لوئیس لاری Lois Lowry کے ناول پر بنی فلم The Giver کی علامتوں کا مطالعہ
از، فرحت اللہ
دَا گیوَر، The Giver لوئیس لاری Lois Lowry کا یہ ناول ۱۹۹۳ میں سامنے آیا۔ جس پہ دو ہزار چودہ میں فلم بنی۔ یہ ناول امریکہ کے مڈل اور ہائی اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ آج اس فلم پہ بات ہو رہی ہے۔
فلم کی کہانی ایک ایسی الگ تھلگ، ماضی کی ہر یاد، دُکھ درد اور محبت و نفرت، ہمدردی اور ڈر سے خالی، بادلوں میں لِپٹی، واضح کَناروں boundaries and edges کی حامل کمیونٹی کی ہے، جو ما بعدِ جنگ کی محفوظ نسل پہ مشتمل ہے۔ اس میں یوٹوپیائی Utopian طرز کی زندگی گزارنے کے اصول و قواعد لاگو ہیں، اس کمیونٹی میں سب سے اہم چیز، جس کو رواج دیا گیا، کُلّی یکسانیت sameness ہے۔ بڑے elders جہاں حکومت کرتے ہیں۔ یہاں یکسانیت لباس سے لے کر گھروں کی تعمیر، تہذیبی اور معاشرتی رویّوں سے ظاہر ہے۔ اس فیکٹر کو نمایاں کرنے کےلیے فلم کا کچھ حصّہ بلیک اینڈ وائٹ دکھایا گیا۔
اس کمیونٹی میں بچوں کی جینیاتی تیاری (مصنوعی طریقۂ پیدائش) جُڑواں بچّوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ پیدائش کے بعد ان میں سے زیادہ وزن کے بچّے کو زندہ رکّھا جاتا ہے اور دوسرے بچّے کو کہیں بھیج دیا جاتا ہے۔ کسی کو خود سے بچّے پیدا کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی، بل کہ جو بچّے کمیونٹی میں زندہ رکّھے جاتے ہیں، اُنھیں مختلف جوڑوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
یہاں ہر ایک کسی مخصوص کام کے لیے اپنی جگہ پر موجود ہوتا ہے۔ کس کو کیا کام کرنا ہے؟ یہ کمیونٹی تجویز کرتی ہے۔ کمیونٹی میں رہنے والوں کےلیے کَناروں سے دُور رہنے کا حُکم ہے کیوں کہ ’کَناروں پر رہنے سے آدمی الگ سا ہوجاتا ہے‘ یا پھر ”یہاں (کَناروں) سے لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔“
فلم کی کہانی کے مطابق، جوناس نامی جوان والدین اور ایک بہن کے ساتھ اس کمیونٹی میں رہتا ہے۔ گریجویشن سے ایک دن پہلے اپنے دوستوں اَشر اور فیونا کے ساتھ بائیسکل پہ جاتے ہوئے اچانک سے ایک پرانی ذہنی واردات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے درختوں کی شاخوں کو چیرتی سورج کی کرنوں میں رنگ نظر آنے لگتے ہیں۔ اپنی دوست کے بالوں کا سرخ رنگ نظر آنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ پہلے بھی یہ وردات ہوتی رہی ہے۔ مگر وہ سب چونکہ رنگوں کی یاد سے دور رکّھے گئے ہیں، اس لیے وہ رنگ کو نام سے پہچان نہیں پاتا۔
گریجویشن کے موقع پر سب گریجویٹس میں ان کے مناصب تفویض کیے جاتے ہیں۔ جوناس کو ‘ریسیور آف میموریز’ کے منصب کےلیے چُنا جاتا ہے۔ اس منصب کا تقاضا ماضی کی یادوں کو سنبھالنا اور اُن کی روشنی میں کمیونٹی کے بڑوں Elders کو کمیونٹی کے مستقبل کے حوالے سے مُشاورت میں مدد دینا ہے۔ ’’ریسیور آف میموری‘ کو ماضی کی یادیں حوالے کرنے کا کام ’دَا گیوَر‘ کا ہے۔ دَ گیور کُتب خانے اور نقشے کی صورت میں ماضی کی یادوں کا رکھوالا ہے۔
ایک دن بچوں کے کیئرٹیکر/نرچرر Nurturer کا کام کرنے والا جوناس کے والد (جو درحقیقت اس کے اپنے والد نہیں ہوتے) نرچرِنگ سنٹر سے ایک بچّے گیب Gabe کو گھر لے آتے ہیں۔ یہ بچّہ گیب ایک بےچین روح کا مالک ہوتا ہے جو رات کو نہ سوتا ہے اور نہ سونے دیتا ہے۔ اُسے گھر لایا جاتا ہے تاکہ اُس کا مشاہدہ کیا جاسکے کہ اُسے (گیب) کسی کے حوالے کیا جائے یا اُسے کمیونٹی سے ”باہر بھیج دیا جائے!“ ۔ باہر بھیجنے کا مطلب کہیں بعد میں جوناس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب مار دینا ہوتا ہے۔ کمیونٹی میں سنگین جرم کرنے والے، قانون توڑنے والے، بوڑھوں اور گیب جیسے بچّوں کو باہر بھیج دیا جاتا ہے۔
