طرز ہے شاگرد میں بھی ٹھیک ٹھیک استاد کی

صاحب مضمون
عطا تراب

طرز ہے شاگرد میں بھی ٹھیک ٹھیک استاد کی

از، عطا تراب

”میں نے جو غزل تنقید کے لیے پیش کی تھی اور مکمل پرخچے اڑانے کا چیلنج دیا تھا اسے بہت سےلکھاریوں نے پسند اور ناپسند کے عمومی نصابی تنقید و تنقیص کے پیمانے پر یا تو پسند کر لیا یا ناپسند کر دیا۔”

مندرجہ بالا جملہ پڑھتے ہی جہاں ہم اپنے دل میں شاعر کے جرأت آمیز رویے کی بابت تحسینی جذبات محسوس کرنے لگے وہیں مذکورہ غزل کی قرات کا شوق بھی ہمارے دل میں کروٹیں لینے لگا۔ شاعر کی جرأت کی بابت پیدا ہونے والے تحسینی جذبات بدستور موجود تو رہے لیکن قدرے اعتدال پر آ گئے جب ہم نے اسی تحریر میں یہ دیکھا کہ شاعر غزل پر برتے جانے والے پیمانے بھی خود ہی متعین کر  رہا ہے، جس کی وجہ غالباً اسی تحریر میں اس کا یہ جملہ ہے کہ ”قاری تو وہ شاگرد ہوتا ہے جس کی تربیت لکھنے والا ہی کرتا ہے۔”

بات ہو رہی ہے ایک فیس بک پوسٹ کی، جو کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر (ان کی فیس بک پروفائل پر موجود معلومات کے مطابق) رفیع رضا کی ہے۔ رفیع رضا بطور شاعر ظفر اقبال کے مداح ہیں اور انھیں غالباً اپنا شعری پیشوا اور استاد مانتے ہیں اور انہی کی طرز پر پُرگوئی اور دوسروں کی شاعری پر اپنے پیمانوں کے مطابق  رائے زنی سے بالکل نہیں چُوکتے۔

غزل کے پرخچے اڑانے کی دعوت دیتی للکار والی پوسٹ  سے ذرا نیچے مذکورہ غزل درج ذیل عبارت کے ساتھ موجود ہے:

”تنقید کے لیے غزل پیش ہے، تعریف کے لیے ہر گز نہیں۔ تنقید معاصر ادب (عہد) کی عصری شعوری تنقید ہو۔ ذاتی و ذوقی نہ ہو۔ ذاتی عقیدے کی تنقید نہ ہو۔ بے لاگ تنقید کریں، تعمیری تنقید ہو ذوقی تنقید نہ ہو۔”

جہاں مُرغانِ گرفتار گِنے جاتے ہیں

ہم پرندے وہاں غدّار گِنے جاتے ہیں

دیس کو توڑنے والے بھی وہی ہیں لیکن

دیس کے خاص وفادار گِنے جاتے ہیں

وہی قبریں ہیں جہاں پر کوئی مدفون نہیں

وہی کتبے ہیں جو ہر بار گِنے جاتے ہیں

کتنے دن بیت گئے کتنے ابھی باقی ہیں

دن ہی گننے ہیں تو سرکار! گِنے جاتے ہیں

مسجدوں میں کوئی خوش باش کہاں آتا ہے

ہسپتالوں میں ہی بیمار گِنے جاتے ہیں

اَن گِنَت ہوتے تھے دیہات میں شہروں میں کبھی

اب تو جنگل میں بھی اشجار گِنے جاتے ہیں

معذرت! آپ نہیں آئے اگر گنتی میں

ہم سے بس صاحبِ کردار گِنے جاتے ہیں

وقت،”سِی تار” ہے آپ اِس کو بجا کر دیکھیں

سال ہا سال سے کیوں تار گِنے جاتے ہیں

آپ سَر پَیر کے بارے میں بتاتے ہی نہیں

اور دستار پہ دستار گِنے جاتے ہیں

دبی چنگاری کو مَیں آگ لگا دیتا ہُوں

لوگ اشعار پہ  اشعار گِنے جاتے ہیں

یعنی تُم دیکھتی آنکھوں کو بھی گِن سکتی ہو

یعنی مے خانوں میں مَے خوار گِنے جاتے ہیں

دیس کی اپنی کرَنسی کسی گنتی میں نہیں

ڈالر و درہم و دینار گِنے جاتے ہیں

رفیع رضا

رفیع رضا نے غزل سے قبل مختصر عبارت میں یہ بتاتے ہوئے کہ تنقید کیسی ہو، کچھ باتوں کو جس طرح آگے پیچھے دہرایا ہے؛ بالکل اسی طرح تنقیدی پیمانوں کے ذکر میں ان کے بیان کردہ بیس نکتوں میں سے بعض باہم مُتداخل ہیں۔ یہاں ان کے ذکر اور تجزیے کا مَحَل نہیں البتہ ان کے ذکر کردہ تنقیدی پیمانوں میں غزل کے فنی، معنوی اور جمالیاتی جائزے کی گنجایش بہرحال موجود ہے۔

