یک بوسۂِ شیریں
افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
چیخم دھاڑ کی آوازیں سن کر SHO محمود عباسی نے جلدی سے اپنی کرسی سے اٹھ کر باہر جھانکا۔ اور سامنے کا منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ ASI عمرافتخار ایک ملزم کو درخت کے ساتھ باندھے وحشیانہ طور پر پیٹ رہا تھا۔ عمر افتخار کے ملزم کو پیٹنے کے انداز میں نہ جانے کیا تھا کہ محمود عباسی وہیں اکڑ کر رہ گیا۔
آنکھیں بند کیے، ماتھے پر بل ڈالے وہ دونوں بازوؤں کو سر کے اوپر سے گھما کر لے آتا کہ بازوؤں کی مچھلیاں پھول کر پھٹنے کو آ جاتیں اور پیٹ اور اندر کی طرف پچک جاتا۔ اور پھر سٹاک کے ساتھ ایک ضرب ملزم کی کمر پر پڑتی اور اس کی فلک شگاف چیخ بلند ہوتی۔
عمر نے آنکھوں کے ساتھ ساتھ جیسے کان بھی بند کر لیے تھے اور آج کچھ کر گزرنے کے موڈ میں تھا۔ کہ اچانک ہی اس کی سرگرمی میں خلل آ گیا۔ یک دم تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے اور چھتر بے اختیار اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔ عجیب و غریب، محمود عباسی نے بڑبڑاتے ہوئے منشی کو حکم دیا کہ عمر افتخار کو اس کے کمرے میں بھیجے اور خود دفتر میں جا کر بیٹھ گیا۔
سر۔۔۔ عمر کی تھکی ہوئی آواز پر وہ چونکا۔
آؤ عمر بیٹھو۔ آج کافی کچھ حیرت انگیز ہوا ہے۔ کافی سال سے تم فیلڈ میں ہو مگر غیر روایتی رویے کے ساتھ۔ آج میں حیران ہوں کچھ روایتی سا انداز آ گیا ہے تم میں۔ یہ تبدیلی میری سمجھ سے باہر ہے۔ تم سمجھ سکتے ہو۔ ملزم کو مارنا اور یک دم چھوڑ دینا، I mean کوئی مسئلہ ہے تو ڈسکس کرسکتے ہو۔ ہم دوست ہیں مجھ پر اعتبار کر و یار۔ یہ سب کچھ رزاق، منور، عبداللہ وغیرہ کرتے تو قطعاً حیرت نہ تھی مگر تم۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پولیس آفیسر ۔۔۔ اور یہ سب ۔۔۔۔ محمود عباسی اپنی کرسی سے اٹھ کر چلتا چلتا اس کی کرسی کی پشت پر آ کر ٹھہر گیا۔
وقت کے بھاری لمحے خاموشی کی تہہ میں سرکتے رہے۔ عمر افتخار کسی ٹرانس میں بیٹھا رہا مگر بولا نہیں۔ چلو کوئی بات نہیں۔ محمود عباسی نے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔ تم جا سکتے ہو مگر یاد رکھو آج شام کو کھانا ہم اکٹھے کھائیں گے۔
عمر افتخار جانتا تھا کہ محمود کھانا اس کے ساتھ کیوں کھانا چاہتا ہے۔ وہ ایک اچھا ذمہ دار پولیس افسر تھا۔ فرض شناس بھی تھا۔ چند دن قبل عمر نے ایک مسئلہ بغیر کسی تشدد یا دھمکی کے حل کر دیا تھا جو گزشتہ کئی ماہ سے پولیس کو لا حل نظر آ رہا تھا۔
ہوا یوں کہ پولیس کو کئی مہینے پہلے ایک مخبر نے اطلاع دی۔ کہ فلاں جگہ پر خانہ بدوشوں کی جھگیوں میں ایک بوڑھی عورت ہیروئن فروخت کرتی ہے۔ پولیس نے کئی مرتبہ چھاپہ مارا۔ ہر مرتبہ بوڑھی عورت کی نوجوان بہو اور پانچ بچوں کے علاوہ پولیس کو کچھ نہ ملا۔ ہر دفعہ بوڑھی عورت کچھ اس طرح سے چکر چلاتی کہ پولیس کو بے بس کرکے رکھ دیتی۔
آخری بار جب مخبری ہوئی تو ASI عمرافتخار کو بھیجا گیا۔ عمر افتخار جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ہیروئن بھی تھی اور بوڑھی عورت بھی تھی۔ محمود عباسی حیران تھا کہ آخر عمر نے ایسا کون سا چکر چلایا ہے۔ اور آج اس پزل کے ساتھ ایک اور حیرت بھی مل گئی تھی۔