جوناس جب دَا گیوَر سے ماضی کی یادیں وصول کرتا ہے تو اسے کمیونٹی کی یکسانیت سے الگ ہو جانے کا تَجرِبہ ہونے لگتا ہے۔ اُسے کمیونٹی کے بےرنگی اور یکسانیت کے برعکس رنگارنگی، خارجی رکھ رکھاؤ کے انجماد کی جگہ جذبات کی اندرونی تَحرّک، مَجہُول کردینے والے اصولوں کی جگہ آزادی سے پُھوٹتی سرمستی، سماج کے مُستَند ”عقلی“ رویّے کی جگہ تاریخ کے بہاؤ سے امُنڈتے شُعور کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔ وہ بدلنے لگتا ہے۔
جوناس دن کا انجکشن لینا بند کردیتا ہے تو اُسے خواب Dreams آنے لگتے ہیں۔ وہ خواب میں اپنی دوست فیونا کو دیکھنے لگتا ہے اور دَا گیوَر اُسے بتاتے ہیں کہ یہ محبت ہے، جو کہ احساس کی پیداور ہے۔ ایک دن اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس کے گھر آنے والے نَنھّے مہمان گیب کو کہیں اور بھیجنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، تو جوناس، جِسے ”کہیں اور بھیجے جانے“ کا مطلب معلوم ہو چکا ہوتا ہے، اُسے بچانے کا فیصلہ کرتا ہے اور کمیونٹی کی حدود سے نکل کر ماضی کی سب یادیں واپس کرنے کے دَا گیوَر کے منصوبے پر عمل کرنے کےلیے کمر باندھ لیتا ہے۔ فیونا اس کی مدد کرتی ہے جب کہ اُس کا دوست اَشر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جوناس نکل جاتا ہے اور کمیونٹی کے تعاقب کاروں کی نظروں کے سامنے سے کمیونٹی سے باہر جمپ کر جاتا ہے۔ تکالیف اور مشکلات کے بعد، آخرِ کار جوناس کمیونٹی کی حدود کو کراس کر جاتا ہے اور یادیں، ماضی کی، دُکھ درد، محبت، ہمدردی، تَعصّب، رواداری، حسد و رشک، ایمان کی یادیں واپس کمیونٹی میں لَوٹ کر آجاتی ہیں۔
اب فلم میں موجود علامات کی طرف آتے ہیں۔
۱: ریسیور آف میموری: فلم کے مرکزی کردار ‘ریسیور’ کا روایتی طور سے جائزہ لینے کے بجائے ایک اور پہلو سے جائزہ لیتے ہیں یعنی ہم ‘ریسیور’ کو دانش ور فرض کرلیتے ہیں اور دیکھیں گے کہ کیا اس طرح سے ریسیور کا کردار واضح ہو رہا کہ نہیں؟ ناصرعباس نیّر ‘ایڈورڈ سعید’ کے تصورِ دانش ور کی وضاحت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
”… وہ (ایڈورڈ سعید) دانش ور کا تصور ایک ایسے شخص کے طور پر کرتے ہیں، جس کی عوامی کار کردگی کی نہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے، نہ اس کی کار کردگی کو کسی نعرے، راسخ العقیدگی، پارٹی لائن یا عقیدے (ڈاگما) میں بدلا جاسکتا ہے۔ دانش ور اپنی جماعتی وابستگی، قومی پسِ منظر، مذہبی وفاداری کے باوجود انسانی بد حالی سے متعلق سچّائی کے کڑے معیار سے جڑا رہتا ہے۔ سعید یہ رائے قائم کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ دانش ور ’سچائی کے کڑے معیار‘ کی پابندی کے باوجود اس راسخ العقیدگی کا شکار نہیں ہوتا، جس کی پیش گوئی کی جاسکتی ہو۔ اس کے یہاں لازماً تشکیک کا عنصر ہوتا ہے، جو اسے مُسَلسَل سوال اٹھانے پر مجبور رکھتا ہے۔ … ژولیاں بندا نے دانش ور کو فیض یافتہ، فلسفی بادشاہوں کا قلیل گروہ قرار دیا، جو انسانیت کے ضمیر کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایقان شکن تشکیک اور اطمینان کو پارہ پارہ کرنے والا اِستفہام ہی دانش ور کو انتہائی حدوں میں لے جاتے ہیں۔ بِندا کہتے ہیں کہ اصل دانش ور وہ ہے جس کی سرگرمی بنیادی طور پر عملی مقاصد کے تابع نہیں ہوتی۔ وہ اپنی مُسرّت آرٹ، سائنس یا مابعد الطبیعیاتی metaphysical غور و فکر میں تلاش کرتا ہے… دانش ور سے متعلق خود سعید اپنا نقطۂ نظر بھی واضح کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں، دانش ور ایک ایسا فرد ہے جسے عوام کے لیے کسی پیغام، نقطۂ نظر، رَویّے، فلسفے، رائے کی نمائندگی، تَجسیم اور تَشکیل کی صلاحیت ودیعت ہوئی ہے۔ وہ مشکل سوالات اٹھاتا ہے۔ راسخُ العقیدگی اور عقیدے (ڈاگما) کا مقابلہ کرتا ہے، نہ کہ انہیں پیدا کرتا ہے۔ دانش ور کی وجہ جواز تمام لوگوں کے ان تمام مسائل کی نمائندگی ہے، جنہیں فراموش کردیا گیا یا چھپا دیا گیا ہے۔“
قوم پرست فکر کے حوالے سے دانش ور کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناصر عباس نیئر ہمیں بتاتے ہیں کہ دانش ور ایک سماج کا پروردہ ہو کے بھی اپنے سماج کے تصورِ ‘ہم’ کو، معروضی سچائی تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اُسے ٹُھکرا کر اپنے سماج کے تصورِ ‘وہ’ تک پہنچتا ہے، اسی طرح فریقین کے مؤقف کو قریب سے جان کر حقائق تک رسائی حاصل کرتے ہوئے تَعصّب کی بنیاد ڈھے دیتا ہے۔ اور اس بات کو ایڈورڈ سعید کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے مختصراً یوں بیان کرتے ہیں:
”سعید کے نزدیک، قوم پرستی سے متعلق کارپوریٹ فکر سے آزاد ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دانش ور ’مُتَجسّس، تشکیک پسند فرد‘ کا کردار اختیار کرے۔“
یہ عمل یعنی سماج کے مُتعیّنہ تصوراتِ ’ہم اور وہ‘ سے اختلاف دانش ور کی وفا داری پر سوال کھڑا کر دیتا ہے۔ یہی چیز ایک حقیقی دانش ور کو سماجی حوالے سے ایک باغی اور مابعد الطبیعیاتی حوالے سے ایکسپلورر (نو مین لینڈز کا) بناتی ہے۔ ہم دانش ور کو ‘بےگھر’ مانتے ہوئے گوگول کو یاد کرتے ہیں جو کہتے:
“The Prophet finds no honor in his homeland”
”پیام بروں کو اپنے وطن میں شاذ ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔“
ناصر عبّاس نیّئر مزید بتاتے ہیں:
”اڈورنو کہتے ہیں کہ جس کے پاس گھر نہیں، اس کے لیے، اس کی تحریر ہی رہنے کی جگہ ہے۔ اڈورنو کی دانش میں، چوں کہ قیام نا ممکن ہے، اس لیے تحریر بھی مستقل ٹھکانہ نہیں ہو سکتا۔ مستقل ٹھکانہ حد یا منجمد آئیڈیالوجی میں بدلنے کا امکان رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادیب دانش ور تحریر سے جلا وطن کیسے ہو؟ اسے اپنی تحریر کو مخصوص اُسلوب، کلیشوں، چند گِنے چُنے سوالات، پیش گوئی کیے جانے والے استفہامیوں کی آماج گاہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ بہ قولِ سعید دانش ور بنیادی طور پر علم اور آزادی کا عَلَم بردار ہے… وہ رابنسن کروسو کی طرح نہیں، جس کا مقصد ایک چھوٹے جزیرے کو نو آبادی بنانا ہے، مارکو پولو کی مانند ہے جو ہر مقام پر خود کو عارضی مہمان سمجھتا ہے؛ حملہ آور اور فاتح نہیں۔ ادیب دانش ور کے لیے رَوا نہیں کہ وہ اپنی تحریر کو اپنی نو آبادی بنائے؛ اسےاپنی ہر تحریر کو عارضی ٹھکانہ بنانا چاہیے۔ (یہ ان لوگوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو اپنے ‘اُسلوبِ خاص’ پر فخر کرتے ہیں۔) … دانش ور کی جلا وطنی اسے سماج میں حاشیائی مقام دیتی ہے۔ انعامات و اعزازات، ایک طرح سے گھر کی فضا سے عبارت ہیں۔ انعام و اعزاز کی مانوس دنیا میں دانش ور کی اجنبیت اسے حاشیائی حیثیت دیتی ہے۔“