نا گفتہ نماند کہ اس تحریر کا مقصد غزل کے پرخچے اڑانا نہیں کہ اتنی ہماری علمی حیثیت نہیں، اور نہ ہی ایسے کسی تخریبی فعل کو ہم مُستحسن مانتے ہیں کیونکہ ہم نظیری کے درج ذیل شعر کے قائل ہیں:

ہزار رنگ در این کارخانہ درکار است

مگیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند

آئیے غزل کے جائزے کی بسم اللہ غزل کی زمین سے کرتے ہیں۔ یہ زمین مترنم بحر کی حامل ہے جسے اکثر شُعرا رغبت اور سہولت سے برتتے ہیں۔ اس زمین کو قافیے کی تنگی جیسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں اور گنے جاتے ہیں کی فعلیہ ردیف یوں مزید امکانات کے در وا کر رہی ہے کہ اس ردیف کو زمانہ حال معروف (ابواللیث صدیقی کے بقول اسے حال نا تمام کہنا مناسب ہے اور اس میں فعل کا تسلسل اور شدت سے ہونا ظاہر ہوتا ہے) اور حالِ مُطلق مجہول کے طور پر برتا جا سکتا ہے۔ اول الذکر کی مثال مورد نظر غزل میں شاعر کا مصرع لوگ اشعار پہ اشعار گنے جاتے ہیں، اور ثانی الذکر کی مثال شاعر کا مصرع اب تو جنگل میں بھی اشجار گنے جاتے ہیں، ہے

اب غزل کے اشعار پر فرداً فرداً نظر ڈالتے ہیں سب سے پہلے مطلع مُلاحظہ فرمائیے:

جہاں مُرغانِ گرفتار گِنے جاتے ہیں

ہم پرندے وہاں غدّار گِنے جاتے ہیں

مطلعے میں جہاں ‘جہاں’ اور ‘وہاں’ کے دو حرفی استعمال سے مصرعوں کی روانی پر مبنی خوب صورتی کو بٹا لگ رہا ہے وہیں غدار گِنے جانے کو ہم پرندوں(مفرُور) کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ سے شعر معنوی طور پر عجز بیان کا شکار ہو گیا ہے یعنی جو شاعر کی مراد ہو سکتی ہے وہ شعر ادا نہیں کر رہا اور جو مفہوم شعر ادا کر رہا ہے وہ شاعر کی مراد یقیناً نہیں ہو گی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ شاعر کا مطمحِ نظر تو یہ تھا کہ ہم انکار منش اور آزاد روش پرندے تنگ نظر اور سخت گیر  ذہنیت کے ہاں غدار شمار ہوتے ہیں وطن میں رہ جانے والے گرفتار ہیں اور ہم گرفتار پرندوں میں شامل نہیں کہ بچ کر نکل آئے ہیں۔

جب کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں فعل کو حال مطلق مجہول کے طور پر برتا گیا ہے یعنی فاعل کا ذکر نہیں کیا گیا اور شاعر گرفتار پرندوں کے لیے غدار کی صفت نہیں لایا بلکہ خصوصیت کے ساتھ اپنے لیے لایا ہے یعنی ہم چمن (وطن) سے دور اُڑ جانے والے انکار منش اور آزاد روش پرندے غدار شمار ہوتے ہیں جب کہ گرفتار پرندوں کی گنتی قیدی پورے کرنے والی گنتی ہے۔


مزید ملاحظہ کیجیے: خط کی اصلاح سے ہوتا نہیں حجّام اُستاد  از، عطا تراب


یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بطور خاص آپ کو غدار کون گن رہا ہے؛ صیاد تو گننے سے رہا کیونکہ اس کی نظر میں تو سبھی پرندے غدار ہیں پس وہ پرندے صیاد کی نظر میں گرفتار پرندے ہیں اور آپ مفرور۔

شاعر اس صورت میں بطورِ خاص غدار شمار ہو سکتا ہے کہ جب گرفتار پرندوں کی گنتی ہو رہی ہو تو وہ آپس میں بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں گرفتار کروا کر خود بھاگ گیا غدار کہیں کا۔ اور یہ مطلب شاعر کا مطمحِ نظر ہر گز نہیں ہو سکتا۔