وہ دونوں آمنے سامنے تھے۔ مگر دونوں نہیں تھے۔ شاید تینوں تھے۔ عمر افتخار کے سامنے SHO محمودعباسی بیٹھا تھا اور SHO محمود عباسی کے سامنے ASI عمر افتخار۔ شاید ایسا ہی ہو مگر شاید ایسا نہیں تھا۔ منتظر اور مشتاق محمود عباسی کے سامنے کھویا کھویا سا عمر افتخار تھا اور عمر افتخار کے سامنے وہ تھی۔
الٹی سیدھی بے ربط باتیں کرنے والی۔ وہ جو ہنستی تھی تو اس کے گالوں میں ہلے پھلکے ڈمپل پڑتے تھے۔ اور تو کچھ خاص اس میں تھا نہیں۔ مگر پھر بھی وہ عام نہیں تھی۔ اس کی بے ربط، بے ترتیب باتوں میں بھی ایک سلجھاؤ ہوتا تھا۔ ہمیشہ ہر وقت پر اعتماد، اپنی فضول اور لایعنی باتوں پر اعتماد رکھنے والی۔ عمر افتخار کی ہر آن بدلتی کیفیات اور اتار چڑھاؤ کی ذمہ دار وہ تھی۔ وہ اس کی راز داری کو سالم رکھنا چاہتا تھا مگرSHO کی کریدتی ہوئی آنکھیں برمے کی طرح اس کے وجود کو چھید کر اب اس کی ہڈیوں کو بُورا کرنے والی تھیں۔
مزید دیکھیے: جنس گراں افسانہ از، منزہ احتشام گوندل
وہ کہتی تھی اپنی زندگی کے ہر لمحے کو انجوائے کرو۔ جب تمہیں اپنی کسی ناکامی پر غصہ آئے تو کسی مجرم کو پکڑو اور خوب مارو۔ تاکہ سارا غصہ باہر نکل جائے۔ اور اس مار پیٹ کے عمل کو بھی انجوائے کرو۔ اس سے لطف اٹھاؤ اور جب میں ہیروئن بیچنے والی بوڑھی عورت کے گھر چھاپہ مارنے گیا تو بوڑھی رُو پوش ہوچکی تھی، مگر اس کی نوجوان بہو اور بچے اس کی جھگی کے اندر رہ گئے تھے۔ اس سے قبل کہ میں بھی باقی پولیس والوں کی طرح خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتا یا نوجوان عورت کو پکڑ کر تھانے میں لے آتا۔ اس کے کہے یہ جملے میرے دماغ میں گونجنے لگے ۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو انجوائے کرو، میں اچانک پلٹا اور میں نے اپنے ساتھ اپنے ماتحتوں کو اور نوجوان عورت کے بچوں کو جھگی سے باہر بھیجا، تاکہ تخلیے میں بوڑھی عورت کی بہو سے کچھ سوال جواب کر سکوں۔
جب سب باہر چلے گئے اور جھگی کے اندر میں اور نوجوان عورت تنہا رہ گئے تو میں نے دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی اور عورت کی طرف پلٹا۔ وہ تو جیسے صدیوں سے اسی لمحے کی منتظر تھی۔ کٹی ہوئی ڈال کی طرح میری گود میں آ گری۔ میں نے اس کے ہونٹوں کا ایک بوسہ لیا تو اس نے فر فر سارا کچھ مجھے بتا دیا۔ اس کا شوہر یعنی بوڑھی عورت کا بیٹا چھ ماہ سے جیل میں تھا۔ اور بوڑھی عورت ہیروئن بیچ کر اس کا اور اس کے بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔ اس نے نہ صرف اپنی ساس کا ٹھکانہ بتا دیا بلکہ ہیروئن جو چھپا کر رکھی تھی وہ بھی نکال کر دے دی۔
میں نے تو بس لمحہ انجوائے کرنے کی غرض سے۔۔۔ وہ سب ۔۔۔ مگر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس عورت کو تھانے میں لا کر چاہے کتنا ہی تشدد کیوں نہ کرتا۔ وہ کبھی بھی نہ مانتی۔
