نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کا اسم گرامی رکھنے پر جھگڑا
از، یاسر چٹھہ
نوٹ از فارغ و فاضل مصنف: اس تحریر کو پڑھنے والے لفظوں کے صارفینِ کرام سے عرض ہے یہ تحریر لمبی ہے۔ آن لائن میگزینوں میں اس قدر لمبی تحریروں سے نازک بدنوں، لطیف مزاجوں، حساس دلوں اور مُشتعل انسانوں کی طبیعت مزید بگڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔ لیکن امید اور کوشش ہے کہ تحریرآپ کے دماغ پر بوجھ نہیں بنے گی، بشرط یہ کہ آپ اس وقت کسی اہم تقاضۂِ فطری و بشری سے فراغت پا کر پڑھنے بیٹھے ہیں، اور آپ کے ڈاکٹر نے آپ پر کھانے میں نمک کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی ہوئی؛ مرچ کا وعدہ ہے ہم لگنے نہیں دیں گے۔ اب بسم اللہ wishing you a happy reading کے ساتھ۔
پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے دو راہے پر ہے۔ نازکی کا مرحلہ ہمارے تاریخی سفر کا ایک سٹاپ ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ہماری منزل ہے۔ ہماری حرکتیں اس قدر تیز تر ہیں کہ چکرا دیتی ہیں۔ لیکن ہماری رفتار ہے آہستہ آہستہ کہ مسرت نذیر کا یہ سدا بہار نغمہ کانوں اور یاد داشتوں میں رس گھولنے لگتا ہے: آپ گانا سُنیے، ویسے بھی آپ کو تھوڑے آرام کی ضرورت ہے:
گانا سُن لیا ہے، تو اب دوبارہ اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ جی نہیں، آج ہی بات کرتے ہیں، ہم کوئی عدالت تھوڑی ہی ہیں جو اگلی تاریخ ڈال دیں۔ تو عرض کرتے ہیں کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر کرنا کہیں آسان تھا۔ پر اس کا نام رکھنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
اگر تو بات ولیم شکسپیئر کے زمانوں کی ہوتی، یا ان کے ذمے لگتی کہ صاحب آپ نے ہماری اس ایئر پورٹ کا نام رکھنا ہے تو وہ کہتے کہ بھائی جان کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ یہ حضرت ولیم شکسپیئر ہی تھے جنہوں نے اپنے ایک مشہور ڈرامے رومیو اینڈ جولیئٹ Romeo and Juliet میں لکھا تھا:
“What’s in a name? that which we call a rose
By any other name would smell as sweet.”
کچھ سُبک خرام قارئین کے لیے ترجمہ کر دیتے ہیں۔ نہیں، آپ کو نہیں کہہ رہا۔ یہ ان کی بات کر رہا ہوں، جو لکھی ہوئی انگریزی پڑھتے سمے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ، “بھیا، ثقیل اردو مت جھاڑیے۔” حالانکہ جس کے ان کے زمانۂَ طالب علمی میں اردو کی کلاس ہو رہی ہوتی تھی وہ سائنس پڑھ رہے ہوتے تھے، اور معجزاتی بلکہ انتہائی اہم قومی و مِلی منصوبہ بندی کے تحت جس وقت ان کے سائنس پڑھنے کا گھڑیال مُنادی دیتا تھا اُس وقت یہ دینیات پڑھ رہے ہوتے تھے۔ اس سائنسی دینیات میں اپنے وقتوں کے مردُود اور دائرۂِ اسلام سے دھتکارے ہوئے سائنس دانوں کو کلمہ پڑھا کر دوبارہ دائرۂِ امن میں واپس کھینچا جا رہا ہوتا تھا۔ قسمت والے تھے، کم از کم مرنے کے بعد تو کروٹ کروٹ بلکہ نصابی کتاب در نصابی کتا دائرۂِ اسلام میں جگہ نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دل شکستہ کافر زیادہ پریشان نا ہوں، آپ انشاءاللہ بوقتِ ضرورت مسلمان قرار دے دیے جائیں گے۔ اوہ، تو آپ حضرت شکسپیئر اوپری متن کا کا ترجمہ دیکھ لیجیے:
