کا ناک نقشہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ سب نقش غیر واضح تھے۔ غیر واضح بھی کیا یوں سمجھو جیسے کسی نے چہرے پر رندا پھیردیا ہو۔ کیا خبر کہ وقت اپنی بے دھیان شتابی میں گذرتے ہوئے اس کے چہرے پر اپنے خاردار پنکھ پھیر گیا ہو۔ آخر اس نے صدیوں کی گذران کے پہرے دار ابوالہول کے ساتھ بھی تو یہی کیا تھا کہ اس معصوم کو یونہی اپنی ازلی شتابی میں ناک نقشے سے محروم کردیا تھا۔

میں سحر زدہ سا دیکھ رہا تھا کہ اس رندا پھرے چہرے پردو زندہ آنکھیں تھیں جو مجھ پر گڑی تھیں۔ میں مسمرائزڈ سا ان آنکھوں کی راہ اس عورت کے بھیتر میں اتر گیا۔

وہاں راستے ہی راستے تھے، گہرائی ہی گہرائی تھی اورسیڑھیاں ہی سیڑھیاں تھیں۔ کچھ یوں تھا کہ میرے قدم بے اختیار ہوچکے تھے اور میں ان اجنبی راستوں اور سیڑھیوں میں گویا پھسلتا جارہا تھا۔ تب میں ونڈر لینڈ والی ایلس کی طرح گہرائی میں اترتا چلا گیا۔ تبھی وہیں قدیم ویرانوں میں کہیں مجھے پاپائیرس سے بنے کاغذ کا ایک پرزہ چکراتا دکھلائی پڑا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو اس پر کسی تصویری زبان میں کچھ تحریر تھا۔ سمجھو کہ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تصویری زبان جیسی کوئی لکھت تھی۔ میں نے کاغذ اٹھایا تو اچانک ایک خیال میرے دماغ میں کوندا کہ اس بھورے خستہ کاغذ پر ضرور میرے نام کوئی سندیس درج ہوگا۔

’’میں واپس جا کر اس تحریر کو ڈیسی فرکروں گا۔ کیا پتا اس سے مجھے اپنا سراغ مل جائے۔‘‘ یہ سوچ کرمیں نے ادھر ادھر دیکھ جلدی سے کاغذ کے پرزے کو جیب میں ٹھونس لیا اور واپسی کے لیے دوڑ لگادی۔ میں ہانپتا ہواان گہرائیوں سے باہر آیا تو ارشمیدس جیسی فتح مندسرشاری سے نڈھال ہورہا تھا۔

میں نے چاہا کہ زندہ آنکھوں والی اس عورت کی تصویر کو کہ جس سے امکانی طور پر میرا کبھی کوئی رشتہ رہا ہوگا بغل میں دبا کر باہر سٹک لوں کہ اچانک ایک عظیم الجثہ ویمپائرکہ جس کے ایک بازو پر سرخ اور سفید دھاریوں اور دوسرے پر نیلے پیچ کے ساتھ ستاروں کے ٹوٹم کھدے تھے کہیں سے نمودار ہوکر مجھ پر حملہ آور ہوئی۔ بڑی ویمپائر کے جلو میں چند چھوٹی ویمپائرز بھی تھیں۔ وہ بھی سب کی سب میرے سر کی پچھلی جانب جھپٹ رہی تھیں۔ یہ اس ہزاریے کے آغاز پر نیٹو افواج کی افغانستان پر یلغار جیسا سین تھا۔ کچھ اسی طرح سے منظم اور پرجوش حملہ۔ لگ یہ رہا تھا کہ بڑی ویمپائر کی قیادت میں بہت سی چھوٹی ویمپائرز کا وحشی گروہ میرے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کی فکر میں ہے۔ وہ سب کی سب میر ی کھوپڑی توڑ کر میرے دماغ کا گودا کھانے کی فکر میں تھیں۔ یہ میرے دماغ کا ٹھیک وہی مقام ہے جہاں میں نے ان گنت آرٹی فیکٹ اور صدیوں کا علم سٹور کررکھا تھا۔ تبھی سرخ اور سفیددھاریوں والی بڑی ویمپائر نے دوسری کو ونک کیا۔ جواب میں اس نے فضا میں ایک چکر کاٹا اورغوطہ لگاتے ہوئے مجھ پر جھپٹی۔ اس نے سمر سالٹ کرتے ہوئے سیدھے میری قمیض کی خفیہ جیب کو پھاڑا اور کاغذ کا پرزہ نکال اسی جھونک میں پاتال کو واپس ہوئی۔

