اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہونے والے ہمارے بچے
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
سب سے احمق والدین وہ ہوتے ہیں جو دوسرے بچوں سے اپنے بچوں کا مقابلہ اور موازنہ کرتے اور اپنے بچے کو دوسرے بچوں کے نمونے کی تقلید اور پیروی کرنے کا کہتے ہیں۔
ہر بچے کا اپنا ہنر اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ جس طرح ہر بچے کی شکل و صورت منفرد ہوتی ہے اسی طرح اس کی شخصیت بھی منفرد ہوتی ہے۔ کسی کا مُنھ لال دیکھ کر اپنے بچے کا مُنھ لال کرنا والدین کا وہ احساس کمتری ہے جس کی سزا بچے کو بھگتنی پڑتی ہے۔ آپ نے بچے سے جو ضروری کام کروانا ہے وہ اس کے اپنے بل بوتے پر کروائیں۔
بچے کو جب بچپن سے ہی اپنے جیسے دوسرے بچوں کی تقلید اور پیروی بل کہ نقالی سکھائی جائے گی، تو اس نے خود سے پھر کیا کرنا ہے۔ وہ اپنا آپ کیا دریافت کرے گا جب اس کی آنکھیں ہر وقت کسی نمونے کی تلاش میں اپنی ذات سے باہر دیکھتی رہیں گی۔
اپنے بچے کا ٹیلنٹ تلاشیے۔ خدا نے اس کو جس قسم کی خاص صلاحیت سے نوازا ہے، وہ دیکھیے کیا ہے۔ اسے ابھارنے میں اس کو سہولت فراہم کیجیے۔ لیکن اس سہولت فراہم کرنے میں اس پر ایسا دباؤ نہ ڈالیے، اور ایسی توقعات وابستہ نہ کیجیے جس کے بوجھ تلے وہ دب کر رہ جائے۔ علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ وہ بچپن میں بہت اچھی ڈرائینگ بناتے تھے۔ علامہ کو لگا کہ شاید یہ بہت اچھا مصور بن سکتا ہے۔ انھوں نے یورپ سےمایہ ناز مصوروں کی کچھ پینٹنگز منگوائیں اور جاوید اقبال کو دیں۔ ان پینٹنگز کو دیکھ جاوید اقبال کا حوصلہ ٹوٹ گیا کہ وہ کبھی ان جیسی پیٹنگز نہیں بنا سکتا۔ انھوں نے مصوری چھوڑ دی۔
بچے کو خود کو دریافت کرنے میں والدین کو صرف سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھیں بچوں کی شخصیت سازی نہیں کرنی چاہیے۔ شخصیت تو ان کو خدا نے دے کر بھیجا ہوتا ہے۔ بچے کی شخصیت کی دریافت اور نمو میں سہولت کاری کے علاوہ انھیں کچھ اور نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں مشاہدہ کرنا چاہیے کہ ان کا بچہ کس مضمون یا کام میں مہارت رکھتا ہے۔ کس کام کو کرنے میں اسے دقت نہیں ہوتی، اسے لطف آتا ہے، اس جگہ اس کا ٹیلنٹ ہوتا ہے۔
اپنی بڑی بڑی توقعات کبھی اپنے بچوں کو نہ بتائیے۔ ان پر کسی طرح اس کا اظہار نہ کیجیے۔ بچوں سے بڑھ کو بدن بولی body language سمجھنے والا کوئی اور نہیں ہوتا۔ وہ بن کہے جان سکتے ہیں کہ آپ کی ان سے کیا توقعات ہیں۔ زیادہ توقعات پیدا کر لینے سے بچوں پر بہت بوجھ آ جاتا ہے۔ ان کا مقصد ان توقعات کو پورا کرنا بن جاتا ہے او ر ان کی اپنی شخصیت گم ہو جاتی ہے۔ والدین کی ان سے توقعات خاص چیزوں سے وابستہ نہیں ہونی چاہییں۔ مثلاً کلاس میں فرسٹ آنا یا ٹاپ کرنا، یا ڈاکٹر انجینئر وغیرہ بننا۔ یہ توقعات البتہ مجوعی لحاظ سے ہونی چاہیے کہ وہ اچھی کارکردگی دکھائیں، اچھے اخلاق کا نمونہ بنیں، جان بوجھ کر نا اہلی یا سستی کا مظاہرہ نہ کریں وغیرہ۔