اس کی اوٹ پٹانگ باتیں نہ جانے کہاں کہاں مجھے یاد آتی ہیں۔ وہ کہتی تھی۔ پولیس والے! چوروں اور ڈاکوؤں کو اور عورتوں کو تنگ کرنے والوں کو خوب زور زور سے مارا کرو۔ جب تم مار رہے ہو گے تو میں تصور کی آنکھ سے دیکھوں گی کہ ڈنڈے پر گرفت کی شدت سے تمہاری انگلیوں کے ناخنوں میں لہو سمٹ آیا ہے اور وہ جامنی پڑ گئے ہیں۔ تمہاری کلائیوں اور ہاتھوں کی رگیں ابھر آئی ہیں۔ تمہارا چہرہ سرخ ہوگیا ہے اور سینے کے جھاڑ جھنگاڑ میں زلزلہ آ گیا ہے۔ اور اس کے بعد پتا ہے کہ میں کیا تصور کروں گی۔۔۔؟ میں سوچوں گی یہ ہاتھ جن کی رگیں ابھر آئی ہیں اور جن کے ناخن جامنی رنگ کے ہو گئے ہیں، جو اس وقت کسی مجرم کے بدن پر تشدد کر رہے ہیں، یہ ہاتھ کسی کے نازک کانوں کے خوب صورت بالے کو چھو کر محسوس بھی تو کر سکتے ہیں۔ ان کے اندر احساس کی ریشمی برقی لہریں بھی تو دوڑ سکتی ہیں۔ یہ کسی نازک بدن کو کسی دوسری انتہا پر جا کر چھُو کر محسوس کر کے اس کے اندر سنسی بھی تو دوڑا سکتے ہیں اور یہ چہرہ جس کا دوران خون سمٹ کر جس کو سرخ اور گرم کررہا ہے، یہ گرمی اور سرخی کسی دوسرے احساس کی وجہ سے بھی تو ہو سکتی ہے۔ کہ اپنے پاس سے آنے والے نرم سانسوں کو بھی پگھلا کر رکھ دے۔ اور یہ سینہ جو غصے اور طاقت کی شدت سے لرز رہا ہے محبت کے نرم، لطیف اور مخمور جذبات سے بھی تو لرز سکتا ہے۔
اوہو عمر افتخار! کیا مجرم کا جسم اور محبوبہ کا بدن ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں؟ کیا دونوں ہی طاقت کے اخراج کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ نہیں ناں۔۔۔ تو پھر اتنی مشابہت کیوں ہے؟
یہ treatment کی دو انتہائیں ہیں۔ مجرم کا بدن شدت اور محبوبہ کا لطافت۔۔۔ مگر تمہاری حالت دونوں کی دفعہ ایک سی کیوں ۔۔۔؟
معلوم نہیں سر! اب میں جب بھی تشدد کرنے لگتا ہوں تو کہیں بیچ میں وہ آ جاتی ہے۔ میرے ہاتھ سے ڈنڈہ سرک جاتا ہے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ اور ہاتھ کسی نازک کان کے خوب صورت بالے کو چھونے کی آرزو میں دہکنے لگتے ہیں۔ چہرہ کسی قربت سے امڈنے والی آنچ سے سلگنے لگتا ہے۔ اور میرے لہو کے کروڑ ہا خلیوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ہم انسان نہیں ہیں۔ ہمارے نام کے ساتھ صحافی حضرات وحشیانہ، بہیمانہ، جیسے نامعقول الفاظ چسپاں کرتے ہیں۔ مائیں بچوں کو ہمارے نام لے لے کر ڈراتی ہیں۔ مگر لوگ نہیں جانتے کہ ان کے درمیان وہ بھی رہتی ہے۔ جو ہمارے تشدد کرتے جسموں اور بگڑے ہوں چہروں کے اندر سے بھی حسن اور احساس تلاش لیتی ہے۔
۔۔۔۔
کیا اب تک کی گزری ہوئی انسانی تاریخ میں مجھ سے پہلے بھی مجھ جیسی ذہنی اور جسمانی طور پر بھرپور عورتیں نا قابلِ یقین حد تک تکلیف دہ ذہنی اذیتوں سے گزاری جاتی رہی ہیں۔ اس مفروضے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یقیناً ہوگا اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے دور کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ اور وار آزمایا جاتا رہا ہوگا۔ عورت نفسیاتی اور جسمانی سطح پر کتنی ہی مکمل اور بھرپور کیوں نہ ہو، جب تک معاشرے کے مروجہ اور عام منافقانہ انداز مکمل طور پر نہیں سیکھ جاتی وہ آزمائی جاتی رہے گی۔ کیا میں جو کہنا چاہتی ہوں وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں نہیں ابلاغ ہو سکتا تاکہ ایک کولاج بن جائے۔ اب تک کتنی مشکل کے ساتھ میں نے اپنی شخصیت کی بے ربطگی کو مربوط اور بے ضابطگی کو منضبط رکھا ہوا ہے۔ اپنے قول فعل میں ہمیشہ میں جس عدم توازن کی مظہر رہی ہوں تحریر میں کیوں نہیں ہوسکتی۔