اس اِقتباس کے مطالعے سے ہم فلم کے ہیرو کا مقام بطورِ ”دانش ور“ طے کرنے میں زیادہ پُراعتماد ہوجاتے ہیں۔ ایک دانش ور جو اِجتماعی لا شُعور سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
۲: نیلی آنکھیں: ناول میں لِلّی گیب اور جوناس کے بارے میں بتاتی ہے کہ ان دونوں کی آنکھیں funny ہیں۔ جس پر جوناس ناراض ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ الگ نہیں بننا چاہتا۔ دَا گِیوَر اور گیب کی آنکھیں بھی نیلی ہوتی ہیں۔ نیلی آنکھیں مختلف ہونے، زیادہ واضح اور الگ دیکھنے اور گہرا سوچنے کی علامت ہے۔ Chromology میں نیلا رنگ گہرائی، ایمان اور ذہانت کی علامت ہے۔ اس میں اُداسی کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں جو شاید ذہانت کا ذیلی اثر side effect ہے۔
۳: دَا گیوَر: آرکی ٹائپس میں ایک ٹائپ ”دَا وائز اولڈ مین یا بوڑھا دانا آدمی“ کی بھی ہے۔ پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آرکی ٹائپس کیا ہیں؟
As a literary device, an archetype is a recurring symbol or motif throughout literature that represents universal patterns of human nature. It can also refer to the original model on which all other things of the same kind are based. For example, the common character of a hero is an archetype in that all heroes in literature share some key traits.
Archetypes are abstract in that the first mold is not a specific person or thing, but instead a concept made concrete by specific and recurring examples and patterns in literature. Therefore there is no one character who is the archetype for all heroes that came after, but instead an intangible sense of hero that is personified by the many hundreds of hero examples that have been created in literature.
جب کوئی ردّ عمل ایک عادت بن جائے تو اسے ہم ٹائپ کہنے لگتے ہیں، مثال کے طور پر کوئی بندہ بشر اپنا زیادہ وقت سوچ بچار میں، فکر میں بِتاتا ہے، تو ہم اس thinking type کہتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو آرکی ٹائپ وہ قدیم اور اوّلین نمونے ہیں جو بار بار مختلف واقعات کی صورت میں، تَجرِبے کے مخصوص اور یکساں نتائج کو تاریخ کے بہاؤ میں سامنے لاتے ہیں۔ شہزاد احمد رقم طراز ہیں:
”آرکی ٹائپ فہم apprehension کی پہلے سے موجود ہَیئتیں forms ہیں۔ (جو شُعور سے پہلے موجود تھیں) یا پھر ان کو وجدان intuition کی خَلقی یا مادر زاد حالت congenital حالت بھی کہا جاسکتا ہے۔ جس طرح جِبِلّتیں instincts انسان کو زندگی میں ایک خاص کردار پر مجبور کرتی ہیں، اور وہ مخصوص طور انسانی کردار ہوتا ہے، اسی طرح آرکی ٹائپ انسان کے وجدان اور فہم کو اُن ہَیئتوں کی طرف لے جاتی ہیں، جو خصوصی طور پر انسانی ہوتی ہیں… زندگی کو اس انداز سے دیکھنا اور اس کی تفہیم اس طرح کرنا کہ اس کے ساتھ ان کی گزری تاریخ مشروط ہو جائے، کارل ژونگ اسے آرکی ٹائی پل archetypal کا نام دیتے ہیں …“
آرکی ٹائپس کی کئی ایک اقسام ہیں جن میں ہیرو، باغی، ایکسپلورر، حکمران، جینیئس، قانون شکن، شافی healer وغیرہ۔ اب ہم دوبارہ فلم کے دَا گیوَر کی طرف آتے ہیں۔ شہزاد احمد اپنی کتاب ’ژونگ: نفسیات اور مخفی عُلوم‘ میں لکھتے ہیں:
