عقدہ ہائے سیاست اور نا دیدہ قوتیں

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

عقدہ ہائے سیاست اور نا دیدہ قوتیں

از، ملک تنویر احمد

اس ماہ کے اختتامی ایام میں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے انتخابی معرکے میں بر سرپیکار ہوں گی تو اس کے ساتھ چند ایک سیاسی جماعتوں کو ان ’’غیر مرئی قوتوں‘‘ سے بھی نبرد آزما ہونا پڑے گا جو اس وقت مطلوبہ انتخابی نتائج کے حصول کے لیے پوری طرح سرگرم ہو چکی ہیں۔

اس بار پاکستان مسلم لیگ نواز ان ’’نا دیدہ قوتوں‘‘ کے بارے میں سب سے زیادہ شکوہ کناں ہے کہ جو اس کے بقول جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے پوری طرح متحرک ہو چکی ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں ہمہ وقت متغیر حالات و واقعات کا کرشمہ ہے کہ جس جماعت کو ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ نے پال پوس کر بڑا کیا اور اس پر یہ پوری طرح مہربان رہے اب وہی جماعت ان کی سب سے بڑی ناقد اور حریف ابھر کر سامنے آئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کا ماضی بلا شبہ شرم ناک حد تک ان نا دیدہ قوتوں کے ساتھ سازباز کر کے سیاسی مخالف حکومت کو تہہ و بالا کرنے سے داغ دار ہے اور اسے اپنے ماضی کے اس گھناؤنے کردار پر سر عام شرمساری کو بھی مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ گناہ اور غلطی پر معافی کے بغیر ان کی سیاہی مٹ نہیں سکتی۔

تاہم آج پاکستان مسلم لیگ نواز جن حالات کا شکار ہے اور اسے انتخابی میدان سے باہر نکالنے کے لیے جو جتن کیے جا رہے ہیں وہ کسی طور ملک میں ایک مثبت سیاسی سرگرمی کی جانب اشارہ نہیں کرتے کہ جس کے بل بُوتے پر ایک اگلی حکومت منتخب ہو کر ملک کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں تھامے۔

ملک میں انتخابات کے لیے ہر سیاسی جماعت کو ہموار انتخابی میدان فراہم کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اولین فرض ہے اور ان تمام عوامل کی روک تھام بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ جو منصفانہ انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکا سکتے ہیں۔

اب اگر ایک سیاسی جماعت کو ان نا گفتہ بہ حالات کا شکار ہونا پڑے گا جن سے پاکستان مسلم لیگ نواز گزر رہی ہے تو پھر منصفانہ اور صاف و شفاف انتخابات محض ایک خواب کی صورت میں ہی رہ جائیں گے۔ اچانک پردۂِ غیب سے ن لیگی انتخابی امیدواروں کے خلاف جو کارِ روائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں اس سے دل و دماغ میں شک و شبہ جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ کہیں یہ کسی خاص منصوبے کا حصہ تو نہیں۔

کئی برسوں سے چلنے والے منصوبوں میں بد عنوانیوں کی شکایات کا اچانک منظرِ عام پر آنا اور اس پر نیب کی کار روائیاں دماغوں کو ششدر کر دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ سب اتفاقاً نہیں ہو رہا بل کہ اس کے پس پردہ وہ ذہنیت کا رِ فرما ہے جسے بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے والے فرد کی بصیرت پر قطعاً اعتبار نہیں ہے کہ وہ ایک صحیح نمائندے کا انتخاب کر پائے گی۔

یہ ذہنیت روزِ اول سے اس ملک میں ووٹر کی بصیرت کی بجائے اپنی فکرکی ٹکسال میں ڈھلنے والے منصوبوں سے اس ملک میں حکومتوں کے مقدر کا فیصلہ کرتی چلی آئی ہے۔ صد افسوس کہ یہ ذہنیت یہ کام اکیلے انجام نہیں دیتی بلکہ ہر دور میں اسے مختلف سیاسی جماعتوں کی صورت میں ایسے حلیف ملے کہ جن کا مطمعِ نظر ہر صورت میں اقتدار کا حصول تھا جس کے لیے انہیں اپنے سیاسی نظریات سے بھی دست بردار ہونا بھی منظور ہوتا ہے۔


