راولپنڈی کی لال کرتی
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کبھی کبھی یوں ہوتا ہے، کسی جگہ کے تصورسے اس سے جڑی یادیں انگڑائی لے کے بیدار ہوجاتی ہیں۔ راولپنڈی کی لال کُرتی بھی ایک ایسی جگہ ہے، جس کے خیال سے بہت سی یادیں آنکھیں جھپکتی میرے ارد گرد آ بیٹھی ہیں۔
لال کُرتی کی میری اولین یاد میرا پرائمری سکول ہے، جو ماموں جی روڈ پرایوب ہال کے سامنے تھا۔ مجھے یاد ہے، تیسری جماعت میں جب میں سکول میں داخل ہوا تو اور سوالوں کے علاوہ میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ لال کُرتی کا نام لال کُرتی کیوں ہے؟
بہت دنوں بعد ایک روز ہمارے ایک استاد نے یہ الجھن آسان کر دی، انہوں نے بتایا کہ لال کُرتی سے پہلے اس جگہ کا نام برٹش انفنٹری بازار تھا، یہ گوروں کی چھاؤنی تھی، رائل برٹش انڈین آرمی کے یونیفارم میں لال رنگ کی شرٹ ہوتی تھی، یوں اس علاقے میں ہر طرف یہی رنگ نظرآتا تھا، اس لیے اس کا نام لال کُرتی مشہور ہو گیا۔
پاکستانی اورہندوستان کے کئی شہروں میں جہاں چھاؤنیاں تھیں، وہاں لال کُرتی کاعلاقہ بھی تھا۔ دہلی، انبالہ، میرٹھ، کان پور، پشاور، لاہور وغیرہ میں ایک عدد لال کُرتی تھی۔ بعد میں نہ تو وہ رائل آرمی رہی اورنہ ہی وہ لال رنگ کی کُرتی، جو وہ پہنا کرتے تھے، سو لا ل کُرتی کا نام طارق آباد رکھ دیا گیا، لیکن لال کُرتی کا رنگ اتنا کچا نہ تھا سو ابھی تک لوگ اسے پرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔
راولپنڈی کی لال کُرتی، چھاؤنی کے علاقے کا دل تھی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ میری طالب علمی کے زمانے میں عسکری اورسیاسی مراکز لال کُرتی میں واقع تھے۔ میرے سکول سے کچھ فاصلے پرجی ایچ کیو تھا، ایک آرمی میوزیم تھا، سی ایس ڈی ڈیپارٹمینٹل سٹورتھا، کمبائنڈ ملٹری ہسپتال تھا، سکول کے بالکل سامنے ایوب ہال کی عمارت تھی، جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔
یہ ساٹھ کی دھائی کا زمانہ تھا صدر ایوب خان نے کراچی سے دارالخلافہ اسلام آباد منتقل کر دیا تھا۔ قومی اسمبلی کی عمارت زیرِ تعمیر تھی، اس لیے کچھ عرصے کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس ایوب ہال میں ہوتے تھے، جہاں اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکرمولوی تمیز الدین کی آواز گونجا کرتی تھی۔
اب ایوب ہال کے سامنے والی سڑک مولوی تمیزالدین کے نام سے موسوم ہے۔ ایوب ہال اورمیرے سکول سے آگے بڑھیں، تو بائیں ہاتھ پر ایک سنیما ہال تھا، جس کا نام تصویرمحل تھا، جہاں ہر نئی فلم کی آمدپر بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ تصویر محل کے ساتھ ایک پکچر فریمنگ کی دکان تھی، جواپنے زمانے کی ایک معروف دکان تھی۔
تصویر محل کے سامنے بھی کچھ دکانیں تھیں، گرمیوں کے موسم میں ایک ریڑھی پرشربت بکتا تھا، مجھے یاد ہے، ایک بارمیں نے وہاں سے چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈا شربت پیا تھا ۔