”… دو آرکی ٹائپ جو انسان کی زندگی پر زیادہ اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ’بوڑھا دانا آدمی‘ old wise man اور ’عظیم ماں‘ great mother ہیں، بعض اوقات کارل ژونگ بوڑھے دانا آدمی کو ’معنی‘ کا آرکی ٹائپ قرار دیتے ہیں، لیکن چونک وہ کئی اور اشکال میں ظاہر ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر بادشاہ، ہیرو، طبیب medicine man اور بچانے والا savior ، لہٰذا ضروری ہے کہ ’معنی‘ کو اپنی وسیع ترین صورت میں لیا جائے … بہ ہرصورت اس آرکی ٹائپ کے اندر ایسی قوت ہوتی ہے، جس کا اندازہ لوگوں کو وجدانی طور پر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کے خلاف مُدافِعت بنانے کے قابل نہیں ہوتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے، لوگ اُس سے مَسحُور ہو جاتے ہیں، خواہ غَور کرنے کے بعد یہ اندازہ بھی کیوں نہ ہو جائے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے، اس کی تفہیم ممکن نہیں…”
یہ بھی پڑھیے: 1۔ موسمیاتی تغیرات پر فکشن نگاروں نے ہونٹ کیوں سی لیے ہیں؟
2۔ لائف آف پائی، نفسیات اور تصوف کا سُرمئی علاقہ
مزید یہ کہ کُتب خانہ اور نقشہ ماضی کی بازیافت کا استعارہ بنتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ فلم میں دَا گیوَر کا مقصد پوری کمیونٹی کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اسے تاریخ کا سیال شُعور عطا کرنا ہے، لہٰذا اسے ہم ‘اِجتماعی لاشُعور’ collective unconscious کہہ سکتے ہیں۔ سو تمام تر تفاصیل کے ساتھ ‘دَا گیور’ The Giver کا کردار دراصل ‘اجتماعی لاشعور’ کی تجسیم ہے۔
۴: ٹرائی اینگل: فلم میں ریسیور آف میموری کو ایک چھوٹا سا ٹرائی اینگل دیا جاتا ہے۔ تِکون کو باطنی علوم کی علامتوں کی رُو سے ”سچّی/خالص دانش“ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پیشِ نظر رہے کہ چُوں کہ کمیونٹی میں مذہبی مظاہر مفقود ہوتے ہیں، سو یہ ایک علامت ہے تِکون کی، جو گزرے کل کی یاد کا عکس بن کے دَا گیوَر کے ہاتھوں سے ریسیور آف میموری کے حوالے ہوتی ہے۔ کمیونٹی اور یاد داشت کی سرحد (باؤنڈری آف میموری) کے بیچ میں پتّھروں کے بنائے گئے کئی ایک بڑے تِکون بِکھرے نظر آتے ہیں۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے یاد داشت اور نِسیان amnesia کے بیچ میں مذہب کی کوئی یاد گار باقی رہتی ہے۔ عیسائیت میں تِکون تَثلِیث Trinity کی علامت ہے۔ کمیونٹی جنگ کے بعد کی دنیا کی تصویر ہے جو مذہب کو تفریق پیدا کرنے والا سمجھتی ہے اور جو اُسے اپنے لوگوں کی یاد سے محو کر دیتا ہے۔ پھر بھی کہیں نہ کہیں، نِسیان اور یاد داشت کی بیچ، کسی نہ کسی شکل میں یہ محفوظ رہتا ہے۔
۵: سلیڈ Sled فکری تَحرّک، الگ اور دور ہونے کی کوشش کی علامت ہے۔ آغاز بھی ہے اور معاملات کو انجام کی طرف لے جانے کا استعارہ بھی ہے۔
۶: سُرخ رنگ: Chromology کے مطابق سُرخ رنگ گہرے جذبات کی علامت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مذکورہ کمیونٹی میں وجود نہیں رکھتا۔
۷: چیف ایلڈر: Chief Elder در اصل great mother یا عظیم ماں کا آرکی ٹائپ ہے۔ یہ آرکی ٹائپ کس طرح کا کردار ہے؟ اس بارے میں شہزاد احمد لکھتے ہیں:
