جمہوریت واحد حل
از، نصیر احمد
سیاست میں غیر جمہوری مداخلت عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی نقصانات کی دنیا ہے۔ غیر جمہوری مداخلت کے لیے ترتیب کیے گئے مدد گار گروہوں کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں طاقت، دولت اور شہرت میں جو حصہ دینا پڑتا ہے، اس سب کی قیمت عوام کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے نئے گروہ کھڑے کرنے پڑیں، ان کی قیمت بھی عوام ہی ادا کرتی ہے۔ یعنی عوامی دولت ہی عوام کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن جاتی ہے۔
دوسرا نقصان جمہوری پالیسیوں کا ہوتا ہے۔ یعنی ایسی کوئی پالیسی رائج نہیں ہو سکتی جس میں عوامی مفاد کو مد نظر رکھا جا سکے۔ سب کچھ غیر جمہوری مداخلت کے رہنماؤں اور ان کے مدد گاروں کے مفادات کے کھاتوں میں ہی جاتا ہے۔ ہر جگہ بس اپنے آدمی کو عوام پر ترجیح ہوتی ہے۔ اپنے آدمی کی یہ ترقی دیکھ کر اپنے آدمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کا بوجھ بھی حکومتی خزانے کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اوپر سے غیر جمہوری پالیسیاں غیر جمہوری رویوں کو توانا کرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے مسائل کا کوئی حل ہو نہیں پاتا۔ اگر تعلیم بری ہوتی ہے تو غیر جمہوری مداخلت کے نتیجے میں بد تر ہو جاتی ہے۔ اور یہ ابتری اور بد تری زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کر جاتی ہے۔
غیر جمہوری مداخلت کو عقائد کا بھی ایک نظام در کار ہوتا ہے جس کے ذریعے غیر جمہوری مداخلت کو جواز دیے جا سکیں۔ اور یہ عقائد غیر جمہوری فلسفے سے اخذ کیے جاتے ہیں یا مذہب کو توڑ مروڑ کر غیر جمہوری فلسفے سے منسلک کر کے یہ عقائد رائج کیے جاتے ہیں جن کی طباعت اور اشاعت کی قیمت بھی عوام کو ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔
لیکن جب یہ عقائد زندگی کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے نتیجے میں سائنس، خِرد، تصور، تخیل اور تخلیق کی صلاحیتیں ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں یا نا ممکن پیما ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ جمہوری سوچ پر پابندیوں کی کوشش بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے عوام جمہوری فکر، جمہوری قوانین، جمہوری طرزِ عمل سے نا واقف رہ جاتے ہیں۔ عوام کو جاہل رکھنے پر جو اخراجات آٓتے ہیں، وہ بھی سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں۔
ایک دوسرا ماڈل یہ ہے کہ عوام کو سائنس کی تعلیم دی جائے، کار و بار میں اضافہ کیا جائے، ان کو شہری سہولیات بھی دی جائیں لیکن ان کو جمہوری سیاسی آزادیاں نہ دی جائیں۔ اس کے نتیجے میں ایک محدود عرصے کے لیے ایسی حکومتیں تعلیم، کار و بار اور سہولتوں کے حوالے سے بہتر کار کردگی دکھاتی ہیں۔ لیکن بہتر جمہوری حکومتوں سے پیچھے ہی رہ جاتی ہیں اور جس سطح پر جمہوریت سے مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں، اس سطح پر یہ مقابلہ پار ہی جاتی ہیں۔