لال کُرتی کی ایک اہم عمارت زلفِ بنگال تھی ۔ یہ عمارت ایک صاحبِ ثروت ہندو تاجر ایشر داس کی ملکیت تھی۔ ایشر داس ‘زلفِ بنگال، کے نام سے تیل بنایا کرتا تھا، جو متحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں مقبول تھا، اسی مناسبت سے اس عمارت کا نام بھی زلفِ بنگال رکھا گیا۔
ذرا اورآگے بڑھیں، تو بائیں ہاتھ ‘بگا ہوٹل تھا، جہاں ہر وقت گاہکوں کی بھیڑ ہوتی، اس کے ساتھ گڈ لک بیکری تھی۔ اس کے بالکل سامنے عید گاہ تھی، جہاں عید کی نماز کے علاوہ مذہبی اور سیاسی جلسے بھی ہوتے تھے۔ گڈ لک بیکری سے آگے لال کُرتی کی معروف پان شاپ تھی، جس کا نام دارالسرور تھا۔
یہ ایک چھوٹی سی دکان تھی، جس کے مالک حاجی محمد یوسف صاحب بہت نازک مزاج تھے۔ مثلاً، اگرکوئی کہے، اچھا سا پان بنا دیں، تو وہ چِڑ جاتے تھے اور کہتے تھے، یہاں سارے پان بہت اچھے ہیں، آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں۔ عقبی دیوار پر پانوں کے نام لکھے تھے۔
واہ واہ! حاجی صاحب کے ذہنِ رسا نے پانوں کے کیا کیا نام تخلیق کیے تھے۔ مثلاً، شامِ اودھ، چلتے چلتے، ہم سے نہ بولو، مغلِ اعظم، زینتِ لب، ہُو ہُو ہُو، اکیلے نہ جانا وغیرہ۔ مجھے یاد ہے، طارق عزیز نے اپنے مقبول ٹی وی شو ‘نیلام گھر’، میں اس پان شاپ کا خصوصی ذکر کیا تھا۔
پان شاپ سے آگے باٹا چوک ہے، چوک کے بائیں ہاتھ جائیں، تو کچھ دکانیں تھیں، ذرا آگے بڑھیں تو بائیں ہاتھ ایک گیٹ تھا اور گیٹ کے اندر مسیحی آبادی اور ایک چرچ تھا۔ پرائمری کے بعد میرا ہائی سکول بھی لال کُرتی ہی میں تھا، یوں لال کُرتی ایک طرح سے ہمارا صحن تھا، جہاں کے سب راستوں سے میں آشنا تھا۔
ہندوؤں کے بھی کئی مندر تھے، لیکن تقسیم کے بعد زیادہ ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی، لیکن اب بھی ایک بالمیکی مندر موجود ہے، جہاں ہندو عبادت کے لیے جاتے ہیں۔
ہاں تو میں احاطے کا ذکرکر رہا تھا، جہاں کرسمس کے موقع پر ہم بھی کرسمس کیک کاٹنے کی تقریب میں شریک ہوتے۔ احاطے سے ذرا آگے راولپنڈی پریزنٹیشن کانونٹ کی بلڈنگ تھی، اسی سکول میں بے نظیر بھٹو کچھ عرصہ زیرِ تعلیم رہیں اور پھر مری کے کانونٹ سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس سکول کا تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ہے۔
مزید دیکھیے: عاقل جس کا نام ہے
عزیز بھٹی روڈ پر آگے بڑھتے جائیں، تو دائیں ہاتھ ایک بڑی حویلی تھی، یہ حویلی اپنے زمانے کے مشہور وکیل خان بہادر قاضی نذیر احمد کی تھی۔ ان کے پوتے اور لال کرُتی کی ہردل عزیز شخصیت قاضی ندیم ہمارے دوست تھے۔ بائیں ہاتھ سکوائش کورٹس تھے، جہاں میرے دوست فہیم گل کا گھرتھا، جس کے والد وہاں کے سکوائش کورٹ کے کوچ تھے، بعد میں فہیم گل اوراس کے چھوٹے بھائی جمشید گل نے بھی سکوائش کی دنیا میں نام کمایا۔ میرا اکثر یہاں سے گزرتا تھا ،جس روز ہم نہ جاتے فہیم کی والدہ پوچھتی، آج تمہارے دوست کیوں نہیں آئے؟
