مجھے خیرات چاہیے سب کے لیے
از، شہزاد عرفان
یہ وہ معاشرہ ہے جہاں سماجی جبر کی سزا اس نومولود بچے کو ملتی ہے جسے رات کی تاریکی میں گلی کے آوارہ کتے زندہ نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں تاکہ مَردوں کے اس مذہبی نظام میں اسکی عزت قائم رہ سکے۔
پاکستانی معاشرے کو سمجھنے کے لئے ریاست اورعوام کے تخلیقی رشتہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بظاہر یہ رشتہ محبت وجذبات، افکار و نظریات سے بھرپور ہے مگر عام محنت کش مزدور سے کُچھ دیر گپ شپ کرنے پر معاشرے کا داغ دار ننگا پن فوراََ ہی سامنے آجاتا ہے۔ یہ رشتوں محبتوں سے عاری، بانجھپن دراصل ریاست اورعوام کے درمیان حاکم و محکوم کے اُس تعلق کی نشان دہی ہے جس میں دونوں پچھلے اٹھسٹھ سالوں سے بندھے ہیں۔ یہ وہ رشتہ ہے جہاں ریاست کا مقصد عوام کو سُدھانا ہے بلکل ایسے جیسے سرکس میں کسی شیر، ہاتھی یا گھوڑے کو سُدھایا جاتا ہے- جانور اپنی جبلت کے برعکس وہی کرتب کرکے دکھا سکتے ہیں جو انھیں بھوک تشدد اور جبر کو مسلسل برداشت کرنے کی صورت میں ماننا پڑتا ہے۔ اس طرح سرکس کا مالک جانوروں میں جبلت کی قدرتی اور تخلیقی صلاحیت کو مارنے اور اپنا مخصوص ایجنڈا(احکام) منتقل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ سُدھائے جانے کا عمل مکمل ہونے پر جانوروں کو چابُک دکھانے اور لہرانے سے ہی کام چل جاتا اور پھر یہ جانور ان سب کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ درد کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔ سرکس کا رِنگ ماسٹر اس عمل کو مالک سے وفاداری اور جذبہ حُب الوطنی کا نام دیتا ہے۔
سُدھانے اور سیکھانے کے عمل میں بظاہر کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا مگر اس میں ایک خاص انتر ضرور ہے۔ انسانی معاشروں میں سیکھ، تعلیم اور تربیت کا عمل تخلیقی اور تنقیدی سوچ کے ساتھ ترقی کی ایک ایسی راہ متعین کرتا ہے جہاں معاشرہ حُکم و تعمیل ، سزا و جزا، ڈر اور خوف کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتا بلکہ وہاں ہر فرد ایک دوسرے کی خاطر، محبت پیار، ترقی پسند روشن خیال سوچ کے ساتھ آزادی پر یقین رکھتا ہے جہاں رنگ ونسل اور مذہبی تفریق کی بنیاد پرست سوچ کی کوئی گُنجائش باقی نہیں بچتی۔۔۔۔۔ جبکہ سُدھے ہوئے معاشرے کے افراد صرف وہی مخصوص کام ہی سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جسکا انھیں حُکم دیا گیا ہو-
برطانوی سامراج نے ہندوستان کی مسلمان اشرافیہ کو انھیں سرکسی اصولوں پر سُدھایا تھا جسے اسی اشرافیہ نے پاکستان بننے کے بعد وہاں کی عوام کے ساتھ روا رکھا۔ تعلیم و تربیت کے نام پرعوام کو سُدھائے جانے کا عمل ریاست کے وجود میں آتے ہی معتبر اداروں کے ذریعے شروع کردیا گیا تھا۔ پچلھے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں پاکستانی معاشرے کے اخلاقی، مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی خدوخال ایک بڑے سرکس کی شکل میں ظاہر ہوچکے ہیں جسکا یہ معاشرہ مکمل طور پر سُدھایا جا چُکا ہے-