نام میں کیا رکھا ہے بھائی جان؟ وہ پھول جسے ہم گلاب کہتے ہیں
اُسے بھلے کوئی بھی اور نام سونپ دو، اس کی خوشبو کم نہیں ہو سکتی۔
لیکن ہمارے دوسرے لوگوں، بالخصوص سیاسی برادری کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ان کے لیے نام ہی تو اصل کام ہے۔ ویسے پہلے تو ہم نے ولیم شیکسپیئر کا حوالہ دے کر آپ پر رُعب داب دیا ہے کہ ہمیں کسی بدیسی صاحب جی کے متعلق بھی علم ہے۔ لیکن ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے تو اپنے گُل خان، اللہ دتہ، مولا وسایو، چاکر جان ہر نئے سال کے بعد اپنی نئی اولاد کی ولادت ہونے پر نام رکھنے میں زیادہ وقت نہیں خرچتے۔ جو چیز اس لمحے رُو برُو دیکھی، نوزائیدہ کو اسی چیز کا نام دے دیا۔ اتنی سوچوں میں پڑیں تو اگلی بار خدا کے فضل کے آنے میں دیری ہونے کا خطرہ جو ہو سکتا ہے۔
تو جناب ہماری سیاسی برادری کے لیے یہ مسئلہ ہے، مسئلہ تھا، اور مسئلہ بن گیا ہے۔ بھلے بات مشرف صاحب پر پڑتی تو آنکھ جھپکنے میں اس کا نام کارگل رکھتے، بعد میں جو اگر کچھ غلط ہوتا کسی اور پر ڈال کر ٹِیں ٹِیں فِشُوں۔ آخر یہ مصدقہ لٹیرے سیاست کار ہیں کس اور کام کے لیے۔
تو جناب، آخر کار اسلام آباد میں بن جانے والے اس ایئرپورٹ کو آج نام رکھے جانے کا وہی مسئلہ درپیش ہے جو اس شہر کی بنیادیں رکھتے وقت خود اس شہر کے نام کے متعلق تھا۔ یہ کوئی لگ بھگ پچاس برس پہلے کا ادق ترین مسئلہ تھا۔ اسلام آباد کے نام پر بہت بحث ہوئی۔
سنانے والے بات کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے چیف جسٹس ایم آر کیانی جیسے نابغے تک پہنچا۔ آپ نے بڑا نادر نام: “ٹنڈو مولوی گل شیر خان کولو” تجویز کر دیا۔ اس نام کے لیے فرہنگ کچھ یوں تھا: سندھ کے لیے ٹنڈو، بلوچستان کے لیے مولوی، پنجاب کے لیے گُل شیر، اس وقت کے صوبہ سرحد کے لیے خان اور مشرقی پاکستان کے لیے کولو۔
جسٹس ایم آر کیانی کے وقت تو مسئلہ لسانی تھا، اب سیاسی ہے۔ ایک آسان حل تو ایئرپورٹ کے نام کو بانئِ پاکستان کے نام پر قائداعظم رکھ دینے میں آسان حل تھا۔ لیکن کیسا مزے دار معاملہ ہوتا کہ آپ کراچی کے قائداعظم محمد علی جناح ایئرپورٹ سے اسلام آباد آنے کے لیے اسلام آباد کے قائداعظم محمد علی جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترتے۔ یعنی اس معروف لطیفے کی طرح جو پی ٹی وی کے کسی پرانے ڈرامے میں ایک بوڑھا کردار ڈبل ڈیکر بس کے متعلق پوچھتا ہے کہ اس ڈبل بس کا اوپر والا حصہ کہاں جاتا ہے اور نیچے والا کہاں۔ آج کوئی نوجوان بہ آسانی بتا سکتا کہ جہاز کی ساری سیٹیں اور ان کی منزلیں قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہی ہیں، کیا کراچی، کیا اسلام آباد؟