پچھلی صدی کی کاملیت پرست آمریتیں جمہوریتوں سے یہ مقابلہ ہار گئی تھیں کہ نقالی، عیاری اور چالاکی سے اور عوام پر مکمل قبضے کے با وجود عوام کی تخلیقی قوتوں کی مدد کے بغیر یہ مقابلہ جیتنا آسان نہیں ہے اور عوام کی تخلیقی قوتوں سے بہرہ مند ہونے کے لیے سہولتوں کے ساتھ آزادی ضروری ہے۔
مزید مطالعہ: مزارع کی نفسیات
صدر فرینکلن روز ویلٹ کی امریکی سپریم کورٹ سے آئینی جنگ
مطلق العنانیت، ریاستی سطح پر جھوٹ کی ثقافت، حقائق اور تھیوریاں
عصرِ حاضر میں شاید یہ مقابلہ کچھ ایسی صورت اختیار کر لے کہ دنیا سے جمہوریت کا مکمل خاتمہ ہو جائے کہ جمہوری دنیا میں کار و بار کا اثر و رسوخ زیادہ ہو گیا ہے اور کار و بار آمریتوں کے ساتھ مل کر دنیا میں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ لیکن یہ ایک اجتماعی نقصان ہو گا، جمہوریت سے جیت نہیں ہو گی۔ کیوں کہ چند لوگوں کی دانائی انسانی بہتری کے حوالے سے عارضی طور پر ہی کامیاب ہوتی ہے، اس کے بعد نا مرادی جیسے اس کا مقدر ہے۔ آمریتیں کاروبار کے ساتھ مل کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو شاید ایک نئے سیاہ زمانے کی طرف سفر آغاز ہو جائے۔ اور اگر کاروبار کو جمہوریتیں قوانین کا تابع کر لیتی ہیں، سیاست اور معاشرت میں کار و بار کا اثر و رسوخ کم کر لیتی ہیں تو آمریتیں یہ مقابلہ پھر ہار جائیں گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیقی قوتوں کا آزادی سے ایک گہرا ناتا ہے۔ تخلیقی قوتوں میں اضافے کے لیے ایک نظام کی تشکیل ضروری ہے جو تخلیقی قوتوں کا حامی ہو۔ چند علم دوست آمروں، بادشاہوں یا خُلَفاء کی مدد سے ایک محدود پیمانے پر انسانی تخلیقی قوتوں سے فائدہ چند سالوں کے لیے اٹھایا جا سکتا ہے۔ انسانی تخلیقی قوت اور آمریت کے درمیان مفاد کا ایک رشتہ ہوتا ہے۔ آمریت خلاقی کے گرد دیواریں کھینچتی ہے اور اگر اس میں کامیاب ہو جائے تو تخلیق کی موت ہونا شروع ہو جاتی ہے یا تخلیق کسی اور منزل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں ایک جمہوری نظام کے غیاب سے تخلیق کو کوئی منزل نہیں ملے گی اور ایک سیاہ زمانے میں آمریتوں کے آپس میں جھگڑے ہی رہ جائیں گے۔ ابھی کچھ آمریتیں کامیاب دکھائی دیتی ہیں کہ نقالی کر لیتی ہیں مگر جب تخلیق کرنے والا نہ رہے گا تو کس کی نقالی کریں گی؟
اس طرح جمود، انحطاط اور زوال کا ایک دور شروع ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں مسلسل ہلاکت اور مسلسل بربادی اور مسلسل جہالت سے جانے کب تک انسانیت جھگڑتی رہے۔ لیکن ابھی جمہوریتیں موجود ہیں، اچھی حالت میں نہ ہونے کے با وجود بھی اب بھی آمریتوں سے کہیں بہتر ہیں اور اس کے کافی امکانات کے کسی مقام پر سنبھل بھی جائیں۔
کار و بار کے آمریتوں سے تعاون کی وجہ سے جمہوریتوں میں رہنے والوں کے نقصان تو ہو رہے ہیں۔ ان نقصانات کا الزام ایک دور میں بائیں بازو کو دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد لبرلز کی باری آئی اور اب اقلیتوں کی لیکن اس کے بعد الزام نے سچائی کا رخ بھی تو کرنا ہے۔ اس دوران کار و بار اور آمریتوں کا دنیا پر مکمل قبضہ ہو گیا تو بڑے پیمانے پر ہلاکت خیزی ہو گی اور اگر نہ ہوا تو عوام کار و بار کو جمہوریت کا پابند بنا لیں گے۔ کار و بار کا آمریت سے ناتا ٹوٹے گا تو جیت جمہوریت کی ہو گی۔ نہ ٹوٹ سکا تو سچ ختم ہو جائے گا۔ سچ کے بغیر کب کچھ ایجاد ہوتا ہے؟