دیس کو توڑنے والے بھی وہیں ہیں لیکن

دیس کے خاص وفادار گِنے جاتے ہیں

شعر بیان میں صاف ہے ہم شعر کے بیانیہ یا خبریہ انداز کو عیب نہیں گنتے بشرط یہ کہ کوئی اچھوتی بات یا کوئی نیا فکری زاویہ بیان کیا گیا ہو۔ ویسے حال ہی میں دیس توڑنے کی ذمہ داری نریندر مودی نے لی ہے اور انہیں خاص وفادار نہیں بلکہ خاص حریف گنا جاتا ہے۔ خیر تفنن برطرف، ہم ایسی کسی سوچ کو دُرُست نہیں سمجھتے جو طعن و تشنیع پر مبنی تنقید و تنقیص کے ذریعے وطنِ عزیز کے کسی بھی ادارے بالخصوص پاک فوج کی مِن حیثُ الاِدارہ بیخ کنی پر مُنتج ہوتی ہو کہ یہ خود ملک توڑنے والی بات ہو گی۔ بد عُنوانی ہمارے معاشرے کے مزاج میں سرایت کر چکی ہے اور یہی حال ہمارے تمام اداروں کا ہے لہٰذا ہمارے تمام اداروں کو بشمول فوج، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے جامِع اصلاحات کے عمل سے گذرنے اور آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مثبت اور تعمیری تنقید درکار ہے ایسے ہی جیسے آپ اپنی غزل کے لیے تعمیری تنقید کے خواہاں ہیں۔ بالآخر تمام ادارے ہمیں سے تشکیل پاتے ہیں اور ہمارے اپنے ہیں۔

وہی قبریں ہیں جہاں پر کوئی مدفون نہیں

وہیں کتبے ہیں جو ہر بار گنے جاتے ہیں

پہلے مصرعے میں ‘پر’ نہ صرف اضافی نہیں بلکہ محاورتاً غلط ہے کیونکہ قبروں میں مدفون درست ہے، قبروں پر مدفون نہیں۔

وہی قبریں ہیں جہاں اب کوئی مدفون نہیں

یا

وہی قبریں ہیں جہاں کوئی بھی مدفون نہیں، مصرعے کی بہتر صورتیں ہو سکتی ہیں۔

شعر مُبہم ہے کیونکہ تارکینِ وطن کی صُورتِ حال ہو یا مقدس مزارات، مردم شماری کے ڈھونگ یا برائے نام جمہوری عمل پر طنز، کہیں بھی شعر چاروں چُولوں سے ٹھیک نہیں۔ یا کم از کم ہم پر نہیں کھل رہا۔

کتنے دن بیت گئے کتنے ابھی باقی ہیں

دن ہی گننے ہیں تو سرکار گنے جاتے ہیں

یہ شعر صاف اور رواں مصرعوں کے با وصف جبر و اختیار، محض وقت گذاری یا تضیعِ اوقات کے کسی ممکنہ موضوع پر زور دار تاثر سے عاری ہے۔ جب کہ شاعر نے وقت ہی کے موضوع پر اسی غزل میں ایک اور شعر کہہ رکھا ہے جو اس شعر سے بہتر ہے اور اس میں ‘سی تار’ کی خوب صورت ترکیب موجود ہے:

وقت سی تار ہے آپ اس کو بجا کر دیکھیں

سال ہا سال سے کیوں تار گِنے جاتے ہیں

وقت کے موضوع پر بالترتیب مِیر کا ایک اور غالب کے دو شعر دیکھیے:

غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز

میر اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا

مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی

عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

لگے ہاتھوں ایک چٹکلے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ رفیع رضا اپنے پیش رو استاد ظفر اقبال کی طرز کے زود نویس اور پُرگو شاعر ہیں؛ چونکہ ایسے شاعر عام طور پر بھاری بھرکم دیوان کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا ایسے شعرا کے دیوان کو نظر میں رکھتے ہوئے جب ہم میر (جو خود بھی بھاری بھرکم دیوان کے مالک ہیں) کا درج ذیل شعر پڑھتے ہیں تو غالب سستے چھوٹتے نظر آتے ہیں:

قیامت میں جرمانۂ شاعری پر

مرے سَر سے میرا ہی دیوان مارا

مسجدوں میں کوئی خوش باش کہاں آتا ہے

ہسپتالوں ہی میں بیمار نظر آتے ہیں

اپنی بُنت میں صاف شعر ہے البتہ مسجدوں میں جہاں ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کے شکار لوگ جاتے ہوں گے وہیں خوش باش اور سلیم الطبع لوگ بھی جا سکتے ہیں اور جاتے ہیں، جیسے مے خانوں میں خُوش فکر رندوں کے ساتھ کئی ذہنی و نفسیاتی الجھنوں کے مارے بھی جا سکتے ہیں اور جاتے ہیں۔