با خبر لوگ کہتے ہیں کہ حالیہ گھمبیر مسئلے کے لیے بھی کمیٹی ڈالی گئی، اوہ معذرت، کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے تین نام تجویز کیے:
لیاقت علی خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ
محترمہ فاطمہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ
گندھارا انٹرنیشنل ایئرپورٹ
ناموں کی اس تثلیث کو وزیراعظم محترم نے بغیر کوئی وجہ بتائے بخوشی رد کر دیا۔ شاید ان ناموں کے دیکھنے سے جمائی سی آ جاتی ہے، جیسے کسی نئی ابھری مڈل کلاسی گھرانے کے chic private ہسپتال میں پیدا ہوئے بچے کا نام سردار، نواب، غلام حیدر رکھ دیا جائے تو وہاں ان کی کوکا کولا جدت پسندی کے ڈکار بند ہو جاتے ہیں: نیا ایئرپورٹ اور پرانے نام۔۔۔ extremely regressive and nauseating idea yaar، ہنننممم۔
ہمیں اپنی دنیا کی عظیم قوم، چوبیسویں بڑی اور تیزی سے ابھرتی معیشت کے لیے کچھ تازہ بہ تازہ، جس کا رنگ ہو گاڑھا، دلوں میں ہلچل مچانے والا، اور توانا علامتی نام سے کم پر کسی طور وارے نہیں، بھائی جان۔
وطن عزیز کے ایک سنجیدہ، فہمیدہ اور نجات دہندہ شہری کے طور پر ہم سے وطن کی تاریخ کے اس نازک مرحلے اور دو راہے (بلکہ کئی راہے) پر خاموشی اختیار نہیں ہوتی۔ ان ایسے نازک تاریخی مرحلوں پر آپ خاموش رہ کر انارکی کے سانپ کو دودھ پلاتے ہیں۔ تو جان، بس خاموشی ٹوٹتی ہے۔
اے پیارے قاری آپ بھی کانوں سے انگلیاں نکالیں اور اپنے ٹی وی لاؤنج میں لگے ٹی وی پر اگر فواد، طلال، دانیال (ہر کوئی چودھری است) وغیرھُم جو کوئی بھی انتہائی اور تاریخی پریس کانفرنس کر رہے ہوں تو اس کو mute کے بٹن کے نیچے دبا دیجیے۔ ویسے تو کپتان صفدر یعنی سابقہ دامادِ اول، اور اب انصاف کی چکی میں پِستا داماد، نام رکھنے میں بلکہ رکھے ہوئے ناموں کو پھر رکھنے کے اہم ترین کاموں میں یدِ طُولٰی رکھتے ہیں، لیکن ہم بھی ایسے ہی فارغ بیٹھے ہوئے ہیں، بلکہ اور بھی زیادہ فارغ ہیں کہ ہم پر کون سی احتساب عالیہ کی پیشیاں پڑی ہیں۔ لہٰذا اس وسیع ترین ملکی حرکتِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ارے دیری کا غصہ نا کیجیے، ابھی اپنی طرف سے نام بتاتے ہیں تا کہ آپ جلد از بغیر کوئی وجہ بتائے با آسانی انہیں رد کر سکیں، تو تجاویز پیش کرتے ہیں:
1۔ بھولُو پہلوان ایئرپورٹ
لو جی بھائی جی، بھابھی جی، خالہ جی، ماموں جی وغیرگان ہم سب سے پہلے اس نام کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی روایت قائم رکھتے ہوئے ایک ہیوی ویٹ نام دیتے ہیں۔ یہ کسی کافر و ایجنٹی مزاج انسان کے سینے میں خوف و دبدبہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