وہ کہتے ہیں‘‘لفظوں کا استعمال سوچ سمجھ کر کرو۔ لفظ بڑے منتقم مزاج ہوتے ہیں۔’’ یہ انتقام بھی لیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جگہ بد احتیاطی سے استعمال کیے گئے تمہارے لفظ گلے کا پھندہ بن جائیں اور میں کچھ بھی بے احتیاطی سے استعمال نہیں کرتی ۔۔۔۔ ہاں۔ مگر لف٭۔۔۔
سوچ کدھر بھٹکتی ہے ۔۔۔۔۔۔جدھر بھی ۔۔۔۔۔۔بھٹکنے دو۔
سوچ کی آوارگی کیا آوارگی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔نہیں ہے۔
گوتم بدھ کے سنگی مجسمے کے سامنے کنول آسن بٹھائے وہ مراقبے کی کسی کڑی خود احتسابی منزل سے گزر رہی تھی کہ اسے کندھے پر کسی کی انگلیوں کی گرفت کا احساس ہوا ۔ آنکھیں کھولے بغیر ہی اس نے جان لینا چاہا کہ کون ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کا وہی دوست ہے۔ جو ایک ادھورا اور ان کھلا منافق ہے۔ تم چلو میں آتی ہوں۔
اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔ سامنے بیٹھے گوتم کو دیکھا۔ گوتم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کسی مشابہت سے اس کے وجدان نے ٹھوکر کھائی۔ گوتم کے موٹے موٹے ہونٹوں کی مشابہت سے اس کے وجدان نے ٹھوکر کھائی۔ گوتم کے ہونٹوں کی مشابہت اور مسکراہٹ ۔۔۔ وہ حال کا لمحہ اور ماضی کا کوئی لمحہ مل کر ایک دم حال کے لمحے کی کوکھ میں اترے۔ کیا سارے زمانے یکجا ہوسکتے ہیں؟ ہو بھی سکتے ہیں۔ بلکہ ہو رہے ہیں۔ گوتم کے موٹے موٹے ہونٹ ۔۔۔۔۔۔مسکراہٹ ۔۔۔۔۔۔یہ سب کہیں غلط ملط ہو رہے ہیں ایک پیکر اس کے اندر ڈھلتا ہے سماتا ہے اور پھر نکلتا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ ایک منٹ کا شاید دسواں حصہ تھا۔ جب اس کی ساری حسیں ایک ہی نقطے پر یکسو ہوگئی تھیں۔ احساس کی نرم چادر پورے بدن کے ساتھ لپٹ گئی تھی۔
گوتم اب اسے گھور کر دیکھ رہا ہے۔ آنکھ میں شناسائی کا چکر ہے۔ وہ آنکھ چُرا جاتی ہے۔ کنول آسن ڈاٹے گوتم کے آسن کے وسط میں جاتا اس کا دماغ ٹھوکر کھاتا ہے۔ اسے یاد آتا ہے ازمیر کی اور اس کی لڑائی اور جنگ و جلال۔
یو نہیں بیٹھے بٹھائے۔۔۔۔’’گوتم بدھ ‘‘ اسلم انصاری ‘‘کی نظم ’’تمام دکھ ہے‘‘ سے بات چل نکلی تھی۔
یار کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔گوتم بدھ impotent تھا۔
کیا مطلب؟ وہ حیران ہوئی مگر اس کی بیوی ’’یشودھرا‘‘اور بچہ ۔۔۔ کیا سمجھتے ہو تم کہ ۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں یار۔ دیکھو یوں بارہ سال تک ایک ہی آسن میں بیٹھے رہنا I think not کہ کوئی نارمل مرد بیٹھ سکتا ہو۔۔۔ وہ کچھ الجھ سا گیا، میں اکثر سوچتا ہوں۔