سکوائش کورٹس کے بالکل سامنے شالیمار ہوٹل کی تعمیر ہمارے سامنے شروع ہوئی، سکوائش کورٹس کی دیوارسے جڑی ہوئی دیوار انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کی تھی، جواب پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کہلاتا ہے۔
اب ہم واپس باٹا چوک آ جاتے ہیں اور لال کرتی کے تنگ بازار میں داخل ہوتے ہیں، جس کے آغاز میں ہی مٹھائی کی دکان تھی، جہاں کے متھرا کے پیڑے بہت مشہور تھے۔ ذرا آگے بائیں ہاتھ سلیم چاٹ ہاؤس تھا، جہاں ہم اکثرجایا کرتے، آگے بڑھتے جائیں، تو لدھیانہ ہوٹل تھا، جواپنی چائے کے لیے مشہور تھا۔ ساتھ حاجی صاحب کا ہوٹل، جو تڑکے والی دال کے لیے جاناجاتا تھا۔
بائیں طرف والی سڑک پر لطیف کی تکہ شاپ تھی، اس کی خاص بات اس کا معیار تھا، وہ محدود مقدا ر میں تکے اورکباب بنا کر فروخت کرتا اور سامان ختم ہونے پردکان بند کر کے گھر چلا جاتا۔ لطیف تکہ شاپ سے ذرا آگے کونے میں ملا کا ہوٹل تھا، یہاں کی چائے کا اپنا ذائقہ تھا، اتنی اچھی چائے میں نے پھرکہیں نہیں پی۔ اگرآپ پورا کپ چائے نہ پیناچاہییں، توآدھا کپ بھی آرڈر کرسکتے تھے، اسے کٹ (cut) کہاجاتا تھا۔ سنا ہے، ملا ہوٹل کی جگہ بدل گئی ہے، مگر چائے کا وہی معیار ہے۔
مجھے لال کُرتی کو دیکھے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔ کبھی جی چاہتا ہے، انہیں راستوں پر پھر جاؤں، لیکن سنا ہے، وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرے پرائمری سکول کی عمارت میں ایک ٹینٹ سروس کا دفتر بن گیا ہے۔ سکول کے باہر سایہ دار درخت اب کٹ چکا ہے، ایوب ہال میں ایک سرکاری دفتر بن گیا ہے۔ تصویر محل سینما کی جگہ اب خاک اُڑ رہی ہے۔ دارالسرور پان والے حاجی یوسف اپنے خوش رنگ اور خوش نام پانوں سمیت اجل کے دھندلکوں میں کھو گئے ہیں۔
احاطے میں رہنے والے میرے دوست نوکریوں کی تلاش میں ملک سے باہر گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ لطیف تکہ شاپ کا لطیف مدتوں پہلے اپنی دکان بڑھا گیا۔ سنا ہے فہیم گل وطن سے دُور آج کل امریکہ کے ایک شہر میں سکوائش سکھاتا ہے۔ اور میں؟
میں اس وقت یہ کالم راولپنڈی سے بہت دور ایک شہر میں لکھ رہا ہوں، میرے کمرے کی کھڑکی کے بالکل سامنے ایک خوب صورت پارک ہے، میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہوتا ہوں، کھڑکی سے باہر بارش ہونے سے ذرا پہلے کی تیز ہوا چل رہی ہے، درختوں سے سرخ پھول ٹوٹ ٹوٹ کر اِدھر اُدھر اُڑ رہے ہیں۔ لال کُرتی کے باسیوں کی طرح، جو کل تک تو یہیں تھے، لیکن اب ان منظروں کا حصہ نہیں ہیں۔
میرے دل میں اداسی کی ایک بے نام سی لہر اٹھتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پھر میں سوچتا ہوں، شاید زندگی انہیں منظروں کے بننے اور بکھرنے کا نام ہے۔