مزید دیکھیے: چیلیانوالہ، پنجابی مزاحمت کا آخری مورچہ


یہ جو آج ان نادیدہ قوتوں کے لاڈلے بنے پھرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے لیے اپنے تمام سیاسی نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہ خوش فہمی کا شکار ہیں کہ اس طرح سمجھوتوں سے وہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ کے کلی طور پر مالک ہوں گے۔ جو خفیہ ہاتھ کسی خاص جماعت کو اقتدار میں لاسکتے ہیں وہ انہیں بیچ چوراہے میں ننگا بھی کر سکتے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتیں آج تک یہ سبق نہیں سیکھ سکیں اس لیے تو ہر بار شرمساری و خجالت ان کے مقدر میں ہی آتی ہے۔ اگلے انتخابات کے لیے جو گرد اڑ رہی ہے اس میں پاکستان میں سیاسی استحکام اوجھل ہو چکا ہے۔ اگر ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگا کر اس سے انتخاب لڑنے کا حق چھینا جائے اور ایک دوسری جماعت پر نوازشات اور عنایات برس رہی ہوں تو پھر مطلوبہ انتخابی نتائج کا حصول نا ممکن نہیں ہوتا، تاہم اس سے ملک میں سیاسی استحکام کی توقع لگانا عبث ہو گا۔

اب یہ بھی خوب ٹھہرا کہ اس ملک میں فقط نواز شریف اینڈ کمپنی ہی بد عنوان عناصر ہیں اور ان کے احتساب سے یہ دھرتی پِویتر ہو جائے گی۔ نواز شریف اور اس کا خاندان یقینی طور پر بد عنوان ہے اور ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ لیکن کیا فقط نواز شریف اور اس کا خاندان ہی کرپٹ ہے؟ کیا ہم ایک شخص پر احتساب کے سارے تیر چلا کر اس سارے احتسابی عمل کو مشکوک تو نہیں بنا رہے؟

انتخابات کے موقع پر نواز لیگ کے رہ نماؤں کی نا اہلیاں ا ور گرفتاریاں اور ان کی انتخابی امیدواروں کا اچانک تبدیل شدہ وفاداریاں کسی خاص منصوبے کا حصہ تو نہیں کہ جس کے تحت ان سیاسی جماعت کو بے دست و پا کر اسے انتخابات میں ایک کمزور جماعت ثابت کرنا ہے۔ ن لیگ کا بھرکس نکالنے کے لیے ایک خطرناک طریقۂِ کار پر مذہبی جذبات کو بھڑکا کر رائے عامہ کو اس کے خلاف کرنا ہے۔

نوا ز لیگ پر مذہب مخالفت کے گھناؤنے الزامات لگا کر انہیں اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قرار دینا ایک متشدد سوچ کی عکاس ہے کہ جس سے محدود انتخابی مقاصد کی آبیاری تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے دور رس نتائج بڑے بھیانک اور خطرنا ک ہیں۔ یہ عمل ایک منقسم شدہ معاشرے کو تقسیم (polarization) کی نئی کھائیوں میں دھکیل دے گا۔

اس وقت وہ سیاسی جماعتیں اور افراد جو ’خفیہ ہاتھوں‘ کی آشیر باد سے ملک کے اقتدار کے حصول کی متمنی ہیں ان کے کانوں کو یہ باتیں بھلی نہیں لگیں گی اور نا ہی ان کے حامی اس نوع کے حقائق پر نظر دوڑانے کا تکلف کریں گے۔ تاہم یہ تقسیم شدہ معاشرہ ان کو بھی نہیں بخشے گا جو آج اپنی کام یابی اور حریفوں کی ناکامی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ اب ایک ایسے معاشرے میں یہ بحث ویسے بھی لا حاصل ہے جہاں ایک جماعت کا قائد فقط وز یر اعظم بننے کے لیے سیاسی نظریات سے دست بردار ہونے کے الیکٹیبلز کا دستِ نگر بن جائے اور اس کے حامی اس بات پر مُصِر رہیں کہ سیاسی نظریات پر سمجھوتے کے بعد قائد محترم کو وزیر اعظم بن جانے دیں پھر وہ سب کے کس بل نکا ل دے گا۔

نظریات پر سمجھوتہ کر کے نا دیدہ قوتوں کے اشارے پر ناچ کر اقتدار پانے والے کس بل نکالتے ہیں یا ان کے کس بل نکال دیے جاتے ہیں اس کی تازہ اور عبرت ناک مثال نواز شریف اینڈ کمپنی کی صورت میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