وہ نارمل مرد تھا کب؟ وہ ایک غیر معمولی مرد تھا۔ اور اس کا کمال یہی تھا کہ وہ ایک نوجوان بیوی اور بچے کو چھوڑ کر آیا۔ پوری قوتِ ارادی کے ساتھ بیٹھا رہا اور جب نجات پا گیا تو پھر انہیں لوگوں کی طرف، اسی بھرپور زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ کیا یہ ہجرت اور مراجعت تمہیں ایک عام سی چیز لگتی ہے؟ ہجرت اور مراجعت نہیں معراج کہو یار ۔۔۔ یہ اس کی معراج تھی ہاں اور اگر تمہاری بات مان لی جائے تو ایک بہت بڑے thesis کا antithesis ہوجاتا ہے۔ وہ اگر impotent تھا۔ پھر تو اس کی ساری سرگرمی اور ریاضت ایک عام آدمی کی سرگرمی ہوگئی۔ اس میں خاص تو کچھ رہا نہیں پھر۔
اور اس thesis کا antithesis نہیں ہونا چاہیے۔ تمہارے جیسے سر پھروں کو اخلاقاً قانوناً کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کی عقیدت کا مذاق اڑائیں۔
گوتم بدھ کے ہونٹ اور مسکراہٹ۔۔۔ وہ پوری آنکھیں کھول کر ماضی کے اس لمحے کی گرفت کو حال میں کھینچ لائی۔۔۔ آوازوں پر آوازیں پڑ رہی تھیں۔ تلملا کر اس نے دیکھا۔ پورا تعلیمی یونٹ اسے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔
کم بخت ایک تو یہ لوگ جان نہیں چھوڑتے۔ آدمی اس دنیا میں تنہا کیوں نہیں ہے؟
کھانے کی بے ڈھنگی کوشش کے دوران اس نے سامنے بیٹھے بلال سے سوال کیا۔
کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ماضی کا کوئی گزرا ہوا لمحہ حال کے لمحے میں آ کر پیوست ہوجائے اور کسی زندہ انسان کی شبیہ کسی معروف مذہبی نمائندہ مجسمے کے اندر سما جائے۔
ہاں ہو سکتا ہے۔ تمہیں دن دہاڑے التباسِ نظر ہو رہا ہے۔
نہیں۔ نہیں تو۔۔۔۔ تم میری ذہنی اذیت کے مرحلہ وار اسباب کو تو جانتے ہو ناں؟ وہ پورا سینا ریو تمہارے سامنے ہے۔ ایک situation تمہیں دیتی ہوں ذرا غور کرنا ۔۔۔
میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی مجھے پکڑے اور انہیں بھی(میرے محبوب کو) ۔۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو کسی وسیع و عریض پھٹے پر رکھ کر ہم دونوں کا قیمہ بنا کر آپس میں یوں ملا دے جیسے گندم کے دانوں کی انفرادیت پسے ہوئے آٹے کی اجتماعیت میں بدل جاتی ہے۔ اور میری اس انتہائی شدید خواہش کا پتا اگر میرے دشمن (رقیب )کو لگے تو سوچو اس کی کیا حالت ہو۔
اس بے چارے کے جذبۂ انتقام کی تو ماں ۔۔۔۔۔۔ بلال نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا ۔
۔۔۔۔
عمر افتخار ۔۔۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان پولیس آفیسرکتابوں کی معلومات پر انحصار کرنے والا۔ تشدد کی بجائے مذاکرات پر یقین رکھنے والا۔ بودا بچہ نہ جانے کچھ عرصے سے اتنا تشدد پسند کیسے ہو گیا ہے۔ عجیب و غریب بات تھی محبت انسان کو تشدد پسند بھی بنا سکتی ہے۔ شام کے کھانے کے بعد محمود عباسی ابھی تک کھانے کی میز پر بیٹھا تھا اور مسلسل اس ان دیکھی لڑکی کو سوچے جارہا تھا۔ عابد سپاہی نے کئی بار کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا مگر ہر بار اس کو خاموشی سے سوچوں میں گم سگریٹ کے کش لگاتے دیکھ کر چپ چاپ واپس لوٹ گیا۔ لگتا ہے صاحب کے پاس کوئی مشکل کیس آ گیا ہے۔ عابد جانے کیوں بار بار صاحب کا دروازہ کھول بند کر رہا ہے، سپاہی شبیر نے سوچا۔ سوچ کیسے ایک فرد سے دوسرے فرد تک سفر کرتی ہے۔ سوچ کے اندر کتنے امکانات ہیں کتنے گمان ہیں۔ عمر افتخار اس کو سوچتا ہے۔ محمود عباسی، عمر افتحار کو سوچتا ہے، محمود عباسی کو عابد سپاہی اور عابد سپاہی کو شبیر سپاہی بھی سوچتا ہے۔ شبیر سپاہی کو بھی کوئی سوچتا ہوگا۔۔۔۔۔۔امکانات کا سلسلہ لا محدود ہے۔