سرکس کے اس معاشرے میں ماؤں کی پیاری ناجائز اولادوں سے لیکر اپنے عاشق کے ساتھ گھر سے بھاگی ہوئی جوان بہنوں کو چھت چادر اور چار دیواری فراہم کرنے والا، گھرسے نکالے جانے والے دادے دادیاں، نانے نانیاں اور ماں باپ کوچھت خوراک اور تحفظ فراہم کرنے والا فقیر آج ہم سے رخصت ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہزاروں ملزمان ومجرمان جواس تنگ نظر اور ابہام زدہ اسلامی معاشرے کے تضاد کی بھینٹ چڑھنے والے کرپٹ عدالتی نظام کا شکار ہوئے، ان کے علاج ، چھت اوربلآخر ان سب کی لاشوں کوکفنانے اور دفنانے کے لئے ایک ایک پیسہ مانگنے والا بوڑھا لاچار شخص بے حِس و حرکت پڑا اس سرکس کے رِنگ میں سب تماشائیوں کی نگاہ کا مرکز ہے۔ یہ وہ تھا جس سے لوگوں کا درد نہ دیکھا جاتا تھا۔
دنیا کی آنکھیں ہرلمحہ ایک نئے کرتب اور حیرانگی کی امید لئے اس “ہندوستانی نُما عربی سرکس ” کو گھور رہی ہیں ۔ اس سرکس میں روز روز کے کرتب اور تماشوں کے قصے اب دنیا کے تقریباََ ہر خطہ میں مشہور ہیں حتیٰ کہ وہاں بھی جہاں انسان تک نہیں بستے۔ سرکس کا رنگ ماسٹر جو کبھی اس سرکس کا چوکیدار تھا اب مالک بن کر اگلا شو چلانے کے لئے تیار بیٹھا ہے-
سرکس کے آج کے شو میں کرتب اور تماشہ دکھانے والے رنگ برنگی مخلوق آج خود کرسیوں پر بیٹھے جوش و خروش سے تالیاں بجارہے ہیں۔ وہ آج بہت خوش ہیں کیوں کہ یہ کرتب خود انھوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ دوسروں کو زندگی دینے والا، ظلم و جبر سے بچانے والا بیمار لاغر بوڑھا کافی دیر سے بغیر جنبش و حرکت کئے سانس روکے نجانے کب سے بے حس پڑا ہے۔
یہ خبر الکٹرونک و پرنٹ میڈیا سے لیکر فٹ پاتھ اور تھڑوں تک ہر فرد کی زبان پر عبدالستار ایدھی کی موت کا ذکر بن کر موجود ہے۔ مگر اس ذکر میں ان کی موت سے زیادہ اس بات کا سب کو دکھ ہے کہ کیا نالی میں پڑا اپنی ماں کا پیارا سا نومولود حرامی بچہ گلی کے آوارہ کتوں سے زندہ بچ پائے گا؟ کیا اسلامی معاشرے کے مردِ آہن کے ہاتھوں گھر سے بھاگی ایک عزت دار بھائی کی پیاری بہن اپنے بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ پائے گی؟
اسلام کے نام پر اسلامی ریاست کا ٹھیکہ اُٹھانے والوں نے تو اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر یہ دعویٰ اور وعدہ کیا تھا کہ جو اسکے حُکم کی تعمیل کرے گا وہ بوڑھوں، کمزور،لاچار، یتیم بیواؤں اور مساکین کو چھت، کھانا اور تحفظ مفت فراہم کرے گا مگر افسوس کہ یہ کام جو ریاست نہ کرسکی وہ اس بوڑھے درویش نے اکیلے کر دکھایا ہے۔ جبر کے اس نظام میں جکڑے عوام کی امداد کے لئے در در خیرات مانگ کر زندگیاں بچانے والے اس فقیر نے کبھی سیاسی لیڈر یا مذہبی ولی اللہ ہونے کا کوئی ڈھونگ بھی نہیں رچایا۔
