نئے پاکستان سے جڑی توقعات
از، خضر حیات
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے غیر یقینی صورت حال پورے ملک پہ چھائی رہی اور با لآخر اسی میں انتخابات ہوئے۔ انتخابات کے حوالے سے ہارنے والی پارٹیوں نے کم و بیش ویسے ہی بیان دیے جیسے پانچ سال پہلے پاکستان تحریک انصاف نے دیے تھے۔ انتخابات اور دھاندلی کا شور پاکستان میں لازم و ملزوم بن کے رہ گئے ہیں۔ یہ دونوں اردو محاورے ‘چولی دامن کا ساتھ ہے’ والے دامن اور چولی کے عملی نمونے دکھائی دیتے ہیں۔
انتخابی دُھند چھٹنے کے بعد جو تصویر بنتی نظر آ رہی ہے اس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ نمائندگی حاصل کرنے والی سیاسی جماعت بن گئی ہے اور بظاہر اس بات میں بھی شک نہیں نظر آ رہا کہ عمران خان ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔ عمران خان نے انتخابات جیتنے کے بعد اپنی فاتحانہ تقریر میں نہایت مہارت سے ان مسائل کا ذکر کیا جو ہمارے حقیقی مسائل ہیں۔
اس سے پہلے والی تقریروں اور فاتحانہ تقریر والے عمران خان میں جو فرق تھا وہ سبھی نے دیکھا اور محسوس بھی کیا۔ آپ کے ارادے مستحکم لگ رہے ہیں مگر ہمارے ساتھ یہ وعدے پہلے بھی بہت بار کیے جا چکے ہیں جو آپ نے کیے ہیں۔ ہم بہ ہرحال خوش گُمانی کے ساتھ انتظار کریں گے کہ جو خواب آپ نے عوام کو دکھائے ہیں ان کی تعبیر بھی ممکن بنائی جا سکے۔
اب چُوں کہ خوش گمانی کا دور دورہ ہے تو ایک عام پاکستانی عمران خان کے تبدیلی والے نعرے سے متاثر ہو کر ان سے اور بھی بہت سی توقعات باندھ بیٹھا ہے اور مسائل کی ایک فہرست وہ بھی تیار کر کے بیٹھا ہے۔ یہ بھی اس ملک کے عین حقیقی مسائل ہیں جو اگر حل ہو جائیں تو ذہنوں پہ چھائی دُھند بھی چَھٹ جائے گی اور کئی قابلِ قدر لوگوں کو معاشرے میں ان کا جائز مقام بھی مل جائے گا۔ چاہوں گا کہ ان پہلوؤں کی بھی نشان دہی کرتا چلوں جو بے چارے نظر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا اَز سرِ نو جائزہ لیا جائے اور ملک کی اصل تاریخ مرتب کی جائے۔ ماہرین یہ فیصلہ کریں کہ ضیاء الحق کے زمانے میں لکھی گئی پاکستانی تاریخ زیادہ معتبر ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے والی، یا پھر ایوب خان کے زمانے والی۔ قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر کی کیا تاریخی حیثیت ہے اور قرارداد مقاصد کے پیچھے کون لوگ تھے۔
مزید دیکھیے: نصابات میں سے ’’تاریخ‘‘ کی حقیقت کھرچنے کا گھناؤنا اثر
تاریخ اگر مسخ شدہ ہے تو آپ کیا کیجیے؟ خود اپنا سچ اور جھوٹ بنائیے
سیاسی نظریات سے عاری انتخابات یا چُنیوں کی جنگ
اگر کچھ فیصلہ ہو جائے تو اس نئی تاریخ کو پھر نصاب کا حصہ بنایا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے۔ قومی تشخّص کی نئی تعریف لکھنے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیوں کہ ہمیں شروع سے پڑھایا جاتا رہا ہے کہ ہندو تنگ نظر تھے، مکار تھے، عیار تھے اور پتا نہیں کیا کیا جس کی وجہ سے دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں۔
ہندوؤں کو تنگ نظر ہی پڑھایا جاتا رہا تو ملک میں مقیم ہندوؤں اور دوسری اقلیتی برادریوں کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ آپ نے کہا کہ ہمیں اب متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اتحاد کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ جنہوں نے ایک چھتری تلے جمع ہونا ہے وہ ایک دوسرے کے بارے میں بد گمان نہ ہوں۔ لگے ہاتھوں یہ بد گمانی بھی دور کرتے جائیں۔
