گرد باد ایک مزاحمتی ناول

گرد باد ایک مزاحمتی ناول

گرد باد ایک مزاحمتی ناول

از، سبین علی

کچھ گرہیں ہاتھوں سے لگائی جاتی ہیں اور دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران جوعالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں ہمارے خطے کو میدانِ جنگ بنایا گیا اس نے ان ممالک کی سر زمینیں اور باشندے تو محفوظ رکھے مگر ہمارے بہت سے شہریوں کو منشیات، شدت پسندی کے گرد باد اور عام عوام کو دہشت گردی کی ان گہری کھائیوں میں دھکیل دیا جن سے ہم آج تک نبرد آزما ہیں۔

محمد عاطف علیم کے ناول گرد باد کا دور صدر ضیاء کے مارشل لاء میں شروع ہوتا پے اور کوئی دس برس کے عرصے پر مشتمل سیاسی سماجی اور جاگیر داری نظام کے جبر تلے پروان چڑھتے کرداروں کو سامنے لاتا ہے۔

ناول کے فیوڈل کرداروں سے مصنف کی بے زاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کرداروں کو آخر تک بے نام رکھا گیا اور ان کا تذکرہ ناول میں چودھری فلانا اور ملک ڈھمکانا کے ناموں سے کیا گیا ہے۔ البتہ مردِ مومن، مردِ حق کا نام اور نظام کھل کر زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

جتنا تبرا اردو ادب میں صدر ضیاء کے مارشل لاء اور پالیسیوں پر بھیجا گیا اس کی مثال ادب کی دنیا میں خال خال ہی ملے گی۔ اردو میں مزاحمتی ادب کا ایک بڑا ذخیرہ اس دور کی کہانیوں پر مشتمل ہے جس دور میں تحریر و تقریر پر سخت پابندیاں تھیں۔ اخبار میں سنسر کی ہوئی خبروں کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی۔

اس ناول گرد باد کی مرکزی کردار ایک عورت ہے۔ ایک پِسی ہوئی عورت شمو جو فیوڈل سسٹم کے جبر کے  سایے میں پروان چڑھتی ہے اور مطلب نکل جانے پر استعمال شدہ ٹشو پیپر کی مانند پھینک دی جاتی ہے۔

دھیرے دھیرے شمو  کی کہانی اس دور میں عورت پر بڑھتے سماجی اور  نئی مذہبی تفہیم کے دباؤ کا شکار ایک مظلوم عورت  کو سامنے لاتی ہے۔ حالات کے جبر کا شکار ہونے کے بعد یہی عورت اس نظام کے رد عمل میں تنِ تنہا مزاحم بھی ہو جاتی یے۔

گاؤں میں پنچایت کا نظام جو شمو کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے وہیں شہر کے معروف عدالتی نظام میں بھی اس کی کوئی شَنوائی نہیں ہوتی۔

اس ناول کی مرکزی کردار شمو بالآخر فیوڈل سسٹم کے سینے میں خنجر تو گھونپتی ہے مگر عدالتی اور سیاسی نظام اسے کسی قسم کی مدد فراہم کرنے کی بجائے طبقۂِ اَشرافیہ کا ہی مدد گار نظر آتا ہے۔


مزید و متعلقہ: اردو ناول کی تخلیق، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق  از، کامران کاظمی

عاطف علیم کی کہانی کاری  از، یاسر چٹھہ

ممنوعات کا ناول: چار درویش اور ایک کچھوا، از سید کاشف رضا  تبصرہِ کتاب: از، خضرحیات


اس کا  کا شجرۂِ نَسب بھی موجو موچی جیسا پست اور  معاشرے میں رذیل ترین گردانا جاتا ہے تو یہی مشترکہ ذلت اور درد  ناول کے ان دو انتہاؤں پر موجود کرداروں کے بیچ اپنی شناخت کے بحران کے کرب کا رشتہ بھی استوار کر دیتا ہے۔ شمو سَن اسّی کی دھائی میں جہاں مزاحم عورت کی علامت ہے، وہیں اس دور میں عورتوں پر بڑھتے سماجی و مذہبی دباؤ اور اس کے مُضمرات کا بھی استعارہ ہے۔

ناول میں ایک خاموش عورت زلیخا بھی نظر آتی ہے جو شمو کی مانند مزاحم نہیں ہو پاتی، مگر خواہش کرتی ہے کہ وہ بھی دار پر چڑھ جاتی مگر خود پر ہوئے ظلم کا بدلہ لے پاتی۔

اس ناول میں  سیاسی خانوادوں اور اعلٰی افسران کے قدموں تلے روندی ہوئی زرعی سماج کی کم تر گردانی گئی پرچھائیاں (انہیں انسانی حقوق کہاں حاصل ہو پائے ہیں کہ شہری یا انسان گِنے جائیں۔)

کیڑے مکوڑوں کی مانند کُچلی نظر آتی ہیں جب وہ ایک گرد باد سے نکلنے کی تگ و دو کرتی ہیں تو کوئی دوسرا گرد باد کوئی نیا وا ورولا ان کا منتظر ہوتا ہے، اور انہیں کے بیٹے جنگوں کا ایندھن بنتے ہیں انہیں کے ماس اُدھڑتے ہیں، انہیں کی روح گھائل ہوتی ہے۔

دو سو ستاسی صفحات پر مشتمل اس ناول کو مثال پبلشر فیصل آباد نے دوہزار سترہ میں  شائع کیا۔ ناول کا انتساب معروف ناول نگار اسلم سراج الدین کے نام کیا گیا ہے۔  اس انتساب اور ناول کے بیچ کیا ربط ہے یہ سوچنا ابھی باقی ہے۔