وہ درویش تو خاموشی کی زبان بن کر ہر ایک سے چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ یہ کام تو ریاست کا ہے کہ وہ اپنے عوام کو طبی امداد ، چھت اور روزگار مہیا کرے، بنیادی انسانی سہولت و تحفظ دے مگر یہ معاشرہ تو سرکس کے رِنگ ماسٹر کے شاندار سُدھائے ہوئے اصولوں پر قائم ہے چناچہ اُس کی بھلا کس نے سُننی تھی وہ سب تو بس خوش تھے کہ اتنا شاندار کرتب سرکس میں آج تک کوئی نہیں کرسکتا۔ وہ حیران تھے کہ بھلا اس فقیر درویش کو دنیا کیوں اور کیسے اتنی امداد دے دیتی ہے۔ اس سرکس کے روحانی پیشوا “مُلّا” جو سب سے زیادہ حیران اور پریشان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک اسلامی معاشرے میں حقوق العباد، حقوق اللہ سے کیسے فوقیت لے گئے کہ ایک درویش جس نے آج تک نہ تبلیغ کی، نہ چِلّے کاٹے، نہ ہی کوئی گدی نشین بن کر پیری مُریدی کا دھاگہ دیا، نہ جہادی تنظیم بنا کر بے گناہ لوگوں کے سر کاٹے اور نہ ہی اسلامی ریاست کی قیام کی خاطر کوئی سیاسی مذہبی تنظیم بنائی مگر لوگ ہیں کہ اس فقیر شخص کو دیوتا بنانے پر تُلے ہیں۔ یہاں کوئی کسی سے کُچھ نہیں کہتا مگراپنے اندر یہ ضرور جانتا ہے کہ اُس کے سرکردہ گُناہ پر پردہ ڈالنے والا یہی درویش ہے- کسی کا بچہ کھو گیا تو ایدھی، کوئی غائب ہوگیا تو ایدھی، کسی کا کوئی حادثہ ہوگیا تو ایدھی، جس کو سب نے ٹھکرا کر گھر سے نکال دیا تو ایدھی ہی سب کو یاد آیا۔
اس معاشرے کے دوغلے نظریات اور اندھے عقائد کے عیب چھُپانے والا یہ صوفی منش درویش انسان عوام کے مظلوم طبقات کی آخری امید بن کر زندہ تھا۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ اس معاشرے میں مردہ مذہبی عقائد لوگوں کے حواس پر بھاری پڑ چُکے ہیں اس لئے اسنے کبھی یہ نہیں کہا کہ لوگو میں تمہیں جنت تک لے جانے والا ہوں اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی دعویٰ کیا کہ یہ میرا سچا مسلک اور فرقہ ہے اور تم سب کافر اور جہنمی ہو، اس نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تمہیں اللہ اس سے زیادہ دے گا۔ ۔ وہ تو صرف یہ کہتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوا کہ “یارو جو تمہارے پاس ہے آؤ اسے بانٹ لیں ایک حصہ جو تمہاری خود کی ضرورت ہے اور دوسرا حصہ جو اُس کی ضرورت ہے جس کوضرورت ہے”۔ بس یہ ایک جملہ جو اسکی ماں نے بچپن میں اُسے سمجھایا تھا وہ اس نے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر گزار دیا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو احساس ہوا کہ اسلامی ریاست کے سرکس نے اپنا سب سے قیمتی ہیرو کھو دیا ہے۔ اس دنیا میں آئن سٹائن کی طرح ایک درویش آیا اور اس دنیا کو کُچھ دے کر خاموشی سے گُزر گیا۔ بڑے ذہن اس دنیا میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ بغیر کسی حساب کتاب کے دنیا کو بہت کُچھ دے کر گُزر جائیں۔ دنیا کے عظیم پیغیمبروں، لیڈروں، فلاسفروں، اور سائنسدانوں کی طرح عبدالستار ایدھی نام کا یہ شخص بھی اپنے حصے کا ضروری کام کر کے دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ بزرگوں سے سُنتے آئے ہیں کہ جانور اور انسان میں بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ جانور اپنے لئے زندہ رہتا ہے جبکہ انسان دوسروں کے لئے زندہ رہتا ہے۔ بس آج خیرات نہیں ملے گی۔