”عظیم ماں کا آرکی ٹائپ عورت کے اندر متوازی طور پر کام کرتا ہے۔ جس کے اندر یہ صورتِ حال پیدا ہو جائے، وہ سمجھتی ہے کہ اُسے لامُتَناہی محبت، فہم، مدد کرنے کی خاصیت، تَحفّظ کی فراہمی ودیعت ہوئی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے اپنے آپ کو ہلکان بھی کر سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی تخریبی بھی ہوسکتی ہے اور اس بات پر اصرار کرتی ہے (اگر چِہ کھلے بُندوں نہیں کرتی) کہ جو لوگ بھی اُس کے حلقۂ اثر میں آتے ہیں، اُس کے بچّے ہیں۔ اُس کی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس پر دار و مدار رکھتے ہیں۔ اگر یہ ذہانت بھرا اِستبداد tyranny اپنی انتہا کو چُھو لے، تو پھر وہ دوسروں کے حوصلے بھی پست کرسکتا ہے اور اُن کی شخصیّتوں پہ تباہی بھی لا سکتا ہے۔“
اس سلسلے کے پہلے مضمون میں ہم عورت کو گہرائی و نظریے اور مرد کو وُسعت اور طاقت کی علامت قرار دے چکے ہیں، سو عظیم ماں کے اس آرکی ٹائپ کو ہم کئی اور فلموں (ڈائیورجنٹ، ڈاکٹر سٹرینج وغیرہ) میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
۸: سیب: عیسائی روایت کے مطابق سیب کھا کر آدم و حوا کو جنّت سے نکال دیا جاتا ہے۔ عیسائیت کی روایت کے مطابق، سیب اوّلین گناہ Original Sin کی یاد دلاتا ہے اور بقولِ داؤد رہبر ”سیب اخلاقی شُعور“ کی علامت ہے۔ نیک و بد کی پہچان ہے۔ اور جُوں ہی نیک و بد کی پہچان ہوتی ہے، آدم و حوا کی معصومیت ختم ہو جاتی ہے اور یوں وہ جنّت سے نکال دیے جاتے ہیں۔
اس روایت کے زیرِ اثر فلم کا ہیرو سماج کے مُبَیّنہ جنّت سے نکلنے کے واقعے کی نمائندگی کرتا ہے۔ گِنے چُنے انسانوں کا ”آرٹسٹک مزاج“ (تمام مُتعلّقات کے ساتھ) عوام کی جنّت میں گُھٹن محسوس کرتے ہوئے نکل جانے کا کوئی جواز تلاش کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر ہجرت/جلا وطنی کا جواز اخلاقی ہوتا ہے۔ دَا گیوَر کی ماضی کی یادوں کے متعلّق انکشافات کے زیرِ اثر جوناس کمیونٹی میں رُولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیب کے ذریعے سِسٹم سے اِنحراف کرنے لگتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ اخلاقی نکتہ ہوتا ہے کہ کمیونٹی کے elders لوگوں کو اُن کے ماضی سے کاٹ کے رکھتے ہیں اور یوں اُن کو زندگی کے مکمل پیکیج سے محروم رکھا جارہا ہے۔
۹: فلم میں ہیرو کے گھر Gabe نامی ایک بچّہ لایا جاتا ہے۔ گیب اسم ‘گبرئیل’ کی مختصر صورت ہے، جو مذہبی روایت کے مطابق الہام یا ‘نئے خیال’ سے منسوب ہے۔ ‘علم الرُویا’ (خوابوں کی تعبیر) کے مطابق، بچّہ ‘تشخّصِ ذات’ کی علامت ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو بچّہ ایک ‘نیا خیال’ ہے جو کمیونٹی کے جمود کو خطرے میں ڈالنے والا ہے۔ اس بچے کو خیال سمجھا جائے تو دوسرے تمام بچّے بھی کمیونٹی کے approved thoughts کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ہاں گیب الگ بچّہ ہے کہ یہ بےچین نیلی آنکھیں رکھنے کی وجہ سے مختلف ہے۔
۱۰: گریجویشن کے موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں منصب اور کارِ منصب کی تقسیم و تفویض ہوتی ہے اور یہ کام کمیونٹی چیف کے ہاتھوں سر انجام دیا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر ریسیور کا نمبر ‘باون’ 52 ہوتا ہے جو علم الاعداد کے مطابق علم سے متعلق ہوتا ہے۔ یہاں اس مضمون کے تسلسُل کو برقرار رکھنے کےلیے یاد رہے کہ ہم اس مضمون میں فلموں میں برتے گئے ‘اعداد’ کو ‘علم الاعداد’ کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش بھی کریں گے تا کِہ تخلقی عمل میں انسان کے اجتماعی لاشعور کی کارِ فرمائیوں کو نزدیک سے محسوس کیا جا سکے۔