ان گنت ہوتے تھے دیہات میں شہروں میں کبھی

اب تو جنگل میں بھی اشجار گنے جاتے ہیں

محض ماحولیاتی تبدیلی کے ضروری اور بھڑکتے مسئلے کو موضوع بنانے پر نہیں بلکہ ردیف کے لطافت سے بندھ جانے پر بھی یہ شعر چمکتا ہوا سا محسوس ہو رہا ہے۔ پہلے شہروں اور دیہاتوں میں بھی درخت بکثرت پائے جاتے تھے اور اب تو جنگلوں میں بھی درخت گنتی میں آنے لگے ہیں:

معذرت آپ نہیں آئے اگر گنتی میں

ہم سے بس صاحب کردار گنے جاتے ہیں

گنتی میں آنا کو شاعر نے آخری شعر میں بھی برتا ہے:

دیس کی اپنی کرنسی کسی گنتی میں نہیں

ڈالر و درہم و دینار گنے جاتے ہیں

دونوں مناسب شعر ہیں البتہ اول الذکر روایتی مضمون کا حامل اور طرزِ حالی کا شعر ہے اور ثانی الذکر ہماری موجودہ معاشی زبوں حالی کا۔

آپ سر پیر کے بارے میں بتاتے ہی نہیں

اور دستار پہ دستار گنے جاتے ہیں

روایتی مضمون کو برتا گیا ہے لیکن شاعر کا بیان صاف نہیں شاید شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ آپ اصل باعث فضیلت اقدار کی بات نہیں کرتے محض دستار کو باعث فضیلت گردانتے ہیں۔ فراز کے دو شعر دیکھیے:

پیچ رکھتے ہو بہت صاحب و دستار کے بیچ

ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ

فقیہ شہر جبیں پر کلاہ زر رکھے

سنا رہا ہے ہمیں آیتیں مقدر کی

دبی چنگاری کو میں آگ لگا دیتا ہوں

لوگ اشعار پہ اشعار گنے جاتے ہیں

اس شعر میں چنگاری اگر منفی استعارہ ہے تو اسے آگ لگا دینا، غارت کر دینا، تباہ اور برباد کر دینا کے  معنوں میں درست ہے لیکن اگر چنگاری مثبت استعارہ ہے تو آگ لگا دینے نے مثبت استعارے کو خاکِستر کر دیا ہے بنا بر ایں آگ بنا دینا یا ہوا دینا زیادہ بر محل تھا۔ اور اس شعر میں دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی اٹھان کے ساتھ سازگار بھی نہیں۔

علامہ اقبال کے ہاں چنگاری کا مثبت استعارے کے طور پر استعمال ملاحظہ فرمائیے:

زندگی کی قوتِ پِنہاں کو کر دے آشکار

تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے

یا

تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی

یعنی تم دیکھتی آنکھوں کو بھی گن سکتی ہو

یعنی مے خانوں میں مے خوار گنے جاتے ہیں

دونوں مصرعوں کو یعنی کے ساتھ شروع کرنا ایک مشکل امر ہے اور ایک یعنی کے لا یعنی ہونے کا خدشہ شدت سے سر پر منڈلانے لگتا ہے۔ گن کے ساتھ امدادی فعل ‘سکنا’ لا کر اگر صلاحیت کے معنی کا قصد کیا گیا ہے تو دیکھتی آنکھوں کو گن سکنا ایسی باعث استعجاب صلاحیت نہیں کہ جسے یعنی کے ساتھ بیان کیا جائے اور اگر دیکھتی آنکھوں کی گنتی کے عمل پر تعجب یا حیرت کا اظہار مقصود تھا تو امدادی فعل ‘سکنا’ نہیں لانا چاہیے تھا۔

مجموعی طور پر غزل روایت سے منحرف ہوئے بغیر جدید فضا کی حامل ہے اور ان گنت کے ساتھ اشجار گنے جاتے ہیں اور دیس کی اپنی کرنسی کسی گنتی میں نہیں میں زبان و بیان کا وہ روایتی شعری شعور ہے جس سے شعر جگمگا اٹھتے ہیں، اور جب جدید ذہن روایتی شعری شعور سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو ادبی سرمائے کے ثروت مند ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

آخر میں ہم سب روایتی شعری شعور سے آشنائی کے لیے امیر مینائی کی غزل سے حظ اٹھاتے ہیں:

تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے

ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے

ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار

سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا

میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار

پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند

اب کوئی حور آئے گی اِن کے لیے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ

بھیجتے تحفہ مؤذِّن کے لیے