ہمارے ہاں بچوں کی تربیت میں ایک غلط طریقہ یہ پایا جاتا ہے کہ بچوں کو فارغ نہ رہنے دیا جائے۔ مشہور مقولہ ہے کہ فارغ ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ یہ نظریہ مکمل طورپر درست نہیں۔ یہ فوجی انداز تربیت ہے جو فوجی تقاضوں کے لیے تو ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے درست نہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ تخلیقی ذہانت کا اظہار فراغت کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ بڑے تخلیق کار خود کو فراغت میں مبتلا کرتے ہیں تو نیے خیالات ان کے دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ بچوں کی تخلیقی ذہانت کو اظہار کا موقع فراہم کرنے کے لیے انھیں فراغت مہیا کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ جو رواج پڑ گیا ہے کہ بچہ سکول سے واپس آئے تو ٹیوشن پڑھنے چلا جائے، وہاں سے لوٹے تو قاری صاحب قرآن مجید پڑھانے آ جاتے ہیں، پھر کوئی ٹیسٹ وغیرہ ملا ہو تو پھر اس کی تیاری، اس کے بعد کچھ دیر ٹی وی وٖغیرہ دیکھا جاتا ہے اور پھر سونے کا وقت ہو جاتا ہے، اس طرح بچوں کی تخلیقی ذہانت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
والدین مطمئن ہوتے ہیں کہ بچہ مصروف ہے کسی منفی سرگرمی میں نہیں ہے۔ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے پاس تو فالتو وقت ہی نہیں ہوتا۔ ایسے بچے کی شخصیت میں جو باقی بچتا ہے وہ ایک سطحی ذہن ہوتا ہے جس کا کام دو اور دو چار کی طرح بل کہ کسی روبوٹ کی طرح اپنی روٹین پوری کرنا رہ جاتا ہے۔ اپنے ملک میں ایسے بچوں کی کثرت دیکھ کر دل میں ہُوک اٹھتی ہے۔ ان بچوں کی تفہیم کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ بات کو سمجھنے، سوچنے، تجزیہ کرنے جیسی مشقت میں یہ نہیں پڑتے۔ کوئی نئی بات نہیں کرتے، کوئی نیا خیال ان کو نہیں سوجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی تخلیقی کاوشوں میں خالص پاکستانی تعلیمی نظام اور سماج میں پروان چڑھے افراد کا کوئی حصہ کہیں نہیں ملے گا۔ کچھ سخت جان البتہ پھر بھی مل جاتے ہیں لیکن وہ مُستثنیات ہوتے ہیں جو ہر سماج میں زبر دستی پیدا ہوجاتے ہیں، یہ کسی تعلیمی اور سماجی نظام کے نمایندہ نہیں ہوتے، منفرد لوگ ہوتے ہیں، ان کے ہونے پر شکر تو کای جا سکتا ہے مگر فخر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فخر اس لیے نہیں کہ وہ ہمارے یا آپ کے بنانے سے نہیں بنے، خود سے بنے ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے بچوں کو فراغت کے لمحات دیجیے۔ جس میں وہ کچھ سوچیں، کچھ تخلیق کریں، کوئی سوال اٹھائیں۔
فارغ رہنے سے ان کے ذہن میں سوال بھی آئیں گے۔ یہی ان کے سوچنے سمجھنے کی شخصیت ہے جسے خدا نے تخلیق ہی ایسے کیا ہے۔ ان سوالات کو ہمارے ہان شیطانی وساوس قرار دے کر ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ یعنی خدا کے اس فعل کو شیطان سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
مزید و متعلقہ: اپنے بچے آپ بچاؤ از، نرگس زہرا
والدینی کے زعم میں والدین کی کوتاہیاں از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
بچوں کی ذہنی اور تعلیمی تربیت سے متعلق اہم دو نکات از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہر شخص کو معلوم ہے کہ بچوں کے ذہن میں کیسے کیسے بنیادی نوعیت کے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان کو دبانے کا قدیمی رواج ہے۔ یوں ہم منافق اور بُز دل شخصیات پیدا کرتےہیں۔ میرے ایک طالب علم نے مجھ سے پوچھا کہ بہن سے شادی کیوں نہیں کی جاتی۔ میں اسلامیات پڑھاتا ہوں۔ اس کا جواب میں نے اسے تحمل سے ہی نہیں، بل کہ بڑی خوشی سے دیا کہ میرے علاوہ کسی اور سے پوچھتا تو تھپڑ پڑتا۔
