وولٹیئر کو روسو کی کون سی بات پسند نا آئی
از، نصیر احمد
اٹھارویں صدی کی تحریک خِرَد افروزی کے دو فلسفیوں روسو اور وولٹیئر میں فلسفے کے اہم موضوعات پر خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔ وولٹیئر سر سبز و خوش کُن (انگلستان) کے چکر لگا چکے تھے اور عقل مندی جو انگلستان کا خاصا سمجھی جاتی تھی، اس سے فیض یاب ہو بھی چکے تھے اور ان کی شہرت بھی بہت تھی کہ خرد کا مقدمہ اپنے ملک فرانس میں انھوں نے بڑی تندی و تیزی سے لڑا تھا۔
وولٹیئر کی طرز کی تُندی و تیزی انگلستان کے انگریزوں سے تو ممکن ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہاں تو آسمان بھی ٹوٹ پڑے تو مسکرا کر کہیں گے، دیکھتے ہیں، ذرا سانحہ دیکھنے کے لیے جو کپڑے بنوائے تھے، وہ ابھی سِل کر ہی نہیں آئے اور تم نے یہ کیا ہڑبونگ مچا رکھی ہے، مانا کہ آدھی دنیا برباد ہو گئی ہے مگر یہ آمد کا کوئی طریقہ ہے، نہ خط لکھا، نہ ملاقات کی درخواست بھیجی، نہ وقت طے کیا، گھنٹی بھی نہیں بجائی، اس افرا تفری سے دستورِ ملاقات کی پائیداری رنجیدہ ہوئی ہے، دنیا اتنے بُرے آداب سے کہاں ٹھیک ہو گی۔ دنیا بھی گئی، دستور بھی گیا، کچھ امید تو زندہ رہنے دیتے۔ تمھیں تو سودے کی روح کی کچھ خبر ہی نہیں ہے۔
اس طرح کی بات بھی کسی اپنے سے ہی کہیں گے، غیر کی طرف تو دیکھ کر خندہ پیشانی سے بس مسکراتے رہیں گے۔
وولٹیئر نے لیکن مِشن بنا لیا اور خرد کی مدد سے تسخیرِ کائنات کی حمایت میں وہ واویلا کیا کہ پورا فرانس گونج اٹھا۔ روسو کا نیا نیا ظہور ہوا تھا اور خرد اور تہذیب کے خلاف اشرف وحشی کے گُن گا رہے تھے اور اپنے اس تصور کے زیرِ اثر جنگل کی زندگی کے حسن و جمال کی انتہاؤں کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ایک طرح سے شامان (جنگل و صحرا میں رہنے والے قبائل کے روحانی و جسمانی طبیب) بنے ہوئے تھے۔ کبھی کوئل کی طرح کُوکتے، کبھی گھوڑوں کی آوازیں اپنے جبڑے کے طنبورے سے نکالتے، کبھی بھیڑیوں کی طرح ہُوکتے، کبھی ناگ کی طرح پھنکارتے، کبھی شیر کی طرح دھاڑتے اور کبھی گدھے کی طرح زمین پر لوٹ پوٹ جاتے کہ ان کے خیال میں فطرت سے والہانہ عقیدت ہی انسانیت کی راہِ نجات تھی۔
انہی انتہائی کیفیات کے زیرِ اثر انھوں نے وولٹیئر کو ایک نامہ بھیج ڈالا اور اشرف وحشی کی توصیف میں وہ مبالغے کیے کہ تند و تیز ہونے کے باوجود وولٹیئر بھی بوکھلا گئے۔ ان کی تندی و تیزی آگے بڑھنے کی حمایت میں تھی، روسو کا یہ ریورس گیئر انھیں کچھ بھایا نہیں۔ روسو تو اتنی تیزی سے ماضی میں جانے کے خواہش مند تھے کہ اپنے منور ظریف یاد آ جاتے ہیں کہ کیسے فلم میں انھوں نے دُلہا کی گھوڑی ریورس گیئر میں دوڑائی تھی۔
لیکن روسو کی یہ عجلت وولٹیئر کو کچھ پسند نہیں آئی۔ انھوں نے روسو کو لکھ بھیجا کہ تم سے پہلے انسانوں کو درندہ بنانے میں اتنی لیاقت کسی نے صرف نہیں کی۔ تمھاری کتاب پڑھتے ہی جی چاہتا ہے کہ چاروں پاؤں پہ ہو جائیں لیکن زندگی کے ساٹھ برس بیتے، اب چاروں پاؤں پہ چلنے کی عادت ہی نہیں رہی اور ڈھلتی عمر نے اتنا ضیعف کر دیا کہ اب پھر سے یہ عادت سیکھ نہیں سکتے۔