اسلامی تعلیمات کی تشریح کے لیے الگ سے ایک بورڈ قائم کر دیں جس کے ممبران کی اہلیت اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین سے قدرے بہتر ہو۔ جو جدید عصری تقاضوں کو بھی سمجھ سکیں اور ایک مخلوط معاشرے کی اہمیت اور ضرورت کا بھی خیال رکھ سکیں۔ بلا وجہ کٹنے والی گردنیں ذرا محفوظ ہو جائیں گی اور شاید اسی طرح ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی ان کا جائز حق دیا جا سکے گا۔
ہم پسماندہ ہونے کے با وجود یہ شعور رکھتے ہیں کہ ہمیں اس ملک میں مذہبی جماعتوں کی سیاست ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں عوام نے مولویوں کو ووٹ نہ دے کر ان کے جہادی کلچر اور طاقت کے زور پر غلبۂِ اسلام کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ آپ بھی اب نئے پاکستان میں طالبان سے متعلق واضح مؤقف اختیار کریں اور پورے ملک کو اعتماد میں لیں۔ کرائے کے جنگ جُو بن کے پرائی لڑائی لڑنے سے ہمیں اب باز آ جانا چاہیے۔
اس کے بعد تعلیمی نظام کی مرمت کی جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے نصاب کو دو بارہ سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کو دورِ حاضر کے حالات اور تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت ہے۔ درسی کتابیں دوبارہ سے لکھوائی جائیں تا کہ سکولوں میں جو کچھ پڑھایا جائے وہ پڑھنے والوں کو اپنے ارد گرد سے مطابق ہی لگے۔
اس کے علاوہ مقامی زبانوں کی قسمت کا بھی فیصلہ کر دیجیے۔ پرائمری تعلیم اگر مادری زبان میں دی جانے لگے تو حاصلاتِ تعلیم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر تو بچے زیادہ اچھی طرح سیکھ سکتے ہیں تو بنیادی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے می کیا رکاوٹ حائل ہے۔
اس نئے پاکستان میں اساتذہ (خاص طور پر پرائمری اسکولوں کے اساتذہ) کا حقیقی مقام متعین کیا جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ پولیو ڈیوٹی سے لے کر مردم شماری تک کا وہ فریضہ جس کے لیے الگ سے ٹیمیں موجود ہونی چاہییں، یہی حضرات سر انجام دیتے ہیں۔ انہیں ڈاکیا نہ بنائیں، کسی طرح سے استاد ہی رہنے دیں تو تعلیمی معیار پر مثبت نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
پھر کچھ خبر ہائر ایجوکیشن کی بھی لے لیں کہ اس شعبے میں ریسرچ کا کیا معیار ہے۔ ہر سال کتنے تحقیقی مقالے پیش ہوکر ردی کے ڈھیر میں بدل جاتے ہیں اور کیوں؟ مائیکرو سافٹ اور گوگل والے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت بھارتی یونیورسٹیز کے دورے کرتے ہیں، انہیں پاکستان کی راہ ہی دکھا دیں۔
محکمۂِ آثارِ قدیمہ اگر کہیں ہے تو اسے نظر بھی آنا چاہیے اور اسے ملک میں موجود تاریخ کی باقیات کی حفاظت کا ذمہ بھی لینا چاہیے۔ ہندو اور جین مندروں، گرجوں، خانقاہوں، بُدھا کے اسٹوپوں (بچے کھچے) کی مرمت اور حفاظت ایک سنجیدہ کام ہے جو توجہ کا منتظر ہے۔ بسم اللہ کیجیے۔
ثقافت کی تعریف نئے سرے سے کریں اور بتائیں کہ ہماری اصل یعنی بر صغیر کی ثقافت کیا ہے۔ یہ بھی فیصلہ ہو ہی جائے کہ ہمیں عربی ثقافت کو کس درجے میں رکھنا ہے اور عجمی کو کس درجے میں۔ معاشرے میں فن کاروں کا مقام متعین کیا جائے اور اگر مقامی ثقافت کو بنانے اور اس کے اظہار میں فن کاروں کا ہمیشہ قابلِ قدر کردار رہا ہے تو اس کردار اور اس مقام کو قبول بھی کر لیں۔ مقامی لوک فن کاروں کو پھر سے تلاش کیا جائے کیوں کہ کئی طرح کی رکاوٹوں، بندشوں اور تنبیہات کے بعد وہ گُم نامی میں چلے گئے ہیں اور ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ جو کچھ نسلوں سے کرتے آ رہے ہیں وہ قابلِ نفرت یا تضحیک آمیز کام ہرگز نہیں ہے۔