جتنی ضرورت سے زیادہ شرم و حیا اس سماج میں پائی جاتی ہے شاید ہی کہیں اور پائی جاتی ہو، یہ کیفیت گھٹن زدہ سماج کی عکاس ہے۔ بڑی اشد ضرورت ہے کہ شرم و حیا کی سطح کچھ کم کی جائے تاکہ ہمارے بچے نازک سمجھے جانے والے سوال ہم سے پوچھ کر مطمئن ہو سکیں اور اپنے جنسی قسم کے مسائل میں درست رہنمائی حاصل کر سکیں۔
مذھبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی میری ایک طالبہ نے قرآن کی آیت کہ تمھاری بیویاں تمھاری کھیتیاں ہیں تو تم جہاں سے چاہو اپنی کھیتی میں آؤ، سے متعلق بڑے نازک سوالات مجھے سے پوچھنے کی جرات کی۔ اسےقرآن کی ان آیات سے جو غلط فہمیاں اسے لا حق تھی، اس کا معقول جواب اگر اسے نہ ملتا تو خدا کے بارے میں اس کا جو تصور بنتا، وہ اس کے ایمان کی خرابی کے لیے کافی تھا۔ زیادہ دین دار گھرانوں میں یہ مسائل دو چند ہیں، وہاں ان معاملات پر مثبت انداز میں بات نہیں کی جاتی۔
قرآن نے جنسی معاملات میں پُر وقار انداز میں لیکن واضح رہنمائی دی ہے۔ جن بچوں کی زبان عربی ہے یا جو بچے عربی جانتے ہیں، وہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو عمر کے ساتھ ساتھ جتنی انھیں قرآن کی عبارت کی سمجھ آتی جاتی ہے، انھیں ان معاملات سے متعلق قرآن کے بیانانت کی سمجھ بھی ساتھ آنے لگتی ہے۔ جنسی رجحانات، بلوغت کی عمر سے بہت پہلے پیدا ہو جاتے ہیں، اس لیے ساتھ ساتھ ان سے متعلق مثبت معلومات ملتی رہیں تو کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سب قرآن مجید سمجھنے والے بچوں کو خود بخود سمجھ آتا جاتا ہے۔ ہماری شرم و حیا کی سطح بھی بس اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی قران کے انداز سے پیدا ہوتی ہے۔
بیرون ملک جانے والے پاکستانی والدین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو ان کی بلوغت کی عمر کے قریب ساتویں آٹھویں درجے میں داخل کرانے پاکستان لے آتے ہیں کہ وہ وہاں کے سکولوں میں دی جانے والی سیکس ایجوکیشن اپنے بچے کو دلوانا نہیں چاہتے۔ اس جبری ہجرت سے ایک تو بچہ دو تہذیبوں کے تضادات کا شکار ہو کر ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا، اور دوسرا یہ کہ سیکس ایجوکیشن اگر بچے کو نہیں دی جاتی تو کیا اس کی بلوغت کا سفر رک جاتا ہے؟ اس کا تجسس اگر مثبت سمت سے کچھ نہیں پائے گا تو منفی راستے تلاش کر لے گا۔ ہمیں بچوں کو منافقانہ جنسی خفیہ سرگرمیاں قبول ہیں لیکن مثبت تعلیم دینا منظور نہیں۔
سیکس ایجوکیشن کا مطلب سیکس کرنا نہیں، بل کہ جنسی معاملات کی آگاہی دینا ہے۔ جن کا درست یا غلط استعمال اخلاقیات کی تعلیم پر منحصر ہے۔ یہ تعلیم سکول بل کہ اس سے بڑھ کر گھر میں دی جانی چاہیے۔ یہ تعلیم ہو تو یورپ ہو یا پاکستان آپ کا بچہ درست طرز عمل اختیار کر ے گا، نہ ہو تو وہ کہیں بھی ہو، منفی راستہ اختیار کرنے سے رک نہیں سکتا، چاہے اسے کسی مقدس معبد میں ہی کیوں نہ بٹھا دیا جائے۔
والدین بننا آسان ہے، شفیق والدین بننا بھی مشکل نہیں، لیکن صحیح والدین بننا کافی مشکل کام ہے۔