بھولُو کی قد آور تصویر ہو، جسے اسلام آباد ایئرپورٹ کے داخلی راستے پر آویزاں کیا جائے تو ٹرمپ کی مجال ہے، یا مودی کی جان ہے کہ وہ ہمارے ملک پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کے چھیچھڑے اپنے خوابوں خرابوں میں دیکھے گا۔ ہر لحظہ ہو گی بھولُو پہلوان کی ایک نئی آن نئی شان، مُکے میں اور قہقہے میں ہو گی ایٹمی ہتھیاروں اور دیگر انسانی اثاثوں کی پہچان۔
پر ایک مسئلہ ہے۔ بھولو پہلوان جو کہ 1922 کوپیدا ہوئے اور 1985 کو دنیا سے رخصت ہوئے، اور آپ فری سٹائل ریسلنگ کے عالمی چیمپئن رہے ہیں۔ اصلی نام بے شک حاجی منظور حسین ہی ہے۔ لیکن ہمارے کئی حاجیوں کو حاجی منظور حسین عرف بھولُو پہلوان کی چھوٹی سی پہلوانی کَچھی میں لگی تصویر سے عُریانی کا عفریت لاحق ہو جائے گا۔ بھولو پہلوان کا یہ لباس تو کسی بھی banana state کے با حیا بنے بنائے معاشرے میں کیلے سے بھی زیادہ ہوش رُبا منظر ہو گا، بمشکل ہم انصار عباسی جیسے مُفکرانِ ملت اور نِگہبانِ بے مثل کی عیاں کاریوں کی کوششوں کی وجہ سے موبی لنک کمپنی کی اس بے شرم ماڈل کی فوٹو جس میں نرگس فخری نے لیٹنے کا مظاہرہ کیا ہوا تھا، سے ہوش-بَر (بوزن جانبر) ہوئی۔
بھولو کا اس پہلوانی کَچھی میں نظر آنا بے حیائی ہے، پر اس کی کسی دوسرے لباس میں تصویر لگانے سے رعب ودبدبہ میں کسی خاطر خواہ surge یعنی بڑھاوا نا مل پانے کا امکان ہے۔
2۔ صادق اور امین ایئرپورٹ
پاکستان کی تاریخ میں اور عام انسانوں کے اس دیس میں ایک ہی صاحب ہو گزرے ہیں جو صادق و امین تھے۔ (گو کہ باقی کچھ بھی اس وقت تک صادق اور امین ہی ہیں جب تک 62 اور 63 کی شِقیں بوقتِ ضرورت کسی پر نازل نہیں ہو جاتیں۔ ان کے نُزول کے خاص مہینے اور وقت ہوتے ہیں۔ جن کا فیصلہ اصلی، نسلی اور تاریخی اُوالاَمر کرتے ہیں۔) وہ صادق اور امین اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ کسی پنجہ کو اسلام آباد کی سر زمین کے ایک انتہائی قیمتی ٹکڑے پر دفنایا گیا ہے، جو بِلیوں اور دیگر وفادار لیکن آوارہ جانوروں کا مَرجع ہے۔ ویسے ان کی علامت کو ہم شہید ہی کہتے ہیں۔ اور بقول بھائی محمد حنیف A Case of Exploding Mangoes اور بی بی سی اردو والے کے، وہ پاکستان کے صادق اور امین زندہ و پائندہ ہیں۔
اب سوچنے کو خوش ہونے کی بات یہ ہے کہ اپنے اس پیارے ایئرپورٹ کا نام صادق اور امین ایئرپورٹ رکھ دینے سے پاکستان کے درُالخلافہ (اس میں خلائی مخلوق سے کچھ بھی مَشتق نہیں ہے بھائی) کا بڑا دیانت دارانہ امیج اور تاثر ہر آتے اور جاتے مسافر پر پڑے گا۔ اب کوئی بھی مسافر اس ایئرپورٹ پر اترتے سمے کسی بھی جانے کے لیے تیار ٹیکسی کریمی، اُبروی گھبروی یا سادہ لباس میں ملبوس ٹیکسی ڈرائیور سے اس کی صادق اور امین صفات کے ایک سے پانچ کے سکیل پر ریٹنگ پوچھے گا تو مسافر کو اپنی باربرداری کرانے میں سہولت ہوگی۔ کسی بھی ڈرائیور کا صادق اور امین سکیل پر کم از کم تین کا سکور اسے اس ٹیکسی کے سٹیئرنگ پر چل کر بیٹھنے کا حق دار بنا سکے گے۔ دو سے کم سکور والے ٹیکسی ڈرائیور صرف دِلوں کے ٹیکسی ڈرائیور یا پھر ان کے قائد وغیرہ ہی بن سکیں گے۔