لیکن ہمارے ہاں کے رَجعَت پرست پِیری ہو کہ جوانی یہ عادت سکھا دیتے ہیں۔ بات شروع ہوتے ہی وہ اتنی جذباتی انداز سے ماضی کی رَفعَتوں پہ تقریر کرتے ہیں کہ انسان مجبور سا ہو جاتا ہے کہ ایک آدھ صدی پیچھے ہی چلا جائے کہ کچھ بات تو ہو سکے۔ اب ایک صدی پر آپ نے یہ سمجھوتہ کیا تو ان کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور وہ اتنا شور مچاتے ہیں کہ آپ سوچتے ہیں کہ گفتگو تو تب ہو گی کہ اگر آپ چار پانچ ہزار سال پیچھے چلے جائیں۔
مزید دیکھیے: کیا ہمارا معاشرہ ہندو دیو مالائی کردار کُم کرن بن چکا ہے؟ از، ڈاکٹر محمود حسن
اب آپ اچھے منئی (منش) ، اب من میں سوچتے ہیں کہ رجعت پرست ہی سہی ہیں تو اپنے ہی، ان کے بھلے کے لیے تھوڑے پیچھ ہٹ گئے تو کیا ہَرَج ہے، بات تو سنیں گے، سنیں گے تو شاید سمجھ بھی لیں۔ اس طرح ماضی کا یہ سفر جاری رہتا ہے اور جب آپ بندر بن کر شاخ در شاخ چھلانگیں لگانا شروع کرتے ہیں کہ گفتگو ممکن ہو، وہ اپنی جیب سے آئی فون کا نیا ورژن نکالتے ہیں اور تازہ ترین فلموں کے بارے میں بات کرنے لگتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ مذہب اور ثقافت کے تحفظ کے نام پر لوگ تو اشرف وحشی اور چوپائے بنتے رہتے ہیں لیکن رجعت پسندوں کو سب پتا ہے کہ گاڑی گزر چکی ہے، اب تو پٹڑی بھی نہیں چمکتی۔ بس عمدہ اشیا تک اپنی رسائی کے لیے لوگوں کے لیے انھوں نے یہ کھیل رچایا ہے اور لوگ ماضی پرستی کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ جس کسی کو کھیل کا احساس ہو جائے،اسے کچھ حصہ دے دیا جاتا ہے اور جو عوام کا بہت ہمدرد بنے اس کے لیے تو بہت سارے حل موجود ہیں۔ غداری، غِیاب، بے حیائی، مغرب پرستی اور نہ جانے کیا کیا۔
رَجعَت پرستوں کو خبر ہے ماضی کے چند واقعات کی تفسیر سب سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو انھیں نئی گاڑی کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی۔ رجعت پرستوں کو علم ہے کہ موٹر وے پر اونٹوں کے قافلے نہیں گزارے جا سکتے اور ان کے پاس نئی سے نئی مصنوعات بھی ہیں لیکن لوگوں کو انھوں نے حُدی خوانی پر لگا رکھا ہے۔ لوگوں کا تو نقصان ہی نقصان ہے، وہ اپنی ہی دولت کے ذریعے اپنی ہی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں مگرکبھی خبرہی نہیں ہوتی اور کبھی خوف کچھ کرنے ہی نہیں دیتا۔
لوگ تو عہدِ زَرّیں کے شارحین کی سَمِت جوابوں کے لیے دیکھتے ہیں مگر خواب کھو بیٹھتے ہیں۔ اب لوگ وولٹیئر کی طرح فلسفی تو نہیں ہیں کہ ماضی کی طرف جانے سے انکار کر دیں، مگر لوگوں کو کرنا تو وہی پڑے گا جو وولٹیئر نے کیا تھا، ورنہ وہ مسلسل عزت، دولت، صلاحیت اور زندگی سے محروم ہوتے رہیں گے۔