جب سے جمہوریت انسانی منظر بھی نمو دار ہوئی ہے، آمریت سے اس کی آویزش چل رہی ہے۔ جہاں جیت جاتی ہے وہاں انسانی زندگی کا معیار بہتر ہو جاتا ہے اور جہاں ہار جاتی ہے انسانی زندگی کا معیار گِر جاتا ہے۔ اور اس کا غیاب طویل ہو جائے تو انسانیت کے نقصانات بڑھتے ہی رہتے ہیں۔
افلاطون اور اس کے حامی قدیم یونان میں احمقوں کا جہاز ڈبونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن اس کامیابی کے بعد دانش گاہوں میں عقل مندانہ گفتگو کی بحالی کو صدیاں لگ گئیں۔ وہ تو مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کا بھلا ہو کہ ایک محدود پیمانے پر وہ گفتگو کرتے رہے اور انسانیت کا علم سے ایک رشتہ قائم رہا۔
اس ساری گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے بھی عوام کی صلاحیتوں کو ایک بہتر زندگی کی دشا دکھانی ہے تو فی الحال جمہوریت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ مسلسل مداخلتوں کے نتائج بھی تسلسل سے ایک ہی طرح کے آ رہے ہیں۔ مسلسل مداخلتوں کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ جمہوری قوانین اور جمہوری حقوق میں مداخلت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس مداخلت میں ملوث ہے۔ اور ہر کسی کے پاس اس کے غیر جمہوری جواز بھی موجود ہیں۔
جرنیلوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں سب سے زیادہ دانا ہیں اور دانا کا یہ فرض ہے کہ نادان کو راہ دکھائے۔ اور رہنمائی کے لیے اگر جمہوری قوانین یا جمہوری حقوق معطل ہوتے ہیں تو رہنمائی کی یہ قیمت ہے جو لوگوں کو ادا کرنی پڑی گی۔ کبھی کبھی آئین کی معطلی بھی اس دانائی کا حصہ بن جاتی ہے۔ سیاست دانوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ لوگوں نے انھیں منتخب کر کے قانون کی خلاف ورزی کا لائسنس دے دیا ہے۔ مولویوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ انھیں صرف و نحو کے چند اصول آتے ہیں اس لیے مریخ و مشتری و زہرہ کے بارے میں قانون سازی ان کا حق ہے۔ علاقائی پارٹیوں سے لے کر گھروں تک دانائی کا یہ زعم موجود ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے تشدد کے علاوہ کسی اور عملی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس ذہنیت کے ساتھ کوئی مسئلہ تو حل نہیں ہوتا۔ اور مداخلتوں کے نقصانات بڑھتے رہتے ہیں۔
اس لیے کچھ اصول اور قوانین طے کرنے پڑیں گے کہ غیر جمہوری مداخلت کم ہو۔ کچھ ذہنوں کی بھی تربیت کرنی پڑے گی دانائی کے لیے ایک کیس ترتیب دینا پڑتا ہے جس کا فیصلہ غیر جانب داری سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اب سکول میں داخل ہوتے ہی آپ پوری کائنات کے عالم ہو جائیں کہ یہ ایسا ہے، وہ ایسا ہے اور باقی زندگی اسی ابتدائی علم کے ساتھ گزار دیں تو غیر جانب داری کا کیا بنے گا؟
جمہوری فکر، جمہوری رویوں، جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات سے بہتر کوئی حل نہیں تو اس سب کو اپنانے میں کیا ہرج ہے؟