3۔ بریانی انٹرنیشنل ایئرپورٹ
بریانی ایک ایسی خوراک ہے جو وطنِ عزیز کے ہر کونے کُھدرے میں مقبول ہے۔ بلکہ اس کے نام پر چھوٹے شہروں کے نائی، جو پارٹ ٹائم باورچی بھی ہوتے ہیں، پلاؤ کو بھی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ راقم بقلم خود حافظ آباد کے رہائشی ہیں اور بہت مسرور ہوتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے پیدا کیے ہوئے چاول کسی طرح وطنِ عزیز کے ہر پہلے دوسرے اور تیسرے درجے کے معدے میں بریانی یا پلاؤ کے نام پر پہنچ جاتے ہیں۔ ہم حافظ آباد، سیالکوٹ، نارنگ منڈی اور کامونکی وغیرہ کے لوگ اسی بات پر خوش رہتے ہیں کہ نا صرف پورے وفاقِ پاکستان بلکہ روسی ٹیکسی ڈرائیوروں، لندن ایئرپورٹ کے ملازموں، جوہانسبرگ ایئرپورٹ کے کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن ہمارے چاولوں کی بریانی اور پلاؤ ہے۔
اس وفاقی و آفاقی پذیرائی کے حامل نام کو اسلام آباد ایئرپورٹ کے نام کے ساتھ منسلک کرنا کس قدر ہمارے کھیتوں کے سِینوں اور پسینوں کے پَوروں کے طفیل نکالی گئے چاولوں کی مُفت کی پبلک ریلیشننگ اور مارکیٹنگ ہو گی۔ پر خدشہ ہے کہ اشتہاری کمپنیاں اور دیگر دودھ، دلیہ، کسٹرڈ، غدار اور ٹویٹس ساز ادارے ضرور سازش کر کے اس پر چاچُو رحمت اللہ علیہ سے بے خود نوٹس کروا دیں گے۔
4۔ میرا پِیا گھر آیا ایئرپورٹ
موسیقی روح کی غذا ہے، لیکن یاد رہے کہ کوک سٹوڈیو میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کواگر آپ موسیقی کہیں گے تو اپنی اس حرکت و اعتقاد پر آپ خود ہی ذمے دار ہونے کے ساتھ قابلِ تعزیر بھی ہوں گے۔ چَشمِ تخیل میں ذرا سوچیے۔ ایک مَدُھر سی آواز ہو۔ جُوں ہی جہاز سر زمینِ اسلام آباد پر اپنے ٹائر رکھ رہا ہو اس دوران اعلان ہو رہا ہو:
“خواتین و حضرات ہم خُوبئِ قسمت سے چند لمحوں میں شہرِ اسلام آباد کی میرا پیا آیا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے ہی والے ہیں۔ وہاں جہاں آپ کے پیارے اپنے اپنے پِیا کے اُڈیکن ہار ہیں۔ لہٰذا اپنے اپنے بیلٹ باندھ لیجیے، لیکن ان بیلٹوں کو ساتھ گھرنا لے جانے کا پیشگی شکریہ”
اس کے فوری بعد نصرت فتح علی خان کی یہ قوالی چلا دی جائے:
https://www.youtube.com/watch?v=RG4DsSxFAgk
آپ سنیے اور سر دھنیے۔
پس نوشت: دیکھیے تحریر طویل تھی لیکن مُلکِ مِصر میں کسی فوجی حکومت کے عہد جتنی طویل بھی ہر گز نہیں تھی۔ اس لیے جو چلے تھے تو ایک بار پھر ثابت ہوا کہ کٹ ہی جاتا ہے سفر مگر آہستہ، ایک اور گانا سنیے اور اپنے حوصلے کو خود سے ہی داد دیجیے۔ اور ہاں اوپر تجویز کردہ ان ناموں کو اپنے بچے کُھچے وقت میں رد و قبول کے مرحلے سے ضرور گزاریے۔
اس مضمون کے کچھ حصے مئی 2018 کے پہلے جمعہ کےانگریزی ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز میں وقار احمد کے مزاحیہ مضمون سے مستعار شدہ ہیں۔ زیادہ قصور راقم کا اپنا ہی ہے۔