کراری باتوں کے گرد لگے مجمعے

Naseer Ahmed
نصیر احمد

کراری باتوں کے گرد لگے مجمعے

از، نصیر احمد

کراری باتیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں ان کے گرد جھمگٹا تو لگا رہتا ہے لیکن فائدہ کیا؟ کراری کہنے والوں کو تو فائدہ ہوتا ہے، دولت، طاقت اور شہرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تمھیں کیا ملتا ہے؟ کراری باتوں پر ایمان لاؤ تو حماقت اور قَساوَت سے لبریز ایک شخصیت جو فکر و فعل و عمل میں خِرد، صداقت، عمدگی، نفاست، شرافت، تخلیق، ترتیب، اخلاقیات اور انسانیت کے غیاب کا ثبوت بن جاتی ہے۔

اور جو نہ ایمان لاؤ تو ضیاعِ وقت۔ دونوں صورتوں میں نقصان ہی نقصان ہے۔ کبھی کبھار شاید ٹھیک ہوتی ہیں لیکن طرزِ حیات کے طور پر اس پر شور بے معنویت کا کیا فائدہ۔

فلسفے میں کچھ بیانات ہوتے ہیں، منطقی بنیادوں پر جن کی سچائی کی تصدیق کی جا سکتی ہے جیسے ‘سب کنوارے غیر شادی شدہ ہوتے ہیں، دو اور دو کو جمع کریں تو چار بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اور بیانات کی دوسری قسم ان بیانات کے متعلق ہے جن کی سچائی کا تعلق تجربے سے ہے جیسے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، فرانس برّ اعظم یورپ میں واقع ہے، وغیرہ وغیرہ۔

فلسفیوں کا ایک گروہ تھا، منطقی مثبیت پسند، یہ لوگ علم کو بیان کی انھی دو قسموں تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔
اگر ان کے سامنے کہیں کہ عالیہ بہت خوب صورت ہے، عادل منصف ہے، شیخ صاحب کو پریاں نظر آئیں تو وہ سب یہ کہیں گے کہ ان بے معنی باتوں کا کیا فائدہ۔

بہرحال ان لوگوں کی وجہ سے دلیل و ثبوت کی اہمیت میں کافی بڑھوتری ہوئی جس کی وجہ سے پالیسیوں کا معیار بھی بہتر ہوا۔
پھر قانون دانوں کی بیانات کی تصدیق کے معیار ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ اہمیت بارِ ثبوت کی ہے کہ بیان کے حق میں ثبوت اسی نے دینے ہوتے ہیں جس نے بیان دیا ہوتا ہے۔

اس کے بعد شواہد کے سائز کی باری آتی ہے کہ کسی بیان کے حق میں کتنے زیادہ ثبوت موجود ہیں۔ اور اسی بات کو ذہن میں رکھ کر بات کا معیار پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر وہ ثبوت اہم ہوتے ہیں جو اس قدر صاف اور واضح ہوتے ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پھر سائنسی معیار بھی ہیں جن میں مشاہدے، مفروضے، تجربے اور نتیجے کا ایک سلسلہ ہے اور بات کی معنویت اس سلسلے کے پُرخلوص قیام سے منسلک ہوتی ہے۔

پھر شاعروں اور فلسفیوں کے ارشادات ہوتے ہیں، یہ ایک طرح کی دعوت فکر ہوتی ہے جس میں سائنسی طریقۂِ کار پر پوری طرح سے عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا، لیکن ان میں بھی بیان کے منطقی اور تجرباتی صداقتوں سے ایک گہرے تعلق کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔
پھر تصور اور تخیل کا قصہ ہے ان کا اعتبار بھی حقائق سے متعلق ہے۔ اگر تصوّراتی اعمال زندگی کے حقائق پر مبنی ہوں تو ایجاد و دریافت کے در کھلتے ہیں اور اگر زندگی کے حقائق سے دور ہوں گے توخُرافات کے ڈھیر کے ڈھیر بنتے جاتے ہیں۔
اور صحافتی صداقتیں بھی بنیادی طور پر حقائق جاننے کے انھی معیاروں کے گرد جانی اور پرکھی جاتی ہیں۔

سچائی خبر کی دل و جان ہوتی ہے۔ اور صحافی کسی مخصوص گروہ کے کارندے نہ ہوں۔ اور خبر کو ہر ممکن زاویے سے cover کیا گیا ہو۔ یہ نہ ہو کہ خبر سے جس کا معاشی، سیاسی، سماجی زیاں ہو رہا ہو، اس کا نقطۂِ نظر ہی خبر میں موجود نہ ہو۔ ایسا بھی نہ ہو کہ خبر کسی کو نقصان پہنچانے کی آلۂِ کار بن جائے۔ اور صحافیوں میں خود احتسابی کا نہ صرف جذبہ ہو بلکہ پیشے میں خود احتسابی کا نظام بھی موجود ہو۔

اب جب شاہین ڈھیر ہوں گے تو ہمارے منطقی مثبیت پسند تو پرندوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگیں گے۔ کرکٹ ٹیم کی ہار کی خبر تو ان تک کبھی پہنچ ہی نہیں پائے گی۔ ہمارے قانون دان بھی بوکھلا جائیں گے کہ یہ لوگ پرندوں کو کیوں مار رہے ہیں۔ سائنس دان شاید پرندوں کو کرکٹ سکھانے پر تحقیق کرنے لگیں۔ فلسفیوں کے مضامین کا بھی حقائق سے تعلق ٹوٹ جائے گا اور شاعر بھی واہی تباہی بکنے لگیں گے۔ کچھ اپائے بھی نہ ہو سکے گا اور نہ کچھ ایجاد ہو پائے گا اور نہ کچھ دریافت۔


متبادل رائے کے لیے دیکھیے: سچ کی اقسام از، عرفان حسین


کراری باتوں کا یہ نقصان شاید ہم لوگوں کی تفہیم میں آ نہیں رہا۔ ہمارے لیے سچ معاشرتی گفتگو سے غائب ہوتا جا رہے۔ اب کرارا، چٹخارے دار، بھڑکیل پن صداقت کا دشمن ہے اور ہم کرارے کے حامی ہیں تو ایک طرح سے ہم اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک میں پانی نہیں چاہیے، ہسپتال نہیں چاہییں، اچھے سکول نہیں چاہییں، اچھی مصنوعات نہیں چاہییں، مہارتیں نہیں چاہییں، صلاحیتیں نہیں چاہییں، قابلیتیں نہیں چاہییں، اچھے کارخانے نہیں چاہییں۔

اگر چاہیییں تو صداقت، دلائل، شواہد پر مبنی آزادانہ معاشرتی مکالمے کے بغیر یہ سب کیسے ملیں گے؟ یا پھر انتظار حسین کے شیخ عثمان کبوتر پھر سے اڑیں گے اور یہ ساری چیزیں پھڑ پھڑ کرتی نیچے گریں گی؟ اس لیے اچھا ہے کہ اگلی بار کسی کراری بات کے ارد گرد مجمع لگانے سے پہلے ہم ثبوت و شہادت کے مختلف معیار بھی ذہن میں رکھیں تو شاید کچرا بات چیت سے کچھ محفوظ ہو جائیں۔