ان کے لیے دو بارہ سے اسٹیج ترتیب دیں اور انہیں ان کا کھویا ہوا مقام پھر سے لوٹا دیں۔ ثقافت کے گلستاں پر جمی گرد ہٹے گی تو یہ کینوس ایک بار پھر رنگ برنگے پھولوں سے بھر جائے گا جس سے فضا کی گھٹن قدرے کم رہ جائے گی۔
لکھنے والے، گانے والے، پرفارم کرنے والے اور فنون لطیفہ کی دیگر شاخوں سے جڑے ایسے قیمتی انسان جو بزرگی کو پہنچ کر بے آسرا ہو جاتے ہیں اور با لآخر کسمپرسی کی حالت میں بُجھ جاتے ہیں، ان کی مالی سر پرستی کا بھی کوئی انتظام کیا جائے۔ پورے ملک میں سانس لینے والے بزرگ فن کاروں کی تفصیل حاصل کرنا کتنا ایک مشکل کام ہے؟
انٹرٹینمنٹ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ہر معاشرے میں اس کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملکی فلمی صنعت کا احیاء اب سرکاری سرپرستی میں ہو جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن ڈراموں کا از سرِ نو جائزہ لیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ٹی وی چینلز کے لیے کوئی قابلِ عمل ضابطۂِ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں ان کے لیے یہ رہنمائی بھی شامل ہو کہ وہ حقیقی معاشرتی مسائل کی عکاسی کریں، نہ کہ فرضی اور بے بنیاد موضوعات کی مدد سے نشریاتی آلودگی پھیلاتے رہیں۔
مقامی تھیئٹر کی روایت کا احیاء ہو اور دیہاتی قصباتی لوگوں کو بھی معیاری تفریح تک رسائی دی جائے۔ میلوں ٹھیلوں، بسنتوں، بیساکھیوں اور دیگر تہواروں کو دوبارہ زندگی دی جائے۔ فیض فیسٹیول، کراچی و لاہور لٹریری فیسٹیول اور کتاب میلے وغیرہ جیسے ایونٹس کو چھوٹے چھوٹے شہروں تک رسائی دینے کا انتظام کیا جائے تا کہ معاشرہ صحت مند زندگی کی طرف رجوع کر سکے۔
کھلیوں کے مقابلے سکولوں میں تو ہونے ہی چاہییں اسے دیہاتی سطح تک پھیلایا جائے تا کہ نئی نسل کے جوان صحت مند سر گرمیوں کی جانب راغب ہو سکیں اور کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ملکی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو سکے۔
سکولوں میں بزمِ ادب کے شعبے کو بحال کیا جائے اور ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تحریر و تقریر کا فن ہر پڑھنے والے کے پاس ہو۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ضیاء الحق نے سٹوڈنٹس یونینز پہ جو پابندی لگائی تھی اسے ختم کیا جائے تا کہ ایک صحت مند ماحول قائم کیا جا سکے اور مستقبل کے عوامی نمائندے پڑھے لکھے اور مناسب تربیت کے حامل ہو سکیں۔
آپ ہی کے دلائے ہوئے حوصلے کی وجہ سے میں یہ گزارشات کر رہا ہوں اور میں قطعاً یہ نہیں کہوں گا کہ راتوں رات جادو کی چھڑی گھمائیں اور یہ سب معاملات درست کر دیں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ بہ ہرحال عمران خان ہیں، طلسمی ٹوپی اور زنبیل والے عمرو عیار نہیں ہیں۔ اس لیے آرام سے وقت لیں اور پانچ سال میں ہی سہی مگر ان پہلوؤں پہ کچھ توجہ ضرور دیں۔
آپ کے ویژن کے مطابق نئے پاکستان میں لوگ ہُنر مند تو ہوں گے ہی، انہیں ذہنی طور پہ بھی آزاد کرنے کی کوئی صورت نکالیں تا کہ نئے پاکستان میں مولوی کو بھی اپنے مقام کا پتا چل جائے اور فن کار کو بھی۔
تاریخِ پاکستان پر آپ کا بہت بڑا احسان ہوگا!