۱۱: ریسیور آف میموری کےلیے چُناؤ ــــ جس کے لیے ہیرو کے چُناؤ کے وقت، ہیرو کی چار خوبیاں گِنوائی جاتی ہے یعنی ذہین، دیانت دار، با ہمّت اور ساتھ ہی ساتھ وہ کچھ دیکھنے کا وصف بھی گنوایا جاتا ہے، جو کوئی دوسرا نہیں دیکھ پات۔
اس مرحلے پر ہیرو کی ‘درد ناک ٹریننگ’ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ یہ درد ناک ٹریننگ کیا ہے؟ یہ فردیت کے عمل کی طرف اشارہ ہے۔ خود کو جاننے، ذات یا خودی کا حِصول سب سے مشکل عمل ہے۔ اسلام بھی بتاتا ہے کہ خود کو جان کر ہی ہم خدا کو پا سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک آرٹسٹ کو سماج کے لگے بندھے ہونے کا سب سے بڑھ کر احساس ہوتا ہے اور اسی احساس کی موجودگی ہی اسے سماجی اقدار کے متعلق بےچینی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
آرٹسٹ کے عنوان کے تحت ’لیڈر (سیاست دان نہیں!) مُصلحین، دانش ور اور فن کار، باغی یا مِس فِٹس‘ وغیرہ آتے ہیں۔ اٹو رینک Otto Rank ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی معاشرے کے بنیادی خد و خال در اصل عام لوگوں کے سبب ہی برقرار رہتے ہیں۔ جو کُل کا پچھتر فیصد ہوتے ہیں۔ اسی طرح باغی (مِس فِٹس، آوٹ سائیڈرز) سرشت لوگ پندرہ جب کہ آرٹسٹ محض دس فیصد ہوتے ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں اپنی مثالیت آپ تخلیق کرنا یا کرنے کی کوشش کرنا ہی وہ منطقہ اور نقطۂ انحراف ہے، جہاں پہ ہیرو، دانش ور اور جینیئس کا مِس فِٹ، باغی یا آوٹ سائیڈر سے اِتصال ہوتا ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ عمرانیات sociology اگر گَروہی اور اداراتی مطالعہ ہے تو کوئی آرٹِسٹ، دانش ور، ڈائیورجنٹ یا کوئی جینیئس معاشرے کے ادھورے مابعد الطیبیعیاتی ڈھانچے کو ‘سماج کے عینی ڈھانچے’ ideal form کی طرف لے جانے والا فرد ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ عمل برگساں کی بتائی گئی ‘انسانیت’ کی طرف کا اقدام تصور کیا جا سکتا ہے؟
۱۲: بادلوں میں لپٹی سرزمین ـــ جو اپنے سماج کے کنویں کے باہر کے مظاہر سے جہالت یا تعصّب کی بناء پر کٹنے کی اور لا علمی کے اِن بادلوں کے نیچے زندگی کے امکان کی علامت ہے۔”
۱۳: ”میں وہ دیکھتا ہوں جو کوئی اور نہیں دیکھت۔“ یہ تخلیقی صلاحیتوں کی طرف واضح اشارہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ مکالمے کا یہ حصہ کہ “میں مختلف بننا نہیں چاہتا۔ ” در اصل fear of life کا بھی اظہار ہے کہ جس میں فرد ہجوم سے کٹ جانے یا کاٹے جانے کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔
۱۴: “بڑے (elders) کبھی غلط نہیں کرت۔ ” یہ ‘مہا بیانیہ’ meta narrative ہی سماجی اداروں کے روایتی وجود کا تحفظ کرتا آرہا ہے۔ بل کِہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ مہا بیانیہ بالآخر استبدادی بن جاتا ہے۔ جس طرح ‘طاقت’ کی تعریف، طاقت کے بڑھنے ہی میں پوشیدہ ہے، اسی طرح مہا بیانیہ مکمل کنٹرول میں یقین رکھتا ہے اس کے برعکس مہا بیانیے کی عدم موجودگی میں انارکی جنم لیتی ہے۔
۱۵: باد بانی کشتی: تخیّل کی یہ علامت زندگی، جبریت determinism اور پرسونا کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہمیں یاد رہے کہ پرسونا ہماری سماجی مجبوری ہے، اس کے بغیر ہم معاشرے میں فِٹ نہیں بیٹھیں گے۔ ہم ”لائف آف پائی“ کے تبصرے میں کشتی کو پرسونا persona کی علامت کی حیثیت سے مُتَعیّن کر چکے ہیں۔