میں کہ پسپا ہوتی سپاہ کا آخری سپاہی تھا، تنہا تھا اور نہتا تھا اور جان بچانے کی فکر میں تھا۔ ادھر پاتال کی راہ آنے والی ویمپائرز غول در غول تھیں۔

میں جان بچا کر بھاگا تو کئی بار گرتا، کئی بار اٹھتا آخر دروازے تک پہنچ گیا۔ جب میں نے اکھڑی سانسوں اپنے پیچھے دھڑ سے دروازہ بھیڑچٹخنی چڑھائی تو دوسری جانب ویمپائرز کی فاتحانہ چیخوں کو صاف سن سکتا تھا۔

    ۴

میں بے نشانا، بے سراغا واپس آیا تو مجلس گرم تھی۔ وہی روز کی جھک جھک۔ خوش فکر گپ بازٹولیوں کے درمیان وہی لفظوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ۔

میں نے سرسری نگاہ سے دیکھا توایک ٹولی میں نرتکی بھرت ناٹیم کے بھید بھاؤ بتارہی تھی اورنٹ راج اپنے چہرے پر تخلیق کا پر مسرت جوش جگائے تال دینے میں مُنھمک تھے۔ نرتکی نے کہ شام رنگ تھی اور اس کی بیٹھی ہوئی ناک کے نتھنے پھولے ہوئے تھے، لحظہ بھر اپنی سیاہ آنکھوں سے میری جانب دیکھا اور پھر ایک چک پھیری لیتے ہوئے مہندی رچے کومل ہاتھوں کی سجل جنبش سے کوئی کتھا کہنے میں مُنھمک ہوئی۔

میں اپنے نراش بستر پر دھپ سے گرا تو کسی نے میرا کندھا دبایا۔ پلٹ کر دیکھا تو کوئی اور نہیں بھائی اور فیوس تھا، میری طرح ایک اداس روح۔ وہاں شاید وہی تھا جس کے ساتھ میرے دکھ کی سانجھ بنتی تھی۔ اس نے میری آنکھوں سے رستے لہو کو پونچھا اور پھر اپنے بربط کی ٹوٹی تاریں جوڑنے میں جت گیا۔ تب اس نے وہ دھن چھیڑی جو خاص اس نے یوری ڈائس کی موت پر کمپوز کی تھی اور جسے سترھویں صدی کے اوائل میں اطالوی کمپوزر کلاڈیو مونتے وردی نے سر کی تلاش کے دوران ایک مبارک لمحے میں محض اتفاق سے پالیا تھا۔

بھائی اورفیوس نے بربط کی تاروں پر ایک سہل سے انگلیاں پھیریں اور آسمان کی جانب مُنھ کرکے آنکھیں موندھ لیں۔ وہ دکھ کے گہرے ساگر میں تھا اورگارہا تھا۔

Tu Se Morta

Hey Morta

Tu Se Morta, mia vita…

تم مرچکی ہو

مرچکی ہو

تم مرچکی ہو میری زندگی۔ ۔ ۔

میں موت کی رفاقت میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا

الوداع زمین و آسماں الوداع

الوداع اے شاہ خاور الوداع

Addio terra, addio cielo,

e sole, addio

وہ گارہا تھا اور اس کی کپکپاتی آواز اولمپس کی بلندیوں پر اداسی کی چادر بچھاتے ہوئے پاتال میں ڈوب رہی

تھی۔ ایک گہرے دردناک اورتھرتھراتے ہوئے کومل کے بعد تیور لگا توآوازپاتال سے ابھری اور کہکشاؤں پر تیرتی اس پار گم ہوگئی جہاں سورگ اور نرکھ ہوا کرتے ہیں۔

وہ گارہا تھا اور میں کروٹ بدلے بن لوری سو جانے کے جتن میں تھا۔

(نوٹ از مصنف: زیر نظر کہانی کوئی چھ یا سات سال پہلے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہیں کہنا ہے، صرف یہ کہ کہانی قاری کی تھوڑی توجہ ضرور مانگتی ہے۔)

About محمد عاطف علیم 26 Articles
محمد عاطف علیم شاعر، افسانہ اور ناول نگار ہیں۔ مشک پوری کی ملکہ اور گرد باد ان کے اب تک آنے والے ناول ہیں، جنہیں قارئین اور نقادوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