وہ لڑکی عمر افتخار کی ان نفسیاتی وجوہات کی محرک ہے۔ یہ بے وقوف اس سے محبت کرنے لگا ہے اور وہ اس کی محبت کو تسلیم نہیں کرتی۔ تبھی اتنی آزادی سے اس کے ساتھ آزادانہ بک بک جھک جھک کرتی رہتی ہے۔ اور یہ بے وقوف سیریس ہوتا رہتا ہے۔ میں اس کو سمجھاؤں گا۔ ہاں ضرور سمجھاؤں گا اور پھر کسی فیصلے پر پہنچ کر وہ یک دم مطمئن ہوکر بستر پر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
آج ان کے تعلیمی دورے کا آخری دن تھا۔ وہ آخری مرتبہ گوتم بدھ کے اس سنگی مجسمے کے سامنے بیٹھ کر سیمیائی طلسم دیکھنا چاہتی تھی تاکہ کسی کے پیکر کو گوتم کے مجسمے میں ڈھلتے اور پھر نکلتے دیکھ سکے۔ اور اس لمحے میں گوتم کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں کی رسالت میں قید کرے۔ کہ اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ عمر افتخار کا فون تھا۔ کہاں ہو؟ کیا کر رہی ہو؟
پہاڑوں میں ہوں۔۔۔ پوجا پاٹھ کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔تم سناؤ؟
ہاں بس ٹھیک۔ تمہیں ایک واقعہ سنانے کے لیے فون کیا ہے۔
تو سناؤ۔
بد صورتیوں میں سے خوب صورتیاں تلاش کرنا، پہاڑوں کے اندر جھرنے ڈھونڈنا، مٹی کی گہری تہوں سے سونا اور ہیرے تلاشنا اور سنگی مجسموں کے اندر روح لپکنے کے انتظار میں رہنا تمہارا مشغلہ ہے ناں۔ وہ عجیب سے انداز میں بول رہا تھا جیسے دکھی بھی ہو اور طنز بھی کر رہا ہو۔
ہاں ۔۔۔ اس نے مختصر جواب دیا۔
تتلی کو پکڑ کر بچے کیوں مسل ڈالتے ہیں؟ پھول کو توڑ کر مرجھانے کے لیے کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عورت کے بدن کا سب سے خوب صورت، نازک اور لطیف حصہ اس کے ساتھ تم مرد لوگ کیا سلوک کرتے ہو؟ کیا یہ ساری حسین، نازک اور لطیف اشیاء اتنے ظالمانہ سلوک کی حقدار ہیں؟ یہ سب سوال تمہارے قائم کردہ ہیں ناں؟
ہاں ۔۔۔ اس نے پھر اقرار کیا
تم ہی کہا کرتی تھیں۔ تشدد کے اندر سے حظ کشید کرو۔ ہر چیز سے لطف اٹھاؤ۔ تم خود تو جو بھی ہو جیسی ہو، ٹھیک ہو۔ مگر مجھے تو ایسا نہ بناتی تمہیں معلوم بھی تھا میرا فیلڈ اور ہے، میرے مسائل اور ہیں۔
ہوا کیا ہے؟ عمر افتخار تم اس طرح کی باتیں کیوں کررہے ہو، وہ پریشان ہو گئی۔
اس لیے بتا رہا ہوں کہ آئندہ تم کسی کو اس کے فریم سے باہر نکالنے کے جرم کا ارتکاب نہ کرو۔ تم نہیں جانتیں میں نے آج تشدد کر کے ایک مجرم کو expire کر دیا ہے۔ اور اب 302 کے کیس میں جیل جانے والا ہوں۔
یونٹ کے لوگ اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے گوتم بدھ کے مجسمے کے پاس آئے تو وہ گوتم بدھ کے بازوؤں میں گری پڑی تھی۔ قریب ہی اس کے بائیں ہاتھ کے نیچے اس کا موبائل فون بکھرا پڑا تھا۔