۱۶: ایک جگہ ریسیور آف میموری کہتا ہے کہ ”بڑے elders اور ان کے سب اصول جھوٹ ہیں۔ میں ان سے معافی نہیں مانگوں گا…“ یا ”انہیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، وہ غلط ہے؟“ اور اس کا جواب یہ مِلتا ہے کہ “بچّوں اور بڑوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔” یہ مہا بیانیے کی استبدادیت کے خلاف ردّ عمل ہے۔
۱۷: ایک نقشہ جس پر حدود limits اور یاد داشت کے کنارے border of memory کا خاکہ موجود ہے۔
اس کو ہم آرٹسٹ کا innate work plan بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں ‘نو گو ایریا’ یا ممنوعہ سر زمین پر قدم دھرنے کے جادوئی اثرات کی نشان دہی گئی ہے۔ شہزاد احمد لکھتے ہیں:
”… حدود کو کبھی کبھی توڑنا بھی ضروری ہے۔ جب ہم حدود کو توڑتے ہیں تو اُنھیں مُقرّر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم حدود کی پابندی نہیں کرتے تو ہم اُنھیں شِدّت سے تسلیم کرنے کے عمل میں ہوتے ہیں… وجودیت میں بےمعنویت meaninglessness (یا حدود کی عدم موجودگی) کے بارے میں جتنے بھی مباحث ہیں، وہ اصل میں معانی (حدود کی موجودگی) ہی کی تلاش کا ایک پہلو ہیں…“
یہ نوگو ایریا ہے کیا؟ کیا یہ واقعی ‘معانی کی تلاش’ ہے؟ کیا یہ ثقافتی مظاہر میں موجود خالی جگہوں کو بھرنے کی خواہش ہے؟ اور یہ خواہش اس لیے ممنوع قرار دی گئی ہوتی ہے کہ اس سے ثقافتی ڈھانچے کے انہدام کا خطرہ ہوتا ہے یا یہ نئے خیال پر مبنی تخلیق کی خواہش ہے جو سماج کے مقرر کردہ حدود سے متجاوز ہونا ہے؟ کہ یہ بھی سماج کی ریزگی کا باعث ہے۔ دیکھیے!
”نئی نفسیات کا دوسرا ثبوت طلب قضیہ یہ ہے کہ دریا کو بہاؤ پر مجبور کون کرتا ہے؟ فرائیڈ کا لبیڈو Libido یا اِڈلر کی قوت حاصل کرنے کی خواہش! مگر اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حِسِ اقدار sense of values ہے جو راڈار کی طرح کام کرتی ہے اور چیزوں تک رسائی حاصل کرتی ہے… انسان بنیادی طور پر فَردا (مستقبل) کی طرف دیکھنے والی مخلوق ہے، اسے محض جنس پسند یا قوت پسند نہیں کہا جاسکتا۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ مستقبل میں کیا دیکھتا ہے؟ جنس یا قوت ــــ ممکن ہے اس کے ذہن میں سیاحت ہو یا وہ کسی دریافت تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہو! یہ دریافت شاعری میں ہو سکتی ہے۔ سائنس میں بھی ممکن ہے۔“
یہاں پھر سے وہی اقدار کی، معانی کی تلاش کا لفظ ہاتھ آتا ہے۔
۱۸: ”کنارے پر بنی بلڈنگ میں رہنے سے انسان الگ سا ہو جاتا ہے… ہم نے لوگوں کے مُنھ سے سنا تھا کہ لوگ یہاں سے غائب ہوجاتے ہیں اور پھر کبھی نظر نہیں آتے۔“
حد یا سرحد سے نزدیکی تناظر کے دُہرے پن کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ وِل ڈیوراں لکھتے ہیں کہ شاید سب سے پہلے ارتیابی (موجودات کے بارے میں شُبے/شک میں پڑنے والے) ساحلی علاقوں کے رہنے والے تھے، جن کا واسطہ معیشت کے سلسلے میں ساحل پر اترنے والوں سے پڑا اور جن سے اُنہوں نے رنگ رنگا خیالات و عقاید کا اثر لے لیا۔
ایڈورڈ سعید کی دُہری شہریت کے متعلق محترم ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں:
”دُہری شہریت، دُہرے تناظر کو ممکن بناتی ہے۔“
تو کیا کنارے boundary پر رہنے والا تناظر کے معاملے میں یک رُخے پن سے ایک قدم آگے جا چکا ہوتا ہے؟ یقیناً عام کی نسبت فنکار یا آؤٹ سائیڈر یا ہیرو دُہرے تناظر کا حامل ٹھہرتا ہے۔
3 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.